پاکستان کو تنہا کرنے کی بھارتی کوششیں رائیگاں
بھارت کی ایک نہیں بن پا رہی، اس کی کوششیں رائیگاں گئی ہیں۔
ستمبر 2019 میں وزیرِاعظم امریکا گئے جہاں انھوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ وہاں سائڈ لائن پر ان کی متعدد عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردوان اور ملائیشیا کے وزیرِاعظم جناب مہاتر محمد نے کھل کر کشمیر پر بھارتی اقدامات کی مخالفت اور پاکستانی موئقف کی حمایت کی۔
وزیرِاعظم پاکستان نے دونوں لیڈروں کے سامنے مسلمان ممالک کا خاص طور پر گلہ کیا کہ انھیں مسلمانانِ کشمیر کی مشکلات اور تکالیف کا احساس نہیں۔ تینوںنے سوچا کہ مسلم امہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے جلد ہی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔
ملائیشیا کے وزیر ِاعظم جناب مہاتر محمد نے آفر دی کہ وہ ایسی کانفرنس کی کوالالمپور میں میزبانی کے لیے تیار ہیں، یوں کوالالمپور کانفرنس ہونی طے پائی۔ ایران، ترکی اور پاکستان نے کانفرنس میں اپنی شرکت کی تصدیق بھی کر دی پھر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جناب عمران خان صاحب ہی جن کو اس کانفرنس کا روحِ رواں ہونا چاہیے تھا وہی بوجوہ نہ جا سکے۔
وزیرِ اعظم کی کانفرنس میں غیر حاضری کا جناب مہاتر محمد اور جناب طیب اردوان کو دکھ ضرور ہوا ہو گا لیکن دونوں رہنماؤں نے دل پر نہیں لیا۔ پھر جناب عمران خان ملائیشیا کے دورے پر چلے گئے اور یوں دونوں ممالک پھر سے قریب آ گئے۔ترکی ایک عظیم برادر ملک ہے۔ ترکی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کبھی اونچ نیچ نہیں آئی۔ جناب عمران خان کو ملائیشیا تو جانا پڑا لیکن جناب طیب اردوان نے تو کمال ہی کر دیا۔ وہ خود اسلام آباد پہنچ گئے۔
پاکستان میں ترک ری پبلک کے معزز صدر نے کشمیر پر واضح طور پر کہا کہ بھارتی اقدامات غلط ہیں۔ مسئلہ کشمیر کشمیر یوں کی آزادانہ رائے سے حل ہونا چاہیے۔ کشمیر صرف کشمیریوں کا اور پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ترکی کا بھی مسئلہ ہے ۔ انھوں نے القدس الشریف پر صدر ٹرمپ اور اسرائیل کی جانب سے مسلط کیے جانے والے نام نہاد حل کے خلاف بھرپور آواز اُٹھائی۔
جناب طیب اردوان نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب کیا۔ یہ ترک صدر کا پاکستان کی پارلیمنٹ سے چوتھا خطاب تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلی دفعہ جب وہ خطاب کرنے کے لیے پارلیمنٹ تشریف لائے تو جناب عمران خان نے بائیکاٹ کیا تھا ، اس دفعہ وہ خود ان کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل جناب انتونیو گویٹریس چار روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے۔ 1979 میں افغانستان پر روسی حملے اور اس کے نتیجے میں لا تعداد افغان مہاجر ین کی پاکستان آمد کو چالیس سال ہو چکے ہیں۔
افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کے بعد کچھ مہاجرین واپس گئے ہیں لیکن زیادہ تر اب بھی یہیںہیں۔ افغانستان واپس جانے والوں میں سے بہت سے امداد وصولی کے لیے ایک بار چلے جاتے ہیں لیکن پھر لوٹ آتے ہیں۔ پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کا شاید ہی کوئی قصبہ ہو جہاں افغان آبادی نہ ہو۔ یہی افغان مہاجرین ایران بھی گئے تھے لیکن ایران نے انھیں مہاجر کیمپوں میں پابند کر کے رکھا اور مقامی ایرانی آبادی کا حصہ نہیں بننے دیا جب کہ پاکستان نے بظاہر مہاجرین کیمپ تو بنائے مگر ان کے کیمپوں سے باہر جانے اور کاروبار کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی اس لیے افغان مہاجرین ہماری آبادی کا حصہ بن گئے۔ وہ یہاں غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے۔
کلاشنکوف کلچر اور منشیات کی بہتات اسی وجہ سے آئی ۔ اس کے باوجود پاکستان پر ایک طرف تو یہ دباؤ رکھا گیا کہ پاکستان افغان مہاجرین کو بیدخل نہ کرے اور دوسری طرف یہ الزام دھرا گیاکہ پاکستان نے دہشتگردوں کے لیے پناہ گاہیں مہیا کر رکھی ہیں۔افغان مہاجرین کو پاکستان میں چالیس سال مکمل ہونے پر اسلام آباد میں ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ انتونیو گویٹریس اسی کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائے، سیکریٹری جنرل 30 اپریل 1949کو پرتگال میں پیدا ہوئے۔ آپ پرتگال کے وزیر ِاعظم بھی رہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بننے سے پہلے وہ اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین تھے۔ پاکستان دو دہائیوں تک سب سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کرنے والا ملک تھا اور اس وقت بھی ترکی کے بعد دوسرا ملک ہے۔ پاکستان اقوامِ متحدہ کے تحت امن مشنز میں دستے بھیجنے والا سب سے بڑا Contributor ہے، حال ہی میں32 پاکستانی خواتین کے ایک دستے نے امن مشن میں شمولیت اختیار کی ہے۔
بھارت کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ وہ پاکستان کو بین الاقوامی میدان میں تنہا کر کے اپنے مفادات کی آبیاری کرے۔ وزیراعظم جناب عمران خان کا کامیاب دورہٗ ملائیشیا اور اس کے بعد دو بڑے عالمی لیڈروں کی آگے پیچھے پاکستان آمد، عالمی کبڈی چیمپین شپ کا انعقاد،کرکٹ ٹیموں کی پاکستان آمد اور پی ایس ایل کا انعقاد اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان کو تنہا کرنے کی بھارتی کوششوں کے باوجود پاکستان تنہا بالکل نہیں ہے۔
بھارت کی ایک نہیں بن پا رہی، اس کی کوششیں رائیگاں گئی ہیں۔کشمیر پر بھارت کے 5 اگست کے اقدامات، شہریت بِل وغیرہ پر عالمی ردِ عمل نے بھارت پر دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔ بھارت دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت، سیکولر اسٹیٹ، اور غیر جانبدار ملک ہونے کا ڈھنڈھورا پیٹتا چلا آ رہا تھا لیکن اس کے غیر انسانی اقدامات نے اس کا مکروہ چہرہ سامنے کر دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا دورہ ہمارے لیے ایک سنہری موقع فراہم کر گیا ہے۔ ان کے چار روزہ دورہ کے دوران جہاں پاکستان کے بارے میں ان کی جانکاری میں بہت اضافہ ہوا ہو گا ان کو کشمیر پر تمام پہلوؤں سے آگاہ کرنے میں پاکستان کو بہت مدد اور موقع ملا ہے۔
اتنی Concentrated Dose نیویارک میں کسی بھی میٹنگ یا اجلاس میں دینی ممکن نہیں تھی۔ امید ہے کشمیر ایشو کے قانونی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ایک انسانی المیہ کے طور پر پوری تصویر سیکریٹری جنرل کے سامنے آ چکی ہو گی۔ کشمیر کے علاوہ پاکستان کی جانب سے افغان امن کوششوں سے بھی خاطر خواہ آگاہی ہوئی ہو گی۔ انتونیو گوئٹریس کے دورہٗ کر تار پور نے یہ بھی دکھا دیا ہو گا کہ پاکستان میں اقلیتیں خوش وخرم ہیں ۔ انتونیو گوئیٹریس کے دورہٗ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انھیں پاکستان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نسل سے گہرے رابطے کا موقع میسر آیا ہے اور ان کی باڈی لینگوئج بتا رہی تھی کہ وہ پاکستانی نوجوانوں سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ جی ہاںہمارے نوجوان ہمارے روشن مستقبل کی علامت ہیں۔
وزیرِاعظم پاکستان نے دونوں لیڈروں کے سامنے مسلمان ممالک کا خاص طور پر گلہ کیا کہ انھیں مسلمانانِ کشمیر کی مشکلات اور تکالیف کا احساس نہیں۔ تینوںنے سوچا کہ مسلم امہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے جلد ہی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔
ملائیشیا کے وزیر ِاعظم جناب مہاتر محمد نے آفر دی کہ وہ ایسی کانفرنس کی کوالالمپور میں میزبانی کے لیے تیار ہیں، یوں کوالالمپور کانفرنس ہونی طے پائی۔ ایران، ترکی اور پاکستان نے کانفرنس میں اپنی شرکت کی تصدیق بھی کر دی پھر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جناب عمران خان صاحب ہی جن کو اس کانفرنس کا روحِ رواں ہونا چاہیے تھا وہی بوجوہ نہ جا سکے۔
وزیرِ اعظم کی کانفرنس میں غیر حاضری کا جناب مہاتر محمد اور جناب طیب اردوان کو دکھ ضرور ہوا ہو گا لیکن دونوں رہنماؤں نے دل پر نہیں لیا۔ پھر جناب عمران خان ملائیشیا کے دورے پر چلے گئے اور یوں دونوں ممالک پھر سے قریب آ گئے۔ترکی ایک عظیم برادر ملک ہے۔ ترکی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کبھی اونچ نیچ نہیں آئی۔ جناب عمران خان کو ملائیشیا تو جانا پڑا لیکن جناب طیب اردوان نے تو کمال ہی کر دیا۔ وہ خود اسلام آباد پہنچ گئے۔
پاکستان میں ترک ری پبلک کے معزز صدر نے کشمیر پر واضح طور پر کہا کہ بھارتی اقدامات غلط ہیں۔ مسئلہ کشمیر کشمیر یوں کی آزادانہ رائے سے حل ہونا چاہیے۔ کشمیر صرف کشمیریوں کا اور پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ترکی کا بھی مسئلہ ہے ۔ انھوں نے القدس الشریف پر صدر ٹرمپ اور اسرائیل کی جانب سے مسلط کیے جانے والے نام نہاد حل کے خلاف بھرپور آواز اُٹھائی۔
جناب طیب اردوان نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب کیا۔ یہ ترک صدر کا پاکستان کی پارلیمنٹ سے چوتھا خطاب تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلی دفعہ جب وہ خطاب کرنے کے لیے پارلیمنٹ تشریف لائے تو جناب عمران خان نے بائیکاٹ کیا تھا ، اس دفعہ وہ خود ان کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل جناب انتونیو گویٹریس چار روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے۔ 1979 میں افغانستان پر روسی حملے اور اس کے نتیجے میں لا تعداد افغان مہاجر ین کی پاکستان آمد کو چالیس سال ہو چکے ہیں۔
افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کے بعد کچھ مہاجرین واپس گئے ہیں لیکن زیادہ تر اب بھی یہیںہیں۔ افغانستان واپس جانے والوں میں سے بہت سے امداد وصولی کے لیے ایک بار چلے جاتے ہیں لیکن پھر لوٹ آتے ہیں۔ پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کا شاید ہی کوئی قصبہ ہو جہاں افغان آبادی نہ ہو۔ یہی افغان مہاجرین ایران بھی گئے تھے لیکن ایران نے انھیں مہاجر کیمپوں میں پابند کر کے رکھا اور مقامی ایرانی آبادی کا حصہ نہیں بننے دیا جب کہ پاکستان نے بظاہر مہاجرین کیمپ تو بنائے مگر ان کے کیمپوں سے باہر جانے اور کاروبار کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی اس لیے افغان مہاجرین ہماری آبادی کا حصہ بن گئے۔ وہ یہاں غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے۔
کلاشنکوف کلچر اور منشیات کی بہتات اسی وجہ سے آئی ۔ اس کے باوجود پاکستان پر ایک طرف تو یہ دباؤ رکھا گیا کہ پاکستان افغان مہاجرین کو بیدخل نہ کرے اور دوسری طرف یہ الزام دھرا گیاکہ پاکستان نے دہشتگردوں کے لیے پناہ گاہیں مہیا کر رکھی ہیں۔افغان مہاجرین کو پاکستان میں چالیس سال مکمل ہونے پر اسلام آباد میں ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ انتونیو گویٹریس اسی کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائے، سیکریٹری جنرل 30 اپریل 1949کو پرتگال میں پیدا ہوئے۔ آپ پرتگال کے وزیر ِاعظم بھی رہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بننے سے پہلے وہ اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین تھے۔ پاکستان دو دہائیوں تک سب سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کرنے والا ملک تھا اور اس وقت بھی ترکی کے بعد دوسرا ملک ہے۔ پاکستان اقوامِ متحدہ کے تحت امن مشنز میں دستے بھیجنے والا سب سے بڑا Contributor ہے، حال ہی میں32 پاکستانی خواتین کے ایک دستے نے امن مشن میں شمولیت اختیار کی ہے۔
بھارت کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ وہ پاکستان کو بین الاقوامی میدان میں تنہا کر کے اپنے مفادات کی آبیاری کرے۔ وزیراعظم جناب عمران خان کا کامیاب دورہٗ ملائیشیا اور اس کے بعد دو بڑے عالمی لیڈروں کی آگے پیچھے پاکستان آمد، عالمی کبڈی چیمپین شپ کا انعقاد،کرکٹ ٹیموں کی پاکستان آمد اور پی ایس ایل کا انعقاد اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان کو تنہا کرنے کی بھارتی کوششوں کے باوجود پاکستان تنہا بالکل نہیں ہے۔
بھارت کی ایک نہیں بن پا رہی، اس کی کوششیں رائیگاں گئی ہیں۔کشمیر پر بھارت کے 5 اگست کے اقدامات، شہریت بِل وغیرہ پر عالمی ردِ عمل نے بھارت پر دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔ بھارت دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت، سیکولر اسٹیٹ، اور غیر جانبدار ملک ہونے کا ڈھنڈھورا پیٹتا چلا آ رہا تھا لیکن اس کے غیر انسانی اقدامات نے اس کا مکروہ چہرہ سامنے کر دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا دورہ ہمارے لیے ایک سنہری موقع فراہم کر گیا ہے۔ ان کے چار روزہ دورہ کے دوران جہاں پاکستان کے بارے میں ان کی جانکاری میں بہت اضافہ ہوا ہو گا ان کو کشمیر پر تمام پہلوؤں سے آگاہ کرنے میں پاکستان کو بہت مدد اور موقع ملا ہے۔
اتنی Concentrated Dose نیویارک میں کسی بھی میٹنگ یا اجلاس میں دینی ممکن نہیں تھی۔ امید ہے کشمیر ایشو کے قانونی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ایک انسانی المیہ کے طور پر پوری تصویر سیکریٹری جنرل کے سامنے آ چکی ہو گی۔ کشمیر کے علاوہ پاکستان کی جانب سے افغان امن کوششوں سے بھی خاطر خواہ آگاہی ہوئی ہو گی۔ انتونیو گوئٹریس کے دورہٗ کر تار پور نے یہ بھی دکھا دیا ہو گا کہ پاکستان میں اقلیتیں خوش وخرم ہیں ۔ انتونیو گوئیٹریس کے دورہٗ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انھیں پاکستان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نسل سے گہرے رابطے کا موقع میسر آیا ہے اور ان کی باڈی لینگوئج بتا رہی تھی کہ وہ پاکستانی نوجوانوں سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ جی ہاںہمارے نوجوان ہمارے روشن مستقبل کی علامت ہیں۔