بربادیوں کی نئی لہر
راولپنڈی کے خوفناک فرقہ وارانہ فسادات کے بعد جس میں درجن بھر سے زیادہ ’’مسلمان‘‘ قتل ہوئے۔
راولپنڈی کے خوفناک فرقہ وارانہ فسادات کے بعد جس میں درجن بھر سے زیادہ ''مسلمان'' قتل ہوئے، دو سو دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا اور انتہا یہ کہ قرآن مجید کے نسخے جلا دیے گئے، پنڈی کے شہری تین دنوں تک اپنے گھروں میں محصور رہے، شہر کو کرفیو کے حوالے کر دیا گیا اور ان خونریز فسادات کو روکنے کے لیے فوج طلب کر لی گئی، پھرکوہاٹ بھی فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آیا، اطلاعات کے مطابق وہاں تین افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں، متعدد دکانوں کو یہاں بھی نذر آتش کر دیا گیا، شہر میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ راولپنڈی کے عوامی نمایندے شیخ رشید کا کہنا ہے کہ پنڈی کی خونریزی میں پنڈی کے شہری شامل نہیں تھے، اس خطرناک اور خونیں کھیل کے ذمے دار وہ ''نئے چہرے'' ہیں، جن کا راولپنڈی سے کوئی تعلق نہیں۔
اطلاعات کے مطابق پنڈی کے فسادات کے ردعمل میں پنجاب کے مختلف شہروں میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے اور وہ نئے چہرے جو پنڈی کے فسادات کی قیادت کر رہے تھے، وہ نئے چہرے پاکستان کے ہر شہر میں پوری طرح مسلح اور اوپر سے ہدایت کے منتظر ہیں اور جب چاہیں جس شہر کو چاہیں پنڈی اور کوہاٹ بنا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ شیخ رشید نے جن نئے چہروں کی نشان دہی کی ہے اور اس قسم کے نئے چہرے ہر شہر میں موجود ہیں، کیا حکومت اور اس کی ایجنسیاں ان نئے چہروں اور ان کے مقاصد سے بے خبر ہیں...؟
انتہاپسند گروہوں کی پرانی قیادت کی جگہ جو نئی قیادت آئی ہے، اس نے بہت واضح طور پر یہ دھمکی دی ہے کہ اپنے مرحوم امیر کی ہلاکت کا بدلہ لیا جائے گا۔ بدلہ لینا قبائلی معاشرت کی ایک لازمی ضرورت ہے، لیکن اندھے، بہرے، گونگے لوگ بھی بدلہ اس شخصیت یا گروہ سے لیتے ہیں جو انھیں نقصان پہنچاتا ہے لیکن ہمارے ملک کی نئی شرعی روایت کے مطابق بدلہ ان بے گناہ پاکستانیوں سے لیا جا رہا ہے جن کا نہ امریکا سے کوئی تعلق ہے، نہ نیٹو سے۔ اگر امریکا کے ڈرون سے بے گناہوں کو نقصان پہنچ رہا ہے تو امریکا کے ڈرون کو نقصان پہنچائیے، امریکا اور اس کے اتحادیوں سے بدلہ لیجیے، پاکستان کے بے گناہ شہریوں کو بدلے کی بھینٹ چڑھانا کس شریعت کے تحت جائز ہے۔ 50 ہزار سے زیادہ بے گناہوں کے خون ناحق کی ذمے داری کس پر آتی ہے؟
مذہبی انتہا پسندوں نے بدلہ لینے کی جو دھمکی دی ہے کیا پنڈی اور کوہاٹ کے فرقہ وارانہ فسادات اسی کا حصہ ہیں؟ بدلے کے اعلان کے بعد پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف جو حملے ہو رہے ہیں وہ بھی اسی بدلے کی کڑی نظر آتے ہیں۔ صوابی میں پولیس چیک پوسٹ پر فائرنگ جس سے دو اہلکار شہید ہوئے، شمالی وزیرستان میں بم حملے میں دو سپاہی زخمی ہوئے، ایک شہری کے گھر پر دستی بم پھینکا گیا جس سے ایک خاتون ہلاک چار افراد زخمی ہوئے، گوادر میں دہشت گردوں نے کسٹم کے 6 اہلکاروں کو اغوا کر لیا، خاران میں مسلح افراد نے عرب شیوخ کے شکاری کیمپ پر حملہ کر کے 5 لیویز اہلکاروں کو اسلحہ اور دو گاڑیوں سمیت اغوا کر لیا، کراچی میں بھی ٹارگٹ کلنگ میں درجنوں شہری مارے جا رہے ہیں۔ کیا یہ ساری انتقامی کارروائیاں اس دھمکی کا وجہ ہیں جو امریکی ڈرون کی گستاخی کے جواب میں کی جا رہی ہیں؟
مشکل یہ ہے کہ اس منظم، مربوط منصوبہ بند اور موثر حکمت عملی کے ساتھ کی جانے والی دہشت گردی کو ہمارے حکمران روز کا معمول سمجھ کر پی جا رہے ہیں اور اسے ختم کرنے کا واحد طریقہ مذاکرات قرار دے رہے ہیں۔ مذاکرات کرنے والوں کو کوئی نہیں روک رہا بلکہ کراچی کی اے پی سی میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا مکمل اختیار دیا تھا، پھر اب تک مذاکرات کا آغاز کیوں نہیں ہوا؟ ہمارے ''سادہ لوح'' حکمران چیخ رہے ہیں کہ امریکا ہمارے مذاکرات کی ہر کوشش کو سبوتاژ کر رہا ہے۔ کیا اس حقیقت کا علم شدت پسندوں کو نہیں؟ اگر ہے تو پھر یہ بہادر لوگ ڈرون کیوں نہیں گراتے۔ 9/11 جیسے حملے کر کے امریکا کو دنیا میں ذلیل کیوں نہیں کرتے؟ اس منطقی جواب کے بجائے پاکستان کے بے گناہ عوام اور سیکیورٹی فورسز کا قتل عام کیوں کیا جا رہا ہے۔ میڈیا میں یہ خبریں کیوں آ رہی ہیں کہ شدت پسندوں کی نئی قیادت کو امریکا کی سرپرستی حاصل ہے اور اس حوالے سے یہ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ امریکا نے حکیم اﷲ محسود کے مشکل ٹارگٹ میں تو کامیابی حاصل کر لی، فضل اﷲ ان کے سامنے موجود ہے اسے کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؟
یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکا ہر اصول، ہر ضابطے، ہر قانون، ہر اخلاقیات کو پیروں تلے روند کر اپنی ضرورتوں، اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرتا ہے، پاکستان میں فرقہ وارانہ خونریزی کی ذمے داری بھی امریکا پر ڈالی جا رہی ہے، یہ بالکل ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن پنڈی، کوہاٹ کے فرقہ وارانہ فسادات، کراچی میں ہونے والے بولٹن مارکیٹ کے فرقہ وارانہ فسادات، کوئٹہ کی کیرانی روڈ اور ہزارہ کالونی میں ہونے والے فسادات، کوئٹہ سے ایران جانے والے زائرین کو بس سے اتار کر لائن میں کھڑا کر کے گولیاں مارنے والے، گلگت میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور کراچی میں فرقہ وارانہ قتل کرنے والے امریکی تھے، برطانوی تھے، فرانسیسی تھے، جرمن تھے، نیٹو کے لوگ تھے؟ ان میں سے کسی ملک کے لوگ نہیں تھے، یہ سب یا تو پاکستانی دہشت گرد تھے یا ان کے غیر ملکی جہادی۔ اس قتل و غارت گری کے دو محرکات ہیں، ایک فرقہ وارانہ نفرت، دوسرے بھاری معاوضہ۔ انتہائی سادہ لوح مسلمانوں کو یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ مخالف فرقہ دین دشمن ہے اور انھیں مارنا کار ثواب ہی نہیں بلکہ دینی ذمے داری ہے اور اس ذمے داری کو پوری کرنے والا سیدھے جنت میں جاتا ہے۔ سو خودکش دھماکے کرنے والوں کو اس حوالے سے استعمال کیا جا رہا ہے، دوسرا محرک بھاری معاوضہ ہے اگر جرائم پیشہ افراد یا بھوک کے ستائے ہوئے نوجوانوں کو فی قتل دو لاکھ معاوضے کی آفر کی جائے اور ہر قسم کا ممکنہ تحفظ فراہم کیا جائے تو یہ قتل عام ایک ایسا منافع بخش کاروبار یا روزگار میں بدل جاتا ہے جسے نہ جرائم پیشہ افراد چھوڑ سکتے ہیں نہ روٹی کے بھوکے بے روزگار۔ ان دو محرکات کی وجہ سے ہر جگہ یہ مقدس بزنس کامیابی کے ریکارڈ توڑتا نظر آ رہا ہے۔
اگر یہ قیاس درست ہے اور یقیناً ہے تو اس کاروبار میں اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کون کر رہا ہے؟ انتقام اور بدلے کی یہ لہر پاکستان کا کیا حشر کرتی ہے اس کا اندازہ مشکل نہیں اور مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ اب عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔ روس کا داغستان اور خود ماسکو اس عفریت کا شکار ہے چین کے صوبے سنکیانگ میں یہ تباہی عرصے سے جاری ہے، امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں تک دہشت گرد آسانی سے اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں، مشرق وسطیٰ خصوصاً عراق فرقہ وارانہ دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز بنا ہوا ہے، کوئی دن نہیں جاتا جب عراق کے شہروں خصوصاً بغداد میں پچاسیوں افراد فرقہ وارانہ جنگ میں کام نہ آتے ہوں۔ اس حوالے سے کس کو شہید کہیں، کس کی موت کو بیکار محض کہیں، اس کا فیصلہ مشکل ہے کیونکہ مارنے والے بھی مسلمان ہیں اور مرنے والے بھی مسلمان۔
میڈیا چیخ چیخ کر ایران کے حوالے دے رہا ہے جہاں کی حکومت نے دہشت گردوں کو چوراہوں پر پھانسیاں دے کر دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے، نہ وہاں دہشت گردوں کا برسوں ٹرائل کیا گیا نہ عدالتوں نے فیصلے سنانے میں تاخیر کی، سپریم کورٹ نے ایک دہشت گرد گروہ کی پوری قیادت کو سزائے موت سنائی، حکومت نے انھیں فوری چوراہوں پر لٹکا کر اس پر عمل درآمد کر دیا۔ جب کہ ہمارے ملک میں ہزاروں دہشت گرد اپنے جرائم کا اعتراف کرنے کے باوجود برسوں سے جیلوں میں ٹھاٹھ کی زندگی گزار رہے ہیں اور سیکڑوں کی تعداد میں فرار ہو رہے ہیں۔ عذیر و بابا لاڈلا کے نام سے دو دہشت گرد گروہ لیاری میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔
ہمارے علما کی اکثریت کہہ رہی ہے کہ وہ جمہوریت کے ذریعے شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں، قتل و غارت اور طاقت کے زور پر شریعت کے نفاذ کے خلاف ہیں۔ دین میں جبر نہیں، ایک انسان کا قتل پورے عالم کا قتل مانا جاتا ہے، ان مذہبی تعلیمات کو پس پشت کیوں ڈالا جا رہا ہے؟
اطلاعات کے مطابق پنڈی کے فسادات کے ردعمل میں پنجاب کے مختلف شہروں میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے اور وہ نئے چہرے جو پنڈی کے فسادات کی قیادت کر رہے تھے، وہ نئے چہرے پاکستان کے ہر شہر میں پوری طرح مسلح اور اوپر سے ہدایت کے منتظر ہیں اور جب چاہیں جس شہر کو چاہیں پنڈی اور کوہاٹ بنا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ شیخ رشید نے جن نئے چہروں کی نشان دہی کی ہے اور اس قسم کے نئے چہرے ہر شہر میں موجود ہیں، کیا حکومت اور اس کی ایجنسیاں ان نئے چہروں اور ان کے مقاصد سے بے خبر ہیں...؟
انتہاپسند گروہوں کی پرانی قیادت کی جگہ جو نئی قیادت آئی ہے، اس نے بہت واضح طور پر یہ دھمکی دی ہے کہ اپنے مرحوم امیر کی ہلاکت کا بدلہ لیا جائے گا۔ بدلہ لینا قبائلی معاشرت کی ایک لازمی ضرورت ہے، لیکن اندھے، بہرے، گونگے لوگ بھی بدلہ اس شخصیت یا گروہ سے لیتے ہیں جو انھیں نقصان پہنچاتا ہے لیکن ہمارے ملک کی نئی شرعی روایت کے مطابق بدلہ ان بے گناہ پاکستانیوں سے لیا جا رہا ہے جن کا نہ امریکا سے کوئی تعلق ہے، نہ نیٹو سے۔ اگر امریکا کے ڈرون سے بے گناہوں کو نقصان پہنچ رہا ہے تو امریکا کے ڈرون کو نقصان پہنچائیے، امریکا اور اس کے اتحادیوں سے بدلہ لیجیے، پاکستان کے بے گناہ شہریوں کو بدلے کی بھینٹ چڑھانا کس شریعت کے تحت جائز ہے۔ 50 ہزار سے زیادہ بے گناہوں کے خون ناحق کی ذمے داری کس پر آتی ہے؟
مذہبی انتہا پسندوں نے بدلہ لینے کی جو دھمکی دی ہے کیا پنڈی اور کوہاٹ کے فرقہ وارانہ فسادات اسی کا حصہ ہیں؟ بدلے کے اعلان کے بعد پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف جو حملے ہو رہے ہیں وہ بھی اسی بدلے کی کڑی نظر آتے ہیں۔ صوابی میں پولیس چیک پوسٹ پر فائرنگ جس سے دو اہلکار شہید ہوئے، شمالی وزیرستان میں بم حملے میں دو سپاہی زخمی ہوئے، ایک شہری کے گھر پر دستی بم پھینکا گیا جس سے ایک خاتون ہلاک چار افراد زخمی ہوئے، گوادر میں دہشت گردوں نے کسٹم کے 6 اہلکاروں کو اغوا کر لیا، خاران میں مسلح افراد نے عرب شیوخ کے شکاری کیمپ پر حملہ کر کے 5 لیویز اہلکاروں کو اسلحہ اور دو گاڑیوں سمیت اغوا کر لیا، کراچی میں بھی ٹارگٹ کلنگ میں درجنوں شہری مارے جا رہے ہیں۔ کیا یہ ساری انتقامی کارروائیاں اس دھمکی کا وجہ ہیں جو امریکی ڈرون کی گستاخی کے جواب میں کی جا رہی ہیں؟
مشکل یہ ہے کہ اس منظم، مربوط منصوبہ بند اور موثر حکمت عملی کے ساتھ کی جانے والی دہشت گردی کو ہمارے حکمران روز کا معمول سمجھ کر پی جا رہے ہیں اور اسے ختم کرنے کا واحد طریقہ مذاکرات قرار دے رہے ہیں۔ مذاکرات کرنے والوں کو کوئی نہیں روک رہا بلکہ کراچی کی اے پی سی میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا مکمل اختیار دیا تھا، پھر اب تک مذاکرات کا آغاز کیوں نہیں ہوا؟ ہمارے ''سادہ لوح'' حکمران چیخ رہے ہیں کہ امریکا ہمارے مذاکرات کی ہر کوشش کو سبوتاژ کر رہا ہے۔ کیا اس حقیقت کا علم شدت پسندوں کو نہیں؟ اگر ہے تو پھر یہ بہادر لوگ ڈرون کیوں نہیں گراتے۔ 9/11 جیسے حملے کر کے امریکا کو دنیا میں ذلیل کیوں نہیں کرتے؟ اس منطقی جواب کے بجائے پاکستان کے بے گناہ عوام اور سیکیورٹی فورسز کا قتل عام کیوں کیا جا رہا ہے۔ میڈیا میں یہ خبریں کیوں آ رہی ہیں کہ شدت پسندوں کی نئی قیادت کو امریکا کی سرپرستی حاصل ہے اور اس حوالے سے یہ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ امریکا نے حکیم اﷲ محسود کے مشکل ٹارگٹ میں تو کامیابی حاصل کر لی، فضل اﷲ ان کے سامنے موجود ہے اسے کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؟
یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکا ہر اصول، ہر ضابطے، ہر قانون، ہر اخلاقیات کو پیروں تلے روند کر اپنی ضرورتوں، اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرتا ہے، پاکستان میں فرقہ وارانہ خونریزی کی ذمے داری بھی امریکا پر ڈالی جا رہی ہے، یہ بالکل ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن پنڈی، کوہاٹ کے فرقہ وارانہ فسادات، کراچی میں ہونے والے بولٹن مارکیٹ کے فرقہ وارانہ فسادات، کوئٹہ کی کیرانی روڈ اور ہزارہ کالونی میں ہونے والے فسادات، کوئٹہ سے ایران جانے والے زائرین کو بس سے اتار کر لائن میں کھڑا کر کے گولیاں مارنے والے، گلگت میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور کراچی میں فرقہ وارانہ قتل کرنے والے امریکی تھے، برطانوی تھے، فرانسیسی تھے، جرمن تھے، نیٹو کے لوگ تھے؟ ان میں سے کسی ملک کے لوگ نہیں تھے، یہ سب یا تو پاکستانی دہشت گرد تھے یا ان کے غیر ملکی جہادی۔ اس قتل و غارت گری کے دو محرکات ہیں، ایک فرقہ وارانہ نفرت، دوسرے بھاری معاوضہ۔ انتہائی سادہ لوح مسلمانوں کو یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ مخالف فرقہ دین دشمن ہے اور انھیں مارنا کار ثواب ہی نہیں بلکہ دینی ذمے داری ہے اور اس ذمے داری کو پوری کرنے والا سیدھے جنت میں جاتا ہے۔ سو خودکش دھماکے کرنے والوں کو اس حوالے سے استعمال کیا جا رہا ہے، دوسرا محرک بھاری معاوضہ ہے اگر جرائم پیشہ افراد یا بھوک کے ستائے ہوئے نوجوانوں کو فی قتل دو لاکھ معاوضے کی آفر کی جائے اور ہر قسم کا ممکنہ تحفظ فراہم کیا جائے تو یہ قتل عام ایک ایسا منافع بخش کاروبار یا روزگار میں بدل جاتا ہے جسے نہ جرائم پیشہ افراد چھوڑ سکتے ہیں نہ روٹی کے بھوکے بے روزگار۔ ان دو محرکات کی وجہ سے ہر جگہ یہ مقدس بزنس کامیابی کے ریکارڈ توڑتا نظر آ رہا ہے۔
اگر یہ قیاس درست ہے اور یقیناً ہے تو اس کاروبار میں اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کون کر رہا ہے؟ انتقام اور بدلے کی یہ لہر پاکستان کا کیا حشر کرتی ہے اس کا اندازہ مشکل نہیں اور مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ اب عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔ روس کا داغستان اور خود ماسکو اس عفریت کا شکار ہے چین کے صوبے سنکیانگ میں یہ تباہی عرصے سے جاری ہے، امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں تک دہشت گرد آسانی سے اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں، مشرق وسطیٰ خصوصاً عراق فرقہ وارانہ دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز بنا ہوا ہے، کوئی دن نہیں جاتا جب عراق کے شہروں خصوصاً بغداد میں پچاسیوں افراد فرقہ وارانہ جنگ میں کام نہ آتے ہوں۔ اس حوالے سے کس کو شہید کہیں، کس کی موت کو بیکار محض کہیں، اس کا فیصلہ مشکل ہے کیونکہ مارنے والے بھی مسلمان ہیں اور مرنے والے بھی مسلمان۔
میڈیا چیخ چیخ کر ایران کے حوالے دے رہا ہے جہاں کی حکومت نے دہشت گردوں کو چوراہوں پر پھانسیاں دے کر دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے، نہ وہاں دہشت گردوں کا برسوں ٹرائل کیا گیا نہ عدالتوں نے فیصلے سنانے میں تاخیر کی، سپریم کورٹ نے ایک دہشت گرد گروہ کی پوری قیادت کو سزائے موت سنائی، حکومت نے انھیں فوری چوراہوں پر لٹکا کر اس پر عمل درآمد کر دیا۔ جب کہ ہمارے ملک میں ہزاروں دہشت گرد اپنے جرائم کا اعتراف کرنے کے باوجود برسوں سے جیلوں میں ٹھاٹھ کی زندگی گزار رہے ہیں اور سیکڑوں کی تعداد میں فرار ہو رہے ہیں۔ عذیر و بابا لاڈلا کے نام سے دو دہشت گرد گروہ لیاری میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔
ہمارے علما کی اکثریت کہہ رہی ہے کہ وہ جمہوریت کے ذریعے شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں، قتل و غارت اور طاقت کے زور پر شریعت کے نفاذ کے خلاف ہیں۔ دین میں جبر نہیں، ایک انسان کا قتل پورے عالم کا قتل مانا جاتا ہے، ان مذہبی تعلیمات کو پس پشت کیوں ڈالا جا رہا ہے؟