ابھی چراغوں میں روشنی ہے
ہم میں ایک برائی یہ ہے کہ ہم باتیں زیادہ کرتے ہیں اور عملی طور پر قدم اٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔
اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے توایک بات بڑی واضح نظر آتی ہے کہ جس بھی اسلامی مملکت نے ترقی کی راہ پر چلنا شروع کیا اسی دم سازشوں، خلفشاروں کا بازار گرم ہونا شروع ہوگیا یہاں تک کہ خلفائے راشدینؓ کے دور میں بھی یہ کشمکش اور زور کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا تھا۔
اس کا اظہار بھی ہوا لیکن قابلیت، دانشوری اور انصاف کے عمل سے بہت سی سازشوں کا دم گھونٹ دیا گیا۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ تھی کہ خلفائے راشدینؓ ہر روز اپنا احتساب کرتے تھے۔ ایسا ہر گز نہ تھا کہ کسی کتاب میں لکھا ہو کہ خلیفہ وقت زرق برق کپڑوں میں اعلیٰ سواری پر چلے جا رہے ہوں اور عام رعایا غربت میں سسک رہی ہو۔ یہ اعلیٰ ظرف ہستیاں خود سادہ غذا پر گزارا کرتے روکھا سوکھا کھاتے، پرانے کپڑے زیب تن کرتے نہ سیکیورٹی گارڈز نہ اور کوئی حفاظتی سہولت، انصاف سب کے لیے ایک سا تھا، وہ جانتے تھے کہ اگر ان کی رعایا ان سے ناخوش رہے گی تو خدا بھی ان سے خوش نہ ہوگا اور اس پکڑ کو وہ اتنا شدت سے محسوس کرتے تھے کہ اپنے ہر عمل میں اس ذات باری کو منصف ٹھہراتے کیونکہ وہ اس کے عذاب سے سخت خوفزدہ تھے۔
بیت المال کی ایک ایک پائی کا حساب رکھتے اور اپنی تنخواہ بھی اسی طرح وصول کرتے جیسے ایک عام سپاہی نہ ایک پائی زیادہ نہ کوئی امیر وقت ہونے کے ناتے کوئی سفارش حالانکہ اگر چاہتے تو بہت کچھ کرسکتے تھے لیکن انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کی جانب توجہ دی اور اسلامی مملکت کی حدود میں اضافہ کیا، انصاف پر توجہ دی، امن و عامہ، رعایت کی فلاح کے منصوبے، بیواؤں اور یتیموں کے لیے وظائف، ٹیکسوں کا متناسب نظام یہ سب ان کے دور کی بہت اہم خوبیاں ہیں جنھیں اگر اس قدیم دور کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اتنا متوازن تھا کہ جس کی مثال نہیں ملتی ساتھ ساتھ باغیوں، منکروں کی شورشوں سے بھی مقابلہ چلتا رہا، عملی طور پر وہ لوگ جفاکش اور اپنی رعایا کے وفادار حکمراں تھے جنھیں اپنے سے زیادہ اپنی رعایا کے دکھ سکھ کی فکر تھی یقینا وہ بھی انسان تھے میری اور آپ کی طرح لیکن ان کے جذبوں کی صداقت نے انھیں بلند مقام پر فائز کیا۔
ہم میں ایک برائی یہ ہے کہ ہم باتیں زیادہ کرتے ہیں اور عملی طور پر قدم اٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسروں پر تنقید کرکے اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں خدا نے انسان کے اندر ضمیر نام کا ایک کردار رکھا ہے اسے یکسر فراموش کر دیتے ہیں، جھوٹی باتیں کرکے ہم جھوٹ کو ہی سچ سمجھنے لگتے ہیں اس لیے ضمیر بے چارا اکیلا کیا کیا کرے، تھک کر وہ بے چارا خود ہی خاموش ہوجاتا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم اور ایرانی وزیر اعظم اپنے ملکوں میں ایک عام شہری کی طرح ٹرینوں میں سفر کرسکتے ہیں لیکن ہمارے ملک کی صورت حال تو اب اس قدر پیچیدہ ہوتی جارہی ہے کہ شہباز شریف جیسے نڈر وزیر اعلیٰ کو بھی سیکیورٹی کے خدشات کے تحت اپنی رہائش بدلنی پڑی ایسا کرنے کی ضرورت آخر کیوں پیش آئی کہ اپنے ہی ملک میں ایک عام شہری تو کیا ایک وزیر بھی اپنی زندگی کو غیر محفوظ سمجھتا ہے ظاہر ہے کہ پچھلے چند مہینوں میں جو کچھ ہوچکا ہے وہ یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ ہر شخص کی جان و مال اور عزت کی حفاظت اب اسٹیٹ کی نہیں خود اس شخص کی ذمے داری ہے۔ کس وقت کہاں پر کیا ہوجائے کہنا ممکن نہیں، لیکن جو کچھ کیا جاچکا ہے کیا اس پر بھی غور کیا گیا تھا۔
راولپنڈی جیسے پرامن شہر میں جو کچھ ہوچکا ہے اس کی تفصیلات میں جانے کی بجائے صرف اتنا ہی عرض ہے کہ اگر ملک بھر میں محرم اور ربیع الاول جیسے مقدس مہینوں میں روٹ میپ پر توجہ دی جائے تو بہتر ہے اس طرح بہت سے خدشات جو اب بھی عوام کے ذہن میں ابھر رہے ہیں کچھ تو تشفی ہوسکے گی، ورنہ اب عوامی حلقوں سے یہ بات بھی ابھر کر سرگرم ہوچکی ہے کہ سب کچھ اپنی اپنی حدود میں رہ کر کیا جائے تو بہتر ہوگا، ویسے اس بات میں بھی خاصا وزن ہے کیونکہ اسلام میں دکھاوے کی عبادت کو پہلے ہی ناپسند قرار دیا گیا ہے کہ نمود و نمائش ہمارے مذہب میں اب بہت سے شیطانی چراغوں کو جلانے کا باعث بن ہی چکا ہے ۔
حالانکہ پچھلے کئی سالوں سے اسے سلانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن جب اسی طرح کا واقعہ کراچی میں پیش آیا تھا تو جن بے چاروں پر آفت ٹوٹی تھی انھیں شاید علم بھی نہ تھا کہ ان کی آڑ لے کر اور کتنے شر پسند عناصر عام عوام کی کروڑوں روپے کی املاک سے کھیل رہے ہیں یہ بدامنی یہ شر انگیزی ایک بار ہوچکی تھی سب کچھ میڈیا پر آچکا تھا ان عناصر کی شکلیں منظر عام پر آنے کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا خدا جانے لیکن پھر اسی قسم کی کہانی میں کچھ ردو بدل کرکے پھر سے ریلیز کردیا گیا اور موقع فراہم کیا ہماری اپنی غیر ذمے داری نے۔ صرف کاغذوں پر سرسری دیکھ لینا بڑے بڑے افسران کی زبانی سن لینا کہ سب ٹھیک ہے سر جی۔ کافی نہیں بلکہ پوری توجہ، ذہنی و عقلی شعور کے ساتھ اس اہم کام پر دینا وقت کی ضرورت ہے جو اس بار پھر گزر گیا، حالانکہ جب اس طرح کا کیس کراچی میں ہوا تھا تو سی سی ٹی وی کیمرے جگہ جگہ لگے تھے لیکن پھر بھی شر انگیزوں نے کام کر دکھایا تھا۔ لہٰذا اتنا اہم دن جو جمعۃ المبارک کا تھا خاص توجہ کی ضرورت تھی لیکن ہماری اس سرسری توجہ نے جیسے چنگاری کو شعلہ دے دیا، ہم ہر کسی ایشو میں بیرونی ہاتھ کو ملوث قرار دے کر آخر کب تک اپنی جان چھڑاتے رہیں گے؟ اور ان معصوم جانوں کو کس کے کھاتے میں ڈالیں گے جو اس حادثے کا شکار بنیں، لیکن ہم سبق لینا نہیں، بھول جانا جانتے ہیں۔
ملک کرپشن کا شکار ہے کوئی نئی خبر تو نہیں ہے لیکن اس کے تدارک کے لیے کیا کیا گیا؟ حال ہی میں اسٹیل مل میں ہونے والے کرپشن سے کیا اعلیٰ حکام باخبر ہیں؟ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن میں کیا ہورہا ہے کچھ خبر ہے؟ ایک ارب کا نقصان دے کر نکل جانے والے سے کتنے ہزار وصول ہوتے ہیں کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ اچھے اور اپنے کام سے وفادار پولیس افسران کے تبادلے ہونا تو اب معمول کی بات ہے کیا اس سے کسی خاص طبقے کا اعتماد بحال ہوتا ہے یا حکومتی رتبوں میں اضافہ ہوتا ہے؟
بہت سے ایسے کام جنھیں ہم حکومت کے لیے گناہ بے لذت کہہ سکتے ہیں بڑے سے لے کر چھوٹے اہلکار بڑے مزے سے کر رہے ہیں، جمہوریت کی گاڑی نے جب سے چلنا شروع کیا تھا تب بہت سے مثبت سوچ رکھنے والے یہی سوچ رہے تھے کہ اب اچھا وقت آئے گا لیکن یقین جانیے ایک عام آدمی کے لیے جمہوری یا مارشل لا کی حکومت سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ مہنگائی آج پورے جوبن پر ہے، کراچی شہر کی صورت حال یہ ہے کہ سبزیاں، انڈے اور عام استعمال کی چیزیں اس قدر مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں کہ ایک متوسط طبقے کے لیے اس کا حصول مشکل سے مشکل ہوگیا ہے۔ ملیر جہاں سے سبزیوں کی بڑی تعداد شہر میں سپلائی کی جاتی ہے پانی کی کمی کے باعث اب مخدوش ہوچکا ہے ۔بد امنی ہے ۔ ادھر لوگ پانی کی کمی اور اپنے روزگار کی طرف سے پریشان تو یہاں شہر میں خریدار سبزیوں کی اونچی قیمتوں سے حیران۔
حالیہ حکومت میں ابھی لے دے کر ریلوے کے سعد رفیق کی کارکردگی ہی سامنے آئی ہے جب کہ خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک نے عمران خان کی سی سختی دکھائی اور ان کے تئیں نااہلیت پر وزرا کو فارغ کردیا۔ اسے کچھ بھی کہیں ایک نئی جماعت کے لیے ایسا قدم اٹھانا نہایت دلیرانہ ہے جسے بہت سے دانشور احمقانہ بھی قرار دے رہے ہیں لیکن اگر اس طرح کی کارروائیاں ملک بھر میں شروع ہی ہوگئیں تو اندیشہ ہے کہ کہیں سارے وزرا ہی گھر نہ بیٹھ جائیں۔
ابھی حالیہ حکومت کے پاس بہت وقت ہے اپنی اپنی ذمے داریاں فائلوں، بحث و مباحثوں اور ٹی وی مناظروں تک محدود نہ رکھیں۔ اس بار تہیہ کرلیں کہ کچھ کرکے دکھانا ہے، یہ درست ہے کہ بیرونی عوامل کی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن پہلے اپنے اپنے گھروں کی گندگیوں کو نکال کر پھینک دیں۔ پھر دیکھیے کہ خدا آپ کی کیسے مدد کرتا ہے۔ جمہوریت کے پودے کو اگر سینچنا ہے تو اسے کرپشن، خود غرضی اور خوش فہمی کے سیم و تھور سے بچانا ہوگا ورنہ حکومتیں تو ماضی میں بھی آئیں اور گئیں پھر فرق ہی کیا رہ جائے گا۔ کچھ سوچنا تو پڑے گا۔
اس کا اظہار بھی ہوا لیکن قابلیت، دانشوری اور انصاف کے عمل سے بہت سی سازشوں کا دم گھونٹ دیا گیا۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ تھی کہ خلفائے راشدینؓ ہر روز اپنا احتساب کرتے تھے۔ ایسا ہر گز نہ تھا کہ کسی کتاب میں لکھا ہو کہ خلیفہ وقت زرق برق کپڑوں میں اعلیٰ سواری پر چلے جا رہے ہوں اور عام رعایا غربت میں سسک رہی ہو۔ یہ اعلیٰ ظرف ہستیاں خود سادہ غذا پر گزارا کرتے روکھا سوکھا کھاتے، پرانے کپڑے زیب تن کرتے نہ سیکیورٹی گارڈز نہ اور کوئی حفاظتی سہولت، انصاف سب کے لیے ایک سا تھا، وہ جانتے تھے کہ اگر ان کی رعایا ان سے ناخوش رہے گی تو خدا بھی ان سے خوش نہ ہوگا اور اس پکڑ کو وہ اتنا شدت سے محسوس کرتے تھے کہ اپنے ہر عمل میں اس ذات باری کو منصف ٹھہراتے کیونکہ وہ اس کے عذاب سے سخت خوفزدہ تھے۔
بیت المال کی ایک ایک پائی کا حساب رکھتے اور اپنی تنخواہ بھی اسی طرح وصول کرتے جیسے ایک عام سپاہی نہ ایک پائی زیادہ نہ کوئی امیر وقت ہونے کے ناتے کوئی سفارش حالانکہ اگر چاہتے تو بہت کچھ کرسکتے تھے لیکن انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کی جانب توجہ دی اور اسلامی مملکت کی حدود میں اضافہ کیا، انصاف پر توجہ دی، امن و عامہ، رعایت کی فلاح کے منصوبے، بیواؤں اور یتیموں کے لیے وظائف، ٹیکسوں کا متناسب نظام یہ سب ان کے دور کی بہت اہم خوبیاں ہیں جنھیں اگر اس قدیم دور کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اتنا متوازن تھا کہ جس کی مثال نہیں ملتی ساتھ ساتھ باغیوں، منکروں کی شورشوں سے بھی مقابلہ چلتا رہا، عملی طور پر وہ لوگ جفاکش اور اپنی رعایا کے وفادار حکمراں تھے جنھیں اپنے سے زیادہ اپنی رعایا کے دکھ سکھ کی فکر تھی یقینا وہ بھی انسان تھے میری اور آپ کی طرح لیکن ان کے جذبوں کی صداقت نے انھیں بلند مقام پر فائز کیا۔
ہم میں ایک برائی یہ ہے کہ ہم باتیں زیادہ کرتے ہیں اور عملی طور پر قدم اٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسروں پر تنقید کرکے اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں خدا نے انسان کے اندر ضمیر نام کا ایک کردار رکھا ہے اسے یکسر فراموش کر دیتے ہیں، جھوٹی باتیں کرکے ہم جھوٹ کو ہی سچ سمجھنے لگتے ہیں اس لیے ضمیر بے چارا اکیلا کیا کیا کرے، تھک کر وہ بے چارا خود ہی خاموش ہوجاتا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم اور ایرانی وزیر اعظم اپنے ملکوں میں ایک عام شہری کی طرح ٹرینوں میں سفر کرسکتے ہیں لیکن ہمارے ملک کی صورت حال تو اب اس قدر پیچیدہ ہوتی جارہی ہے کہ شہباز شریف جیسے نڈر وزیر اعلیٰ کو بھی سیکیورٹی کے خدشات کے تحت اپنی رہائش بدلنی پڑی ایسا کرنے کی ضرورت آخر کیوں پیش آئی کہ اپنے ہی ملک میں ایک عام شہری تو کیا ایک وزیر بھی اپنی زندگی کو غیر محفوظ سمجھتا ہے ظاہر ہے کہ پچھلے چند مہینوں میں جو کچھ ہوچکا ہے وہ یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ ہر شخص کی جان و مال اور عزت کی حفاظت اب اسٹیٹ کی نہیں خود اس شخص کی ذمے داری ہے۔ کس وقت کہاں پر کیا ہوجائے کہنا ممکن نہیں، لیکن جو کچھ کیا جاچکا ہے کیا اس پر بھی غور کیا گیا تھا۔
راولپنڈی جیسے پرامن شہر میں جو کچھ ہوچکا ہے اس کی تفصیلات میں جانے کی بجائے صرف اتنا ہی عرض ہے کہ اگر ملک بھر میں محرم اور ربیع الاول جیسے مقدس مہینوں میں روٹ میپ پر توجہ دی جائے تو بہتر ہے اس طرح بہت سے خدشات جو اب بھی عوام کے ذہن میں ابھر رہے ہیں کچھ تو تشفی ہوسکے گی، ورنہ اب عوامی حلقوں سے یہ بات بھی ابھر کر سرگرم ہوچکی ہے کہ سب کچھ اپنی اپنی حدود میں رہ کر کیا جائے تو بہتر ہوگا، ویسے اس بات میں بھی خاصا وزن ہے کیونکہ اسلام میں دکھاوے کی عبادت کو پہلے ہی ناپسند قرار دیا گیا ہے کہ نمود و نمائش ہمارے مذہب میں اب بہت سے شیطانی چراغوں کو جلانے کا باعث بن ہی چکا ہے ۔
حالانکہ پچھلے کئی سالوں سے اسے سلانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن جب اسی طرح کا واقعہ کراچی میں پیش آیا تھا تو جن بے چاروں پر آفت ٹوٹی تھی انھیں شاید علم بھی نہ تھا کہ ان کی آڑ لے کر اور کتنے شر پسند عناصر عام عوام کی کروڑوں روپے کی املاک سے کھیل رہے ہیں یہ بدامنی یہ شر انگیزی ایک بار ہوچکی تھی سب کچھ میڈیا پر آچکا تھا ان عناصر کی شکلیں منظر عام پر آنے کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا خدا جانے لیکن پھر اسی قسم کی کہانی میں کچھ ردو بدل کرکے پھر سے ریلیز کردیا گیا اور موقع فراہم کیا ہماری اپنی غیر ذمے داری نے۔ صرف کاغذوں پر سرسری دیکھ لینا بڑے بڑے افسران کی زبانی سن لینا کہ سب ٹھیک ہے سر جی۔ کافی نہیں بلکہ پوری توجہ، ذہنی و عقلی شعور کے ساتھ اس اہم کام پر دینا وقت کی ضرورت ہے جو اس بار پھر گزر گیا، حالانکہ جب اس طرح کا کیس کراچی میں ہوا تھا تو سی سی ٹی وی کیمرے جگہ جگہ لگے تھے لیکن پھر بھی شر انگیزوں نے کام کر دکھایا تھا۔ لہٰذا اتنا اہم دن جو جمعۃ المبارک کا تھا خاص توجہ کی ضرورت تھی لیکن ہماری اس سرسری توجہ نے جیسے چنگاری کو شعلہ دے دیا، ہم ہر کسی ایشو میں بیرونی ہاتھ کو ملوث قرار دے کر آخر کب تک اپنی جان چھڑاتے رہیں گے؟ اور ان معصوم جانوں کو کس کے کھاتے میں ڈالیں گے جو اس حادثے کا شکار بنیں، لیکن ہم سبق لینا نہیں، بھول جانا جانتے ہیں۔
ملک کرپشن کا شکار ہے کوئی نئی خبر تو نہیں ہے لیکن اس کے تدارک کے لیے کیا کیا گیا؟ حال ہی میں اسٹیل مل میں ہونے والے کرپشن سے کیا اعلیٰ حکام باخبر ہیں؟ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن میں کیا ہورہا ہے کچھ خبر ہے؟ ایک ارب کا نقصان دے کر نکل جانے والے سے کتنے ہزار وصول ہوتے ہیں کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ اچھے اور اپنے کام سے وفادار پولیس افسران کے تبادلے ہونا تو اب معمول کی بات ہے کیا اس سے کسی خاص طبقے کا اعتماد بحال ہوتا ہے یا حکومتی رتبوں میں اضافہ ہوتا ہے؟
بہت سے ایسے کام جنھیں ہم حکومت کے لیے گناہ بے لذت کہہ سکتے ہیں بڑے سے لے کر چھوٹے اہلکار بڑے مزے سے کر رہے ہیں، جمہوریت کی گاڑی نے جب سے چلنا شروع کیا تھا تب بہت سے مثبت سوچ رکھنے والے یہی سوچ رہے تھے کہ اب اچھا وقت آئے گا لیکن یقین جانیے ایک عام آدمی کے لیے جمہوری یا مارشل لا کی حکومت سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ مہنگائی آج پورے جوبن پر ہے، کراچی شہر کی صورت حال یہ ہے کہ سبزیاں، انڈے اور عام استعمال کی چیزیں اس قدر مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں کہ ایک متوسط طبقے کے لیے اس کا حصول مشکل سے مشکل ہوگیا ہے۔ ملیر جہاں سے سبزیوں کی بڑی تعداد شہر میں سپلائی کی جاتی ہے پانی کی کمی کے باعث اب مخدوش ہوچکا ہے ۔بد امنی ہے ۔ ادھر لوگ پانی کی کمی اور اپنے روزگار کی طرف سے پریشان تو یہاں شہر میں خریدار سبزیوں کی اونچی قیمتوں سے حیران۔
حالیہ حکومت میں ابھی لے دے کر ریلوے کے سعد رفیق کی کارکردگی ہی سامنے آئی ہے جب کہ خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک نے عمران خان کی سی سختی دکھائی اور ان کے تئیں نااہلیت پر وزرا کو فارغ کردیا۔ اسے کچھ بھی کہیں ایک نئی جماعت کے لیے ایسا قدم اٹھانا نہایت دلیرانہ ہے جسے بہت سے دانشور احمقانہ بھی قرار دے رہے ہیں لیکن اگر اس طرح کی کارروائیاں ملک بھر میں شروع ہی ہوگئیں تو اندیشہ ہے کہ کہیں سارے وزرا ہی گھر نہ بیٹھ جائیں۔
ابھی حالیہ حکومت کے پاس بہت وقت ہے اپنی اپنی ذمے داریاں فائلوں، بحث و مباحثوں اور ٹی وی مناظروں تک محدود نہ رکھیں۔ اس بار تہیہ کرلیں کہ کچھ کرکے دکھانا ہے، یہ درست ہے کہ بیرونی عوامل کی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن پہلے اپنے اپنے گھروں کی گندگیوں کو نکال کر پھینک دیں۔ پھر دیکھیے کہ خدا آپ کی کیسے مدد کرتا ہے۔ جمہوریت کے پودے کو اگر سینچنا ہے تو اسے کرپشن، خود غرضی اور خوش فہمی کے سیم و تھور سے بچانا ہوگا ورنہ حکومتیں تو ماضی میں بھی آئیں اور گئیں پھر فرق ہی کیا رہ جائے گا۔ کچھ سوچنا تو پڑے گا۔