کرونا وائرس اور ہومیوپیتھی طریقہ علاج
عالمی ادارہ صحت (ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن) نے کرونا وائرس کو عالمی وباء قرار دیا ہے
کرونا وائرس کے نام سے پھیلنے والا وبائی مرض جو چین کے شہر واہان سے پھیلا، اس وقت دنیا بھر کے29 ممالک میں پھیل چکا ہے جن میں تھائی لینڈ، فرانس، فلپائن، امریکا، آسٹریلیا اور انڈیا، جاپان،ملائیشیا اورجرمنی وغیرہ شامل ہیں۔تادم تحریر عالمی سطح پر مجموعی 75223 ا فراد 'کرونا وائرس' سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس وبائی مرض سے چین میں مرنے والوں کی تعداد اب تک 2012 ہوچکی ہے۔ یورپ میں اب تک اس وائرس سے ایک فرد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن) نے کرونا وائرس کو عالمی وباء قرار دیا ہے۔ادارہ نے چین سے پھیلنے والے اس وبائی وائرس کو Covid-19کا نام دیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈانوم نے جینیوا میں میڈیا کو بتایا کہ کرونا وائرس سے جب ہلاکتوں نے ایک ہزار سے تجاوز کیا تو اس مرض کو ایک خاص نام دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ دراصل محققین وائرس کی وجہ سے نمودار ہونے والے مرض کیلئے ایک مخصوص نام رکھنے کا مطالبہ کر رہے تھے تا کہ کسی بھی ملک اور گروپ سے منسوب ہونے والی پریشانی یا طنز سے بچ سکیں۔
اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسا نام تلاش کرنا پڑا جو کسی جگہ، جانور،کسی گروپ یا فرد سے نہ ملتا جلتا ہو اور بیماری کو بھی واضح کرے ۔اُن کا کہنا تھا کہ نام رکھنے سے نامناسب اور بدنامی کا باعث بننے والے ناموں سے تحفظ مقصود ہوتا ہے۔ یہ نام مستقبل میں وائرس پھیلنے کی صورت میں ایک معیار دے سکتا ہے۔
غیرملکی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کے مطابق وبا کا نیا نام کورونا وائرس اور بیماری کا مرکب جس میں2019ء کا سال نمایاں ہے کیونکہ 'عالمی ادارہ صحت' کو اس وائرس کی اطلاع گزشتہ برس31 دسمبر کو ملی تھی۔ ماہرین اس مرض کی روک تھام کیلئے ویکسین کی تیاری میں دن رات کوشاں ہیںاور جلد ہی اس موذی اور جان لیوا بیماری کے تدارک کیلئے پُرامید بھی ہیں۔
اس موذی بیماری کے حوالے سے 'مائیکروسافٹ' کے بانی بل گیٹس نے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کرونا وائرس کو ایک بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ وائرس افریقی ممالک میں وبائی صورت اختیار کرتا ہے جہاں صحت کی سہولیات اسے قابو نہیں کرسکیں گی تو اس کے نتیجے میںاندازاً ایک کروڑ افراد کی موت ہوسکتی ہے۔
علامات
کرونا وائرس سے متاثر ہ افراد میں بنیادی طور پر جو علامات ظاہر ہوتی ہیں ان میں تیز بخار،سانس لینے میں دشواری اور کھانسی شامل ہوتی ہے۔ وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کیلئے طبی ماہرین کی جانب سے چند ہدایات جاری کی گئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کھانسنے یا چھینکنے کے دوران منہ اور ناک کو ٹشوپیپر یا صاف کپڑے سے ڈھانپا جائے اور استعمال کرنے کے بعد کوڑا دان میں ڈالا جائے۔ہاتھوں کو صابن اور پانی کے ساتھ اکثر دھویا جائے۔ہاتھ صاف نہ ہونے کی صورت میں اپنی آنکھوں،ناک اور منہ کو نہ چھوا جائے،جو افراد بیمار ہیں ان کے ساتھ قریبی رابطہ کرنے سے پرہیز کیا جائے۔
علاج
کرونا وائرس کی بیماری کی شرو عات جن علامات سے ظاہر ہوتی ہے ان کامستند علاج ہومیو پیتھی میں موجود ہے جیسے کہ بخار کی حالت میں سردی لگنا اور فلوہونا۔ ان دونوں امراض کا علاج ہومیو پیتھی کے ذریعے گزشتہ 200 سال سے زائد عرصہ سے نہایت کامیابی کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ اس کی مثال اس واقعے سے سمجھی جا سکتی ہے، جب1918ء میں سپین کے اندر فلو کی وباء پھوٹی تو اس نے یورپ کے ایک بڑے حصے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔اس دوران میں ہومیو پیتھی علاج نے ایک اہم کردار ادا کیا جو تاریخ میںایک ریکارڈہے۔اب چونکہ ہومیو پیتھی میںکافی ریسرچ ہوچکی ہے لہذا ان دونوں بیان کردہ امراض کے علاج کیلئے پوری دنیا میںہومیو پیتھی دواؤں کووسیع پیمانے پراعتمادکے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کے ہومیو پیتھک ڈاکٹرز کی اکثریت بعض دواؤں بالخصوص مندرجہ ذیل کو کرونا وائرس کے علاج کیلئے موثر قرار دے رہی ہے۔
آرسینک البم
شدید چھینکنے اور کھانسنے کے دوران آنکھوں سے پانی کا اخراج ہونا،پیاس لگنا اور ٹھنڈا پانی پینے کی طلب کرنا، سانس لینے میں دشواری، کمزوری اور نقاہت محسوس ہونا، ہیضے اور الٹی کا ہونا۔ ان تمام صورتوں میں آرسینک البم کا استعمال بہت موثر ہے۔
بیلاڈونا
ہومیو پیتھی طریقہ علاج میں استعمال ہونے والی یہ ایک اہم دوا ہے۔جسم میں کسی حصے پرسوزش کا پایا جانا جس میں سرخی ظاہر ہو یا سرخ دانے ہوں، گردوں اور مثانے کی نالی میں سوزش کا ہونا۔بلند فشار خون کا ہونا۔ ان تمام علامتوں میں بیلا ڈونا بہت کام کرتی ہے۔
برائیونیا ایلبا
نزلہ، زکام اور بخار کی صورت میں بھی اس دوائی کا استعما ل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دوا جسمانی دردوں کو دور کرنے کیلئے بھی استعمال ہوتی ہے۔
احتیاط
اگرمعاشرے میں اس مرض کے غالب آنے کاخدشہ ہو تو معاشرے میں تمام افراد کو احتیاطی تدبیرکے طور پر سفر کے دوران منہ پر ماسک پہننا چاہئیے۔اگر کسی شخص میںکرونا وائرس کی علامات ظاہر ہوں توا سے فوراً ہسپتال منتقل کیا جانا ضروری ہے۔ سرکاری سطح پرہومیو پیتھی کی دوا کو کورونا وائرس کے توڑ کیلئے عوام الناس کو ترغیب دینا ایک خوش آئین اقدام ہے۔ خاص طور پر بھارت جیسے ملک میں جہاں ایک اندازے کے مطابق 10کروڑ افراد ہومیوپیتھی کو اختیار کرتے ہیں۔
بھارت میں کرونا وائر س کا پہلا کیس29 جنوری2020ء کو سامنے آیا، جب ایک 29 سالہ لڑکے کو یہ مرض لاحق ہوا جو چین میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے واہان یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ اس لڑکے کا تعلق بھارت کی ریاست کیرالہ سے ہے۔ اس کا کرونا وائرس ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ہسپتال کی ایک الگ وارڈ میں رکھا گیا اور اس کا علاج جاری ہے۔
اب تک مجموعی طور پر انڈیا میں کرونا وائرس کے کل تین کیس سامنے آئے ہیں۔ بھارتی حکومت کی وزارت صحت کے ماتحت کام کرنے والے ادارے 'سینٹرل کونسل فار ریسرچ آف ہومیوپیتھی' کے سائینٹیفک بورڈ نے29 جنوری ہی کو عوام الناس کیلئے ایک ایڈوائزی جاری کی جس میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کیلئے ہومیو پیتھی طریقہ علاج موزوں ہے۔ اس میں ایک دوا کے استعمال کیلئے راغب کیا ہے جس کا نام Arsenicum Album 30 ہے۔
اس سرکاری بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ اس دوا کو کرونا وائرس سے بچاؤ سے پیشگی احتیاط کے طور پر استعمال میں لایا جائے، صبح نہار منہ اس دوائی کی ایک خوراک تین یوم کیلئے استعمال کی جائے تاکہ کرونا وائرس کے ممکنہ حملے سے بچا جاسکے۔ دوا استعمال کرنے کی اس ترتیب کو ایک ماہ کے بعد دوبارہ دہرالیا جائے۔
عالمی ادارہ صحت (ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن) نے کرونا وائرس کو عالمی وباء قرار دیا ہے۔ادارہ نے چین سے پھیلنے والے اس وبائی وائرس کو Covid-19کا نام دیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈانوم نے جینیوا میں میڈیا کو بتایا کہ کرونا وائرس سے جب ہلاکتوں نے ایک ہزار سے تجاوز کیا تو اس مرض کو ایک خاص نام دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ دراصل محققین وائرس کی وجہ سے نمودار ہونے والے مرض کیلئے ایک مخصوص نام رکھنے کا مطالبہ کر رہے تھے تا کہ کسی بھی ملک اور گروپ سے منسوب ہونے والی پریشانی یا طنز سے بچ سکیں۔
اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسا نام تلاش کرنا پڑا جو کسی جگہ، جانور،کسی گروپ یا فرد سے نہ ملتا جلتا ہو اور بیماری کو بھی واضح کرے ۔اُن کا کہنا تھا کہ نام رکھنے سے نامناسب اور بدنامی کا باعث بننے والے ناموں سے تحفظ مقصود ہوتا ہے۔ یہ نام مستقبل میں وائرس پھیلنے کی صورت میں ایک معیار دے سکتا ہے۔
غیرملکی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کے مطابق وبا کا نیا نام کورونا وائرس اور بیماری کا مرکب جس میں2019ء کا سال نمایاں ہے کیونکہ 'عالمی ادارہ صحت' کو اس وائرس کی اطلاع گزشتہ برس31 دسمبر کو ملی تھی۔ ماہرین اس مرض کی روک تھام کیلئے ویکسین کی تیاری میں دن رات کوشاں ہیںاور جلد ہی اس موذی اور جان لیوا بیماری کے تدارک کیلئے پُرامید بھی ہیں۔
اس موذی بیماری کے حوالے سے 'مائیکروسافٹ' کے بانی بل گیٹس نے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کرونا وائرس کو ایک بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ وائرس افریقی ممالک میں وبائی صورت اختیار کرتا ہے جہاں صحت کی سہولیات اسے قابو نہیں کرسکیں گی تو اس کے نتیجے میںاندازاً ایک کروڑ افراد کی موت ہوسکتی ہے۔
علامات
کرونا وائرس سے متاثر ہ افراد میں بنیادی طور پر جو علامات ظاہر ہوتی ہیں ان میں تیز بخار،سانس لینے میں دشواری اور کھانسی شامل ہوتی ہے۔ وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کیلئے طبی ماہرین کی جانب سے چند ہدایات جاری کی گئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کھانسنے یا چھینکنے کے دوران منہ اور ناک کو ٹشوپیپر یا صاف کپڑے سے ڈھانپا جائے اور استعمال کرنے کے بعد کوڑا دان میں ڈالا جائے۔ہاتھوں کو صابن اور پانی کے ساتھ اکثر دھویا جائے۔ہاتھ صاف نہ ہونے کی صورت میں اپنی آنکھوں،ناک اور منہ کو نہ چھوا جائے،جو افراد بیمار ہیں ان کے ساتھ قریبی رابطہ کرنے سے پرہیز کیا جائے۔
علاج
کرونا وائرس کی بیماری کی شرو عات جن علامات سے ظاہر ہوتی ہے ان کامستند علاج ہومیو پیتھی میں موجود ہے جیسے کہ بخار کی حالت میں سردی لگنا اور فلوہونا۔ ان دونوں امراض کا علاج ہومیو پیتھی کے ذریعے گزشتہ 200 سال سے زائد عرصہ سے نہایت کامیابی کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ اس کی مثال اس واقعے سے سمجھی جا سکتی ہے، جب1918ء میں سپین کے اندر فلو کی وباء پھوٹی تو اس نے یورپ کے ایک بڑے حصے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔اس دوران میں ہومیو پیتھی علاج نے ایک اہم کردار ادا کیا جو تاریخ میںایک ریکارڈہے۔اب چونکہ ہومیو پیتھی میںکافی ریسرچ ہوچکی ہے لہذا ان دونوں بیان کردہ امراض کے علاج کیلئے پوری دنیا میںہومیو پیتھی دواؤں کووسیع پیمانے پراعتمادکے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کے ہومیو پیتھک ڈاکٹرز کی اکثریت بعض دواؤں بالخصوص مندرجہ ذیل کو کرونا وائرس کے علاج کیلئے موثر قرار دے رہی ہے۔
آرسینک البم
شدید چھینکنے اور کھانسنے کے دوران آنکھوں سے پانی کا اخراج ہونا،پیاس لگنا اور ٹھنڈا پانی پینے کی طلب کرنا، سانس لینے میں دشواری، کمزوری اور نقاہت محسوس ہونا، ہیضے اور الٹی کا ہونا۔ ان تمام صورتوں میں آرسینک البم کا استعمال بہت موثر ہے۔
بیلاڈونا
ہومیو پیتھی طریقہ علاج میں استعمال ہونے والی یہ ایک اہم دوا ہے۔جسم میں کسی حصے پرسوزش کا پایا جانا جس میں سرخی ظاہر ہو یا سرخ دانے ہوں، گردوں اور مثانے کی نالی میں سوزش کا ہونا۔بلند فشار خون کا ہونا۔ ان تمام علامتوں میں بیلا ڈونا بہت کام کرتی ہے۔
برائیونیا ایلبا
نزلہ، زکام اور بخار کی صورت میں بھی اس دوائی کا استعما ل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دوا جسمانی دردوں کو دور کرنے کیلئے بھی استعمال ہوتی ہے۔
احتیاط
اگرمعاشرے میں اس مرض کے غالب آنے کاخدشہ ہو تو معاشرے میں تمام افراد کو احتیاطی تدبیرکے طور پر سفر کے دوران منہ پر ماسک پہننا چاہئیے۔اگر کسی شخص میںکرونا وائرس کی علامات ظاہر ہوں توا سے فوراً ہسپتال منتقل کیا جانا ضروری ہے۔ سرکاری سطح پرہومیو پیتھی کی دوا کو کورونا وائرس کے توڑ کیلئے عوام الناس کو ترغیب دینا ایک خوش آئین اقدام ہے۔ خاص طور پر بھارت جیسے ملک میں جہاں ایک اندازے کے مطابق 10کروڑ افراد ہومیوپیتھی کو اختیار کرتے ہیں۔
بھارت میں کرونا وائر س کا پہلا کیس29 جنوری2020ء کو سامنے آیا، جب ایک 29 سالہ لڑکے کو یہ مرض لاحق ہوا جو چین میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے واہان یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ اس لڑکے کا تعلق بھارت کی ریاست کیرالہ سے ہے۔ اس کا کرونا وائرس ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ہسپتال کی ایک الگ وارڈ میں رکھا گیا اور اس کا علاج جاری ہے۔
اب تک مجموعی طور پر انڈیا میں کرونا وائرس کے کل تین کیس سامنے آئے ہیں۔ بھارتی حکومت کی وزارت صحت کے ماتحت کام کرنے والے ادارے 'سینٹرل کونسل فار ریسرچ آف ہومیوپیتھی' کے سائینٹیفک بورڈ نے29 جنوری ہی کو عوام الناس کیلئے ایک ایڈوائزی جاری کی جس میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کیلئے ہومیو پیتھی طریقہ علاج موزوں ہے۔ اس میں ایک دوا کے استعمال کیلئے راغب کیا ہے جس کا نام Arsenicum Album 30 ہے۔
اس سرکاری بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ اس دوا کو کرونا وائرس سے بچاؤ سے پیشگی احتیاط کے طور پر استعمال میں لایا جائے، صبح نہار منہ اس دوائی کی ایک خوراک تین یوم کیلئے استعمال کی جائے تاکہ کرونا وائرس کے ممکنہ حملے سے بچا جاسکے۔ دوا استعمال کرنے کی اس ترتیب کو ایک ماہ کے بعد دوبارہ دہرالیا جائے۔