سچ مچ کے غریب حکمران
دنیا میں کچھ حکمران ایسے بھی ہیں جو ایک عام غریب انسان کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔
دنیا میں بہت سے حکمران عالیشان محلات میں رہتے ہیں ، بعض کی رہائش گاہوںکو محلات تو نہیں کہاجاسکتا لیکن وہ پرتعیش ضرور ہیں۔
ایسے حکمرانوں کے بارے میں ہی عوام کو شکایت ہوتی ہے کہ انھیں عوامی مسائل حل کرنے کے لئے ، اپنی زندگیوں میں بہتری کے لئے ایوان اقتدارمیں بھیجا جاتاہے، وہ وہاں جاکرہر اعتبار سے بدل جاتے ہیں۔ ان کا رہناسہنا عام آدمی سے بڑھ کر ہوتاہے، اسی طرح کھاناپینا بھی۔ عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوتا لیکن ان کے منتخب نمائندے منرل واٹر کے علاوہ کچھ استعمال نہیں کرتے۔ ایسے میں عام آدمی سوچتاہے کہ ''اب کسے رہنما کرے کوئی۔''
اسی دنیا میں کچھ حکمران ایسے بھی ہیں جو ایک عام غریب انسان کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں،کسی محل میں رہنے کے بجائے ٹوٹے پھوٹے مکان میں رہنا پسند کرتے ہیں، تحفظ کے نام پر اپنے اردگرد حفاظتی بریگیڈ متعین نہیں کرتے، اگرسیکورٹی عملہ رکھنا بہت ضروری ہوتو زیادہ سے زیادہ دو،تین اہلکار۔کروڑوں مالیت کے ڈریسز استعمال نہیں کرتے، پھٹے پرانے کپڑوں سے گزارا کرتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ اس غربت اورمفلوک الحالی کے باوجود وہ اپنے ملکوں اور معاشروں کو ترقی اور خوشحالی عطاکرنے میںکامیاب ثابت ہورہے ہیں۔
ان لوگوں میں شامل ہیں ملائشیا کے نک عبدالعزیز۔ انسانی تاریخ میں طویل ترین عرصہ تک حکمرانی کرنے والوں میں ان کا دوسرا نمبر ہے۔ ملائشیا کی ریاست کیلنتان کے وزیراعلیٰ(امسال 6مئی کو انھوں نے بوجہ علالت اس منصب سے استعفیٰ دیدیا) نک (ایک قبیلہ) عبدالعزیز کی مدت اقتدار 22سال6ماہ14دن بنتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انھیں اپنے دورحکمرانی میں مرکزی حکومت کی شدیدمخالفت جھیلناپڑی۔ مرکزی حکومت نے بارہا نک عبدالعزیزکو اقتدار سے ہٹانے کی ، انتخابات میں ہرانے کی کوشش کی لیکن مرکزی حکومت کو کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ ملائشیا کی اسلامی تحریک ''پاس''سے تعلق رکھنے والے اس سادہ شخص کی حکمرانی میں کیلنتان کے صوبے میں لوگوں کی بڑی تعداد خط غربت کے نیچے سے نکل کر ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوئی ۔ اب خط غربت سے نیچے موجود لوگوں کی شرح محض گیارہ فیصد رہ گئی ہے، یہاں بلندوبالا عمارتوں کا جنگل آباد ہوچکا ہے جس کا دائرہ دن بدن پھیل رہاہے۔ خوشحالی ایک طرف شہروں میں مضبوط ہوئی، دوسری طرف اس نے دیہاتی علاقوں کا بھی رخ کیا۔ نک عبدالعزیز کے دور میں شہریوں کو پہلے کی نسبت زیادہ آزادیوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ وزیراعلیٰ نے نہ صرف خود سادہ طرززندگی اختیارکئے رکھا بلکہ اپنی کابینہ کے ارکان کو بھی عوام سے بہتر طرز زندگی اختیار نہ کرنے دیا۔ انھوں نے خود کرپشن کی نہ ہی حکمران جماعت کے لوگوں کوبدعنوانی کرنے دی۔
نک عبدالعزیز( پیدائش 10جنوری1931ء) مسلمان عالم دین بھی ہیں، والد ایک لوہارتھے ۔ خاندان میں زیادہ تر لوگ علما اور کسان ہیں، ان کے باغات تھے۔ ان کے والد بھی ربڑ کے باغ کے مالک تھے۔ نک عبدالعزیز کو کاروبار سے مطلق دلچسپی نہ تھی البتہ باغبانی میں ضرور دلچسپی رکھتے تھے ، یہ دلچسپی اب بھی برقرار ہے۔ ابتدائی تعلیم کیلنتان اور تیرانگائو کی ریاستوں میں حاصل کرتے رہے،اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے بھارت کے مشہور دینی مدرسہ 'دارالعلوم دیوبند' میں پہنچ گئے ۔ یہاں پانچ برس گزارے اور پھر مصر کی مشہور جامعہ الازہر میں داخل ہوگئے۔ وہاں سے عربی میں گریجویشن اور فقہ اسلامی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ مصر سے واپسی پرکیلنتان کے مختلف مدارس میں تدریسی فرائض سرانجام دیناشروع کردئیے۔
ملائشیا کے سابق وزیراعظم مہاترمحمد اور نک عبدالعزیز کے اندازسیاست میں بنیادی طورپر واضح اختلاف ہے۔ یونائیٹڈ نیشنل مالے آرگنائزیشن(امنو) سے تعلق رکھنے والے مہاترمحمد نسلی گروہوں کی بنیادپر سیاست کرتے رہے ہیں جبکہ عبدالعزیز نسل پرستی کے کلی طورپر مخالف ہیں۔ مہاترمحمد نک عبدالعزیز کے ساتھ اپنے نظریاتی اختلافات کو اس سطح پر لے گئے کہ انھوں نے وہ سارے فنڈز روکے رکھے جوکیلنتان کا حق تھے۔حتیٰ کہ ان کے جانشین عبداللہ بداوی اور موجودہ وزیراعظم نجیب رزاق نے بھی مہاتروالی پالیسی کو جاری رکھا اور آج بھی کیلنتان حکومت کو ایک رنگٹ(ملائشیائی کرنسی) بھی براہ راست فراہم نہیں کی جارہی ہے بلکہ وفاقی اداروں کے ذریعے فنڈز استعمال کئے جاتے ہیں۔مرکزی حکومت یہاں جو بھی منصوبے شروع کرتی ہے ، ان کے کبھی ٹینڈرز جاری نہیں ہوتے، ہمیشہ جسے چاہتی ہے ٹھیکوں سے نوازتی ہے۔ سن2004ء سے اب تک وفاقی حکومت نے کیلنتان سے نکلنے والے تیل کی رائیلٹی بھی ریاستی حکومت کو فراہم نہیںکی۔
مرکزی حکومت نے نک عبدالعزیز کو ہرطرح سے اذیت پہنچانے کی کوشش کی تاہم وہ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ان کے بیٹے کو داخلی سلامتی ایکٹ کے تحت 2001ء میں گرفتارکیاگیا۔ الزام تھا کہ وہ ملائشیا میں جہادکی منصوبہ بندی کررہا ہے اور اس کے قبضے سے اسلحہ برآمدہواہے۔پانچ برس تک بغیر مقدمہ چلائے اسے قیدرکھاگیا اور پھر رہاکردیاگیا۔
نک عبدالعزیز کو صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ وہاں کے غیرمسلم لوگوں میں بھی خوب مقبولیت حاصل ہے۔ انھیں ایک انتہائی سادہ اور مکمل دیانت دار حکمران کی شہرت حاصل ہے۔ان جیسا سادگی پسند سیاست دان حقیقی معنوں میں ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔ جب وہ پہلی بار وزیراعلیٰ بنے توانھوں نے وزیراعلیٰ ہائوس میں رہنے سے انکار کردیا۔ وہ پولائو میلاکا کے علاقے میں واقع اپنے ہی مکان میں رہائش پذیر رہے۔ جب عبدالعزیز اپنے دفتر میں نماز اداکرتے تو اس وقت وہاں کی لائٹس بجھادیتے کیونکہ ان کے خیال میں نماز ان کا ذاتی معاملہ ہے، اس کے لئے سرکاری وسائل استعمال کرنا جائز نہیں۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ نک عبدالعزیز جیسی سادگی اور فلسفہ کو اختیارکرنا ملائشیا کے کسی بھی دوسرے سیاست دان کے لئے انتہائی مشکل ہوگا۔
نک عزیز نے1990ء میں وزارت اعلیٰ کی ذمہ داری سنبھالتے ہی اپنی ماہانہ تنخواہ میں40 فیصد کمی کردی۔ انھوں نے مہمان داری کے نام پر حکومتی اخراجات میں غیرمعمولی کٹوتی بھی کی۔ سادہ سے گھر جو آدھے سے زیادہ لکڑی سے بنا ہوا ہے میں رہنے والے نک عبدالعزیز جب اپنے دفتر میں کام کررہے ہوتے تھے تو ان کے سامنے میز پر فائلوں کا انبار ہوتاتھا اوران کے درمیان چندبسکٹ اور گرم پانی کا ایک گلاس۔ سب کچھ اپنی جیب سے حاصل کرتے تھے۔ کام کے دوران صحت کے بعض مسائل سے نمٹنے کے لئے ان کے لئے یہ کھانا ضروری تھا۔کیلنتان کے سب سے طاقتور انسان نے اپنے پورے دور اقتدار میں پروٹوکول کو اپنے اور عوام کے درمیان حائل نہیں ہونے دیا۔
انھوں نے مکمل صاف ستھرے طرزحکمرانی کو رواج دیا، یہی وجہ ہے کہ ان کے پورے دور میں کیلنتان کا کوئی ایک بھی افسر کرپشن میں ملوث نہیں پایا گیا۔ یادرہے کہ کرپشن کے خلاف کام کرنے والی ایجنسیاں وفاقی حکومت کے کنٹرول میں تھیں، وفاقی حکومت ہمیشہ نک عبدالعزیز کی حکومت کی مخالف رہی ، اگر کیلنتان میں کہیں بھی کرپشن اور بدعنوانی کا ہلکا سا شائبہ بھی ہوتا تو 'امنو' کیحکومت ان کے خلاف طوفان بپا کردیتی لیکن ساڑھے بائیس برسوں میں اس بارے میں ایک ہلکی سی آواز بھی سننے کو نہیں ملی۔نک عبدالعزیز اپنے صاف ستھرے طرز حکمرانی کا سبب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: '' میں نے سارے سرکاری حکام کو سمجھایا کہ وہ میرے یا کسی بھی دوسرے انسان کے سامنے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہیں۔آپ کو آخرت کے دن اپنے اعمال کے لئے جوابدہ ہونا ہوگا۔ کردار ہی کو ترجیح دینی چاہئے... اللہ کے خوف کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان رشوت اور بدعنوانی کی طرف بڑھتاجاتاہے...
عبدالعزیز نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کیلنتان میں تمام غیرمسلموں کوبھی ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے لئے مسلمانوں جیسے ہی مواقع ملیں۔ ریاستی حکومت بدھوں کی بہت سی عبادت گاہوں کو ماہانہ فنڈز فراہم کرتی رہی ۔ ملک کے بعض مغربی حصوں میں بدھوں اور عیسائیوں پر پابندی تھی کہ وہ اپنی عبادت گاہ کو مساجد سے زیادہ بلند نہیں کرسکتے تھے تاہم کیلنتان میں ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔ ریاستی حکومت نے یہاں چینیوں کے واحد سیکنڈری سکول کو 1000ایکڑ زمین مفت الاٹ کردی ۔ اسے باقاعدگی سے گرانٹ بھی ملتی رہی۔ چینی قوم کو ہرسال ریاست کی طرف سے 17لاکھ رنگٹ کی گرانٹ ملتی رہی، نک عبدالعزیز رقم کا اعلان بعد میں کرتے تھے جبکہ چیک پہلے سے تیار ہوتاتھا۔یوں چینی قوم کو گرانٹ حاصل کرنے کے لئے حکام کے پیچھے پیچھے نہیں پھرنا پڑا۔
ملائشیا میں رہنے والے دیگر مذاہب کے ماننے والے نک عبدالعزیز کوایک اسلامی سکالر ہونے کے باوجود خوب احترام دیتے ہیں۔ان کے سکھ سیاست دان کرپال سنگھ کے ساتھ بھی بہت اچھے تعلقات ہیں حالانکہ کرپال متعدد بار اسلامی حدود اور اسلامی ریاست کے نظریہ پر کڑی تنقیدکرچکاہے۔ جب وہاں کے عیسائی بشپ بھی ملنے آتے تونک عبدالعزیز ان کا پرتپاک استقبال کرتے تھے۔ انھوں نے 'امنو' کی طرح کبھی لوگوں کو مذہب کی بنیادپر تقسیم کرکے حکومت کرنے کی پالیسی اختیارنہیں کی بلکہ مذہبی بنیادوں پر معاشرے کو ایک کرنے کی کوشش کی۔ وہ نسل پرستی کے سخت مخالف ہیں۔
نک عبدالعزیزکہتے ہیں:'' یہ زمین اللہ کی بنائی ہوئی ہے، ہم میں سے کسی کو بھی اکڑنا نہیں چاہیے حتیٰ کہ وزیراعلیٰ کو بھی نہیں، مجھے بھی انکساری اور عاجزی سے رہنا چاہئے... میں نے کبھی خواہش نہیں کہ مجھے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے میدان میں اتارا جائے، یہ پارٹی کا فیصلہ ہوتا تھا...اندھی تقلید اسلام میں جائز ہی نہیں ہے۔' پاس' کی جدوجہد کا ایک ہی مقصد ہے کہ لوگوں کا مائنڈسیٹ تبدیل کردیاجائے۔ہم چاہتے ہیں کہ لوگ اپنا مائنڈسیٹ تبدیل کردیں کہ یہ دنیا ہمیشہ کے لئے نہیں ہے۔
لاطینی امریکہ کے ملک یورا گوائے کے صدر خوزی موخیکا بھی ایسے ہی سیاست دان ہیں، وہ ماضی کے گوریلا لیڈر ہیں۔ ایک مملکت کے صدر ہونے کے باوجود انھوں نے ایوان صدر میں رہنے سے انکار کردیا، وہ اب بھی اپنی اہلیہ کے گھر میں رہتے ہیں، اگر وہ ایوان صدر میں مقیم ہوتے تو ان کی خدمت کے لئے 42 افراد موجود ہوتے لیکن انہوں نے اپنے گھر میں کسی ایک نوکر چاکر کے بغیرزندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ ان کے کپڑے دھونے کی جگہ ان کے گھر کے باہر ہے۔ پانی وہ گھر کے قریب موجود کنویں سے حاصل کرتے ہیں جہاں جنگلی پھول اگے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ایک قطعہ اراضی ہے جہاں وہ اور ان کی اہلیہ گلِ دائودی کاشت کرتے ہیں اور مارکیٹ میں فروخت کرکے گزربسرکرتے ہیں۔
ان کا سیکورٹی عملہ صرف دو پولیس اہلکاروں اور تین کتوں پر مشتمل ہے جو عام کپڑوں میں ان کے گھر کی طرف جانے والے ایک ایسے کچے راستے پر کھڑے رہتے ہیںجس کے دونوں اطراف میں لیموں کے پیڑ لگے ہوئے ہیں۔خوزی موخیکاکی مجموعی دولت محض 1800 ڈالر ہیں یعنی ایک لاکھ 93ہزار3سو20روپے کے برابر۔ یہ رقم ان کے گیراج میں کھڑی اس پرانی گاڑی کی مالیت کے برابر ہے جسے انھوں نے1987ء میں خریدا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے کبھی ٹائی نہیں لگائی۔ مسٹرموخیکا اپنی تنخواہ 12ہزارامریکی ڈالرز کا 90فیصد حصہ امدادی کاموں میں فراہم کردیتے ہیں۔ زیادہ تر رقم ان لوگوں کیلئے رہائش گاہوں کی تعمیر پرصرف ہوتاہے جو بے گھر ہیں۔ اس کے علاوہ غریبوں اور چھوٹے تاجروں کی مدد بھی کی جاتی ہے۔ ان کی باقی ماندہ تنخواہ یوراگوائے کے ایک عام باشندے کے برابر رہ جاتی ہے یعنی 775 ڈالر ماہانہ۔
پاکستان میں ایسے بھی سیاست دان ہیں جنھوں نے عوام کی نظروں میں غریب اور سادہ بننے کے لئے اپنے سارے اثاثے بیوی کے نام کردیئے اور خود کو کنگال ظاہرکیا لیکن یورا گوائے کے صدرکی اہلیہ کے اثاثوں میں ایک قطعہ اراضی، ٹریکٹرز اور ایک گھر شامل ہے، ان سب کی قیمت دولاکھ پندرہ ہزار کے قریب ہے۔ یہ رقم بھی اسی ملک کے نائب صدر کی ظاہر کی گئی دولت کا ایک تہائی حصہ ہے۔ مسزموخیکا کے سارے اثاثوں کی مالیت سے زیادہ پاکستان کے ایک ایم این اے کا ماہانہ خرچ ہوتاہے۔
گھر کے باغیچے میں پرانی سی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے صدرموخیکا نے بتایا'' میں نے زیادہ تر زندگی ایسے ہی گزاری ہے جوکچھ میرے پاس ہے میں اس کے ساتھ اچھی طرح رہ سکتاہوں۔ یہ آزادی کا معاملہ ہے۔ اگر آپ کے پاس بہت زیادہ املاک نہیں ہیں توآپ کو اپنی تمام عمر انھیں قائم رکھنے کے لئے کام نہیںکرناپڑتا اور اس طرح آپ کے پاس اپنے لئے زیادہ وقت ہوتاہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ صدارت کا منصب ایسا ہوکہ صدر کی پوجا نہ کی جاسکے۔ ہوسکتاہے کہ بطورصدر ان کا طرززندگی غیرمعمولی لوگوں کے لئے حیران کن ہو۔ ان کاکہناتھا کہ انھوں نے دولت اور اقتدار کو اپنے لئے غیراہم بنانے کا فیصلہ پوری طرح سوچ سمجھ کے کیاتھا۔ یادرہے کہ یوراگوائے میں ٹریڈ یونینز ہی بہت مضبوط ہیں، صدرمملکت فرمان بھی جاری کرنا پسند نہیں کرتے ۔ ساری قانون سازی کانگریس کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔
مسٹرموخیکا کہتے ہیں'' انسان غریب نہیں ہوتا بلکہ طمع اور لالچ اسے غریب بناتا ہے۔ جو لوگ مجھے غریبوں میں شمارکرتے ہیں، ان کے لئے عرض ہے کہ میری لغت میں غربت کی تعریف یہ ہے کہ جو فرد بہت زیادہ ضرورت مند ہو۔ جولوگ بہت زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں، وہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے''۔
گل دائودی کے کاشت کار بننے سے پہلے موخیکا ایک گوریلا تنظیم' ٹوپامسروس' میں شامل تھے جو کیوبا کے انقلاب سے متاثرہوکر قائم کی گئی تھی۔ اس کے ارکان بنکوں میں ڈاکے ڈالنے اور لوگوں کو اغوا کرنے جیسے جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ موخیکا کو چھ مرتبہ گولی لگی، 1972ء میں گرفتار ہوئے، اگلے 14برس کے لئے جیل میں قید رہے، دس برس قیدتنہائی میں گزارے۔ یہ قیدتنہائی کیاتھی، انھیں جہاں رکھاگیاتھا وہ ایک سوراخ تھا جو زمین میں کیاگیاتھا۔ اس دوران وہ اور ان کے ساتھی ایک سال تک نہا ہی نہ سکے۔ انھیں جو بستردیاگیا، اس پر ننھے منے مینڈک اور چوہے اچھل کود کرتے رہتے تھے۔اس قیدتنہائی نے بہت سوں کو پاگل کردیا۔ 1985ء میں جمہوریت کی بحالی کے بعد مسٹرموخیکا کو رہائی ملی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدرموخیکا اپنے ایام اسیری کے بارے میں کم ہی بات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قید کی زندگی نے ان کو موجودہ طرززندگی عطاکیاہے اور انھیں سکھایا کہ ایک شخص اپنی زندگی کا ازسرنوآغاز بھی کرسکتاہے۔ اب انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز میدانِ سیاست میںکیا۔ جب وہ رکن پارلیمان منتخب ہوئے تو دیگر پارلیمینٹرینز یہ دیکھ کرحیران رہ گئے کہ موخیکا اپنے پرانے ویسپا پر اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچے۔ سن2004ء میں بائیں بازو اور سنٹرسٹ ڈیموکریٹک پارٹیوں کا اتحاد 'براڈ فرنٹ' اقتدارمیں آیاتو موخیکا کولائیوسٹاک، زراعت اور فشریز کا وزیربنایاگیا۔
سن2009ء کے صدارتی انتخابات میں بڑی اکثریت حاصل کرنے سے پہلے مسٹرموخیکا اپنے مخالفین کی طعنہ زنی کے شدید شکار رہے ہیں۔ ان کے ایک مخالف نے ان کے گھر کو''غار'' قراردیا۔ صدرکی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد مسٹرموخیکا نے ملک کے سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت شدید پریشانی سے دوچار کر دیا جب انھوں نے ساحل سمندر پر صدارتی رہائشگاہ کو فروخت کرکے رقم خزانے میں جمع کرادی۔ ان کا کہناتھا کہ اس صدارتی رہائش گاہ کاکوئی فائدہ نہیں تھا۔
ان کی اہلیہ لوشیاٹوپولانسکی بھی سابق گوریلا لیڈر ہیں۔ انھیں بھی جیل کاٹنا پڑی تھی۔ اب وہ پارلیمان کے ایوان بالا کی رکن ہیں۔ یہ جوڑا اولاد سے محروم ہے تاہم اس کے باوجود اپنی قسمت پر قانع ہے۔ دونوں میاں بیوی کا خیال ہے کہ انھیں زندگی بسر کرنے کے لئے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں۔
سابق مارکسسٹ مسٹرموخیکا کا کہنا ہے کہ میں اس لئے نہیں بدلنا چاہتاکہ میںصدر مملکت ہوں۔ میں اپنی ضرورت سے بہت زیادہ کمالیتاہوں چاہے یہ دوسروں کیلئے کافی محسوس نہ ہوتا ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پیشرو صدر تباری وازکیز بھی اپنے ذاتی گھر میں رہاکرتے تھے ۔ اگرچہ ان کا گھر صاحبان ثروت کے علاقے میں تھا۔ 20ویں صدی کے اوائل میں بیٹلے اورڈونز بھی صدر رہے ہیں، انھوں نے رفاہی ریاست تشکیل دی۔ انھوں نے ہی یہ روایت قائم کی کہ ملک کے صدر اور عام شہری کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہوناچاہئے۔اسی قسم کی روایات کا نتیجہ ہے کہ اس وقت یوراگوائے جنوبی امریکا کے خطے کا سب سے کم کرپٹ ملک ہے اور یہاں کے باسیوں میں مساوات زیادہ نظرآتی ہے۔ اسی طرح یہ ملک اس خطے کا سب سے محفوظ ملک ہے جہاں بدامنی کی شرح بہت کم ہے۔ ان کاکہناہے کہ ملک کی معاشی بڑھوتری ان کی ترجیحات میں پہلے نمبر پر ہے۔
یادرہے کہ یورا گوائے جنوبی امریکہ کے خطے کے جنوبی مشرقی ساحل پرآباد ملک ہے۔ اس کا رقبہ امریکی ریاست واشنگٹن کے برابر ہے۔ اسے اس خطے کا سب سے ترقی یافتہ ملک کہاجاتاہے۔ یہاں35لاکھ لوگ آباد ہیں جن میں سے 92فیصد شہروں میں رہتے ہیں۔
مسٹرموخیکا ایسے شخص ہیں جو الفاظ نہیں بلکہ عمل کے ذریعے اپنے مداحوں کو بھی سادہ زندگی گزارنے کی تلقین کرتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کے بعض ہم وطن ان پر تنقید کرتے ہیں کہ انھیں بطورصدر ایسا طرز زندگی اختیار نہیںکرناچاہئے۔ تاہم زیادہ تر کی نظر میں وہ ہیرو ہیں۔
صدرموخیکا کے دورحکومت میں ایک اہم کارنامہ یہ سرانجام دیاگیا کہ ملک میں تنگ نظری اور عدم برداشت کا گراف خاصا نیچے چلاگیاہے۔ ورنہ یہاں حکومتوں کے تختے الٹنے کا چلن عام تھا۔ اب یوراگوائے لاطینی امریکہ کا ایسا ملک ہے جو سماجی طورپر خاصا آزاد خیال ملک بن چکاہے۔
محمود احمدی نژاد
جب امریکی ٹیلی ویژن چینل فاکس نیوز نے اس وقت کے ایرانی صدر محموداحمدی نژاد سے پوچھا کہ آپ جب صبح بیدارہوکے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہیں تو کیاسوچتے ہیں؟ ایرانی صدر نے جواب دیا '' میں آئینے میں نظرآنے والے شخص کو دیکھتاہوں اور اسے کہتاہوں: یادرکھو! تمہاری کوئی حیثیت نہیں سوائے ایک ادنیٰ ملازم کے۔آج تم پر ایک بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے اور یہ ذمہ داری ہے کہ تم نے ایرانی قوم کی خدمت کرنی ہے''۔ یہ وہی ایرانی صدر ہیں جوصدرمملکت منتخب ہوکر ایوان صدر پہنچے تو انھوں نے وہاں بچھے ہوئے تمام قیمتی قالین دارالحکومت تہران کی ایک مسجد میں بھیج دئیے۔ اوراس کے بجائے کم قیمت کارپٹ بچھادئیے۔انھوں نے دیکھاکہ ایوان صدرمیں اہم شخصیات کے استقبال کے لئے ایک الگ سے لائونج موجود ہے جس پر غیرمعمولی اخراجات اٹھتے ہیں، انھوں نے اس لائونج کو بند کرنے کا حکم دیدیا۔اوراپنے پروٹوکول آفس سے کہاکہ اس غرض کے لئے ایک عام سے کمرے کا اہتمام کرے جس میں صرف لکڑی کی کرسیاں رکھی جائیں۔ یہ وہی ایرانی صدر ہیں جو روز اپنے ساتھ ایک تھیلا لے کر آتے تھے جس میں ان کا ناشتہ ، کچھ سینڈوچز اور روٹی ہوتی تھی، ساتھ روغن زیتون اور پنیربھی۔ یہ سب کچھ ان کی اہلیہ تیار کرتی تھیں۔
وہ اس علاقے میں میونسپلٹی کے عملے کے ساتھ مل کرگلیاں اور سڑکیں صاف کرتے تھے جہاں ان کا گھر ہے اور جہاں ایوان صدر ہے۔ جب بھی وہ کسی کو اپنی کابینہ کا رکن بناتے تو اس سے ایک حلف نامہ لیتے کہ وہ سادگی اختیارکرے گا، اس کے ذاتی اور رشتہ داروں کے بنک اکائونٹس کاجائزہ حکومت لے سکے گی،اس دوران اس کے لئے اوراس کے رشتہ دار وزیرصاحب کی حیثیت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔محمود نژاد نے صدربنتے ہی اپنے اثاثوں کا اعلان کردیا جن میں 1977ء ماڈل کی ایک Peugeot 504 کار،تہران کے غریب علاقے میں ایک پرانا، چھوٹاگھر جو انھیں چالیس برس قبل اپنے والدصاحب کی طرف سے ملاتھا۔ ان کے اکائونٹس میں ایک دھیلابھی نہیں تھا، اس اکائونٹ میں ایک تنخواہ آتی تھی جو انھیں یونیورسٹی میں بطورلیکچررخدمات انجام دینے پرملتی تھی۔ یہ تنخواہ 26ہزار855روپے پاکستانی کے برابرتھی۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ وہ جب تک صدر رہے ، انھوں نے اس حیثیت سے ایک دن بھی تنخواہ وصول نہیں کی۔ ان کاکہناتھا کہ تمام دولت قوم کی ملکیت ہے اور وہ تو اس کے محافظ ہیں۔ وہ صدرہونے کے باوجود اپنے ذاتی گھر میں ہی مقیم رہے۔
صدر محمود نژاد ایرانی صدر کے لئے مخصوص جہاز کو ایک کارگوجہازمیں بدل دیا۔ اس طرح انھوں نے قومی خرانے کو ایک بڑے خرچ سے بچالیا۔جبکہ خود عام جہازوں کی اکانومی کلاس میں سفر کرتے رہے۔ انھوں نے صدرمملکت کے مینیجر کی پوسٹ ختم کرکے خود وزراء کے ساتھ آئے روز میٹنگز شروع کردیں جس میں ان کی کارکردگی اور مسائل پر بحث کرتے۔ کوئی بھی وزیر صدرمملکت کے کمرے میں کسی بھی وقت بغیر اجازت کے داخل ہوسکتاتھا۔ انھوں نے ریڈکارپٹ ، فوٹوسیشن اور ذاتی تشہیرکے کلچر کو ختم کردیا۔ اسی طرح انھوں نے حکم دیا کہ ان کے احترام کے لئے کوئی سرگرمی انجام نہ دی جائے۔وہ جس ہوٹل میں بھی قیام کرتے ، وہاں اپنے لئے ایسا کمرہ حاصل کرتے جہاں بیڈ نہ ہو کیونکہ انھیں زمین پر میٹرس رکھ کر سونا زیادہ پسند تھا۔دنیا والوں کو ان کی ایسی تصاویر اکثردیکھنے کو ملیں جس میں وہ صوفے پر سوئے ہوئے ہیں، ان کی ایک تصویر سب سے زیادہ عام ہوئی جس میں انھوں نے ایک ایسا کوٹ پہناہواتھا جو بغل سے پھٹاہوا نظرآرہاتھا۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ ...
ایک طرف یورا گوائے اور ایران کے صدور، ملائشیا اور بھارت کی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کی زندگیاں تو دوسری طرف ہمارے حکمران۔ پاکستان کے صدرمملکت اور وزیراعظم، گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کی تنخواہوں اور مراعات کا کیا تذکرہ کیاجائے ، یہاں کے ارکان پارلیمان بھی یورا گوائے، ایران، ملائشیا اور بھارت سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے کل اثاثوں کی مالیت کے برابر ان کی ماہانہ تنخواہ اور مراعات ہوتی ہے۔
قومی اسمبلی کے 29جنوری2013ء کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق رکن پارلیمان کی ماہانہ تنخواہ 27 ہزار 377روپے ہوگی۔ ایڈہاک الائونس 2010ء کے نام پر 11,903 روپے، دفتر کی تزئین وآرائش اور دیگرضروریات کے لئے 8ہزار روپے، ٹیلی فون الائونس10ہزار روپے،ذاتی ضروریات کے لئے 5ہزار روپے، ایڈہاک ریلیف الائونس کے نام پر3571روپے، ایڈہاک ریلیف الائونس 2012ء کے نام پر5475روپے شامل ہیں۔ یوں مجموعی طور پر انھیں 71ہزار326روپے ملتے ہیں۔ پارلیمان کے اجلاس سے تین دن پہلے، اجلاس کے دوران اور اجلاس کے تین دن بعد تک روزانہ کا الائونس ایک ہزار روپے، کنوینس الائونس 750روپے روزانہ اور ہائوسنگ الائونس 2000 روپے روزانہ کے حساب سے ملتے ہیں۔ یوں وہ روزانہ 3750 روپے سمیٹتے ہیں۔ اگروہ فضائی سفر کرتے ہوئے اسلام آباد آئیں تو انھیں بزنس کلاس میں سیٹ میسر ہوگی اور اس کا کرایہ محض 150روپے وصول کیاجائے گا۔ اگروہ ریل کے ذریعے آناچاہیں تو فرسٹ کلاس میں مفت سفر کی سہولت ملے گی اوراگر وہ اپنی گاڑی پر بذریعہ سڑک آئیں تو انھیں 10روپے فی کلومیٹر کے حساب سے اداکئے جائیں گے۔ عام حالات میں انھیں ٹریول وائوچرز کی صورت میں تین لاکھ روپے یاپھرنقد کی صورت میں90ہزار روپے سالانہ کے حساب سے الگ ٹریول الائونس ملتاہے۔ ہرسال ہوائی سفر کے 20بزنس کلاس ریٹرن ٹکٹ بھی ملتے ہیں۔ گورنمنٹ کے کلاس اول کے ملازم کو جتنی میڈیکل سہولیات ملتی ہیں، وہ رکن پارلیمان کو بھی حاصل ہوں گی۔
یہ تنخواہ اور مراعات وہ ہیں جو قومی اسمبلی کے نوٹیفکیشن کے مطابق ہیں۔ تاہم قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستانی پارلیمان کا ایک رکن اپنی اس حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے ایک مہینے میں کتناکچھ کمالیتاہے۔قوم نے دیکھ لیاکہ کس طرح ارکان پارلیمان جھوٹ بول کر، جعلی ڈگریوں کی بنیادپر رکن پارلیمان بنتے تھے۔جعلی ڈگریوں کا ایک جھوٹ تھا جو پکڑا گیا، یہ پارلیمان سے جعلی کاغذات اور بلز کی بنیادپر کئی گناوصول کرتے ہیں۔ ان کی ایک مہینے کی کمائی یورا گوائے کے صدر کے اثاثوں کی کل مالیت کے برابر ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ غربت سمیت دیگرمشکلات کی ماری ہوئی اس قوم کے حکمران اور نمائندگان اس قدربھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات وصول کرکے اپنی قوم کیلئے کیاخدمات سرانجام دے رہے ہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ہرایک کو ضرورت ہے۔
مانک سرکار
بھارتی ریاست تریپورا کے وزیراعلیٰ مالک سرکار ملک کے سب سے غریب حکمران ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) سے تعلق رکھنے مالک سرکارکی حکمرانی کو پندرہ برس ہوچکے ہیں لیکن آج بھی وہ نہ ذاتی گھر کے مالک بنے ہیں نہ ہی ان کے پاس کوئی اپنی گاڑی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی طرح انھوں نے اقتدارمیں آتے ہی سب سے پہلے اپنی اور ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا بلکہ تری پورہ کے وزیراعلیٰ کی تنخواہ بھارت کے دیگروزرائے اعلیٰ کی نسبت سب سے کم ہے۔ مالک سرکار اپنی ساری تنخواہ اور الائونسز پارٹی کے خزانے میں جمع کراتے ہیں۔ پارٹی انھیں محض پانچ ہزار روپے(بھارتی) دیتی ہے جو8 ہزار 464 روپے پاکستانی کے برابر ہیں۔ ایک ریاست کا وزیراعلیٰ انہی روپوں سے اپنا گھربارچلاتاہے۔ وہ متوسط طبقے میں پیدا ہوئے، ان کے والد ایک درزی جبکہ والدہ سرکاری ملازم تھی۔
مانک سرکار اور ان کی اہلیہ نہایت سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ جب ان کی اہلیہ کو کہیں سفر کے لئے جانا ہوتاہے تو وہ اپنے ذاتی خرچ سے رکشہ پر کرتی ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ ان کا کوئی سیکورٹی گارڈ نہیں ہوتا۔سرکارکے خرچ پر حفاظتی عملہ رکھ کر وہ سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں بننا چاہتے لیکن ذاتی محافظ رکھنے کی استطاعت نہیں۔
مانک سرکارایسے حکمران ہیں جن کے مخالفین بھی انھیںکرپشن سے پاک قراردیتے ہیں۔سن2008ء میں جب مسٹرمانک سرکار کے پاس نقدی اور بنک اکائونٹ میں موجود رقم کو جمع کیاگیا تو یہ 16 ہزار 120روپے تھے ، حال ہی میں جب ان کے پاس موجود دولت کا پتہ چلایا گیا تو 10ہزار800روپے تھے۔ 2009ء میں جب وزیراعلیٰ کی والدہ کا انتقال ہواتو انھیں اگرتلہ میں ایک مکان ورثے میں ملا تاہم وزیراعلیٰ نے یہ مکان اپنے ایک رشتہ دار کو عطیہ کردیا۔
مانک سرکار ہمیشہ سفیدکرتا اور پاجامہ زیب تن کرتے ہیں۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ مانک سرکار کا ای میل اکائونٹ ہے نہ ہی ان کی بیگم کا ہے۔ ان کے گھر میں لینڈلائن نمبر ہے، کیونکہ دونوں میاں بیوی موبائل استعمال کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ وزیراعلیٰ کے طرززندگی سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو مکمل طورپر عوام کی خدمت میں وقف کررکھاہے۔ وہ اپنی ذات پر عوام کی خوشحالی کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی پہلو انھیں عوام میں ایسی مقبولیت بخشے ہوئے ہے جو کم ہونے میں ہی نہیں آرہی۔
ایسے حکمرانوں کے بارے میں ہی عوام کو شکایت ہوتی ہے کہ انھیں عوامی مسائل حل کرنے کے لئے ، اپنی زندگیوں میں بہتری کے لئے ایوان اقتدارمیں بھیجا جاتاہے، وہ وہاں جاکرہر اعتبار سے بدل جاتے ہیں۔ ان کا رہناسہنا عام آدمی سے بڑھ کر ہوتاہے، اسی طرح کھاناپینا بھی۔ عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوتا لیکن ان کے منتخب نمائندے منرل واٹر کے علاوہ کچھ استعمال نہیں کرتے۔ ایسے میں عام آدمی سوچتاہے کہ ''اب کسے رہنما کرے کوئی۔''
اسی دنیا میں کچھ حکمران ایسے بھی ہیں جو ایک عام غریب انسان کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں،کسی محل میں رہنے کے بجائے ٹوٹے پھوٹے مکان میں رہنا پسند کرتے ہیں، تحفظ کے نام پر اپنے اردگرد حفاظتی بریگیڈ متعین نہیں کرتے، اگرسیکورٹی عملہ رکھنا بہت ضروری ہوتو زیادہ سے زیادہ دو،تین اہلکار۔کروڑوں مالیت کے ڈریسز استعمال نہیں کرتے، پھٹے پرانے کپڑوں سے گزارا کرتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ اس غربت اورمفلوک الحالی کے باوجود وہ اپنے ملکوں اور معاشروں کو ترقی اور خوشحالی عطاکرنے میںکامیاب ثابت ہورہے ہیں۔
ان لوگوں میں شامل ہیں ملائشیا کے نک عبدالعزیز۔ انسانی تاریخ میں طویل ترین عرصہ تک حکمرانی کرنے والوں میں ان کا دوسرا نمبر ہے۔ ملائشیا کی ریاست کیلنتان کے وزیراعلیٰ(امسال 6مئی کو انھوں نے بوجہ علالت اس منصب سے استعفیٰ دیدیا) نک (ایک قبیلہ) عبدالعزیز کی مدت اقتدار 22سال6ماہ14دن بنتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انھیں اپنے دورحکمرانی میں مرکزی حکومت کی شدیدمخالفت جھیلناپڑی۔ مرکزی حکومت نے بارہا نک عبدالعزیزکو اقتدار سے ہٹانے کی ، انتخابات میں ہرانے کی کوشش کی لیکن مرکزی حکومت کو کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ ملائشیا کی اسلامی تحریک ''پاس''سے تعلق رکھنے والے اس سادہ شخص کی حکمرانی میں کیلنتان کے صوبے میں لوگوں کی بڑی تعداد خط غربت کے نیچے سے نکل کر ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوئی ۔ اب خط غربت سے نیچے موجود لوگوں کی شرح محض گیارہ فیصد رہ گئی ہے، یہاں بلندوبالا عمارتوں کا جنگل آباد ہوچکا ہے جس کا دائرہ دن بدن پھیل رہاہے۔ خوشحالی ایک طرف شہروں میں مضبوط ہوئی، دوسری طرف اس نے دیہاتی علاقوں کا بھی رخ کیا۔ نک عبدالعزیز کے دور میں شہریوں کو پہلے کی نسبت زیادہ آزادیوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ وزیراعلیٰ نے نہ صرف خود سادہ طرززندگی اختیارکئے رکھا بلکہ اپنی کابینہ کے ارکان کو بھی عوام سے بہتر طرز زندگی اختیار نہ کرنے دیا۔ انھوں نے خود کرپشن کی نہ ہی حکمران جماعت کے لوگوں کوبدعنوانی کرنے دی۔
نک عبدالعزیز( پیدائش 10جنوری1931ء) مسلمان عالم دین بھی ہیں، والد ایک لوہارتھے ۔ خاندان میں زیادہ تر لوگ علما اور کسان ہیں، ان کے باغات تھے۔ ان کے والد بھی ربڑ کے باغ کے مالک تھے۔ نک عبدالعزیز کو کاروبار سے مطلق دلچسپی نہ تھی البتہ باغبانی میں ضرور دلچسپی رکھتے تھے ، یہ دلچسپی اب بھی برقرار ہے۔ ابتدائی تعلیم کیلنتان اور تیرانگائو کی ریاستوں میں حاصل کرتے رہے،اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے بھارت کے مشہور دینی مدرسہ 'دارالعلوم دیوبند' میں پہنچ گئے ۔ یہاں پانچ برس گزارے اور پھر مصر کی مشہور جامعہ الازہر میں داخل ہوگئے۔ وہاں سے عربی میں گریجویشن اور فقہ اسلامی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ مصر سے واپسی پرکیلنتان کے مختلف مدارس میں تدریسی فرائض سرانجام دیناشروع کردئیے۔
ملائشیا کے سابق وزیراعظم مہاترمحمد اور نک عبدالعزیز کے اندازسیاست میں بنیادی طورپر واضح اختلاف ہے۔ یونائیٹڈ نیشنل مالے آرگنائزیشن(امنو) سے تعلق رکھنے والے مہاترمحمد نسلی گروہوں کی بنیادپر سیاست کرتے رہے ہیں جبکہ عبدالعزیز نسل پرستی کے کلی طورپر مخالف ہیں۔ مہاترمحمد نک عبدالعزیز کے ساتھ اپنے نظریاتی اختلافات کو اس سطح پر لے گئے کہ انھوں نے وہ سارے فنڈز روکے رکھے جوکیلنتان کا حق تھے۔حتیٰ کہ ان کے جانشین عبداللہ بداوی اور موجودہ وزیراعظم نجیب رزاق نے بھی مہاتروالی پالیسی کو جاری رکھا اور آج بھی کیلنتان حکومت کو ایک رنگٹ(ملائشیائی کرنسی) بھی براہ راست فراہم نہیں کی جارہی ہے بلکہ وفاقی اداروں کے ذریعے فنڈز استعمال کئے جاتے ہیں۔مرکزی حکومت یہاں جو بھی منصوبے شروع کرتی ہے ، ان کے کبھی ٹینڈرز جاری نہیں ہوتے، ہمیشہ جسے چاہتی ہے ٹھیکوں سے نوازتی ہے۔ سن2004ء سے اب تک وفاقی حکومت نے کیلنتان سے نکلنے والے تیل کی رائیلٹی بھی ریاستی حکومت کو فراہم نہیںکی۔
مرکزی حکومت نے نک عبدالعزیز کو ہرطرح سے اذیت پہنچانے کی کوشش کی تاہم وہ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ان کے بیٹے کو داخلی سلامتی ایکٹ کے تحت 2001ء میں گرفتارکیاگیا۔ الزام تھا کہ وہ ملائشیا میں جہادکی منصوبہ بندی کررہا ہے اور اس کے قبضے سے اسلحہ برآمدہواہے۔پانچ برس تک بغیر مقدمہ چلائے اسے قیدرکھاگیا اور پھر رہاکردیاگیا۔
نک عبدالعزیز کو صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ وہاں کے غیرمسلم لوگوں میں بھی خوب مقبولیت حاصل ہے۔ انھیں ایک انتہائی سادہ اور مکمل دیانت دار حکمران کی شہرت حاصل ہے۔ان جیسا سادگی پسند سیاست دان حقیقی معنوں میں ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔ جب وہ پہلی بار وزیراعلیٰ بنے توانھوں نے وزیراعلیٰ ہائوس میں رہنے سے انکار کردیا۔ وہ پولائو میلاکا کے علاقے میں واقع اپنے ہی مکان میں رہائش پذیر رہے۔ جب عبدالعزیز اپنے دفتر میں نماز اداکرتے تو اس وقت وہاں کی لائٹس بجھادیتے کیونکہ ان کے خیال میں نماز ان کا ذاتی معاملہ ہے، اس کے لئے سرکاری وسائل استعمال کرنا جائز نہیں۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ نک عبدالعزیز جیسی سادگی اور فلسفہ کو اختیارکرنا ملائشیا کے کسی بھی دوسرے سیاست دان کے لئے انتہائی مشکل ہوگا۔
نک عزیز نے1990ء میں وزارت اعلیٰ کی ذمہ داری سنبھالتے ہی اپنی ماہانہ تنخواہ میں40 فیصد کمی کردی۔ انھوں نے مہمان داری کے نام پر حکومتی اخراجات میں غیرمعمولی کٹوتی بھی کی۔ سادہ سے گھر جو آدھے سے زیادہ لکڑی سے بنا ہوا ہے میں رہنے والے نک عبدالعزیز جب اپنے دفتر میں کام کررہے ہوتے تھے تو ان کے سامنے میز پر فائلوں کا انبار ہوتاتھا اوران کے درمیان چندبسکٹ اور گرم پانی کا ایک گلاس۔ سب کچھ اپنی جیب سے حاصل کرتے تھے۔ کام کے دوران صحت کے بعض مسائل سے نمٹنے کے لئے ان کے لئے یہ کھانا ضروری تھا۔کیلنتان کے سب سے طاقتور انسان نے اپنے پورے دور اقتدار میں پروٹوکول کو اپنے اور عوام کے درمیان حائل نہیں ہونے دیا۔
انھوں نے مکمل صاف ستھرے طرزحکمرانی کو رواج دیا، یہی وجہ ہے کہ ان کے پورے دور میں کیلنتان کا کوئی ایک بھی افسر کرپشن میں ملوث نہیں پایا گیا۔ یادرہے کہ کرپشن کے خلاف کام کرنے والی ایجنسیاں وفاقی حکومت کے کنٹرول میں تھیں، وفاقی حکومت ہمیشہ نک عبدالعزیز کی حکومت کی مخالف رہی ، اگر کیلنتان میں کہیں بھی کرپشن اور بدعنوانی کا ہلکا سا شائبہ بھی ہوتا تو 'امنو' کیحکومت ان کے خلاف طوفان بپا کردیتی لیکن ساڑھے بائیس برسوں میں اس بارے میں ایک ہلکی سی آواز بھی سننے کو نہیں ملی۔نک عبدالعزیز اپنے صاف ستھرے طرز حکمرانی کا سبب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: '' میں نے سارے سرکاری حکام کو سمجھایا کہ وہ میرے یا کسی بھی دوسرے انسان کے سامنے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہیں۔آپ کو آخرت کے دن اپنے اعمال کے لئے جوابدہ ہونا ہوگا۔ کردار ہی کو ترجیح دینی چاہئے... اللہ کے خوف کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان رشوت اور بدعنوانی کی طرف بڑھتاجاتاہے...
عبدالعزیز نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کیلنتان میں تمام غیرمسلموں کوبھی ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے لئے مسلمانوں جیسے ہی مواقع ملیں۔ ریاستی حکومت بدھوں کی بہت سی عبادت گاہوں کو ماہانہ فنڈز فراہم کرتی رہی ۔ ملک کے بعض مغربی حصوں میں بدھوں اور عیسائیوں پر پابندی تھی کہ وہ اپنی عبادت گاہ کو مساجد سے زیادہ بلند نہیں کرسکتے تھے تاہم کیلنتان میں ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔ ریاستی حکومت نے یہاں چینیوں کے واحد سیکنڈری سکول کو 1000ایکڑ زمین مفت الاٹ کردی ۔ اسے باقاعدگی سے گرانٹ بھی ملتی رہی۔ چینی قوم کو ہرسال ریاست کی طرف سے 17لاکھ رنگٹ کی گرانٹ ملتی رہی، نک عبدالعزیز رقم کا اعلان بعد میں کرتے تھے جبکہ چیک پہلے سے تیار ہوتاتھا۔یوں چینی قوم کو گرانٹ حاصل کرنے کے لئے حکام کے پیچھے پیچھے نہیں پھرنا پڑا۔
ملائشیا میں رہنے والے دیگر مذاہب کے ماننے والے نک عبدالعزیز کوایک اسلامی سکالر ہونے کے باوجود خوب احترام دیتے ہیں۔ان کے سکھ سیاست دان کرپال سنگھ کے ساتھ بھی بہت اچھے تعلقات ہیں حالانکہ کرپال متعدد بار اسلامی حدود اور اسلامی ریاست کے نظریہ پر کڑی تنقیدکرچکاہے۔ جب وہاں کے عیسائی بشپ بھی ملنے آتے تونک عبدالعزیز ان کا پرتپاک استقبال کرتے تھے۔ انھوں نے 'امنو' کی طرح کبھی لوگوں کو مذہب کی بنیادپر تقسیم کرکے حکومت کرنے کی پالیسی اختیارنہیں کی بلکہ مذہبی بنیادوں پر معاشرے کو ایک کرنے کی کوشش کی۔ وہ نسل پرستی کے سخت مخالف ہیں۔
نک عبدالعزیزکہتے ہیں:'' یہ زمین اللہ کی بنائی ہوئی ہے، ہم میں سے کسی کو بھی اکڑنا نہیں چاہیے حتیٰ کہ وزیراعلیٰ کو بھی نہیں، مجھے بھی انکساری اور عاجزی سے رہنا چاہئے... میں نے کبھی خواہش نہیں کہ مجھے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے میدان میں اتارا جائے، یہ پارٹی کا فیصلہ ہوتا تھا...اندھی تقلید اسلام میں جائز ہی نہیں ہے۔' پاس' کی جدوجہد کا ایک ہی مقصد ہے کہ لوگوں کا مائنڈسیٹ تبدیل کردیاجائے۔ہم چاہتے ہیں کہ لوگ اپنا مائنڈسیٹ تبدیل کردیں کہ یہ دنیا ہمیشہ کے لئے نہیں ہے۔
لاطینی امریکہ کے ملک یورا گوائے کے صدر خوزی موخیکا بھی ایسے ہی سیاست دان ہیں، وہ ماضی کے گوریلا لیڈر ہیں۔ ایک مملکت کے صدر ہونے کے باوجود انھوں نے ایوان صدر میں رہنے سے انکار کردیا، وہ اب بھی اپنی اہلیہ کے گھر میں رہتے ہیں، اگر وہ ایوان صدر میں مقیم ہوتے تو ان کی خدمت کے لئے 42 افراد موجود ہوتے لیکن انہوں نے اپنے گھر میں کسی ایک نوکر چاکر کے بغیرزندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ ان کے کپڑے دھونے کی جگہ ان کے گھر کے باہر ہے۔ پانی وہ گھر کے قریب موجود کنویں سے حاصل کرتے ہیں جہاں جنگلی پھول اگے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ایک قطعہ اراضی ہے جہاں وہ اور ان کی اہلیہ گلِ دائودی کاشت کرتے ہیں اور مارکیٹ میں فروخت کرکے گزربسرکرتے ہیں۔
ان کا سیکورٹی عملہ صرف دو پولیس اہلکاروں اور تین کتوں پر مشتمل ہے جو عام کپڑوں میں ان کے گھر کی طرف جانے والے ایک ایسے کچے راستے پر کھڑے رہتے ہیںجس کے دونوں اطراف میں لیموں کے پیڑ لگے ہوئے ہیں۔خوزی موخیکاکی مجموعی دولت محض 1800 ڈالر ہیں یعنی ایک لاکھ 93ہزار3سو20روپے کے برابر۔ یہ رقم ان کے گیراج میں کھڑی اس پرانی گاڑی کی مالیت کے برابر ہے جسے انھوں نے1987ء میں خریدا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے کبھی ٹائی نہیں لگائی۔ مسٹرموخیکا اپنی تنخواہ 12ہزارامریکی ڈالرز کا 90فیصد حصہ امدادی کاموں میں فراہم کردیتے ہیں۔ زیادہ تر رقم ان لوگوں کیلئے رہائش گاہوں کی تعمیر پرصرف ہوتاہے جو بے گھر ہیں۔ اس کے علاوہ غریبوں اور چھوٹے تاجروں کی مدد بھی کی جاتی ہے۔ ان کی باقی ماندہ تنخواہ یوراگوائے کے ایک عام باشندے کے برابر رہ جاتی ہے یعنی 775 ڈالر ماہانہ۔
پاکستان میں ایسے بھی سیاست دان ہیں جنھوں نے عوام کی نظروں میں غریب اور سادہ بننے کے لئے اپنے سارے اثاثے بیوی کے نام کردیئے اور خود کو کنگال ظاہرکیا لیکن یورا گوائے کے صدرکی اہلیہ کے اثاثوں میں ایک قطعہ اراضی، ٹریکٹرز اور ایک گھر شامل ہے، ان سب کی قیمت دولاکھ پندرہ ہزار کے قریب ہے۔ یہ رقم بھی اسی ملک کے نائب صدر کی ظاہر کی گئی دولت کا ایک تہائی حصہ ہے۔ مسزموخیکا کے سارے اثاثوں کی مالیت سے زیادہ پاکستان کے ایک ایم این اے کا ماہانہ خرچ ہوتاہے۔
گھر کے باغیچے میں پرانی سی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے صدرموخیکا نے بتایا'' میں نے زیادہ تر زندگی ایسے ہی گزاری ہے جوکچھ میرے پاس ہے میں اس کے ساتھ اچھی طرح رہ سکتاہوں۔ یہ آزادی کا معاملہ ہے۔ اگر آپ کے پاس بہت زیادہ املاک نہیں ہیں توآپ کو اپنی تمام عمر انھیں قائم رکھنے کے لئے کام نہیںکرناپڑتا اور اس طرح آپ کے پاس اپنے لئے زیادہ وقت ہوتاہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ صدارت کا منصب ایسا ہوکہ صدر کی پوجا نہ کی جاسکے۔ ہوسکتاہے کہ بطورصدر ان کا طرززندگی غیرمعمولی لوگوں کے لئے حیران کن ہو۔ ان کاکہناتھا کہ انھوں نے دولت اور اقتدار کو اپنے لئے غیراہم بنانے کا فیصلہ پوری طرح سوچ سمجھ کے کیاتھا۔ یادرہے کہ یوراگوائے میں ٹریڈ یونینز ہی بہت مضبوط ہیں، صدرمملکت فرمان بھی جاری کرنا پسند نہیں کرتے ۔ ساری قانون سازی کانگریس کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔
مسٹرموخیکا کہتے ہیں'' انسان غریب نہیں ہوتا بلکہ طمع اور لالچ اسے غریب بناتا ہے۔ جو لوگ مجھے غریبوں میں شمارکرتے ہیں، ان کے لئے عرض ہے کہ میری لغت میں غربت کی تعریف یہ ہے کہ جو فرد بہت زیادہ ضرورت مند ہو۔ جولوگ بہت زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں، وہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے''۔
گل دائودی کے کاشت کار بننے سے پہلے موخیکا ایک گوریلا تنظیم' ٹوپامسروس' میں شامل تھے جو کیوبا کے انقلاب سے متاثرہوکر قائم کی گئی تھی۔ اس کے ارکان بنکوں میں ڈاکے ڈالنے اور لوگوں کو اغوا کرنے جیسے جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ موخیکا کو چھ مرتبہ گولی لگی، 1972ء میں گرفتار ہوئے، اگلے 14برس کے لئے جیل میں قید رہے، دس برس قیدتنہائی میں گزارے۔ یہ قیدتنہائی کیاتھی، انھیں جہاں رکھاگیاتھا وہ ایک سوراخ تھا جو زمین میں کیاگیاتھا۔ اس دوران وہ اور ان کے ساتھی ایک سال تک نہا ہی نہ سکے۔ انھیں جو بستردیاگیا، اس پر ننھے منے مینڈک اور چوہے اچھل کود کرتے رہتے تھے۔اس قیدتنہائی نے بہت سوں کو پاگل کردیا۔ 1985ء میں جمہوریت کی بحالی کے بعد مسٹرموخیکا کو رہائی ملی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدرموخیکا اپنے ایام اسیری کے بارے میں کم ہی بات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قید کی زندگی نے ان کو موجودہ طرززندگی عطاکیاہے اور انھیں سکھایا کہ ایک شخص اپنی زندگی کا ازسرنوآغاز بھی کرسکتاہے۔ اب انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز میدانِ سیاست میںکیا۔ جب وہ رکن پارلیمان منتخب ہوئے تو دیگر پارلیمینٹرینز یہ دیکھ کرحیران رہ گئے کہ موخیکا اپنے پرانے ویسپا پر اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچے۔ سن2004ء میں بائیں بازو اور سنٹرسٹ ڈیموکریٹک پارٹیوں کا اتحاد 'براڈ فرنٹ' اقتدارمیں آیاتو موخیکا کولائیوسٹاک، زراعت اور فشریز کا وزیربنایاگیا۔
سن2009ء کے صدارتی انتخابات میں بڑی اکثریت حاصل کرنے سے پہلے مسٹرموخیکا اپنے مخالفین کی طعنہ زنی کے شدید شکار رہے ہیں۔ ان کے ایک مخالف نے ان کے گھر کو''غار'' قراردیا۔ صدرکی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد مسٹرموخیکا نے ملک کے سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت شدید پریشانی سے دوچار کر دیا جب انھوں نے ساحل سمندر پر صدارتی رہائشگاہ کو فروخت کرکے رقم خزانے میں جمع کرادی۔ ان کا کہناتھا کہ اس صدارتی رہائش گاہ کاکوئی فائدہ نہیں تھا۔
ان کی اہلیہ لوشیاٹوپولانسکی بھی سابق گوریلا لیڈر ہیں۔ انھیں بھی جیل کاٹنا پڑی تھی۔ اب وہ پارلیمان کے ایوان بالا کی رکن ہیں۔ یہ جوڑا اولاد سے محروم ہے تاہم اس کے باوجود اپنی قسمت پر قانع ہے۔ دونوں میاں بیوی کا خیال ہے کہ انھیں زندگی بسر کرنے کے لئے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں۔
سابق مارکسسٹ مسٹرموخیکا کا کہنا ہے کہ میں اس لئے نہیں بدلنا چاہتاکہ میںصدر مملکت ہوں۔ میں اپنی ضرورت سے بہت زیادہ کمالیتاہوں چاہے یہ دوسروں کیلئے کافی محسوس نہ ہوتا ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پیشرو صدر تباری وازکیز بھی اپنے ذاتی گھر میں رہاکرتے تھے ۔ اگرچہ ان کا گھر صاحبان ثروت کے علاقے میں تھا۔ 20ویں صدی کے اوائل میں بیٹلے اورڈونز بھی صدر رہے ہیں، انھوں نے رفاہی ریاست تشکیل دی۔ انھوں نے ہی یہ روایت قائم کی کہ ملک کے صدر اور عام شہری کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہوناچاہئے۔اسی قسم کی روایات کا نتیجہ ہے کہ اس وقت یوراگوائے جنوبی امریکا کے خطے کا سب سے کم کرپٹ ملک ہے اور یہاں کے باسیوں میں مساوات زیادہ نظرآتی ہے۔ اسی طرح یہ ملک اس خطے کا سب سے محفوظ ملک ہے جہاں بدامنی کی شرح بہت کم ہے۔ ان کاکہناہے کہ ملک کی معاشی بڑھوتری ان کی ترجیحات میں پہلے نمبر پر ہے۔
یادرہے کہ یورا گوائے جنوبی امریکہ کے خطے کے جنوبی مشرقی ساحل پرآباد ملک ہے۔ اس کا رقبہ امریکی ریاست واشنگٹن کے برابر ہے۔ اسے اس خطے کا سب سے ترقی یافتہ ملک کہاجاتاہے۔ یہاں35لاکھ لوگ آباد ہیں جن میں سے 92فیصد شہروں میں رہتے ہیں۔
مسٹرموخیکا ایسے شخص ہیں جو الفاظ نہیں بلکہ عمل کے ذریعے اپنے مداحوں کو بھی سادہ زندگی گزارنے کی تلقین کرتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کے بعض ہم وطن ان پر تنقید کرتے ہیں کہ انھیں بطورصدر ایسا طرز زندگی اختیار نہیںکرناچاہئے۔ تاہم زیادہ تر کی نظر میں وہ ہیرو ہیں۔
صدرموخیکا کے دورحکومت میں ایک اہم کارنامہ یہ سرانجام دیاگیا کہ ملک میں تنگ نظری اور عدم برداشت کا گراف خاصا نیچے چلاگیاہے۔ ورنہ یہاں حکومتوں کے تختے الٹنے کا چلن عام تھا۔ اب یوراگوائے لاطینی امریکہ کا ایسا ملک ہے جو سماجی طورپر خاصا آزاد خیال ملک بن چکاہے۔
محمود احمدی نژاد
جب امریکی ٹیلی ویژن چینل فاکس نیوز نے اس وقت کے ایرانی صدر محموداحمدی نژاد سے پوچھا کہ آپ جب صبح بیدارہوکے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہیں تو کیاسوچتے ہیں؟ ایرانی صدر نے جواب دیا '' میں آئینے میں نظرآنے والے شخص کو دیکھتاہوں اور اسے کہتاہوں: یادرکھو! تمہاری کوئی حیثیت نہیں سوائے ایک ادنیٰ ملازم کے۔آج تم پر ایک بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے اور یہ ذمہ داری ہے کہ تم نے ایرانی قوم کی خدمت کرنی ہے''۔ یہ وہی ایرانی صدر ہیں جوصدرمملکت منتخب ہوکر ایوان صدر پہنچے تو انھوں نے وہاں بچھے ہوئے تمام قیمتی قالین دارالحکومت تہران کی ایک مسجد میں بھیج دئیے۔ اوراس کے بجائے کم قیمت کارپٹ بچھادئیے۔انھوں نے دیکھاکہ ایوان صدرمیں اہم شخصیات کے استقبال کے لئے ایک الگ سے لائونج موجود ہے جس پر غیرمعمولی اخراجات اٹھتے ہیں، انھوں نے اس لائونج کو بند کرنے کا حکم دیدیا۔اوراپنے پروٹوکول آفس سے کہاکہ اس غرض کے لئے ایک عام سے کمرے کا اہتمام کرے جس میں صرف لکڑی کی کرسیاں رکھی جائیں۔ یہ وہی ایرانی صدر ہیں جو روز اپنے ساتھ ایک تھیلا لے کر آتے تھے جس میں ان کا ناشتہ ، کچھ سینڈوچز اور روٹی ہوتی تھی، ساتھ روغن زیتون اور پنیربھی۔ یہ سب کچھ ان کی اہلیہ تیار کرتی تھیں۔
وہ اس علاقے میں میونسپلٹی کے عملے کے ساتھ مل کرگلیاں اور سڑکیں صاف کرتے تھے جہاں ان کا گھر ہے اور جہاں ایوان صدر ہے۔ جب بھی وہ کسی کو اپنی کابینہ کا رکن بناتے تو اس سے ایک حلف نامہ لیتے کہ وہ سادگی اختیارکرے گا، اس کے ذاتی اور رشتہ داروں کے بنک اکائونٹس کاجائزہ حکومت لے سکے گی،اس دوران اس کے لئے اوراس کے رشتہ دار وزیرصاحب کی حیثیت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔محمود نژاد نے صدربنتے ہی اپنے اثاثوں کا اعلان کردیا جن میں 1977ء ماڈل کی ایک Peugeot 504 کار،تہران کے غریب علاقے میں ایک پرانا، چھوٹاگھر جو انھیں چالیس برس قبل اپنے والدصاحب کی طرف سے ملاتھا۔ ان کے اکائونٹس میں ایک دھیلابھی نہیں تھا، اس اکائونٹ میں ایک تنخواہ آتی تھی جو انھیں یونیورسٹی میں بطورلیکچررخدمات انجام دینے پرملتی تھی۔ یہ تنخواہ 26ہزار855روپے پاکستانی کے برابرتھی۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ وہ جب تک صدر رہے ، انھوں نے اس حیثیت سے ایک دن بھی تنخواہ وصول نہیں کی۔ ان کاکہناتھا کہ تمام دولت قوم کی ملکیت ہے اور وہ تو اس کے محافظ ہیں۔ وہ صدرہونے کے باوجود اپنے ذاتی گھر میں ہی مقیم رہے۔
صدر محمود نژاد ایرانی صدر کے لئے مخصوص جہاز کو ایک کارگوجہازمیں بدل دیا۔ اس طرح انھوں نے قومی خرانے کو ایک بڑے خرچ سے بچالیا۔جبکہ خود عام جہازوں کی اکانومی کلاس میں سفر کرتے رہے۔ انھوں نے صدرمملکت کے مینیجر کی پوسٹ ختم کرکے خود وزراء کے ساتھ آئے روز میٹنگز شروع کردیں جس میں ان کی کارکردگی اور مسائل پر بحث کرتے۔ کوئی بھی وزیر صدرمملکت کے کمرے میں کسی بھی وقت بغیر اجازت کے داخل ہوسکتاتھا۔ انھوں نے ریڈکارپٹ ، فوٹوسیشن اور ذاتی تشہیرکے کلچر کو ختم کردیا۔ اسی طرح انھوں نے حکم دیا کہ ان کے احترام کے لئے کوئی سرگرمی انجام نہ دی جائے۔وہ جس ہوٹل میں بھی قیام کرتے ، وہاں اپنے لئے ایسا کمرہ حاصل کرتے جہاں بیڈ نہ ہو کیونکہ انھیں زمین پر میٹرس رکھ کر سونا زیادہ پسند تھا۔دنیا والوں کو ان کی ایسی تصاویر اکثردیکھنے کو ملیں جس میں وہ صوفے پر سوئے ہوئے ہیں، ان کی ایک تصویر سب سے زیادہ عام ہوئی جس میں انھوں نے ایک ایسا کوٹ پہناہواتھا جو بغل سے پھٹاہوا نظرآرہاتھا۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ ...
ایک طرف یورا گوائے اور ایران کے صدور، ملائشیا اور بھارت کی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کی زندگیاں تو دوسری طرف ہمارے حکمران۔ پاکستان کے صدرمملکت اور وزیراعظم، گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کی تنخواہوں اور مراعات کا کیا تذکرہ کیاجائے ، یہاں کے ارکان پارلیمان بھی یورا گوائے، ایران، ملائشیا اور بھارت سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے کل اثاثوں کی مالیت کے برابر ان کی ماہانہ تنخواہ اور مراعات ہوتی ہے۔
قومی اسمبلی کے 29جنوری2013ء کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق رکن پارلیمان کی ماہانہ تنخواہ 27 ہزار 377روپے ہوگی۔ ایڈہاک الائونس 2010ء کے نام پر 11,903 روپے، دفتر کی تزئین وآرائش اور دیگرضروریات کے لئے 8ہزار روپے، ٹیلی فون الائونس10ہزار روپے،ذاتی ضروریات کے لئے 5ہزار روپے، ایڈہاک ریلیف الائونس کے نام پر3571روپے، ایڈہاک ریلیف الائونس 2012ء کے نام پر5475روپے شامل ہیں۔ یوں مجموعی طور پر انھیں 71ہزار326روپے ملتے ہیں۔ پارلیمان کے اجلاس سے تین دن پہلے، اجلاس کے دوران اور اجلاس کے تین دن بعد تک روزانہ کا الائونس ایک ہزار روپے، کنوینس الائونس 750روپے روزانہ اور ہائوسنگ الائونس 2000 روپے روزانہ کے حساب سے ملتے ہیں۔ یوں وہ روزانہ 3750 روپے سمیٹتے ہیں۔ اگروہ فضائی سفر کرتے ہوئے اسلام آباد آئیں تو انھیں بزنس کلاس میں سیٹ میسر ہوگی اور اس کا کرایہ محض 150روپے وصول کیاجائے گا۔ اگروہ ریل کے ذریعے آناچاہیں تو فرسٹ کلاس میں مفت سفر کی سہولت ملے گی اوراگر وہ اپنی گاڑی پر بذریعہ سڑک آئیں تو انھیں 10روپے فی کلومیٹر کے حساب سے اداکئے جائیں گے۔ عام حالات میں انھیں ٹریول وائوچرز کی صورت میں تین لاکھ روپے یاپھرنقد کی صورت میں90ہزار روپے سالانہ کے حساب سے الگ ٹریول الائونس ملتاہے۔ ہرسال ہوائی سفر کے 20بزنس کلاس ریٹرن ٹکٹ بھی ملتے ہیں۔ گورنمنٹ کے کلاس اول کے ملازم کو جتنی میڈیکل سہولیات ملتی ہیں، وہ رکن پارلیمان کو بھی حاصل ہوں گی۔
یہ تنخواہ اور مراعات وہ ہیں جو قومی اسمبلی کے نوٹیفکیشن کے مطابق ہیں۔ تاہم قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستانی پارلیمان کا ایک رکن اپنی اس حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے ایک مہینے میں کتناکچھ کمالیتاہے۔قوم نے دیکھ لیاکہ کس طرح ارکان پارلیمان جھوٹ بول کر، جعلی ڈگریوں کی بنیادپر رکن پارلیمان بنتے تھے۔جعلی ڈگریوں کا ایک جھوٹ تھا جو پکڑا گیا، یہ پارلیمان سے جعلی کاغذات اور بلز کی بنیادپر کئی گناوصول کرتے ہیں۔ ان کی ایک مہینے کی کمائی یورا گوائے کے صدر کے اثاثوں کی کل مالیت کے برابر ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ غربت سمیت دیگرمشکلات کی ماری ہوئی اس قوم کے حکمران اور نمائندگان اس قدربھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات وصول کرکے اپنی قوم کیلئے کیاخدمات سرانجام دے رہے ہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ہرایک کو ضرورت ہے۔
مانک سرکار
بھارتی ریاست تریپورا کے وزیراعلیٰ مالک سرکار ملک کے سب سے غریب حکمران ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) سے تعلق رکھنے مالک سرکارکی حکمرانی کو پندرہ برس ہوچکے ہیں لیکن آج بھی وہ نہ ذاتی گھر کے مالک بنے ہیں نہ ہی ان کے پاس کوئی اپنی گاڑی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی طرح انھوں نے اقتدارمیں آتے ہی سب سے پہلے اپنی اور ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا بلکہ تری پورہ کے وزیراعلیٰ کی تنخواہ بھارت کے دیگروزرائے اعلیٰ کی نسبت سب سے کم ہے۔ مالک سرکار اپنی ساری تنخواہ اور الائونسز پارٹی کے خزانے میں جمع کراتے ہیں۔ پارٹی انھیں محض پانچ ہزار روپے(بھارتی) دیتی ہے جو8 ہزار 464 روپے پاکستانی کے برابر ہیں۔ ایک ریاست کا وزیراعلیٰ انہی روپوں سے اپنا گھربارچلاتاہے۔ وہ متوسط طبقے میں پیدا ہوئے، ان کے والد ایک درزی جبکہ والدہ سرکاری ملازم تھی۔
مانک سرکار اور ان کی اہلیہ نہایت سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ جب ان کی اہلیہ کو کہیں سفر کے لئے جانا ہوتاہے تو وہ اپنے ذاتی خرچ سے رکشہ پر کرتی ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ ان کا کوئی سیکورٹی گارڈ نہیں ہوتا۔سرکارکے خرچ پر حفاظتی عملہ رکھ کر وہ سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں بننا چاہتے لیکن ذاتی محافظ رکھنے کی استطاعت نہیں۔
مانک سرکارایسے حکمران ہیں جن کے مخالفین بھی انھیںکرپشن سے پاک قراردیتے ہیں۔سن2008ء میں جب مسٹرمانک سرکار کے پاس نقدی اور بنک اکائونٹ میں موجود رقم کو جمع کیاگیا تو یہ 16 ہزار 120روپے تھے ، حال ہی میں جب ان کے پاس موجود دولت کا پتہ چلایا گیا تو 10ہزار800روپے تھے۔ 2009ء میں جب وزیراعلیٰ کی والدہ کا انتقال ہواتو انھیں اگرتلہ میں ایک مکان ورثے میں ملا تاہم وزیراعلیٰ نے یہ مکان اپنے ایک رشتہ دار کو عطیہ کردیا۔
مانک سرکار ہمیشہ سفیدکرتا اور پاجامہ زیب تن کرتے ہیں۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ مانک سرکار کا ای میل اکائونٹ ہے نہ ہی ان کی بیگم کا ہے۔ ان کے گھر میں لینڈلائن نمبر ہے، کیونکہ دونوں میاں بیوی موبائل استعمال کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ وزیراعلیٰ کے طرززندگی سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو مکمل طورپر عوام کی خدمت میں وقف کررکھاہے۔ وہ اپنی ذات پر عوام کی خوشحالی کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی پہلو انھیں عوام میں ایسی مقبولیت بخشے ہوئے ہے جو کم ہونے میں ہی نہیں آرہی۔