دور حاضر کا ایک انوکھا سوال جدید انسان کیا مزید ذہین نہیں ہو گا
پچھلے 150 برس سے ان گنت شعبہ ہائے زندگی میں حیرت انگیز کارنامے انجام دینے کے بعد انسانی دماغی صلاحیتیں زوال پذیر ہیں
انسان پچھلی ڈیرھ دو صدیوں میں اپنی دماغی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہر شعبے میں محیرالعقول ترقی کرکے دنیا کا حکمران بن چکا۔یہ لگ بات کہ قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال سے اب زمین کا فطری ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا انسان کی دماغی قوت مذید طاقتور ہو گی یا نہیں؟یعنی کیا انسان اپنی ذہانت کے دور ِعروج پر پہنچ چکا۔رب کریم کی عظیم ترین نعمتوں میں انسانی دماغ بھی شامل ہے۔
یہ دماغ ہی ہے جس نے ناخواندہ اور معمولی انسان کو علم و معلومات کے خزانے عطا کیے، اسے فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچایا اور آج وہ ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ دماغ مختلف قسم کی قوتیں رکھتا ہے۔ مثلاً سوچنے یا تصور کرنے کی قدرت' حواس کی قوت' حافظے کی قوت ۔ ذہانت بھی دماغ کی ایک اہم طاقت ہے۔ذہانت کی مدد سے دماغ ماحول سے معلومات کشید کر کے اسے محفوظ کرتا ہے۔ پھر مسائل حل کرنے میں اسی معلومات سے مدد لیتا ہے۔ ذہانت کے لغوی معنی ہیں: دماغ (یا ذہن) کی تیزی۔
فرق کو سمجھئے
عام لوگ ''عقل و دانش ''(Wisdom) اور ''ذہانت'' (Intelligence)کو ایک شے سمجھتے ہیں مگر ان کے مابین فرق ہے۔ ذہین آدمی ذہانت کو شر انگیز سرگرمیوں میں بھی استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن عاقل انسان خود کو منفی کاموں سے حتیٰ الامکان محفوظ رکھتا ہے۔ گویا عقل انسان کو نیکی اور بدی کے مابین تمیز کرنا سکھاتی ہے۔
عاقل اچھائیوں اور برائیوں کا ادراک رکھتا ہے چاہے وہ غیر معمولی طور پہ ذہین نہ ہو۔ جبکہ ایک ذہین انسان عاقل نہ ہو تو اچھائی اور برائی کے درمیان تمیز کرنے میں اسے مشکل پیش آ سکتی ہے۔ذہانت بہر حال انسانی دماغ کی عظیم ترین قوتوں میں سے ایک قوت ہے۔اہل فکر و دانش گو اس کی منفی خصوصیت کے سبب مختلف رائے رکھتے ہیں۔ مشہور سائنس داں آئن سٹائن کا خیال تھا کہ ذہین انسان وہ ہے جو زیادہ سے زیادہ علم (نالج) نہیں بلکہ سوچنے سمجھنے (تصّور کرنے) کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ ممتازیونانی فلسفی سقراط کا قول ہے: ''میں جانتا ہوں کہ ذہین ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے، میں کچھ نہیں جانتا۔'' اسی طرح ایک عبرانی کہاوت ہے: ''آپ کو خوش قسمت بننے کے لیے ذہانت کی ضرورت نہیں مگر ذہین ہونے کی خاطر آپ کو خوش قسمت ہونا چاہیے۔''
انسان اب کند ذہن بن رہا ہے؟
متنازع دماغی قوت ہونے کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ذہانت نے انسان کو ترقی یافتہ بنانے اور خوشحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دور جدید کے فلسفیوں اور دانش وروں کا تو کہناہے کہ انسان اپنی ذہانت کے زریّں ترین دور سے گذر رہا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات آپ کو عجیب لگے مگر یہ وزن ضرور رکھتی ہے۔''آئی کیو''(intelligence quotient)ٹیسٹ ایک انسان کی ذہانت جانچنے کا مشہور پیمانہ ہے۔ اس کی مختلف اقسام ہیں۔ پہلا آئی کیوٹیسٹ 1904ء میں وضع کیا گیا۔ اس میں ایک انسان جتنے زیادہ نمبر لے' وہ اتنا ہی زیادہ ذہین مانا جاتا ہے۔ پچھلے 119سال کے د وران یہ نمبر مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
مطلب یہ کہ اگر 1904ء کا کوئی نامی گرامی جینئس بھی 2019ء میں آ جائے تو وہ ایک عام بچے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ جدید دور کا ایک بچہ بھی اس سے زیادہ معلومات رکھتا ہے اور وہ ذہانت کی قوت بھی زیادہ رکھے گا۔ ماہرین اس اعجوبے کو ''فلائنن اثر''(Flynn effect) کے نام سے پکارتے ہیں۔بعض ماہرین مگر اب دعویٰ کر رہے ہیں کہ انسانی ذہانت اپنی معراج تک پہنچ چکی یعنی انسان اب مزید ذہین نہیں ہو سکتا۔ اس نے ذہانت کا جو اعلیٰ ترین معیار حاصل کرنا تھا' وہ اسے پا چکا ۔ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی ذہانت کا معکوس سفر شروع ہو چکا... یعنی دور جدید کا انسان اب کند ذہن بن رہا ہے۔ یا کم از کم اس کے مزید ذہین ہونے کا عمل انتہائی سست رفتار ہو چکا۔دور حاضر کا یہ ایک اہم سوال ہے کہ کیا انسان جتنا زیادہ ذہین ہو سکتا تھا' اس مقام پر پہنچ چکا؟ اگر یہ بات درست ہے تو یہ نیا اعجوبہ انسان کے مستقبل پر کس قسم کے اثرات مرتب کرے گا؟
دماغ کا سائز
آگے بڑھنے سے پیشتر آیئے انسانی ذہانت کے ارتقا کا جائزہ لے لیں۔ سائنس اور تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ انسان ارتقائی مراحل سے گذر کر موجود مقام تک پہنچا ۔ تاہم سائنس اور مذاہب ان مراحل کی نوعیت پر اختلاف رکھتے ہیں۔سائنس دانوں کی رو سے ارتقائے انسان کے اہم ترین مراحل میں سے ایک مرحلہ تین لاکھ سال پہلے آیا جب وہ کھڑے ہو کر چلنے لگا۔
ماہرین نے ان نیم انسانوں کو ''آسٹرلوپیتھکس'' (Australopithecus) کا خطاب دیا۔آسٹرلو پیتھکس کی ہڈیاں ' کھوپڑیاں اور ڈھانچے (رکاز) مختلف براعظموں سے دریافت ہو چکے ۔ کھوپڑیوں کے معائنے سے معلوم ہوا کہ یہ قدیم انسان چھوٹا دماغ رکھتے تھے۔ اس دماغ کا سائز 300 سے 400سینٹی میٹر کے مابین تھا۔ جبکہ دور جدید کے انسان میںدماغ کم و بیش 1350 سینٹی میٹر سائز رکھتا ہے۔
یہ یاد رہے کہ ماہرین کے نزدیک دماغ کے سائز یا جسامت اور ذہانت میں تعلق ہے۔ بالعموم جس جاندار کا دماغ اس کے وزن کے لحاظ سے جتنابڑا ہو' وہ اتنا زیادہ ذہین ہوتا ہے۔اور جسمانی وزن کے لحاظ سے تمام جانداروں میں انسانی دماغ ہی سب سے بڑا ہے۔اسی لیے وہ ذہین ترین اور اشرف المخلوقات بھی کہلایا۔دماغ کا سائز وزن اور حجم (Volume)، دو اعتبار سے جانچا جاتا ہے۔ انسانی دماغ کا سائز عموماً حجم میں سینٹی میٹر یا ملی میٹرمیں لکھا جاتا ہے۔ اصطلاح میں اسے ''کرینئل کیپیسٹی''(Cranial Capacity) کہتے ہیں۔ بہ لحاظ وزن جدید انسان کا دماغ 1300سے 1400گرام وزنی ہے۔دنیا کا سب سے چھوٹا دماغ ریگ وارم(ragworm)نامی کیڑے کا ہے۔یہ برسات میں نکلنے والے کیچوے کا رشتے دار ہے۔اس کا دماغ انسانی بال جتنا حجم (17سے180 مائکرومیٹر)رکھتا ہے۔جبکہ سپرم وہیل 7,800گرام وزنی دماغ رکھتی ہے۔یہ ظاہر ہے کہ دماغ نے روزمرہ زندگی میں کام انجام دیتے ہوئے قدیم انسانوں کو کئی فوائد پہنچائے ' اسی لیے یہ عضو مسلسل بڑھتا رہا۔ تاہم انسان کو بڑا دماغ پانے کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑی۔ آج ہمارا جسم خوراک جذب کر کے اس سے جتنی توانائی پیدا کرے' اس کا ''20فیصد '' حصّہ دماغ استعمال کرتا ہے۔ حالانکہ ہمارے جسم میں وزن کے اعتبار سے دماغ کا حصہ محض 2فیصد ہے۔
معاشرے کی بنیاد پڑی
سوال یہ ہے کہ وہ کون سے فوائد اور عوامل ہیں جن کی بنا پر انسانی دماغ جسامت میں بڑھتا چلا گیا؟ جدید سائنس نے بڑی باریک بینی سے ان عوامل پر تحقیق کی ہے۔ ماہرین کے نزدیک ایک اہم تبدیلی اس وقت آئی جب قدیم انسان مل جل کر گروہ کی صورت رہنے لگے۔آسٹرلوپیتھکس ہی وہ قدیم انسان ہیں جنہوں نے میدانی علاقوں میں گروہ کی صورت میں زندگی گزارنے کا آغاز کیا۔ان سے قبل انسان بیشتر وقت درختوں پہ گذارتے تھے اور خاندان کی شکل میں رہتے۔ اس کے بعد گروہوں کی آبادی بڑھتی چلی گئی اور یوں گاؤں' قصبے'شہر وجود میں آ ئے۔ ماہرین کے نزدیک گروہ تشکیل دینے کی اولیّں وجہ یہ تھی کہ انسانی و حیوانی دشمنوں سے محفوظ رہا جا سکے۔ ظاہر ہے' جب انسان درخت سے اتر کر زمین پر سونے لگا تو دشمنوں کے حملوں کا خطرہ بڑھ گیا۔
گروہ بنانے سے قدیم انسانوں کو نئے فوائد حاصل ہوئے۔ مثلاً وہ مل جل کر دشمن کا مقابلہ کرنے لگے۔ انہیں موقع ملا کہ وہ اپنے وسائل جمع کر کے ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔ بچوں کی حفاظت اور پرورش کا کٹھن مرحلہ بھی آسان ہو گیا کہ اب زیادہ انسان دستیاب تھے۔آج کا انسان اہل خانہ ' دوست احباب یا دیگر شہریوں سے دوستانہ تعلقات نہ رکھ سکے تو زیادہ سے زیادہ جذباتی پریشانی میں مبتلا ہوتاہے۔ لیکن ڈھائی لاکھ سال قبل کوئی قدیم انسان اپنے گروہ سے مطابقت نہ کر پاتا تو یہ اس کے لیے زندگی یاموت کا مسئلہ بن جاتا تھا۔ گویا تب انسان کے واسطے معاشرتی زندگی آج کی نسبت کہیں زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔اہل خانہ اور دوست احباب سے میل ملاپ رکھتے ہوئے آپ یہ تجربہ رکھتے ہوں گے کہ معاشرتی زندگی گزارنا اور تعلقات نبھانا خاصا کٹھن کام ہے۔ مثلاًضروری ہے کہ آپ والدین، بہنوں بھائیوں، دوستوں اور دفتری ساتھیوں... ہر فرد کی ذاتی پسند نا پسند اور دلچسپیوں سے آگاہ ہوں تاکہ انہی کے مطابق اس سے برتائو ہوسکے۔جیسے بعض بااعتماد دوست راز کی باتیں خود تک محدود رکھتے مگر کچھ بات کا بتنگڑ بناکر باتیں پھیلاتے ہیں۔
اگر آپ کسی گروہ کے ساتھ ہیں، تو ضروری ہے کہ ہر فرد کی سرگرمی سے واقف ہوں۔ تبھی آپ اپنی سرگرمیاں ان سے ہم آہنگ کرسکتے ہیں۔ ارکان گروہ کے مابین ہم آہنگی جنم نہ لے، تو آسان کام بھی کٹھن بن جاتے ہیں۔ لہٰذا گروہ تشکیل دینا اور آپس میں ہم آہنگ ہونا قدیم انسانوں کے لیے بہت بڑی ارتقائی تبدیلیاں تھیں۔گروہ بنانے سے انہیں ایک بڑا فائدہ یہ پہنچا کہ قدیم انسان ایک دوسرے سے خیالات، تصورات اور نظریات شیئر کرنے لگے۔ اس طرح مل جل کر روزمرہ کام آسان بنانے والی ایجادات سامنے لانے میں کامیاب رہے۔ مثلاً ایسے ہتھیار بن گئے جن سے جانوروں کا شکار آسان ہوا۔ دوسروں کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنے اور ان کے تجربات سے سیکھنے کی خاطر ذہانت درکار تھی۔ اسی لیے انسانی دماغ بتدریج بڑا ہونے لگا کہ مطلوبہ ذہانت کا معیار پاسکے۔
جدید انسانوں کے جدامجد
سات لاکھ سے تین لاکھ سال پہلے تک افریقہ اور یورپ میں قدیم انسانوں کی ایک نسل ''ہومو ہائیڈلبر گیجیز'' (Homo heidelbergensis) آباد رہی ۔ ان کی کھوپڑیاں افشا کرتی ہیں کہ چار سال لاکھ سال پہلے ان قدیم انسانوں کے دماغ کا سائز 1200 سینٹی میٹر تک پہنچ چکا تھا۔ گویا یہ دماغ جدید انسان کے انسان سے محض ڈیڑھ سو سینٹی میٹر چھوٹا تھا۔دماغ بڑے ہونے کا ارتقائی مرحلہ جاری رہا۔ یہی وجہ ہے، جب ستر ہزار سال پہلے جدید انسانوں کے جدامجد افریقہ سے نکلے تو وہ اتنے ذہین اور سمارٹ ہوچکے تھے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں پہنچ کر وہاں کے ماحول سے مطابقت اختیار کرلیں۔
انہی انسانوں نے مختلف غاروں میں اولیں تصاویر اور نقش و نگار بنائے۔ تصاویر سے عیاں ہے کہ ہمارے جدامجد پیچیدہ کائناتی سوالات پر غور و فکر کرنے لگے تھے۔ مثلاً یہ کہ انسان کہاں سے آیا، دنیا کس نے بنائی، نظام کائنات کون چلا رہا ہے؟غرض لاکھوں برس ارتقا کے بعد صرف چار پانچ ہزار سال قبل ہی انسانی دماغ اس قابل ہوا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے کمالات دکھانے لگے۔ سائنسی، ٹیکنالوجی، معاشی اور معاشرتی شعبوں میں بیک وقت ترقی کرنے کے سبب انسان نے کرہ ارض پر اشرف المخلوقات کا روپ دھار لیا۔ اس محیر العقول ترقی میں ذہانت نے اہم کردار ادا کیا۔
''فلائنن اثر''
1904ء میں آئی کیو ٹیسٹ ایجاد کیے گئے تاکہ دیکھا جاسکے، مختلف انسان ذہانت کا کیسا معیار رکھتے ہیں۔ یہ انسانی ذہانت جانچنے کا قطعی پیمانہ نہیں مگر آئی کیو ٹیسٹوں کی بدولت خاصی حد تک معلوم ہوسکتا ہے کہ ایک بچہ یا بالغ کتنا ذہین ہے۔ وہ ریاضی کے سوال حل کرلیتا ہے یا نہیں؟ کسی مشکل میں پھنس کر اس سے نکلنے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے؟ آئی کیو ٹیسٹ میں کل 100 نمبر ہوتے ہیں۔ جو انسان جتنے زیادہ نمبر حاصل کرے، اتنا ہی ذہین تصور ہوتا ہے۔بیسویں صدی کے اواخر میں نیوزی لینڈ کے ایک دانشور، جیمز فلائنن نے آئی کیو ٹیسٹوں کی تاریخ کا جائزہ لیا۔تحقیق سے انکشاف ہوا کہ ہر عشرے میں انسان آئی کیو ٹیسٹوں میں تین چار نمبر زیادہ لیتا رہا۔ یہ علامت تھی کہ انسانی ذہانت کا معیار بلند ہورہا ہے۔ اسی اعجوبے کو ''فلائنن اثر'' کا نام دیا گیا۔
ذہانت کو بڑھاوا دینے والے عمل
انسانی ذہانت میں اضافے نے مختلف وجوہ کی بنا پر جنم لیا۔پچھلی ایک صدی میں انسان کو پیٹ بھر کر خوراک ملنے لگی۔ بیماریوں پر قابو پالیا گیا۔ انسانوں کو علم و معلومات سے بھرپور کتابیں میسر آگئیں۔ سیکھنے سکھانے کے نئے طریقے وجود میں آئے۔ غرض کئی عوامل نے مل کر انسانی ذہانت کو بڑھاوا دیا۔ مگر یہ ترقی دیگر چیزوں میں بھی دیکھنے کو ملی۔ بیسویں صدی میں انسان کا قد پچھلے انسانوں کے مقابلے میں 5 انچ زیادہ بڑھ گیا۔ تبدیلی کی وجہ یہی کہ انسان کی مجموعی صحت بہتر ہوگئی۔ترقی یافتہ ممالک میں خصوصاً پابندیوں سے آزاد نظام تعلیم رائج ہونے سے بھی انسانی ذہانت میں اضافہ ہوا۔ اس نظام تعلیم میں بچوں کو غورو فکر کرنے پر اکسایا جاتا ہے مثلاً یہ کہ فلاں جانور ممالیہ ہے یا خزندہ۔ اس قسم کے آزادانہ ماحول میں پرورش پانے سے انسانی ذہانت ان خصوصیات سے متصف ہوئی جو آئی کیو ٹیسٹوں میں کامیابیاں دلواتی ہیں۔ اسی لیے ٹیسٹوں کے نمبر ہر عشرے بعد بڑھتے چلے گئے۔
معیار گرنے لگا
اکیسویں صدی میں مگر آئی کیو ٹیسٹوں میں ٹھہرائو آچکا بلکہ کئی ممالک میں بچے پہلے کی نسبت ان امتحانوں میں کم نمبر لے رہے ہیں۔ ان ملکوں میں فن لینڈ، ڈنمارک اور ناروے سرفہرست ہیں۔ ماضی میں ان ممالک کے بچے آئی کیو ٹیسٹوں میں سب سے زیادہ نمبر لیتے تھے۔اب سکول و کالج جانے والے طلبہ کم نمبر لے رہے ہیں۔ذہانت کا معیار گرنے کی بھی مختلف وجوہ ہیں۔ مثلاً اب پوری دنیا میں بچے کیلکولیٹر یا سمارٹ فون سے ریاضی کے سوال حل کرتے ہیں۔ طبیعات یا کیمیا کے کسی سوال کا جواب لکھنا ہو، تو حل شدہ جوابات یا انٹرنیٹ سے مدد لی جاتی ہے۔ غرض مشینی و ڈیجیٹل مدد گار انسانوں کی ذہنی صلاحیتیں کند کررہے ہیں۔
رٹا لگانے یا معلومات کو ذہن نشین کرنے کے عمل نے بھی آزادانہ سوچ پر پہرے بٹھا دیئے اور یوں انسانی ذہانت کا ارتقا رک گیا۔اب ایک پانچ سالہ بچہ بھی کی بورڈ اور کمپیوٹر چلانا مشق سے سیکھ لے، تو یہ جدید ترین مشین چلا سکتا ہے۔ اسی طرح روزمرہ زندگی میں وہ مشق سے کئی کاموں کی ماہیت اور طریق کار سمجھ جائے، تو انہیں بھی انجام دے لیتا ہے۔ جب ایک بچہ رٹے اور مشق کے ماحول میں پرورش پائے، تو اس کی ذہانت خود بخود ایسی صلاحیتیں حاصل کرلیتی ہے جو آئی کیو ٹیسٹ میں عمدہ کارکردگی دکھانے کے لیے ضروری ہوں۔
انسانی زندگی میں مشینوں کا بڑھتا عمل دخل ہماری ذہانت بتدریج کند کرنے کی ایک اہم وجہ ہے۔ ماہرین نے تحقیق سے دریافت کیا ہے کہ انسانی ذہانت 1990ء کے بعد سے زوال پذیر ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب کمپیوٹر کے دور کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد موبائل فون اور سمارٹ فون انسانی زندگی میں چلے آئے بلکہ چھاگئے۔ حتیٰ کہ شعبہ تعلیم میں بھی مشینوں کا عمل دخل بڑھ گیا۔ یہی وجہ ہے، تعلیم اب انسانی ذہانت بڑھانے کے لیے تحرک نہیں رہی۔ یعنی جدید تعلیم انسان کو کچھ نیا سوچنے پر نہیں ابھارتی۔ طالب علم مشینوں کی مدد سے لگی بندھی ڈگر پر چلنے لگا ہے اور وہ کوئی نیا پن نہیں دکھا پاتا۔
ترقی سے ہمیں کیا ملا؟
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ ہمارا جدید طرز زندگی ہماری ذہانت میں عجیب و غریب تبدیلیاں لارہا ہے۔ چند سال قبل امریکی ماہر عمرانیات، ایلسی بولڈنگ نے اعلان کیا تھا کہ جدید انسانی معاشرہ عارضی تھکن و کمزوری کا شکار ہوچکا۔ وجہ یہ کہ اگر ہر انسان حال کا مقابلہ کرتے ہوئے ہانپنے لگے تو پھر مستقبل کا مقابلہ کرنے کے لیے اس میں توانائی نہیں رہتی۔آج دنیا بھر میں ماہرین اور سائنس داں یہ جاننے کی خاطر تحقیق و تجربات کررہے ہیں کہ انسانی ذہانت کا ارتقا کیوں جامد ہوچکا؟ ساتھ ساتھ بعض ماہرین یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ پچھلے ایک سو برس میں انسانی ذہانت کی زبردست ترقی سے بنی نوع انسان اور ہمارے معاشرے کو مجموعی طور پر کیا فائدہ پہنچا؟ اس ضمن میں امریکی کورنیل یونیورسٹی سے وابستہ ماہر نفسیات، پروفیسر رابرٹ اسٹرن برگ کا کہنا ہے:
''اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کا انسان بہ آسانی پیچیدہ مشینیں چلا لیتا ہے۔ سو سال پہلے کا انسان یہ صلاحیتیں نہیں رکھتا تھا۔سوال یہ ہے کہ انسانی ذہانت میں اضافے سے انسانیت کو کیا فوائد ملے؟ نظر تو یہی آتا ہے کہ ذہانت میں اضافہ کوئی انقلاب نہیں لاسکا۔ آج بھی انسان ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ دنیا میں غربت کا دور دورہ ہے۔ انسان اپنی سرگرمیوں سے ماحول تباہ کررہا ہے۔ حسین فطری مقامات آلودگی سے لتھڑ چکے۔ انسانی ذہانت میں ترقی سے ہمیں کیا ملا؟''
مجموعی صلاحیت پر کامل اثر
پروفیسر رابرٹ اسٹرن برگ کا درج بالا بیان خاصا قنوطی ہے۔ انسانی ذہانت میں اضافے سے بنی نوع انسان کو فوائد بھی حاصل ہوئے۔ مثلاً نت نئی ادویہ ایجاد ہوئیں جن کی مدد سے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بچائی جاچکیں۔ پھر ان گنت ایجادات سے انسان کی زندگی ماضی کے مقابلے میں زیادہ سہل انداز سے بسر ہونے لگی۔ غربت ختم تو نہیں ہوسکی مگر اس میں کمی ضرور آئی۔ غرض انسانی ذہانت کی ترقی سے انسانیت کو کئی فائدے بھی ملے۔تاہم پروفیسر رابرٹ کی طرح بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ انسانی ذہانت میں اضافے سے انسان کی مجموعی شخصیت کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچا۔ اس ضمن میں جیمز فلائنن نے بھی یہ نظریہ پیش کیا کہ انسانی ذہانت میں اضافہ انسان کے دماغ کی بعض مہارتوں (Skills) ہی کو تیز و عمدہ بنا سکا ہے۔
یہ نظریہ اس مثال سے سمجھیے کہ انسان اپنے ہر عضوِ جسم کو صحت مند رکھنے کی خاطر مختلف ورزشیں کرتا ہے۔ ہر ورزش ایک ہی عضو مثلاً پیٹ، گردن یا ٹانگ کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے۔ اگر انسان صرف ایک دو ورزشیں کرے، تو متعلقہ عضو تو عمدہ ہوجائے گا مگر اس کی مجموعی تندرستی پر خاص مثبت اثر نہیں پڑے گا۔ اسی طرح ماہرین کا خیال ہے کہ انسان نے فکرو سوچ کی بعض ورزشیں کرکے اپنی کچھ ذہنی صلاحیتیں ضرور بڑھالیں، مگر ان سے ہماری ذہانت کی مجموعی صلاحیت پر کامل اثر نہیں پڑا۔ گویا اب انسان کے لیے لازم ہے کہ انسانی دماغ کی جو صلاحیتیں اور مہارتیں ترقی نہیں کرسکیں، وہ انہیں ترقی دے تاکہ مستقبل کے چیلنجوں کا بخوبی مقابلہ کرسکے۔
تخلیقی سوچ جامد رہی
مثال کے طور پر انسان کی تخلیقی صلاحیت یا مہارت ہی کو لیجیے۔ جب ماہرین اس کا ذکر کریں، تو محض یہ مراد نہیں ہوتی کہ انسان تصویر بنالے، افسانہ لکھ لے یا اداکاری کرے بلکہ دیگر مہارتیں بھی تخلیقیت کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ مثلاً یہ کہ آپ کتنی آسانی سے مسائل حل کرلیتے ہیں؟ پھر آپ کی ''کائونٹر فیکچوئل سوچ'' کتنی عمدہ ہے؟ انسان اسی سوچ کے سہارے ایسے پسندیدہ یا ناخوشگوار حالات و واقعات کا تصور کرتا ہے جو ابھی ظہور پذیر نہیں ہوئے۔درست کہ ذہانت بڑھنے سے انسان کی تخلیقی صلاحیت پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پچھلی ایک صدی کے دوران آئی کیو بڑھنے سے انسان کی تخلیقی صلاحیت میں نمایاں بہتری نہیں آئی۔ گویا انسان کا آئی کیو جن وجوہ سے بھی بڑھا، انہوں نے ہماری تخلیقی صلاحیت بہتر نہیں بنائی۔ اسی لیے انسان نت نئے طریقوں سے سوچنے کے قابل نہ ہوسکا۔ اس کی تخلیقی سوچ جامد ہی رہی۔
قوت فیصلہ اور تنقیدی جائزہ
انسان کی ''قوت فیصلہ'' کو بھی لیجیے۔ اسی قوت کے ذریعے ہم بہترین فیصلے کرتے ہیں۔ ثبوت کو تولتے، بیکار باتوں سے پیچھا چھڑاتے اور کسی معاملے کا مبنی برعقل فیصلہ کرتے ہیں۔ آپ یقیناً خیال کریں گے کہ انسان جتنا زیادہ ذہین ہو، اس کی قوت فیصلہ بھی اتنی زیادہ بہترین ہوگی۔ لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ وجہ یہ کہ قوت فیصلہ ہماری دیگر دماغی صلاحیتوں پر بھی انحصار کرتی ہے۔ اسی لیے بعض اوقات کوئی فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔آپ نے شاپنگ سینٹر میں گھومتے پھرتے دو اقسام کے دودھ دیکھے۔ دودھ کے ایک پر لکھا ہے: 95 فیصد چکنائی سے پاک۔ دوسرے ڈبے پر درج ہے: 5 فیصد چکنائی ہے۔
مردوزن کی اکثریت ''95 فیصد چکنائی سے پاک'' والا دودھ خریدے گی، حالانکہ 5 فیصد چکنائی والا دودھ بھی اس جیسا ہی ہے۔ نفسیات کی اصطلاح میں یہ عجوبہ ''فریمنگ بائس ''(Framing Bias) کہلاتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ذہین ترین مردوزن بھی اس قسم کے تناقص سے نہیں بچ پاتے اور قیمتوں کے گورکھ دھندے میں پھنس جاتے ہیں۔
ماہرین نے تحقیق و تجربات سے دریافت کیا کہ ذہین انسان ایک اور خلا ''سنک کوسٹ بائس''(sunk cost bias) کے پھندے میں بھی پھنستے ہیں۔ یہ وہ حالت ہے جب انسان خسارے میں جاتے کاروبار میں بھی پیسہ لگاتا رہتا ہے حالانکہ اسے اپنا ہاتھ روک لینا چاہیے۔ کاروباری دنیا میں یہ بائس اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ حکومتیں بھی اس کے جال میں گرفتار رہتی ہے۔ مثلاً برطانوی اور فرانسیسی حکومتیں مسلسل کونکورڈ طیارے کے منصوبے کی فنڈنگ کرتی رہیں حالانکہ عرصہ پہلے معلوم ہوگیا تھا کہ یہ منصوبہ تجارتی لحاظ سے سود مند نہیں۔انتہائی ذہین انسان ''عارضی ڈس کائونٹنگ'' کے امتحان میں بھی فیل ہوجاتے ہیں۔
اس فیصلے سے انسان وقتی فائدے چھوڑ کر طویل المدتی فائدوں کو ترجیح دیتا ہے۔ آپ اگر مستقبل میں آرام و سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے۔اسی طرح اپنے کلام و عمل کا تنقیدی جائزہ لینا بھی انسانی ذہانت کی اہم ذمے داری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دور جدید کی تعلیم ذہانت کے اس شعبے میں خاص بہتری نہیں لاسکی۔ یہی وجہ ہے، آج کے بیشتر طالب علم تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ مثلاً یہ کہ اپنے نظریات اور کاموں میں خامیاں تلاش کی جائیں اور دیکھا جائے کہ انہیں کس طرح دور کیا جائے۔
حاصل ِکلام
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ ذہانت کے بڑھتے معیار نے انسان کی تمام دماغی صلاحیتوں پر یکساں اثر نہیں ڈالے۔ پچھلی ایک صدی میں انسان کی ذہانت ضرور بڑھ گئی مگر یہ بڑھوتری تصوراتی(abstract) شعبے میں زیادہ آئی۔ دیگر دماغی صلاحیتوں مثلاً قوت فیصلہ اور تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا۔ یہی وجہ ہے آج بھی دھوکا کھا جانا عام ہے۔ عام زندگی اور کاروباری دنیا میں ہر سال ہزارہا لوگ فراڈ کی بنا پر کروڑوں روپے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ وہ جعلی ادویہ خریدتے یا جعلی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر ڈالتے ہیں۔
انسانی دماغ کی تاریخ سے عیاں ہے کہ اسی کی ارتقائی ترقی کے باعث انسان پیچیدہ معاشرے میں رہنے کے قابل ہوا۔ خصوصاً پچھلی ایک صدی میں اس کی ذہانت بھی عروج پاچکی۔ لیکن انسان اپنی تمام دماغی صلاحیتوں کو کامل و مکمل نہیں کرسکا۔ اسی باعث آج بھی انسان سے خطرناک و خوفناک غلطیاں ہوتی ہیں۔ انسان نے مل جل کر، امن سے رہنا نہیں سیکھا اور لڑائیوں میں مصروف رہتا ہے۔ وہ جعلی و جھوٹی خبروں پر بھی اعتبار کرلیتا ہے جو معاشروں میں تصادم و فساد بڑھاتی ہیں۔علم اور تعلیم کی ترقی نے ہمیں تصور کرنا تو سکھا دیا مگر وہ ہمارے خلاف عقل اور بے تکے رجحانات دور نہیں کرسکی۔
ہم سوچتے ہیں کہ ذہین و فطین لوگ روزمرہ زندگی میں درست فیصلے کرتے ہیں...مگر واقعات و حالات سے عیاں ہے کہ یہ بات درست نہیں۔گویا اب انسان کو دماغ استعمال کرنے کے طریقے بدلنے ہوں گے۔ اسے ایسا عملی نظام تخلیق کرنا ہوگا جو دماغ کی تمام صلاحیتوں مثلاً ذہانت، عقل، تدبر، دانش، قوت فیصلہ، تنقیدی جائزے کی صلاحیت وغیرہ کو ترقی دے سکے۔ اسی تبدیلی کے بعد انسان دور جدید کی خامیاں، مسائل اور خرابیاں دور کرسکے گا جنھوں نے بنی نوع انسان کو تقسیم کررکھا ہے۔
ذہانت اور دانش کا فرق
مختلف فلسفیوں اور دانشوروں نے اپنے اقوال سے ذہانت اور دانش کے مابین فرق واضح کیا ہے:
٭...عقل ودانش ہمیشہ سچائی تک پہنچاتی ہے جبکہ ذہانت کو دھوکے بازی کرتے ہوئے کام میں لانا ممکن ہے۔
٭...علم یہ ہے کہ آپ روزانہ کچھ نہ کچھ سیکھ لیں۔دانش یہ ہے کہ آپ روزانہ کچھ نہ کچھ چیزوں کو خیرباد کہتے رہیں۔
٭...علم وذہانت سیکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔عقل ودانش انسان زندگی گذارتے ہوئے پاتا ہے۔
٭...ایک ذہین انسان آپ کو ذہانت بھرے جواب دے گا۔مگر ایک عاقل آدمی آپ سے ذہانت بھرے سوال پوچھے گا۔
٭...دانش کے بغیر ذہانت ہمیشہ تباہی لاتی ہے۔
٭...ایک ذہین آدمی آپ کا ذہن،ایک خوبصورت انسان آپ کی آنکھیں اور ایک نیک و شریف آدمی آپ کا دل کھول دیتا ہے۔
یہ دماغ ہی ہے جس نے ناخواندہ اور معمولی انسان کو علم و معلومات کے خزانے عطا کیے، اسے فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچایا اور آج وہ ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ دماغ مختلف قسم کی قوتیں رکھتا ہے۔ مثلاً سوچنے یا تصور کرنے کی قدرت' حواس کی قوت' حافظے کی قوت ۔ ذہانت بھی دماغ کی ایک اہم طاقت ہے۔ذہانت کی مدد سے دماغ ماحول سے معلومات کشید کر کے اسے محفوظ کرتا ہے۔ پھر مسائل حل کرنے میں اسی معلومات سے مدد لیتا ہے۔ ذہانت کے لغوی معنی ہیں: دماغ (یا ذہن) کی تیزی۔
فرق کو سمجھئے
عام لوگ ''عقل و دانش ''(Wisdom) اور ''ذہانت'' (Intelligence)کو ایک شے سمجھتے ہیں مگر ان کے مابین فرق ہے۔ ذہین آدمی ذہانت کو شر انگیز سرگرمیوں میں بھی استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن عاقل انسان خود کو منفی کاموں سے حتیٰ الامکان محفوظ رکھتا ہے۔ گویا عقل انسان کو نیکی اور بدی کے مابین تمیز کرنا سکھاتی ہے۔
عاقل اچھائیوں اور برائیوں کا ادراک رکھتا ہے چاہے وہ غیر معمولی طور پہ ذہین نہ ہو۔ جبکہ ایک ذہین انسان عاقل نہ ہو تو اچھائی اور برائی کے درمیان تمیز کرنے میں اسے مشکل پیش آ سکتی ہے۔ذہانت بہر حال انسانی دماغ کی عظیم ترین قوتوں میں سے ایک قوت ہے۔اہل فکر و دانش گو اس کی منفی خصوصیت کے سبب مختلف رائے رکھتے ہیں۔ مشہور سائنس داں آئن سٹائن کا خیال تھا کہ ذہین انسان وہ ہے جو زیادہ سے زیادہ علم (نالج) نہیں بلکہ سوچنے سمجھنے (تصّور کرنے) کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ ممتازیونانی فلسفی سقراط کا قول ہے: ''میں جانتا ہوں کہ ذہین ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے، میں کچھ نہیں جانتا۔'' اسی طرح ایک عبرانی کہاوت ہے: ''آپ کو خوش قسمت بننے کے لیے ذہانت کی ضرورت نہیں مگر ذہین ہونے کی خاطر آپ کو خوش قسمت ہونا چاہیے۔''
انسان اب کند ذہن بن رہا ہے؟
متنازع دماغی قوت ہونے کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ذہانت نے انسان کو ترقی یافتہ بنانے اور خوشحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دور جدید کے فلسفیوں اور دانش وروں کا تو کہناہے کہ انسان اپنی ذہانت کے زریّں ترین دور سے گذر رہا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات آپ کو عجیب لگے مگر یہ وزن ضرور رکھتی ہے۔''آئی کیو''(intelligence quotient)ٹیسٹ ایک انسان کی ذہانت جانچنے کا مشہور پیمانہ ہے۔ اس کی مختلف اقسام ہیں۔ پہلا آئی کیوٹیسٹ 1904ء میں وضع کیا گیا۔ اس میں ایک انسان جتنے زیادہ نمبر لے' وہ اتنا ہی زیادہ ذہین مانا جاتا ہے۔ پچھلے 119سال کے د وران یہ نمبر مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
مطلب یہ کہ اگر 1904ء کا کوئی نامی گرامی جینئس بھی 2019ء میں آ جائے تو وہ ایک عام بچے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ جدید دور کا ایک بچہ بھی اس سے زیادہ معلومات رکھتا ہے اور وہ ذہانت کی قوت بھی زیادہ رکھے گا۔ ماہرین اس اعجوبے کو ''فلائنن اثر''(Flynn effect) کے نام سے پکارتے ہیں۔بعض ماہرین مگر اب دعویٰ کر رہے ہیں کہ انسانی ذہانت اپنی معراج تک پہنچ چکی یعنی انسان اب مزید ذہین نہیں ہو سکتا۔ اس نے ذہانت کا جو اعلیٰ ترین معیار حاصل کرنا تھا' وہ اسے پا چکا ۔ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی ذہانت کا معکوس سفر شروع ہو چکا... یعنی دور جدید کا انسان اب کند ذہن بن رہا ہے۔ یا کم از کم اس کے مزید ذہین ہونے کا عمل انتہائی سست رفتار ہو چکا۔دور حاضر کا یہ ایک اہم سوال ہے کہ کیا انسان جتنا زیادہ ذہین ہو سکتا تھا' اس مقام پر پہنچ چکا؟ اگر یہ بات درست ہے تو یہ نیا اعجوبہ انسان کے مستقبل پر کس قسم کے اثرات مرتب کرے گا؟
دماغ کا سائز
آگے بڑھنے سے پیشتر آیئے انسانی ذہانت کے ارتقا کا جائزہ لے لیں۔ سائنس اور تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ انسان ارتقائی مراحل سے گذر کر موجود مقام تک پہنچا ۔ تاہم سائنس اور مذاہب ان مراحل کی نوعیت پر اختلاف رکھتے ہیں۔سائنس دانوں کی رو سے ارتقائے انسان کے اہم ترین مراحل میں سے ایک مرحلہ تین لاکھ سال پہلے آیا جب وہ کھڑے ہو کر چلنے لگا۔
ماہرین نے ان نیم انسانوں کو ''آسٹرلوپیتھکس'' (Australopithecus) کا خطاب دیا۔آسٹرلو پیتھکس کی ہڈیاں ' کھوپڑیاں اور ڈھانچے (رکاز) مختلف براعظموں سے دریافت ہو چکے ۔ کھوپڑیوں کے معائنے سے معلوم ہوا کہ یہ قدیم انسان چھوٹا دماغ رکھتے تھے۔ اس دماغ کا سائز 300 سے 400سینٹی میٹر کے مابین تھا۔ جبکہ دور جدید کے انسان میںدماغ کم و بیش 1350 سینٹی میٹر سائز رکھتا ہے۔
یہ یاد رہے کہ ماہرین کے نزدیک دماغ کے سائز یا جسامت اور ذہانت میں تعلق ہے۔ بالعموم جس جاندار کا دماغ اس کے وزن کے لحاظ سے جتنابڑا ہو' وہ اتنا زیادہ ذہین ہوتا ہے۔اور جسمانی وزن کے لحاظ سے تمام جانداروں میں انسانی دماغ ہی سب سے بڑا ہے۔اسی لیے وہ ذہین ترین اور اشرف المخلوقات بھی کہلایا۔دماغ کا سائز وزن اور حجم (Volume)، دو اعتبار سے جانچا جاتا ہے۔ انسانی دماغ کا سائز عموماً حجم میں سینٹی میٹر یا ملی میٹرمیں لکھا جاتا ہے۔ اصطلاح میں اسے ''کرینئل کیپیسٹی''(Cranial Capacity) کہتے ہیں۔ بہ لحاظ وزن جدید انسان کا دماغ 1300سے 1400گرام وزنی ہے۔دنیا کا سب سے چھوٹا دماغ ریگ وارم(ragworm)نامی کیڑے کا ہے۔یہ برسات میں نکلنے والے کیچوے کا رشتے دار ہے۔اس کا دماغ انسانی بال جتنا حجم (17سے180 مائکرومیٹر)رکھتا ہے۔جبکہ سپرم وہیل 7,800گرام وزنی دماغ رکھتی ہے۔یہ ظاہر ہے کہ دماغ نے روزمرہ زندگی میں کام انجام دیتے ہوئے قدیم انسانوں کو کئی فوائد پہنچائے ' اسی لیے یہ عضو مسلسل بڑھتا رہا۔ تاہم انسان کو بڑا دماغ پانے کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑی۔ آج ہمارا جسم خوراک جذب کر کے اس سے جتنی توانائی پیدا کرے' اس کا ''20فیصد '' حصّہ دماغ استعمال کرتا ہے۔ حالانکہ ہمارے جسم میں وزن کے اعتبار سے دماغ کا حصہ محض 2فیصد ہے۔
معاشرے کی بنیاد پڑی
سوال یہ ہے کہ وہ کون سے فوائد اور عوامل ہیں جن کی بنا پر انسانی دماغ جسامت میں بڑھتا چلا گیا؟ جدید سائنس نے بڑی باریک بینی سے ان عوامل پر تحقیق کی ہے۔ ماہرین کے نزدیک ایک اہم تبدیلی اس وقت آئی جب قدیم انسان مل جل کر گروہ کی صورت رہنے لگے۔آسٹرلوپیتھکس ہی وہ قدیم انسان ہیں جنہوں نے میدانی علاقوں میں گروہ کی صورت میں زندگی گزارنے کا آغاز کیا۔ان سے قبل انسان بیشتر وقت درختوں پہ گذارتے تھے اور خاندان کی شکل میں رہتے۔ اس کے بعد گروہوں کی آبادی بڑھتی چلی گئی اور یوں گاؤں' قصبے'شہر وجود میں آ ئے۔ ماہرین کے نزدیک گروہ تشکیل دینے کی اولیّں وجہ یہ تھی کہ انسانی و حیوانی دشمنوں سے محفوظ رہا جا سکے۔ ظاہر ہے' جب انسان درخت سے اتر کر زمین پر سونے لگا تو دشمنوں کے حملوں کا خطرہ بڑھ گیا۔
گروہ بنانے سے قدیم انسانوں کو نئے فوائد حاصل ہوئے۔ مثلاً وہ مل جل کر دشمن کا مقابلہ کرنے لگے۔ انہیں موقع ملا کہ وہ اپنے وسائل جمع کر کے ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔ بچوں کی حفاظت اور پرورش کا کٹھن مرحلہ بھی آسان ہو گیا کہ اب زیادہ انسان دستیاب تھے۔آج کا انسان اہل خانہ ' دوست احباب یا دیگر شہریوں سے دوستانہ تعلقات نہ رکھ سکے تو زیادہ سے زیادہ جذباتی پریشانی میں مبتلا ہوتاہے۔ لیکن ڈھائی لاکھ سال قبل کوئی قدیم انسان اپنے گروہ سے مطابقت نہ کر پاتا تو یہ اس کے لیے زندگی یاموت کا مسئلہ بن جاتا تھا۔ گویا تب انسان کے واسطے معاشرتی زندگی آج کی نسبت کہیں زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔اہل خانہ اور دوست احباب سے میل ملاپ رکھتے ہوئے آپ یہ تجربہ رکھتے ہوں گے کہ معاشرتی زندگی گزارنا اور تعلقات نبھانا خاصا کٹھن کام ہے۔ مثلاًضروری ہے کہ آپ والدین، بہنوں بھائیوں، دوستوں اور دفتری ساتھیوں... ہر فرد کی ذاتی پسند نا پسند اور دلچسپیوں سے آگاہ ہوں تاکہ انہی کے مطابق اس سے برتائو ہوسکے۔جیسے بعض بااعتماد دوست راز کی باتیں خود تک محدود رکھتے مگر کچھ بات کا بتنگڑ بناکر باتیں پھیلاتے ہیں۔
اگر آپ کسی گروہ کے ساتھ ہیں، تو ضروری ہے کہ ہر فرد کی سرگرمی سے واقف ہوں۔ تبھی آپ اپنی سرگرمیاں ان سے ہم آہنگ کرسکتے ہیں۔ ارکان گروہ کے مابین ہم آہنگی جنم نہ لے، تو آسان کام بھی کٹھن بن جاتے ہیں۔ لہٰذا گروہ تشکیل دینا اور آپس میں ہم آہنگ ہونا قدیم انسانوں کے لیے بہت بڑی ارتقائی تبدیلیاں تھیں۔گروہ بنانے سے انہیں ایک بڑا فائدہ یہ پہنچا کہ قدیم انسان ایک دوسرے سے خیالات، تصورات اور نظریات شیئر کرنے لگے۔ اس طرح مل جل کر روزمرہ کام آسان بنانے والی ایجادات سامنے لانے میں کامیاب رہے۔ مثلاً ایسے ہتھیار بن گئے جن سے جانوروں کا شکار آسان ہوا۔ دوسروں کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنے اور ان کے تجربات سے سیکھنے کی خاطر ذہانت درکار تھی۔ اسی لیے انسانی دماغ بتدریج بڑا ہونے لگا کہ مطلوبہ ذہانت کا معیار پاسکے۔
جدید انسانوں کے جدامجد
سات لاکھ سے تین لاکھ سال پہلے تک افریقہ اور یورپ میں قدیم انسانوں کی ایک نسل ''ہومو ہائیڈلبر گیجیز'' (Homo heidelbergensis) آباد رہی ۔ ان کی کھوپڑیاں افشا کرتی ہیں کہ چار سال لاکھ سال پہلے ان قدیم انسانوں کے دماغ کا سائز 1200 سینٹی میٹر تک پہنچ چکا تھا۔ گویا یہ دماغ جدید انسان کے انسان سے محض ڈیڑھ سو سینٹی میٹر چھوٹا تھا۔دماغ بڑے ہونے کا ارتقائی مرحلہ جاری رہا۔ یہی وجہ ہے، جب ستر ہزار سال پہلے جدید انسانوں کے جدامجد افریقہ سے نکلے تو وہ اتنے ذہین اور سمارٹ ہوچکے تھے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں پہنچ کر وہاں کے ماحول سے مطابقت اختیار کرلیں۔
انہی انسانوں نے مختلف غاروں میں اولیں تصاویر اور نقش و نگار بنائے۔ تصاویر سے عیاں ہے کہ ہمارے جدامجد پیچیدہ کائناتی سوالات پر غور و فکر کرنے لگے تھے۔ مثلاً یہ کہ انسان کہاں سے آیا، دنیا کس نے بنائی، نظام کائنات کون چلا رہا ہے؟غرض لاکھوں برس ارتقا کے بعد صرف چار پانچ ہزار سال قبل ہی انسانی دماغ اس قابل ہوا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے کمالات دکھانے لگے۔ سائنسی، ٹیکنالوجی، معاشی اور معاشرتی شعبوں میں بیک وقت ترقی کرنے کے سبب انسان نے کرہ ارض پر اشرف المخلوقات کا روپ دھار لیا۔ اس محیر العقول ترقی میں ذہانت نے اہم کردار ادا کیا۔
''فلائنن اثر''
1904ء میں آئی کیو ٹیسٹ ایجاد کیے گئے تاکہ دیکھا جاسکے، مختلف انسان ذہانت کا کیسا معیار رکھتے ہیں۔ یہ انسانی ذہانت جانچنے کا قطعی پیمانہ نہیں مگر آئی کیو ٹیسٹوں کی بدولت خاصی حد تک معلوم ہوسکتا ہے کہ ایک بچہ یا بالغ کتنا ذہین ہے۔ وہ ریاضی کے سوال حل کرلیتا ہے یا نہیں؟ کسی مشکل میں پھنس کر اس سے نکلنے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے؟ آئی کیو ٹیسٹ میں کل 100 نمبر ہوتے ہیں۔ جو انسان جتنے زیادہ نمبر حاصل کرے، اتنا ہی ذہین تصور ہوتا ہے۔بیسویں صدی کے اواخر میں نیوزی لینڈ کے ایک دانشور، جیمز فلائنن نے آئی کیو ٹیسٹوں کی تاریخ کا جائزہ لیا۔تحقیق سے انکشاف ہوا کہ ہر عشرے میں انسان آئی کیو ٹیسٹوں میں تین چار نمبر زیادہ لیتا رہا۔ یہ علامت تھی کہ انسانی ذہانت کا معیار بلند ہورہا ہے۔ اسی اعجوبے کو ''فلائنن اثر'' کا نام دیا گیا۔
ذہانت کو بڑھاوا دینے والے عمل
انسانی ذہانت میں اضافے نے مختلف وجوہ کی بنا پر جنم لیا۔پچھلی ایک صدی میں انسان کو پیٹ بھر کر خوراک ملنے لگی۔ بیماریوں پر قابو پالیا گیا۔ انسانوں کو علم و معلومات سے بھرپور کتابیں میسر آگئیں۔ سیکھنے سکھانے کے نئے طریقے وجود میں آئے۔ غرض کئی عوامل نے مل کر انسانی ذہانت کو بڑھاوا دیا۔ مگر یہ ترقی دیگر چیزوں میں بھی دیکھنے کو ملی۔ بیسویں صدی میں انسان کا قد پچھلے انسانوں کے مقابلے میں 5 انچ زیادہ بڑھ گیا۔ تبدیلی کی وجہ یہی کہ انسان کی مجموعی صحت بہتر ہوگئی۔ترقی یافتہ ممالک میں خصوصاً پابندیوں سے آزاد نظام تعلیم رائج ہونے سے بھی انسانی ذہانت میں اضافہ ہوا۔ اس نظام تعلیم میں بچوں کو غورو فکر کرنے پر اکسایا جاتا ہے مثلاً یہ کہ فلاں جانور ممالیہ ہے یا خزندہ۔ اس قسم کے آزادانہ ماحول میں پرورش پانے سے انسانی ذہانت ان خصوصیات سے متصف ہوئی جو آئی کیو ٹیسٹوں میں کامیابیاں دلواتی ہیں۔ اسی لیے ٹیسٹوں کے نمبر ہر عشرے بعد بڑھتے چلے گئے۔
معیار گرنے لگا
اکیسویں صدی میں مگر آئی کیو ٹیسٹوں میں ٹھہرائو آچکا بلکہ کئی ممالک میں بچے پہلے کی نسبت ان امتحانوں میں کم نمبر لے رہے ہیں۔ ان ملکوں میں فن لینڈ، ڈنمارک اور ناروے سرفہرست ہیں۔ ماضی میں ان ممالک کے بچے آئی کیو ٹیسٹوں میں سب سے زیادہ نمبر لیتے تھے۔اب سکول و کالج جانے والے طلبہ کم نمبر لے رہے ہیں۔ذہانت کا معیار گرنے کی بھی مختلف وجوہ ہیں۔ مثلاً اب پوری دنیا میں بچے کیلکولیٹر یا سمارٹ فون سے ریاضی کے سوال حل کرتے ہیں۔ طبیعات یا کیمیا کے کسی سوال کا جواب لکھنا ہو، تو حل شدہ جوابات یا انٹرنیٹ سے مدد لی جاتی ہے۔ غرض مشینی و ڈیجیٹل مدد گار انسانوں کی ذہنی صلاحیتیں کند کررہے ہیں۔
رٹا لگانے یا معلومات کو ذہن نشین کرنے کے عمل نے بھی آزادانہ سوچ پر پہرے بٹھا دیئے اور یوں انسانی ذہانت کا ارتقا رک گیا۔اب ایک پانچ سالہ بچہ بھی کی بورڈ اور کمپیوٹر چلانا مشق سے سیکھ لے، تو یہ جدید ترین مشین چلا سکتا ہے۔ اسی طرح روزمرہ زندگی میں وہ مشق سے کئی کاموں کی ماہیت اور طریق کار سمجھ جائے، تو انہیں بھی انجام دے لیتا ہے۔ جب ایک بچہ رٹے اور مشق کے ماحول میں پرورش پائے، تو اس کی ذہانت خود بخود ایسی صلاحیتیں حاصل کرلیتی ہے جو آئی کیو ٹیسٹ میں عمدہ کارکردگی دکھانے کے لیے ضروری ہوں۔
انسانی زندگی میں مشینوں کا بڑھتا عمل دخل ہماری ذہانت بتدریج کند کرنے کی ایک اہم وجہ ہے۔ ماہرین نے تحقیق سے دریافت کیا ہے کہ انسانی ذہانت 1990ء کے بعد سے زوال پذیر ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب کمپیوٹر کے دور کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد موبائل فون اور سمارٹ فون انسانی زندگی میں چلے آئے بلکہ چھاگئے۔ حتیٰ کہ شعبہ تعلیم میں بھی مشینوں کا عمل دخل بڑھ گیا۔ یہی وجہ ہے، تعلیم اب انسانی ذہانت بڑھانے کے لیے تحرک نہیں رہی۔ یعنی جدید تعلیم انسان کو کچھ نیا سوچنے پر نہیں ابھارتی۔ طالب علم مشینوں کی مدد سے لگی بندھی ڈگر پر چلنے لگا ہے اور وہ کوئی نیا پن نہیں دکھا پاتا۔
ترقی سے ہمیں کیا ملا؟
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ ہمارا جدید طرز زندگی ہماری ذہانت میں عجیب و غریب تبدیلیاں لارہا ہے۔ چند سال قبل امریکی ماہر عمرانیات، ایلسی بولڈنگ نے اعلان کیا تھا کہ جدید انسانی معاشرہ عارضی تھکن و کمزوری کا شکار ہوچکا۔ وجہ یہ کہ اگر ہر انسان حال کا مقابلہ کرتے ہوئے ہانپنے لگے تو پھر مستقبل کا مقابلہ کرنے کے لیے اس میں توانائی نہیں رہتی۔آج دنیا بھر میں ماہرین اور سائنس داں یہ جاننے کی خاطر تحقیق و تجربات کررہے ہیں کہ انسانی ذہانت کا ارتقا کیوں جامد ہوچکا؟ ساتھ ساتھ بعض ماہرین یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ پچھلے ایک سو برس میں انسانی ذہانت کی زبردست ترقی سے بنی نوع انسان اور ہمارے معاشرے کو مجموعی طور پر کیا فائدہ پہنچا؟ اس ضمن میں امریکی کورنیل یونیورسٹی سے وابستہ ماہر نفسیات، پروفیسر رابرٹ اسٹرن برگ کا کہنا ہے:
''اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کا انسان بہ آسانی پیچیدہ مشینیں چلا لیتا ہے۔ سو سال پہلے کا انسان یہ صلاحیتیں نہیں رکھتا تھا۔سوال یہ ہے کہ انسانی ذہانت میں اضافے سے انسانیت کو کیا فوائد ملے؟ نظر تو یہی آتا ہے کہ ذہانت میں اضافہ کوئی انقلاب نہیں لاسکا۔ آج بھی انسان ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ دنیا میں غربت کا دور دورہ ہے۔ انسان اپنی سرگرمیوں سے ماحول تباہ کررہا ہے۔ حسین فطری مقامات آلودگی سے لتھڑ چکے۔ انسانی ذہانت میں ترقی سے ہمیں کیا ملا؟''
مجموعی صلاحیت پر کامل اثر
پروفیسر رابرٹ اسٹرن برگ کا درج بالا بیان خاصا قنوطی ہے۔ انسانی ذہانت میں اضافے سے بنی نوع انسان کو فوائد بھی حاصل ہوئے۔ مثلاً نت نئی ادویہ ایجاد ہوئیں جن کی مدد سے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بچائی جاچکیں۔ پھر ان گنت ایجادات سے انسان کی زندگی ماضی کے مقابلے میں زیادہ سہل انداز سے بسر ہونے لگی۔ غربت ختم تو نہیں ہوسکی مگر اس میں کمی ضرور آئی۔ غرض انسانی ذہانت کی ترقی سے انسانیت کو کئی فائدے بھی ملے۔تاہم پروفیسر رابرٹ کی طرح بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ انسانی ذہانت میں اضافے سے انسان کی مجموعی شخصیت کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچا۔ اس ضمن میں جیمز فلائنن نے بھی یہ نظریہ پیش کیا کہ انسانی ذہانت میں اضافہ انسان کے دماغ کی بعض مہارتوں (Skills) ہی کو تیز و عمدہ بنا سکا ہے۔
یہ نظریہ اس مثال سے سمجھیے کہ انسان اپنے ہر عضوِ جسم کو صحت مند رکھنے کی خاطر مختلف ورزشیں کرتا ہے۔ ہر ورزش ایک ہی عضو مثلاً پیٹ، گردن یا ٹانگ کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے۔ اگر انسان صرف ایک دو ورزشیں کرے، تو متعلقہ عضو تو عمدہ ہوجائے گا مگر اس کی مجموعی تندرستی پر خاص مثبت اثر نہیں پڑے گا۔ اسی طرح ماہرین کا خیال ہے کہ انسان نے فکرو سوچ کی بعض ورزشیں کرکے اپنی کچھ ذہنی صلاحیتیں ضرور بڑھالیں، مگر ان سے ہماری ذہانت کی مجموعی صلاحیت پر کامل اثر نہیں پڑا۔ گویا اب انسان کے لیے لازم ہے کہ انسانی دماغ کی جو صلاحیتیں اور مہارتیں ترقی نہیں کرسکیں، وہ انہیں ترقی دے تاکہ مستقبل کے چیلنجوں کا بخوبی مقابلہ کرسکے۔
تخلیقی سوچ جامد رہی
مثال کے طور پر انسان کی تخلیقی صلاحیت یا مہارت ہی کو لیجیے۔ جب ماہرین اس کا ذکر کریں، تو محض یہ مراد نہیں ہوتی کہ انسان تصویر بنالے، افسانہ لکھ لے یا اداکاری کرے بلکہ دیگر مہارتیں بھی تخلیقیت کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ مثلاً یہ کہ آپ کتنی آسانی سے مسائل حل کرلیتے ہیں؟ پھر آپ کی ''کائونٹر فیکچوئل سوچ'' کتنی عمدہ ہے؟ انسان اسی سوچ کے سہارے ایسے پسندیدہ یا ناخوشگوار حالات و واقعات کا تصور کرتا ہے جو ابھی ظہور پذیر نہیں ہوئے۔درست کہ ذہانت بڑھنے سے انسان کی تخلیقی صلاحیت پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پچھلی ایک صدی کے دوران آئی کیو بڑھنے سے انسان کی تخلیقی صلاحیت میں نمایاں بہتری نہیں آئی۔ گویا انسان کا آئی کیو جن وجوہ سے بھی بڑھا، انہوں نے ہماری تخلیقی صلاحیت بہتر نہیں بنائی۔ اسی لیے انسان نت نئے طریقوں سے سوچنے کے قابل نہ ہوسکا۔ اس کی تخلیقی سوچ جامد ہی رہی۔
قوت فیصلہ اور تنقیدی جائزہ
انسان کی ''قوت فیصلہ'' کو بھی لیجیے۔ اسی قوت کے ذریعے ہم بہترین فیصلے کرتے ہیں۔ ثبوت کو تولتے، بیکار باتوں سے پیچھا چھڑاتے اور کسی معاملے کا مبنی برعقل فیصلہ کرتے ہیں۔ آپ یقیناً خیال کریں گے کہ انسان جتنا زیادہ ذہین ہو، اس کی قوت فیصلہ بھی اتنی زیادہ بہترین ہوگی۔ لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ وجہ یہ کہ قوت فیصلہ ہماری دیگر دماغی صلاحیتوں پر بھی انحصار کرتی ہے۔ اسی لیے بعض اوقات کوئی فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔آپ نے شاپنگ سینٹر میں گھومتے پھرتے دو اقسام کے دودھ دیکھے۔ دودھ کے ایک پر لکھا ہے: 95 فیصد چکنائی سے پاک۔ دوسرے ڈبے پر درج ہے: 5 فیصد چکنائی ہے۔
مردوزن کی اکثریت ''95 فیصد چکنائی سے پاک'' والا دودھ خریدے گی، حالانکہ 5 فیصد چکنائی والا دودھ بھی اس جیسا ہی ہے۔ نفسیات کی اصطلاح میں یہ عجوبہ ''فریمنگ بائس ''(Framing Bias) کہلاتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ذہین ترین مردوزن بھی اس قسم کے تناقص سے نہیں بچ پاتے اور قیمتوں کے گورکھ دھندے میں پھنس جاتے ہیں۔
ماہرین نے تحقیق و تجربات سے دریافت کیا کہ ذہین انسان ایک اور خلا ''سنک کوسٹ بائس''(sunk cost bias) کے پھندے میں بھی پھنستے ہیں۔ یہ وہ حالت ہے جب انسان خسارے میں جاتے کاروبار میں بھی پیسہ لگاتا رہتا ہے حالانکہ اسے اپنا ہاتھ روک لینا چاہیے۔ کاروباری دنیا میں یہ بائس اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ حکومتیں بھی اس کے جال میں گرفتار رہتی ہے۔ مثلاً برطانوی اور فرانسیسی حکومتیں مسلسل کونکورڈ طیارے کے منصوبے کی فنڈنگ کرتی رہیں حالانکہ عرصہ پہلے معلوم ہوگیا تھا کہ یہ منصوبہ تجارتی لحاظ سے سود مند نہیں۔انتہائی ذہین انسان ''عارضی ڈس کائونٹنگ'' کے امتحان میں بھی فیل ہوجاتے ہیں۔
اس فیصلے سے انسان وقتی فائدے چھوڑ کر طویل المدتی فائدوں کو ترجیح دیتا ہے۔ آپ اگر مستقبل میں آرام و سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے۔اسی طرح اپنے کلام و عمل کا تنقیدی جائزہ لینا بھی انسانی ذہانت کی اہم ذمے داری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دور جدید کی تعلیم ذہانت کے اس شعبے میں خاص بہتری نہیں لاسکی۔ یہی وجہ ہے، آج کے بیشتر طالب علم تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ مثلاً یہ کہ اپنے نظریات اور کاموں میں خامیاں تلاش کی جائیں اور دیکھا جائے کہ انہیں کس طرح دور کیا جائے۔
حاصل ِکلام
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ ذہانت کے بڑھتے معیار نے انسان کی تمام دماغی صلاحیتوں پر یکساں اثر نہیں ڈالے۔ پچھلی ایک صدی میں انسان کی ذہانت ضرور بڑھ گئی مگر یہ بڑھوتری تصوراتی(abstract) شعبے میں زیادہ آئی۔ دیگر دماغی صلاحیتوں مثلاً قوت فیصلہ اور تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا۔ یہی وجہ ہے آج بھی دھوکا کھا جانا عام ہے۔ عام زندگی اور کاروباری دنیا میں ہر سال ہزارہا لوگ فراڈ کی بنا پر کروڑوں روپے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ وہ جعلی ادویہ خریدتے یا جعلی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر ڈالتے ہیں۔
انسانی دماغ کی تاریخ سے عیاں ہے کہ اسی کی ارتقائی ترقی کے باعث انسان پیچیدہ معاشرے میں رہنے کے قابل ہوا۔ خصوصاً پچھلی ایک صدی میں اس کی ذہانت بھی عروج پاچکی۔ لیکن انسان اپنی تمام دماغی صلاحیتوں کو کامل و مکمل نہیں کرسکا۔ اسی باعث آج بھی انسان سے خطرناک و خوفناک غلطیاں ہوتی ہیں۔ انسان نے مل جل کر، امن سے رہنا نہیں سیکھا اور لڑائیوں میں مصروف رہتا ہے۔ وہ جعلی و جھوٹی خبروں پر بھی اعتبار کرلیتا ہے جو معاشروں میں تصادم و فساد بڑھاتی ہیں۔علم اور تعلیم کی ترقی نے ہمیں تصور کرنا تو سکھا دیا مگر وہ ہمارے خلاف عقل اور بے تکے رجحانات دور نہیں کرسکی۔
ہم سوچتے ہیں کہ ذہین و فطین لوگ روزمرہ زندگی میں درست فیصلے کرتے ہیں...مگر واقعات و حالات سے عیاں ہے کہ یہ بات درست نہیں۔گویا اب انسان کو دماغ استعمال کرنے کے طریقے بدلنے ہوں گے۔ اسے ایسا عملی نظام تخلیق کرنا ہوگا جو دماغ کی تمام صلاحیتوں مثلاً ذہانت، عقل، تدبر، دانش، قوت فیصلہ، تنقیدی جائزے کی صلاحیت وغیرہ کو ترقی دے سکے۔ اسی تبدیلی کے بعد انسان دور جدید کی خامیاں، مسائل اور خرابیاں دور کرسکے گا جنھوں نے بنی نوع انسان کو تقسیم کررکھا ہے۔
ذہانت اور دانش کا فرق
مختلف فلسفیوں اور دانشوروں نے اپنے اقوال سے ذہانت اور دانش کے مابین فرق واضح کیا ہے:
٭...عقل ودانش ہمیشہ سچائی تک پہنچاتی ہے جبکہ ذہانت کو دھوکے بازی کرتے ہوئے کام میں لانا ممکن ہے۔
٭...علم یہ ہے کہ آپ روزانہ کچھ نہ کچھ سیکھ لیں۔دانش یہ ہے کہ آپ روزانہ کچھ نہ کچھ چیزوں کو خیرباد کہتے رہیں۔
٭...علم وذہانت سیکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔عقل ودانش انسان زندگی گذارتے ہوئے پاتا ہے۔
٭...ایک ذہین انسان آپ کو ذہانت بھرے جواب دے گا۔مگر ایک عاقل آدمی آپ سے ذہانت بھرے سوال پوچھے گا۔
٭...دانش کے بغیر ذہانت ہمیشہ تباہی لاتی ہے۔
٭...ایک ذہین آدمی آپ کا ذہن،ایک خوبصورت انسان آپ کی آنکھیں اور ایک نیک و شریف آدمی آپ کا دل کھول دیتا ہے۔