مرنا بھی مشکل جینا بھی مشکل

ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو بھی چین نہیں، چھیڑ خانی کرنا، دانستہ لڑائی مول لینا اس کا معمول بن گیا ہے

nasim.anjum27@gmail.com

جب بھی حکومت بدلتی ہے تو وہ بے شمار دکھوں، غموں، محرومیوں کو اپنے ساتھ لے کر آتی ہے اور عوام میں ان تحائف کو فراخ دلی کے ساتھ تقسیم کردیتی ہے اور مہنگائی جیسی اذیت ناک اور لا علاج بیماری کے جراثیم اپنے ملک کے چپے چپے میں پھیلادیتی ہے۔

گزشتہ دور میں تو پیپلز پارٹی کے حکمرانوں کی مہربانیاں اس قدر تھیں کہ عوام تسلسل سے ملنے والی مراعات سے پریشان ہوگئی تھی اور تبدیلی کی خواہش مند تھی، تبدیلی ہوئی، لوگوں کی خواہش پوری ہوئی لیکن موجودہ حکومت نے تو کمال ہی کردیا، اس دور مہنگائی میں تو وہ لوگ بھی پریشان ہوگئے جو پچھلی حکومت میں آسودہ حال تھے، برق رفتار مہنگائی نے لوگوں کو آٹھ آٹھ آنسو رلادیا ہے لوگ اب بازار جاتے ہوئے ڈرتے ہیں، سبزیوں کے نرخ پوچھتے ہوئے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ اسی خوف وہراس کی چادر کو زیب تن کیے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ سبزی کا آخری ٹھیلا یا دکان آجاتی ہے، پھر وہ خود کلامی کرتے ہوئے گھر کا رخ کرتے ہیں۔ کچھ بد دعائیں سبزی فروش کو دیتے ہیں اور کچھ حکومت کے حصے میں آتی ہیں، مایوسی کے عالم میں بندہ خود کلامی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو بازار کے چکر کاٹتے ہیں اور جب دام سنتے ہیں تو انھیں گھر یاد آجاتا ہے۔ گھر میں بھی کیا رکھا ہے، مجبور و بے بس انسان کے لیے؟ چولہا ٹھنڈا ہو، بچے، بیمار، دکھی ماں، بوڑھا باپ اور غم زدہ بیوی ان سب کے لیے ایک محنت کش اور قلیل تنخواہ پانے والے کیا کرسکتے ہیں سوائے آہیں بھرنے کے۔

ٹماٹروں کو تو اغوا کر لیا گیا ہے، تھوڑے بہت بچے ہیں تو وہ اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے کونوں کھدروں میں دبکے پڑے ہیں، نہ معلوم کون کب گالیاں دینے پر مجبور ہوجائے۔ کسی کی ٹیڑھی نگاہ ڈالنے کی جو جرأت ہو، چند ماہ قبل یہی خریدار 2،2 اور 3،3 کلو ٹماٹر خریدتے تھے اور اب ایک پائو خریدتے ہوئے بھی جان جاتی ہے۔ اگر ان حالات میں کسی کی دعوت کردی جائے اور دعوت کرنے والا صاحب حیثیت ہو تو آپ یقین کیجیے ہزار روپے کے نوٹ میں سلاد کا سامان آتاہے، دو کلو ٹماٹر کم از کم چار سو روپے سے کم کے نہیں اور پھر پیاز جو قندھاری انار کی طرح فروخت کی جارہی ہے۔ کھیرا، ہری مرچ، دہی، سلاد کے پتے، سب ہی کچھ گرانی کے بھینٹ چڑھ چکا ہے، بے چارے غریب کے حصے میں تو کچھ نہیں آتا، وہ تومحنت و مشقت کرنے کے باوجود خسارے میں رہا۔

ایک خبر کے مطابق کہ ٹماٹر کے بحران میں بھارت کے ملوث ہونے کا امکان ہے، ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو بھی چین نہیں، چھیڑ خانی کرنا، دانستہ لڑائی مول لینا اس کا معمول بن گیا ہے، کبھی پانی بند کرتا ہے تو کبھی پانی اس قدر چھوڑ دیتا ہے کہ یہ پانی سیلاب کی شکل اختیار کرلیتا ہے، پچھلے دنوں کراچی میں سیلابی ریلا آنے کے بعد اس قسم کی خبریں گشت کرتی رہیں اور پانی ان ان جگہوں تک، کئی کئی فٹ اونچا گیا کہ جہاں اس کے پہنچنے کا امکان بھی نہیں تھا۔ سرحدوں پر ہر روز فائرنگ کرنا بھی اس کا اہم کام ہے، بھارتی فائرنگ سے کتنے بے قصور لوگ شہید ہوجاتے ہیں لیکن بھارت کو اس بات کی قطعی پرواہ نہیں، مسلمانوں اور پاکستان سے اس کی دشمنی پرانی ہے، دوستی کی آڑ میں بھی وہ دشمنی نبھاتا ہے۔ ٹماٹرکی جدائی کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ سندھ کے مختلف علاقوں میں بھارتی کمپنی کے غیر معیاری بیج کاشت کیے گئے جس کی وجہ سے ٹماٹر کی فصل کو شدید نقصان ہوا۔ میرپورخاص، بدین، ٹھٹھہ کے علاقوں میں ٹماٹر کی فصل تباہ وبرباد ہوگئی یہ حیرت کی بات ہے۔ لیکن ہمیں اب حیران و پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے کہ ہر محکمے کا ایسا ہی حال ہے۔


تو جناب! محکمہ زراعت بھی ان تمام حالات سے بے خبر اور لا تعلق رہا اور افسوس صد افسوس اپنی نا اہلی اور لاپرواہی کے سبب ٹماٹر کی فصل خراب ہوگئی اور پاکستان کی طلب پوری کرنے کے لیے بھارت ہی سے ٹماٹر در آمد کیا جارہا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا دکھ کی بات ہوگی کہ پاکستان سبزیوں و پھلوں کے بیجوں میں بھی خود کفیل نہیں ہے اور بیج بھی اس ملک سے منگوائے جاتے ہیں جو پاکستان کا خیر خواہ نہیں ہے۔ کچھ دکھ تو قدرتی یا حادثاتی طور پر پاکستانی عوام کی قسمت میں آتے ہیں لیکن تمام مسائل اور مشکلات حکومت کی دین ہیں اور جینے کا حق بھی حکومتیں چھین لیتی ہیں۔ پاکستان ایک غریب ملک اور اس کی رعایا غریب ترین ہے، تھوڑے سے لوگ ضرور خوشحال ہیں لیکن اکثریت بد حال ہے، حکومت کو ذرہ برابر احساس نہیں، ملک کے حکمران غیر ممالک کے دورے کر رہے ہیں، ہر آنے والا حکمران ملکوں ملکوں کی سیر وسیاحت پر نکل جاتا ہے۔ اپنے خاندان اور چاہنے والوں کو بھی ساتھ لے جاتا ہے تاکہ وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھولیں بلکہ نہالیں۔ ملک میں خواہ مہنگائی کا زہر انسانی رگوں میں داخل ہوجائے یا سانحہ پنڈی رونما ہو، دوسرے حادثات اور بیماریوں کے باعث اموات میں اضافہ ہو، ان کی بلا سے۔

ایک تو کھانے پینے کے لیے اشیا درکار نہیں، اس کے ساتھ ساتھ مزید یہ ظلم کہ حکومت نے ادویہ کی قیمتوں میں 18 فیصد اضافے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس کا جلد باقاعدہ نوٹیفکیشن اور اعلان متوقع ہے، ایسوسی ایشن کے رہنما اور حکومت کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ 2000 سے اب تک دوائوں کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیاگیا جب کہ اس دوران دیگر اشیا کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں، دوسرے ادارے بھی اس بات پر ضرور غور کریں کہ کہیں وہ اپنی چیزوں کو پرانے داموں تو فروخت نہیں کررہے ہیں، جلدی کریں اور ظالموں کی قطار میں شامل ہوجائیں، ذرا مریضوں اور ان کے لواحقین کے دلوں سے تو پوچھیں کہ دوائوں کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ ہوتا ہے اور پھر اکثر دوائیں جعلی اور مدت گزرنے کے بعد بھی فروخت کی جاتی ہیں جن کے استعمال سے فائدہ نہیں بلکہ نقصان اور اکثر لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ آئے دن اس قسم کی خبریں میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آتی ہیں، تب وزارت اور ایسوسی ایشن کیا اقدام کرتی ہے؟ لیکن بات مہنگائی اور پیسہ کمانے کی آئی تو یاد آیا کہ ہم نے تو قیمتیں بڑھائی ہی نہیں۔

کاش! ادارے اور حکومت اس بات پر بھی ٹھنڈے دل سے غور کرے کہ سرکاری وغیر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تو وہی ہیں اسی طرح دوسرے لوگوں کے پاس کمائی کے ذرائع محدود ہیں تو ان حالات میں وہ مہنگی چیزیں خریدنے کے لیے رقم کہاں سے لائیںگے، چوری کریں یا ڈاکہ ڈالیں، تب جاکر کہیں اپنے جاں بلب مریض کا علاج کراسکیں اور گھر کے ٹھنڈے چولہے کو روشن کریں، تو گویا حکومت یہی چاہتی ہے کہ اس ملک میں زیادہ سے زیادہ ڈاکو اور چور پیدا ہوں، پہلے کچھ کم ہیں۔ حالات کے تناظر میں دیکھاجائے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ دہشت گرد زیادہ ہیں اور قانون کے محافظ کم ہیں، بڑی تعداد میں تخریب کار اس ملک میں گھوم رہے ہیں اور جگہ جگہ دھماکے کرکے انسانی خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں، کیا ہم انھیں انسان کہہ سکتے ہیں؟

محنت کشوں کے لیے ایک یوٹیلٹی اسٹور واحد سہارا بچتاہے جہاں کچھ چیزیں تو ان ہی قیمتوں میں فروخت ہو رہی ہیں جو قیمتیں بڑے اور سپر اسٹورز میں مقرر ہوتی ہیں لیکن چند چیزیں کم بلکہ بہت کم قیمت میں مل جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے خریداروں کی قطار دور دور تک اس طرح نظر آتی ہے جس طرح سی این جی بھروانے والی گاڑیوں کی، کہ گاڑیاں پمپ سے باہر بلکہ گلیوں و محلوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹور پر بیس پچیس لوگ قطار کی شکل میں کھڑے نظر آتے ہیں اور پھر یہ بے چارہ مزدور طبقہ مرد و عورتیں اپنے سروں پر آٹے کی بوریاں لاد کرلے جاتے ہیں۔ متوسط طبقہ بھی خریداری کرتا ہے اور اسے بھی ان مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے، یوٹیلٹی اسٹورز پر بھی چیزوں کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اور اب پھر یہ خبر آئی ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز پر 150 اشیا ایک سے 40 روپے تک مہنگی کردی گئی ہیں اب ان حالات میں مرنا بھی مشکل اور جینا بھی مشکل۔ کہ مرنے کے لیے بھی پیسے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
Load Next Story