مہنگائی کے خلاف نئی معاشی پالیسی اور صف بندی کی ضرورت
مہنگائی نے عام آدمی کی قوت خرید کے ساتھ ساتھ اس کی عزت نفس کو بھی مجروح کردیا ہے۔
ملکی تاریخ کے تمام ریکارڈ توڑنے والی مہنگائی اب اس قدر خوفناک ہو چکی ہے کہ 17 ماہ تک عوام کی چیخوں کو اپنی ''مداح سرائی'' سمجھنے والی حکومت کو بھی یقین ہو چلا ہے کہ مہنگائی کی ضربوں نے اس کے دیمک زدہ پایہ تخت کولرزا دیا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت نے خود کو بچانے کیلئے ہنگامی طور پر بعض اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
مہنگائی نے عام آدمی کی قوت خرید کے ساتھ ساتھ اس کی عزت نفس کو بھی مجروح کردیا ہے، جنہوں نے اپنی سفید پوشی کا بھرم کسی طور برقرار رکھا ہوا تھا۔اس میں کوئی اختلاف یا بے یقینی نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے پانامہ سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد جب یہ بھانپ لیا کہ آئندہ الیکشن میں انہیں ''فارغ'' کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو انہوں نے اپنی حکومتی مدت کے آخری دو برس کے دوران آنے والی حکومت جس کے بارے انہیں یقین سے معلوم تھا کہ تحریک انصاف کی ہوگی،ان کیلئے معاشی بارودی سرنگیں بچھانا شروع کردیں، خود کو عوام کی نظر میں اچھا بنانے کیلئے اس وقت کے معاشی حقائق کے تحت گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کی اشد ضرورت کے باوجود قیمتیں نہیں بڑھائی گئیں جس کی وجہ سے 1400 ارب روپے سے زائد کا گردشی قرضہ بھاری بھرکم بوجھ بن گیا۔
ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر کم رکھنے کیلئے حکومت نے اربوں ڈالر مارکیٹ میں انجیکٹ کیئے، اورنج ٹرین اور میٹرو بس سروس جیسے منصوبوں پر سینکڑوں ارب روپے خرچ کر دیئے گئے جبکہ ان منصوبوں کی ابھی کوئی ترجیحی ضرورت بھی نہ تھی، چند ارب روپے خرچ کر کے نئی بسیں لانے اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کو اعتماد اور مالی سہولت دیکر ٹرانسپورٹ سسٹم کو بہت بہتر بنایا جا سکتا تھا ۔گندم کی ایکسپورٹ پر اربوں روپے کی سسبڈی دی گئی اور یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ اس وقت کے ایک صوبائی وزیر جنہیں ڈی فیکٹو وزیر اعلی کا درجہ حاصل تھے انہوں نے گندم کے معاملات میں کیسے ''ڈیلنگ'' کی تھی لیکن ن لیگ کی یہ معاشی منصوبہ بندی کسی بھی طور تحریک انصاف کی حکومت کو بری الذمہ قرار دینے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ جس طرح سے ن لیگ کو الیکشن سے دو برس قبل معلوم ہو چکا تھا کہ ہم دوبارہ نہیں آئیں گے بالکل ویسے ہی تحریک انصاف کو بھی دو سال پہلے معلوم ہو چکا تھا کہ ان کی ''باری'' آنے والی ہے۔
موجودہ مہنگائی کے تناظر میں عوام کی تحریک انصاف حکومت سے ناراضگی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے خطابات اور دعووں کے ذریعے عوام کی امیدوں کو غیر معمولی بلندی پر پہنچا دیا تھا اور اس وقت ایسے دعوے کیئے جاتے رہے جو کسی طور قابل عمل نہیں تھے۔ عوام کو یہ یقین دلایا گیا کہ جوں ہی ہمیں حکومت ملی ہم جادو کی چھڑی سے راتوں رات دودھ اور شہد کی نہریں بہادیں گے۔
عمران خان کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ آج تک ایک بہترین معاشی ٹیم نہیں بنا سکے ہیں، اسد عمر نے پہلے 9 ماہ ضائع کیئے اور حفیظ شیخ نے مزید 9 ماہ اپنے تجربات میں گزار دیئے۔ تبدیلی والوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ معاشی اور انتظامی تبدیلی یکدم سے نہیں آتی، اس کیلئے ایک مرحلہ وار ٹائم فریم بنانا پڑتا ہے۔ بلا شبہ عمران خان نے جو بنیادی معاشی فیصلے کیئے وہ درست ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کیلئے مرحلہ وار طویل مدتی منصوبہ بنانا چاہئے تھا تا کہ ملکی معیشت منجمد نہ ہوتی اور لوگ اپنا پیسہ کاروبار سے نہ نکالتے۔ حکومت مہنگائی کو قابو کرنے کیلئے یوٹیلٹی سٹور پیکج پر عمل کرنے جا رہی ہے جس کیلئے 15 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی جا رہی ہے لیکن ماضی میں بھی متعدد حکومتوں نے یوٹیلٹی سٹورکے ذریعے مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ ناکامی ہوئی جس کی ایک بڑی وجہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کا کرپٹ مافیا ہے۔
ماضی میں جب بھی ان سٹورز پر بڑی مقدار میں سبسڈائزڈ اشیاء فراہم کی گئیں تو ان کا بہت بڑا حصہ عام آدمی کو ملنے کی بجائے ان دکانداروں کو ملا جنہوں نے کارپوریشن کے کرپٹ مافیا کے ساتھ ''حصہ داری'' کر کے سبسڈائزڈ سامان کو اپنی دکانوں پر مکمل قیمت پر فروخت کیا ، لہذا اب حکومت اگر یوٹیلٹی سٹور ز کے ذریعے عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو فول پروف نظام بنائے اور وزیرا عظم بھی عمر لودھی کی باتوں پر ہی تمام اعتماد اور انحصار نہ کریں بلکہ مانیٹرنگ کیلئے دیگر اداروں کو ٹاسک دیں۔
گزشتہ چند ہفتوں سے اپوزیشن کی جانب سے آٹا گندم اور چینی بحران کے حوالے سے جہانگیر ترین پر بہت تنقید کی جا رہی ہے، مسلم لیگ(ن) کے رہنما محمد زبیر تو کئی روز تک تسلسل کے ساتھ ٹی وی ٹاک شوز میں جہانگیر ترین کو نشانہ بناتے رہے اور تب حکومتی اور پارٹی حلقوں میں اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا گیا کہ محمد زبیر کے اس جارحانہ رویے کے پیچھے ان کے چھوٹے بھائی اور تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کی جہانگیر ترین کے ساتھ طویل عرصہ سے جاری کشیدگی تو نہیں ہے کیونکہ اسد عمر سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین کی وجہ سے انہیں وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا حالانکہ بات کچھ اور ہی تھی۔
جہانگیر ترین کی مخالفت کا سب سے بڑا سبب خود عمرا ن خان ہیں کیونکہ عمران خان اپنے بعد جس انسان پر سب سے زیادہ بھروسہ کرتے اور مشاورت کرتے ہیں وہ جہانگیر ترین ہی ہیں جس کی وجہ سے پارٹی رہنماوں میں بھی حسد پایا جاتا ہے اور اپوزیشن بھی سمجھتی ہے کہ اگر کسی طور جہانگیر ترین کو ٹارگٹ کیا جائے تو عمران خان بھی ہٹ ہوں گے۔ عمران خان نے بہت مضبوطی کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ آٹا چینی بحران میں جہانگیر ترین اور مخدوم خسرو بختیار کا کوئی کردار نہیں ہے اور مجھے ان پر مکمل اعتماد ہے اور زراعت و خوراک کے شعبے میں جہانگیر ترین پہلے کی طرح مجھے مشاورت فراہم کرتے رہیں گے۔ وفاقی و صوبائی حکومت کو اب مکمل توجہ اپریل میں شروع ہونے والی گندم خریداری مہم کی جانب مرکوز کرنا چاہیئے کیونکہ اگر اس مرتبہ سرکاری گوداموں میں گندم کی قلت ہوئی تو اس سے پیدا ہونے والا بحران ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دے گا۔
مہنگائی نے عام آدمی کی قوت خرید کے ساتھ ساتھ اس کی عزت نفس کو بھی مجروح کردیا ہے، جنہوں نے اپنی سفید پوشی کا بھرم کسی طور برقرار رکھا ہوا تھا۔اس میں کوئی اختلاف یا بے یقینی نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے پانامہ سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد جب یہ بھانپ لیا کہ آئندہ الیکشن میں انہیں ''فارغ'' کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو انہوں نے اپنی حکومتی مدت کے آخری دو برس کے دوران آنے والی حکومت جس کے بارے انہیں یقین سے معلوم تھا کہ تحریک انصاف کی ہوگی،ان کیلئے معاشی بارودی سرنگیں بچھانا شروع کردیں، خود کو عوام کی نظر میں اچھا بنانے کیلئے اس وقت کے معاشی حقائق کے تحت گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کی اشد ضرورت کے باوجود قیمتیں نہیں بڑھائی گئیں جس کی وجہ سے 1400 ارب روپے سے زائد کا گردشی قرضہ بھاری بھرکم بوجھ بن گیا۔
ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر کم رکھنے کیلئے حکومت نے اربوں ڈالر مارکیٹ میں انجیکٹ کیئے، اورنج ٹرین اور میٹرو بس سروس جیسے منصوبوں پر سینکڑوں ارب روپے خرچ کر دیئے گئے جبکہ ان منصوبوں کی ابھی کوئی ترجیحی ضرورت بھی نہ تھی، چند ارب روپے خرچ کر کے نئی بسیں لانے اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کو اعتماد اور مالی سہولت دیکر ٹرانسپورٹ سسٹم کو بہت بہتر بنایا جا سکتا تھا ۔گندم کی ایکسپورٹ پر اربوں روپے کی سسبڈی دی گئی اور یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ اس وقت کے ایک صوبائی وزیر جنہیں ڈی فیکٹو وزیر اعلی کا درجہ حاصل تھے انہوں نے گندم کے معاملات میں کیسے ''ڈیلنگ'' کی تھی لیکن ن لیگ کی یہ معاشی منصوبہ بندی کسی بھی طور تحریک انصاف کی حکومت کو بری الذمہ قرار دینے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ جس طرح سے ن لیگ کو الیکشن سے دو برس قبل معلوم ہو چکا تھا کہ ہم دوبارہ نہیں آئیں گے بالکل ویسے ہی تحریک انصاف کو بھی دو سال پہلے معلوم ہو چکا تھا کہ ان کی ''باری'' آنے والی ہے۔
موجودہ مہنگائی کے تناظر میں عوام کی تحریک انصاف حکومت سے ناراضگی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے خطابات اور دعووں کے ذریعے عوام کی امیدوں کو غیر معمولی بلندی پر پہنچا دیا تھا اور اس وقت ایسے دعوے کیئے جاتے رہے جو کسی طور قابل عمل نہیں تھے۔ عوام کو یہ یقین دلایا گیا کہ جوں ہی ہمیں حکومت ملی ہم جادو کی چھڑی سے راتوں رات دودھ اور شہد کی نہریں بہادیں گے۔
عمران خان کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ آج تک ایک بہترین معاشی ٹیم نہیں بنا سکے ہیں، اسد عمر نے پہلے 9 ماہ ضائع کیئے اور حفیظ شیخ نے مزید 9 ماہ اپنے تجربات میں گزار دیئے۔ تبدیلی والوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ معاشی اور انتظامی تبدیلی یکدم سے نہیں آتی، اس کیلئے ایک مرحلہ وار ٹائم فریم بنانا پڑتا ہے۔ بلا شبہ عمران خان نے جو بنیادی معاشی فیصلے کیئے وہ درست ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کیلئے مرحلہ وار طویل مدتی منصوبہ بنانا چاہئے تھا تا کہ ملکی معیشت منجمد نہ ہوتی اور لوگ اپنا پیسہ کاروبار سے نہ نکالتے۔ حکومت مہنگائی کو قابو کرنے کیلئے یوٹیلٹی سٹور پیکج پر عمل کرنے جا رہی ہے جس کیلئے 15 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی جا رہی ہے لیکن ماضی میں بھی متعدد حکومتوں نے یوٹیلٹی سٹورکے ذریعے مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ ناکامی ہوئی جس کی ایک بڑی وجہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کا کرپٹ مافیا ہے۔
ماضی میں جب بھی ان سٹورز پر بڑی مقدار میں سبسڈائزڈ اشیاء فراہم کی گئیں تو ان کا بہت بڑا حصہ عام آدمی کو ملنے کی بجائے ان دکانداروں کو ملا جنہوں نے کارپوریشن کے کرپٹ مافیا کے ساتھ ''حصہ داری'' کر کے سبسڈائزڈ سامان کو اپنی دکانوں پر مکمل قیمت پر فروخت کیا ، لہذا اب حکومت اگر یوٹیلٹی سٹور ز کے ذریعے عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو فول پروف نظام بنائے اور وزیرا عظم بھی عمر لودھی کی باتوں پر ہی تمام اعتماد اور انحصار نہ کریں بلکہ مانیٹرنگ کیلئے دیگر اداروں کو ٹاسک دیں۔
گزشتہ چند ہفتوں سے اپوزیشن کی جانب سے آٹا گندم اور چینی بحران کے حوالے سے جہانگیر ترین پر بہت تنقید کی جا رہی ہے، مسلم لیگ(ن) کے رہنما محمد زبیر تو کئی روز تک تسلسل کے ساتھ ٹی وی ٹاک شوز میں جہانگیر ترین کو نشانہ بناتے رہے اور تب حکومتی اور پارٹی حلقوں میں اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا گیا کہ محمد زبیر کے اس جارحانہ رویے کے پیچھے ان کے چھوٹے بھائی اور تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کی جہانگیر ترین کے ساتھ طویل عرصہ سے جاری کشیدگی تو نہیں ہے کیونکہ اسد عمر سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین کی وجہ سے انہیں وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا حالانکہ بات کچھ اور ہی تھی۔
جہانگیر ترین کی مخالفت کا سب سے بڑا سبب خود عمرا ن خان ہیں کیونکہ عمران خان اپنے بعد جس انسان پر سب سے زیادہ بھروسہ کرتے اور مشاورت کرتے ہیں وہ جہانگیر ترین ہی ہیں جس کی وجہ سے پارٹی رہنماوں میں بھی حسد پایا جاتا ہے اور اپوزیشن بھی سمجھتی ہے کہ اگر کسی طور جہانگیر ترین کو ٹارگٹ کیا جائے تو عمران خان بھی ہٹ ہوں گے۔ عمران خان نے بہت مضبوطی کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ آٹا چینی بحران میں جہانگیر ترین اور مخدوم خسرو بختیار کا کوئی کردار نہیں ہے اور مجھے ان پر مکمل اعتماد ہے اور زراعت و خوراک کے شعبے میں جہانگیر ترین پہلے کی طرح مجھے مشاورت فراہم کرتے رہیں گے۔ وفاقی و صوبائی حکومت کو اب مکمل توجہ اپریل میں شروع ہونے والی گندم خریداری مہم کی جانب مرکوز کرنا چاہیئے کیونکہ اگر اس مرتبہ سرکاری گوداموں میں گندم کی قلت ہوئی تو اس سے پیدا ہونے والا بحران ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دے گا۔