دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا جائے
دنیا بھر کے اسمگلر، قاتل، جعل ساز اور دہشت گرد شہر قائد میں روپوش ہیں اور منی پاکستان طالبان کا گڑھ بنتا جارہا ہے
کراچی کے علاقے انچولی میں جمعہ کو یکے بعد دیگرے دو دھماکوں میں ایک صحافی اوربچے سمیت 7 افراد جاں بحق اور 40 سے زائد زخمی ہونے کی اطلاع اہل وطن کے لیے کسی صدمہ جانکاہ سے کم نہیں، ابھی تو سانحہ پنڈی کا درد و الم اشکبار آنکھوں سے جھلک رہا ہے کہ دہشت گردوں نے ملک کے سب سے بڑے تجارتی مرکز کو اپنا نشانہ بنالیا۔ مجلس وحدت مسلمین اورتحفظ عزاداری کونسل نے تین جب کہ ایم کیو ایم نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ دریں اثنا شہر میں بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ کے دوسرے واقعات میں 6 افراد جاں بحق اور پولیس اہلکار سمیت 9 افراد زخمی ہوئے۔ انچولی کا علاقہ انتہا پسند کسی بھی گروہ نے اس کی حساسیت کے اعتبار سے منتخب کیا ہوگا، اس لیے کہ اس علاقے میں وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی کوششوں کو سبوتاژ کرکے اپنے مذموم مقاصد میں مزید آگے بڑھ سکتے تھے۔
سانحہ روالپنڈی کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے تھا کہ ملک میں کہیں بھی دہشت گردی کی واردات ہو سکتی ہے لہٰذا انھیں ناکام بنانے کے لیے کاؤنٹر ٹیررازمیکنزم کو سرعت کے ساتھ کام میں لانا چاہیے تھا، مگر دیکھا گیا ہے کہ ارباب اختیار، پولیس، رینجرز، ایف سی اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کا بعد از خرابی بسیار اقدامات کا ڈھول پیٹنے کا رواج ایک افسوس ناک روش کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ نے سانحہ انچولی کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سے رپورٹ طلب کرلی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا کہ کراچی میں ہونے والے دھماکے افسوسناک ہیں، ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے کہا کہ عوام مشتعل ہونے کے بجائے صبر سے کام لیں۔
دنیا بھر کے اسمگلر، قاتل، جعل ساز اور دہشت گرد شہر قائد میں روپوش ہیں، لاکھوں غیر ملکی تارکین وطن نارا ادارہ کی طرف سے کریک ڈاؤن نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کی سماجی زندگی کو تلپٹ کرنے میں مصروف ہیں، دہشت گرد کہیں بھی پکڑے جائیں اس کا رد عمل کراچی میں ظاہر ہوتا ہے۔ منی پاکستان طالبان کا گڑھ بنتا جارہا ہے، سہراب گوٹھ، بلدیہ ٹاؤن، لانڈھی کورنگی، بنارس، منگھو پیر اور کیماڑی اس کے ٹھکانے ہیں جن کو ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں نظر انداز کررہی ہیں۔ دہشت گرد جانتے ہیں کہ کراچی کو ہٹ کرکے وہ پورے پاکستان میں سراسیمگی پھیلا سکتے ہیں۔ وہ سیاسی طور پر تقسیم اس خوفزدہ شہر کو لبنان بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ کوشش وخواہش کچل دینی چاہیے۔ کیا لیاری میں 2001ء سے جاری گینگ وار 2013ء میں پولیس اور رینجرز کے لیے سوالیہ نشان نہیں؟
سانحہ روالپنڈی کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے تھا کہ ملک میں کہیں بھی دہشت گردی کی واردات ہو سکتی ہے لہٰذا انھیں ناکام بنانے کے لیے کاؤنٹر ٹیررازمیکنزم کو سرعت کے ساتھ کام میں لانا چاہیے تھا، مگر دیکھا گیا ہے کہ ارباب اختیار، پولیس، رینجرز، ایف سی اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کا بعد از خرابی بسیار اقدامات کا ڈھول پیٹنے کا رواج ایک افسوس ناک روش کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ نے سانحہ انچولی کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سے رپورٹ طلب کرلی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا کہ کراچی میں ہونے والے دھماکے افسوسناک ہیں، ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے کہا کہ عوام مشتعل ہونے کے بجائے صبر سے کام لیں۔
دنیا بھر کے اسمگلر، قاتل، جعل ساز اور دہشت گرد شہر قائد میں روپوش ہیں، لاکھوں غیر ملکی تارکین وطن نارا ادارہ کی طرف سے کریک ڈاؤن نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کی سماجی زندگی کو تلپٹ کرنے میں مصروف ہیں، دہشت گرد کہیں بھی پکڑے جائیں اس کا رد عمل کراچی میں ظاہر ہوتا ہے۔ منی پاکستان طالبان کا گڑھ بنتا جارہا ہے، سہراب گوٹھ، بلدیہ ٹاؤن، لانڈھی کورنگی، بنارس، منگھو پیر اور کیماڑی اس کے ٹھکانے ہیں جن کو ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں نظر انداز کررہی ہیں۔ دہشت گرد جانتے ہیں کہ کراچی کو ہٹ کرکے وہ پورے پاکستان میں سراسیمگی پھیلا سکتے ہیں۔ وہ سیاسی طور پر تقسیم اس خوفزدہ شہر کو لبنان بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ کوشش وخواہش کچل دینی چاہیے۔ کیا لیاری میں 2001ء سے جاری گینگ وار 2013ء میں پولیس اور رینجرز کے لیے سوالیہ نشان نہیں؟