بھارت پاکستان کو نیپال اور بھوٹان کی منڈیوں تک رسائی دے فیڈریشن
بڑی معیشت ہونے کی حیثیت سے بھارت سارک ٹریڈبڑھانے میں مرکزی کردار ادا، تجارتی پالیسی پرنظرثانی کرے،محمدعلی شیخ
وفاق ہائے ایوان صنعت و تجارت پاکستان کے نائب صدر محمد علی نے کہا ہے کہ بھارت کوخطے کی بڑی معیشت ہونے کی حیثیت سے سارک ممالک کے مابین تجارت بڑھانے میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے۔
نئی دہلی اپنی تجارتی پالیسی پر نظرثانی کرے اورپاکستان کو نیپال اور بھوٹان کی منڈیوں تک براہ راست رسائی دے، پاکستان نے ہمیشہ علاقائی تعاون کی بھرپور حوصلہ افزائی کی ہے تاہم اس کے باوجود اقتصادی تعلقات کو متوقع فروغ نہ مل سکا، اسی وجہ سے براہ راست دوطرفہ تجارت کا حجم انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام سارک ممالک میں اقتصادی تعاون کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاک بھارت تجارتی تعلقات سے سیاسی کشمکش، غربت اور بدامنی میں کمی ہو گی اور سرمایہ کاری بڑھے گی ۔
جس کے لیے اسے پسندیدہ ملک کا درجہ دینا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویزا قوانین میں نرمی سے تجارت اور افہام و تفہیم بڑھے گی جو اعتماد سازی کا سبب ہو گا، پاکستان اپنی جغرافیائی خصوصیات کا فائدہ اٹھائے اور اس کا سب سے بڑا تجارتی رفیق سات سمندر پار کا کوئی ملک یا اقتصادی بلاک نہیں بلکہ پڑوسی ملک کو ہونا چاہیے۔ محمد علی شیخ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت کے زبردست امکانات ہیں اور اسے موجودہ شرح سے 20 سے 25 گنا تک بڑھایا جاسکتا ہے۔
لیکن محصولات کی بلند شرح، تجارتی پابندیوں، خراب بنیادی ڈھانچے، مہنگی ٹرانسپورٹ، ویزا مشکلات، سخت کسٹم ضابطوں اور سیاسی اختلافات بڑی رکاوٹیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلواسطہ تجارت سے اخراجات میں 35 فیصد تک اضافہ ہونے کے باوجود دونوں ممالک کی کاروباری برادری اب بھی خلیج اور مشرق وسطیٰ کے ذریعے تجارت کو ترجیح دیتے ہوئے اربوں ڈالر کا لین دین کر رہی ہے۔
نئی دہلی اپنی تجارتی پالیسی پر نظرثانی کرے اورپاکستان کو نیپال اور بھوٹان کی منڈیوں تک براہ راست رسائی دے، پاکستان نے ہمیشہ علاقائی تعاون کی بھرپور حوصلہ افزائی کی ہے تاہم اس کے باوجود اقتصادی تعلقات کو متوقع فروغ نہ مل سکا، اسی وجہ سے براہ راست دوطرفہ تجارت کا حجم انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام سارک ممالک میں اقتصادی تعاون کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاک بھارت تجارتی تعلقات سے سیاسی کشمکش، غربت اور بدامنی میں کمی ہو گی اور سرمایہ کاری بڑھے گی ۔
جس کے لیے اسے پسندیدہ ملک کا درجہ دینا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویزا قوانین میں نرمی سے تجارت اور افہام و تفہیم بڑھے گی جو اعتماد سازی کا سبب ہو گا، پاکستان اپنی جغرافیائی خصوصیات کا فائدہ اٹھائے اور اس کا سب سے بڑا تجارتی رفیق سات سمندر پار کا کوئی ملک یا اقتصادی بلاک نہیں بلکہ پڑوسی ملک کو ہونا چاہیے۔ محمد علی شیخ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت کے زبردست امکانات ہیں اور اسے موجودہ شرح سے 20 سے 25 گنا تک بڑھایا جاسکتا ہے۔
لیکن محصولات کی بلند شرح، تجارتی پابندیوں، خراب بنیادی ڈھانچے، مہنگی ٹرانسپورٹ، ویزا مشکلات، سخت کسٹم ضابطوں اور سیاسی اختلافات بڑی رکاوٹیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلواسطہ تجارت سے اخراجات میں 35 فیصد تک اضافہ ہونے کے باوجود دونوں ممالک کی کاروباری برادری اب بھی خلیج اور مشرق وسطیٰ کے ذریعے تجارت کو ترجیح دیتے ہوئے اربوں ڈالر کا لین دین کر رہی ہے۔