چارہ گری کی دعویدارحکومت خود اپنے چارہ گرکے ڈرون کا شکار
حکومت کو ڈرون حملوں پر صرف تشویش کا اظہار ختم کرنا چاہیے اور کوئی مستقل اور مؤثر لائحہ عمل اختیارکرے، لیاقت بلوچ
ڈرون اور مہنگائی کے شکار عوام کی چارہ گری کرنے کے دعوے کرتی ہوئی حکومت خود اپنے سب سے بڑے چارہ گرکے ڈرون حملوں کی زد میں ہے۔
اس ناگہانی آفت نے پہلی دفعہ کسی حکومت کو اس قدر کنفیوژن کا شکار کردیا ہے کہ اس کی بے بسی وزرا کے بے ربط اور متضادبیانات سے عیاں ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیزکے بیان کے فوراً بعد ڈرون حملہ بقول اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ خودمشیر خارجہ کو جالگا جبکہ اسی حکومت کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اس قدر سیخ پا ہیں کہ ڈالر اور غیرت کا موازنہ شروع کردیا ہے۔ شیخ رشید احمد اس سارے معاملے کو ایک مستقل وزیرخارجہ کی عدم موجودگی قراردیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف کے قریبی عزیزوں میں کوئی ایسا بے عہدہ شخص نہیں ہے جسے وزیرخارجہ مقرر کیاجاسکے۔ اگر مستقل وزیرخارجہ نہیں ہوگا تو سرتاج عزیز کے بیان چوہدری نثار کی سمجھ سے بالاتر ہی ہوں گے۔ شاہ محمود قریشی نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر چوہدری نثارکے امریکا کے بارے میں بیان کو خواب سراہا ہے اور حکومت کو دعوت دی ہے کہ امریکا کی دوغلی پالیسی کے اؐدراک کے بعد اب انھیں تحریک انصاف کے موقف کی حمایت کرنی چاہیے اور پہلے قدم کے طور پر آج کے دھرنے میں تحریک انصاف کا ساتھ دیں۔
شاہ محمودقریشی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کو سمجھ آہی گئی ہے تو اسے امریکہ کیخلاف سخت مؤقف اختیار کرنے میں کیا امر مانع ہے۔ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ نے سرتاج عزیز کے عمل کو ڈرون حملوں کے بیان کے حوالے سے حکومت کی سبکی کرانے کی کوشش قراردیا ۔ انہوں نے بھی مستقل وزیرخارجہ کے تقرر پر زور دیتے ہوئے کہاکہ یہ محاذ خالی رہے گا تو ڈرون حملے ہوتے رہیں گے۔ حکومت کو ڈرون حملوں پر صرف تشویش کا اظہار ختم کرنا چاہیے اور کوئی مستقل اور مؤثر لائحہ عمل اختیارکرے۔ 21 نومبر کی صبح 5 بجے ہنگو کے مدرسہ مفتاح القرآن پر ہونیوالے امریکی ڈرون حملے نے مسلم لیگ (ن)کی بھاری مینڈیٹ یافتہ حکومت کی کنفیوژن سے بھر پور خارجی و حکومتی پالیسیوں کا پردہ چاک کر دیاہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز اس سے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میںیہ بیان دے چکے تھے کہ اب امریکہ نے یقین دہانی کرا دی ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملہ نہ کریگا،خیال کیا جا رہا تھا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے ڈرون حملوں کیخلاف بلائے گئے 23 نومبر کے عوامی احتجاج کا ممکنہ زور توڑنے کیلیے سرتاج عزیز نے ایسا بیان دیا ہے۔
گزشتہ روز ایک ملاقات میں وزیراعظم نے اپنے مشیر سے خارجہ امور کے حوالے سے مشورہ لینے کے بجائے انہیں مشورہ دیا کہ آئندہ امریکی حکام سے آپ کی ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی جیسے حساس ترین معاملات پر بات ہو تو ایسی انفارمیشن کو پبلک کرنے سے پہلے انہیں اعتماد میں لے لیا کریں۔ وزیر داخلہ کے حالیہ بیان سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ڈرون حملوں کے معاملے میں عمران خان کے نہ صرف ہم خیال ہو چکے ہیں بلکہ اب الفاظ بھی ان سے مستعار لینے لگے ہیں ۔ وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے مشیر خارجہ کے بیان پر ان کو مشورہ دینے کی ضرورت کے بعد جمعہ کی صبح جناح کنونشن سینٹر میں ہونیوالی تقریب میں انہوں نے کہا کہ میَں کہیں اخبار میں پڑھ رہا تھا کہ ہم نے امریکہ سے رسمی احتجاج کیا ہے، ہماری نیتوں پر شک نہ کیا جائے۔ وزیر اعظم کے اس بیان کے چند گھنٹوں بعد وزارت خارجہ کے ترجمان چودھری اعزاز احمد نے کہا کہ ہمارے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے امریکی سفیر کو ایک خط کے ذریعے باقاعدہ احتجاج کیا ہے۔
اس ناگہانی آفت نے پہلی دفعہ کسی حکومت کو اس قدر کنفیوژن کا شکار کردیا ہے کہ اس کی بے بسی وزرا کے بے ربط اور متضادبیانات سے عیاں ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیزکے بیان کے فوراً بعد ڈرون حملہ بقول اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ خودمشیر خارجہ کو جالگا جبکہ اسی حکومت کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اس قدر سیخ پا ہیں کہ ڈالر اور غیرت کا موازنہ شروع کردیا ہے۔ شیخ رشید احمد اس سارے معاملے کو ایک مستقل وزیرخارجہ کی عدم موجودگی قراردیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف کے قریبی عزیزوں میں کوئی ایسا بے عہدہ شخص نہیں ہے جسے وزیرخارجہ مقرر کیاجاسکے۔ اگر مستقل وزیرخارجہ نہیں ہوگا تو سرتاج عزیز کے بیان چوہدری نثار کی سمجھ سے بالاتر ہی ہوں گے۔ شاہ محمود قریشی نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر چوہدری نثارکے امریکا کے بارے میں بیان کو خواب سراہا ہے اور حکومت کو دعوت دی ہے کہ امریکا کی دوغلی پالیسی کے اؐدراک کے بعد اب انھیں تحریک انصاف کے موقف کی حمایت کرنی چاہیے اور پہلے قدم کے طور پر آج کے دھرنے میں تحریک انصاف کا ساتھ دیں۔
شاہ محمودقریشی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کو سمجھ آہی گئی ہے تو اسے امریکہ کیخلاف سخت مؤقف اختیار کرنے میں کیا امر مانع ہے۔ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ نے سرتاج عزیز کے عمل کو ڈرون حملوں کے بیان کے حوالے سے حکومت کی سبکی کرانے کی کوشش قراردیا ۔ انہوں نے بھی مستقل وزیرخارجہ کے تقرر پر زور دیتے ہوئے کہاکہ یہ محاذ خالی رہے گا تو ڈرون حملے ہوتے رہیں گے۔ حکومت کو ڈرون حملوں پر صرف تشویش کا اظہار ختم کرنا چاہیے اور کوئی مستقل اور مؤثر لائحہ عمل اختیارکرے۔ 21 نومبر کی صبح 5 بجے ہنگو کے مدرسہ مفتاح القرآن پر ہونیوالے امریکی ڈرون حملے نے مسلم لیگ (ن)کی بھاری مینڈیٹ یافتہ حکومت کی کنفیوژن سے بھر پور خارجی و حکومتی پالیسیوں کا پردہ چاک کر دیاہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز اس سے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میںیہ بیان دے چکے تھے کہ اب امریکہ نے یقین دہانی کرا دی ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملہ نہ کریگا،خیال کیا جا رہا تھا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے ڈرون حملوں کیخلاف بلائے گئے 23 نومبر کے عوامی احتجاج کا ممکنہ زور توڑنے کیلیے سرتاج عزیز نے ایسا بیان دیا ہے۔
گزشتہ روز ایک ملاقات میں وزیراعظم نے اپنے مشیر سے خارجہ امور کے حوالے سے مشورہ لینے کے بجائے انہیں مشورہ دیا کہ آئندہ امریکی حکام سے آپ کی ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی جیسے حساس ترین معاملات پر بات ہو تو ایسی انفارمیشن کو پبلک کرنے سے پہلے انہیں اعتماد میں لے لیا کریں۔ وزیر داخلہ کے حالیہ بیان سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ڈرون حملوں کے معاملے میں عمران خان کے نہ صرف ہم خیال ہو چکے ہیں بلکہ اب الفاظ بھی ان سے مستعار لینے لگے ہیں ۔ وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے مشیر خارجہ کے بیان پر ان کو مشورہ دینے کی ضرورت کے بعد جمعہ کی صبح جناح کنونشن سینٹر میں ہونیوالی تقریب میں انہوں نے کہا کہ میَں کہیں اخبار میں پڑھ رہا تھا کہ ہم نے امریکہ سے رسمی احتجاج کیا ہے، ہماری نیتوں پر شک نہ کیا جائے۔ وزیر اعظم کے اس بیان کے چند گھنٹوں بعد وزارت خارجہ کے ترجمان چودھری اعزاز احمد نے کہا کہ ہمارے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے امریکی سفیر کو ایک خط کے ذریعے باقاعدہ احتجاج کیا ہے۔