استعماری دور کا سیاہ قانون
وزیر اعظم عمران خان برطانوی جمہوریت کو آئیڈیل جمہوریت قرار دیتے ہیں۔
KARACHI:
ایسٹ انڈیا کمپنی تو قائم تجارت کے لیے ہوئی تھی مگر جب کمپنی کے ہندوستان میں آہستہ آہستہ قدم جمنے لگے تو لندن کی برطانوی حکومت نے ہندوستان پر قبضہ کے لیے اپنے عزائم ظاہرکرنے شروع کیے۔
پہلے ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دفاتر قائم ہوئے۔ انھوں نے چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کرنا شروع کیں۔ 1757 میں لڑی جانے والی پلاسی کی لڑائی نے کمپنی کے اقتدار کے لیے راہیں کھول دیں۔ بنگال کے حکمراں سراج الدولہ کی فوج کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہیوں کی تعداد 10 ہزار تھی۔ کمپنی کی فوج کے ساتھ کچھ ہزار ہندوستانی سپاہی تھے۔
سراج الدولہ کی فوج اپنے نظام حکومت سے تنگ تھی۔ لارڈ مکالو جیسا ماہر فوجی کمپنی کی فوج کی قیادت کررہا تھا۔ سراج الدولہ کے قریبی سردار اپنے حکمران کے رویے سے مایوس تھے۔ کمپنی کی فوج ایک جدید فوج تھی جو جنگ کی جدید ٹیکنیک استعمال کررہی تھی۔ سراج الدولہ کو شکست ہوئی مگر پھر بھی کمپنی کی فوج کو دلی کے تخت پر قبضے میں 100 سال لگے۔ جب کمپنی کی حکومت کی نوآبادیات بڑھنے لگیں تو کمپنی کی حکومت نے سیاہ قوانین نافذ کرنے شروع کیے۔ ان قوانین کا مقصد ہندوستانیوں کو زنجیروں سے جکڑ کر رکھنا تھا۔
ہندوستان کا پہلا اخبارجیمس اگست ہکی نامی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابق ملازم نے 1780 میں جاری کیا۔ یہ اخبار ہکی گزٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ ہکی نے اپنے اخبارکو کمپنی کے افسروں کے اسکینڈل افشاں کرنے کے لیے استعمال کیا، یوں کلکتہ کی حکومت اور ہکی میں تصادم ہوا، ہکی کو جیل جانا پڑا۔ اس وقت اخبارات سے متعلق کوئی قانون نہیں تھا۔ اس بناء پر حکومت نے ہکی گزٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے پوسٹ آفس کی سروس واپس لے لی۔ ہکی ایک مقدمہ میں جیل چلا گیا مگر ہکی گزٹ جاری رہا۔ ہکی کو توہین عدالت کے ایک مقدمہ میں سزا ہوئی۔
ہتک عزت کا مقدمہ ہارنے پر جرمانہ ہوا، یوں یہ اخبار بند ہوگیا۔ 18ویں صدی کے اختتام اور 19ویں صدی کے آغاز تک ہندوستان کی مقامی زبانوں میں اخبارات شایع ہونے لگے تو کمپنی کی حکومت نے مقامی اخبارات کی پالیسیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے 1822میں پریس کا پہلا قانون نافذ کیا۔ اس قانون کے تحت اخبارکی اشاعت کے لیے لائسنس کا حصول لازمی قرار پایا اور اخبارات کو اشاعت سے پہلے مواد مجاز افسر کے سامنے پیش کرا کر شایع کرنے کا پابند کیا گیا۔ یہ کمپنی کی حکومت کا ایک سیاہ قانون تھا ، مگر ہندوستانیوں میں کمپنی کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بے چینی پیدا ہونے لگی۔ اس بے چینی کا اظہار اردو ، سندھی ، ہندی ، بنگالی اور دیگر مقامی زبانوں میں شایع ہونے والے اخبارات کے علاوہ مختلف مذاہب کے لوگوں کے مذہبی اجتماعات میں ہوتا تھا۔ کمپنی کے افسران اور لندن کی حکومت ہندوستان کے لوگوں میں بے چینی پر نظر رکھے ہوئی تھی۔
ایک فلسفی تھامس میکلے Thomas Macaulayنے1837 میں بغاوت کا قانون Law of Sedition کا مسودہ تیار کیا۔ اس قانون کا منصوبہ تھا کہ جو فرد یا گروہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کرے اس کو برطانوی ریاست کے خلاف بغاوت کا مجرم قرار دیاجائے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی شخص یا گروہ کے ارکان کو طویل عرصہ قید، عمرقید اور موت کی سزا دی جاسکتی تھی۔
بغاوت کے جرم کے تعین کا اختیار حکومت کو حاصل ہوا مگر کمپنی کے مختلف اقدامات کے باوجود ہندوستان کے شہریوں میں پائی جانے والی بے چینی اور نفرت بڑھتی چلی گئی۔ 1857میں ہندوستان کے شہریوں نے آزادی کی جنگ لڑی۔ اس جنگ سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلکتہ سے دلی تک ٹیلیگراف کا نظام قائم کرلیا تھا۔ کمپنی کی فوج کے پاس ہندوستان بھر کے نقشے تھے۔ ہندوستانی حریت پسندوں نے بوڑھے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو تخت پر بٹھادیا ، جنرل بخت خان کی قیادت میں ہندوستان کی فوج کو شکست ہوئی۔ کمپنی کی حکومت نے دہلی پر قبضہ کیا۔ بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان بدر کر دیا گیا۔
بادشاہ کے بیٹوں سمیت ہزاروں افراد کو بغیر مقدمہ چلائے، پھانسیاں دی گئیں، سیکڑوں، ہزاروں کو برسوں کے لیے زندان میں ڈال دیا گیا۔ لندن کی حکومت نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو تحلیل کیا اور دہلی پر برطانوی ہند حکومت قائم ہوگئی۔ 1858 میں گورنر جنرل لارڈ گنجنگ کے اخبارات کی آزادی کو کچلنے سے سیاہ قانون نافذ کیا اور اخبارات کی آزادی حکومت کی مہربانیوں تک محدود ہوگئی۔ یہ قانون صحافت کی تاریخ میں گنجنگ ایکٹ کے طور پر مشہور ہوا۔
جب لارڈ میکالے کا تیارکردہ 1860میں انڈین پینل کوڈ نافذ ہوا تو انڈین پینل کوڈ میں بغاوت کا قانون شامل نہیں کیا گیا ، مگر انڈین پینل کوڈ میں 1870 میں ترمیم ہوئی اور بغاوت کا قانون اس قانون کا حصہ بن گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں جدید تعلیم رائج کرکے نیا عدالتی اور انتظامی ڈھانچے قائم کر کے کلکتہ سے دہلی تک ریل چلا کر اور بجلی کی پیدا کرنے کے لیے جدید صنعتی نظام قائم کرنے کے لیے جو اصلاحات کی تھیں، ان کے نتیجے میں ہندوستان میں متوسط طبقہ وجود میں آیا۔ ہندوستان میں اجتماعی قانونی جدوجہد کا شعور بلند ہونا شروع ہوا تھا۔
اس شعورکو کنٹرول کرنے کے لیے بغاوت کا قانون سمیت کسی سیاہ قوانین نافذ ہوئے۔ بغاوت کا قانون آزادی کی جدوجہد کرنے والے سیاسی رہنماؤں، صحافیوں، ادیبوں، خواتین، مزدوروں اورکسانوں کو جکڑنے کے لیے نافذ کیا گیا۔ اس قانون کے تحت قوم پرست رہنما بال گنگا دھر تلک ، مولانا حسرت موہانی، مولانا ابو الکلام آزاد، مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو، مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی سمیت لاکھوں افراد کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں اور کراچی کے خالق دینا ہال میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے ساتھیوں کوبغاوت کے قانون کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔
ڈانگے اور دیگر مزدور کارکنوں اورکمیونسٹوں کے خلاف کان پور سازش کیس میں اسی قانون کے تحت مقدمہ چلا۔ سرحد کے سرخ پوش رہنما عبدالغفار خان اسی قانون کے تحت پابند سلاسل رہے۔ پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی کا کہنا ہے کہ Law of Seditionکی دفعات 124-Aکو ہندوستان کے غلام شہریوں کو آزادی کی جدوجہد سے روکنے کے لیے نافذ کیا تھا۔
14 اگست 1947 کی رات کو برطانوی راج اختتام کو پہنچا اور نیا ملک پاکستان وجود میں آیا۔ آزادی کے باوجود سیاسی مخالفین کو سزا دینے کے لیے استعماری قوانین کا استعمال جاری رہا۔ سب سے پہلے اس قانون میں مسلم لیگ کے سابق رہنما جی ایم سید ،غفارخان اور خان عبدالصمد خان اچکزئی آئے۔ کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر، عظیم شاعر فیض احمد فیض، میجر اسحاق، ظفر اﷲ پوشنی ، میجر جنرل اکبر خان کے خلاف سازش کیس قائم ہوا۔
ان رہنما کا ایک جرم بغاوت کے قانون کی خلاف ورزی کرنا تھا۔ جنرل ایوب خان نے مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمن، بلوچستان کے رہنماؤں میر غوث بخش بزنجو ، سردار اکبر بگٹی، عطاء اﷲ مینگل، خیر بخش مری، میرگل خان تھیریو اس قانون کے تحت برسوں ملک کی مختلف جیلوں میں نظر بند رکھا گیا۔ مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی نفرت کی ایک وجہ مشرقی پاکستان کے سیاسی کارکنوں کے خلاف قانون بغاوت تک استعمال تھا۔
بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت کو بغاوت کے مقدمہ میں ملوث کیا جو حیدرآباد سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کمیونسٹوں، قوم پرستوں اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو 1973 کے آئین کی بحالی کی جدوجہد کے جرم میں اس قانون کے تحت گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق صدر نذیر عباسی ، کمیونسٹ رہنما جام ساقی، پروفیسر جمال نقوی، سہیل سانگی، ڈاکٹر جبار خٹک، شبیر شر، احمد کمال وارثی اور بدر ابڑوکوفوجی حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں گرفتارکیا۔ اس کیس کی تفتیش کے دوران نذیر عباسی قتل ہوگئے۔ بعد میں اس کیس کے ملزمان سہیل سانگی، بدر ابڑو کو رہا کردیاگیا۔ مارشل لاء کے خاتمے کے بعد کراچی کی سول عدالت نے جام ساقی، پروفیسر جمال نقوی ، ڈاکٹر جبار خٹک، شبیر شر اور احمد کمال وارثی کو باعزت بری کردیا۔
پاکستان نے 1948 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط کیے۔ 1973کے آئین میں انسانی حقوق کا باب شامل کیا گیا۔ اعلیٰ عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں لکھا کہ نو آبادیاتی دور کے سیاہ قوانین کے تحت شہریوں کے خلاف کارورائی نہیں ہوسکتی۔ وزیر اعظم عمران خان برطانوی جمہوریت کو آئیڈیل جمہوریت قرار دیتے ہیں۔ ان کے دور میں نوآبادیاتی دور کے تین سو سالہ سیاہ قانون کو اور سوچ و فکر کی آزادی کے متوالوں اور آزادی اظہار کا حق استعمال کرنے والوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ کو اس قانون کو ختم کرنے اور انسانی حقوق کی پاسداری کے حامل قانون کو منظورکرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی تو قائم تجارت کے لیے ہوئی تھی مگر جب کمپنی کے ہندوستان میں آہستہ آہستہ قدم جمنے لگے تو لندن کی برطانوی حکومت نے ہندوستان پر قبضہ کے لیے اپنے عزائم ظاہرکرنے شروع کیے۔
پہلے ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دفاتر قائم ہوئے۔ انھوں نے چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کرنا شروع کیں۔ 1757 میں لڑی جانے والی پلاسی کی لڑائی نے کمپنی کے اقتدار کے لیے راہیں کھول دیں۔ بنگال کے حکمراں سراج الدولہ کی فوج کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہیوں کی تعداد 10 ہزار تھی۔ کمپنی کی فوج کے ساتھ کچھ ہزار ہندوستانی سپاہی تھے۔
سراج الدولہ کی فوج اپنے نظام حکومت سے تنگ تھی۔ لارڈ مکالو جیسا ماہر فوجی کمپنی کی فوج کی قیادت کررہا تھا۔ سراج الدولہ کے قریبی سردار اپنے حکمران کے رویے سے مایوس تھے۔ کمپنی کی فوج ایک جدید فوج تھی جو جنگ کی جدید ٹیکنیک استعمال کررہی تھی۔ سراج الدولہ کو شکست ہوئی مگر پھر بھی کمپنی کی فوج کو دلی کے تخت پر قبضے میں 100 سال لگے۔ جب کمپنی کی حکومت کی نوآبادیات بڑھنے لگیں تو کمپنی کی حکومت نے سیاہ قوانین نافذ کرنے شروع کیے۔ ان قوانین کا مقصد ہندوستانیوں کو زنجیروں سے جکڑ کر رکھنا تھا۔
ہندوستان کا پہلا اخبارجیمس اگست ہکی نامی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابق ملازم نے 1780 میں جاری کیا۔ یہ اخبار ہکی گزٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ ہکی نے اپنے اخبارکو کمپنی کے افسروں کے اسکینڈل افشاں کرنے کے لیے استعمال کیا، یوں کلکتہ کی حکومت اور ہکی میں تصادم ہوا، ہکی کو جیل جانا پڑا۔ اس وقت اخبارات سے متعلق کوئی قانون نہیں تھا۔ اس بناء پر حکومت نے ہکی گزٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے پوسٹ آفس کی سروس واپس لے لی۔ ہکی ایک مقدمہ میں جیل چلا گیا مگر ہکی گزٹ جاری رہا۔ ہکی کو توہین عدالت کے ایک مقدمہ میں سزا ہوئی۔
ہتک عزت کا مقدمہ ہارنے پر جرمانہ ہوا، یوں یہ اخبار بند ہوگیا۔ 18ویں صدی کے اختتام اور 19ویں صدی کے آغاز تک ہندوستان کی مقامی زبانوں میں اخبارات شایع ہونے لگے تو کمپنی کی حکومت نے مقامی اخبارات کی پالیسیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے 1822میں پریس کا پہلا قانون نافذ کیا۔ اس قانون کے تحت اخبارکی اشاعت کے لیے لائسنس کا حصول لازمی قرار پایا اور اخبارات کو اشاعت سے پہلے مواد مجاز افسر کے سامنے پیش کرا کر شایع کرنے کا پابند کیا گیا۔ یہ کمپنی کی حکومت کا ایک سیاہ قانون تھا ، مگر ہندوستانیوں میں کمپنی کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بے چینی پیدا ہونے لگی۔ اس بے چینی کا اظہار اردو ، سندھی ، ہندی ، بنگالی اور دیگر مقامی زبانوں میں شایع ہونے والے اخبارات کے علاوہ مختلف مذاہب کے لوگوں کے مذہبی اجتماعات میں ہوتا تھا۔ کمپنی کے افسران اور لندن کی حکومت ہندوستان کے لوگوں میں بے چینی پر نظر رکھے ہوئی تھی۔
ایک فلسفی تھامس میکلے Thomas Macaulayنے1837 میں بغاوت کا قانون Law of Sedition کا مسودہ تیار کیا۔ اس قانون کا منصوبہ تھا کہ جو فرد یا گروہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کرے اس کو برطانوی ریاست کے خلاف بغاوت کا مجرم قرار دیاجائے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی شخص یا گروہ کے ارکان کو طویل عرصہ قید، عمرقید اور موت کی سزا دی جاسکتی تھی۔
بغاوت کے جرم کے تعین کا اختیار حکومت کو حاصل ہوا مگر کمپنی کے مختلف اقدامات کے باوجود ہندوستان کے شہریوں میں پائی جانے والی بے چینی اور نفرت بڑھتی چلی گئی۔ 1857میں ہندوستان کے شہریوں نے آزادی کی جنگ لڑی۔ اس جنگ سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلکتہ سے دلی تک ٹیلیگراف کا نظام قائم کرلیا تھا۔ کمپنی کی فوج کے پاس ہندوستان بھر کے نقشے تھے۔ ہندوستانی حریت پسندوں نے بوڑھے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو تخت پر بٹھادیا ، جنرل بخت خان کی قیادت میں ہندوستان کی فوج کو شکست ہوئی۔ کمپنی کی حکومت نے دہلی پر قبضہ کیا۔ بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان بدر کر دیا گیا۔
بادشاہ کے بیٹوں سمیت ہزاروں افراد کو بغیر مقدمہ چلائے، پھانسیاں دی گئیں، سیکڑوں، ہزاروں کو برسوں کے لیے زندان میں ڈال دیا گیا۔ لندن کی حکومت نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو تحلیل کیا اور دہلی پر برطانوی ہند حکومت قائم ہوگئی۔ 1858 میں گورنر جنرل لارڈ گنجنگ کے اخبارات کی آزادی کو کچلنے سے سیاہ قانون نافذ کیا اور اخبارات کی آزادی حکومت کی مہربانیوں تک محدود ہوگئی۔ یہ قانون صحافت کی تاریخ میں گنجنگ ایکٹ کے طور پر مشہور ہوا۔
جب لارڈ میکالے کا تیارکردہ 1860میں انڈین پینل کوڈ نافذ ہوا تو انڈین پینل کوڈ میں بغاوت کا قانون شامل نہیں کیا گیا ، مگر انڈین پینل کوڈ میں 1870 میں ترمیم ہوئی اور بغاوت کا قانون اس قانون کا حصہ بن گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں جدید تعلیم رائج کرکے نیا عدالتی اور انتظامی ڈھانچے قائم کر کے کلکتہ سے دہلی تک ریل چلا کر اور بجلی کی پیدا کرنے کے لیے جدید صنعتی نظام قائم کرنے کے لیے جو اصلاحات کی تھیں، ان کے نتیجے میں ہندوستان میں متوسط طبقہ وجود میں آیا۔ ہندوستان میں اجتماعی قانونی جدوجہد کا شعور بلند ہونا شروع ہوا تھا۔
اس شعورکو کنٹرول کرنے کے لیے بغاوت کا قانون سمیت کسی سیاہ قوانین نافذ ہوئے۔ بغاوت کا قانون آزادی کی جدوجہد کرنے والے سیاسی رہنماؤں، صحافیوں، ادیبوں، خواتین، مزدوروں اورکسانوں کو جکڑنے کے لیے نافذ کیا گیا۔ اس قانون کے تحت قوم پرست رہنما بال گنگا دھر تلک ، مولانا حسرت موہانی، مولانا ابو الکلام آزاد، مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو، مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی سمیت لاکھوں افراد کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں اور کراچی کے خالق دینا ہال میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے ساتھیوں کوبغاوت کے قانون کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔
ڈانگے اور دیگر مزدور کارکنوں اورکمیونسٹوں کے خلاف کان پور سازش کیس میں اسی قانون کے تحت مقدمہ چلا۔ سرحد کے سرخ پوش رہنما عبدالغفار خان اسی قانون کے تحت پابند سلاسل رہے۔ پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی کا کہنا ہے کہ Law of Seditionکی دفعات 124-Aکو ہندوستان کے غلام شہریوں کو آزادی کی جدوجہد سے روکنے کے لیے نافذ کیا تھا۔
14 اگست 1947 کی رات کو برطانوی راج اختتام کو پہنچا اور نیا ملک پاکستان وجود میں آیا۔ آزادی کے باوجود سیاسی مخالفین کو سزا دینے کے لیے استعماری قوانین کا استعمال جاری رہا۔ سب سے پہلے اس قانون میں مسلم لیگ کے سابق رہنما جی ایم سید ،غفارخان اور خان عبدالصمد خان اچکزئی آئے۔ کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر، عظیم شاعر فیض احمد فیض، میجر اسحاق، ظفر اﷲ پوشنی ، میجر جنرل اکبر خان کے خلاف سازش کیس قائم ہوا۔
ان رہنما کا ایک جرم بغاوت کے قانون کی خلاف ورزی کرنا تھا۔ جنرل ایوب خان نے مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمن، بلوچستان کے رہنماؤں میر غوث بخش بزنجو ، سردار اکبر بگٹی، عطاء اﷲ مینگل، خیر بخش مری، میرگل خان تھیریو اس قانون کے تحت برسوں ملک کی مختلف جیلوں میں نظر بند رکھا گیا۔ مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی نفرت کی ایک وجہ مشرقی پاکستان کے سیاسی کارکنوں کے خلاف قانون بغاوت تک استعمال تھا۔
بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت کو بغاوت کے مقدمہ میں ملوث کیا جو حیدرآباد سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کمیونسٹوں، قوم پرستوں اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو 1973 کے آئین کی بحالی کی جدوجہد کے جرم میں اس قانون کے تحت گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق صدر نذیر عباسی ، کمیونسٹ رہنما جام ساقی، پروفیسر جمال نقوی، سہیل سانگی، ڈاکٹر جبار خٹک، شبیر شر، احمد کمال وارثی اور بدر ابڑوکوفوجی حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں گرفتارکیا۔ اس کیس کی تفتیش کے دوران نذیر عباسی قتل ہوگئے۔ بعد میں اس کیس کے ملزمان سہیل سانگی، بدر ابڑو کو رہا کردیاگیا۔ مارشل لاء کے خاتمے کے بعد کراچی کی سول عدالت نے جام ساقی، پروفیسر جمال نقوی ، ڈاکٹر جبار خٹک، شبیر شر اور احمد کمال وارثی کو باعزت بری کردیا۔
پاکستان نے 1948 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط کیے۔ 1973کے آئین میں انسانی حقوق کا باب شامل کیا گیا۔ اعلیٰ عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں لکھا کہ نو آبادیاتی دور کے سیاہ قوانین کے تحت شہریوں کے خلاف کارورائی نہیں ہوسکتی۔ وزیر اعظم عمران خان برطانوی جمہوریت کو آئیڈیل جمہوریت قرار دیتے ہیں۔ ان کے دور میں نوآبادیاتی دور کے تین سو سالہ سیاہ قانون کو اور سوچ و فکر کی آزادی کے متوالوں اور آزادی اظہار کا حق استعمال کرنے والوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ کو اس قانون کو ختم کرنے اور انسانی حقوق کی پاسداری کے حامل قانون کو منظورکرنے پر توجہ دینی چاہیے۔