مسائل کے انبار کی چوٹی پر…
ہم جو ایک دستر خوان پر بہن بھائیوں کی طرح بیٹھ کر کھاتے تھے، اس وقت ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگے ہیں
کیا آپ گاڑی چلاتے ہیں؟
فرض کریں کہ آپ کی گاڑی اچھی حالت میں ہو، پٹرول بھی ٹنکی میں پورا ہو، پانی اور تیل بھی باقاعدگی سے چیک ہوتا ہو اور پورا ہو...آپ چھتیس کلو میٹر کا فاصلہ، جو کہ عموما تیس منٹ میں طے ہو جاتا ہو اسے 155 منٹ میں طے کریں تو اس کے اسباب کیا ہو سکتے ہیں؟ اگرچہ موجودہ حالات میں اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں لیکن مندرجہ ذیل ''داستان'' پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہم مسائل کے انبار کی کس چوٹی پر کھڑے ہیں۔
میں ہر روز صبح چھتیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اپنے کام پر اسلام آباد جاتی ہوں، واپسی کا سفر اس جمعرات کو میں نے تین بجے شروع کیا اور پندرہ منٹ کے بعد زیرو پوائنٹ پر پہنچی تو وہاں پولیس کے چند ارکان کھڑے تھے جنھوں نے کہا کہ آپ گاڑی واپس موڑ کر بذریعہ کشمیر روڈ، براستہ راولپنڈی اپنی منزل کی راہ لیں ''کہاں سے جائیں کہ گھر پہنچ جائیں بھائی؟'' وہ کمر پھیر کر کھڑا ہو گیا کیونکہ اس کا جواب ان کے پاس کوئی نہ تھا... ''آپ باقی گاڑیوں کے پیچھے پیچھے چلتے جائیں... سب وہیں جا رہے ہیں!'' مفت مشورہ ملا اور میں گاڑی موڑ کر ان گاڑیوںکے پیچھے پیچھے چل دی، جن کی منزل کا بھی مجھے علم نہ تھا۔
کشمیر روڈ سے ہوتے ہوئے آغا شاہی ایونیو سے جب فیض آباد کی طرف مڑی تو وہاں گاڑیوں کا ایک جم غفیر نظر آیا جو کہ نصف کلومیٹر کے فاصلے سے واپس مڑ رہی تھیں۔ دیر تک وہاں پھنس کر جب مڑنے کے مقام پر پہنچی تو استفسار پر پولیس والے نے بتایا کہ فیض آباد پر جلوس ہے اور اس لیے گاڑیوں کو واپس موڑا جا رہا ہے... ''پیر ودھائی سے ہوتے ہوئے، ویسٹریج سے گزر کر پشاور روڈ محفوظ راستہ ہے...'' ایک اور مفت مشورہ ملا اور اس پر عمل کے سوا کوئی چارہ تک نہ تھا۔
بے بسی سے ایک گہری سانس لے کر، دوسری گاڑیوں کے سمندر میں گاڑی ڈال دی۔ اب معلوم نہیں گاڑی چل رہی تھی کہ رکی ہوئی تھی، کتنی دیر چلی اور کتنی دیر رکی رہی، دائیں بائیں سے ایک ایک انچ کے فاصلے سے گاڑی سے گاڑی جڑی ہوئی تھی۔ بے بسی کا احساس ہر احساس پر طاری ہو گیا، گاڑی ان راستوں پر رواں تھی جن پر عام حالات میں کوئی عورت گاڑی خود چلا کر جانا کبھی پسند نہ کرے۔ پیر ودھائی کے بے انتظام اژدہام کو بصد مشکل عبورکیا اور پھر اسی گاڑیوں کے سمندر میں بہتے بہتے ویسٹریج کی طرف مڑ گئی... لگتا تھا کہ پورا پاکستان اسی سڑک پر رواں دواں تھا۔ چار بج کر پندرہ منٹ کا وقت ہو رہا تھا، سوا گھنٹہ...
دائیں بائیں جانے کے سارے راستے مسدود تھے، بہاؤ کے ساتھ ساتھ ہی جانا لازم تھا، بیکری چوک سے ریلوے کالونی، وہاں سے ٹرانزٹ کیمپ والی سڑک کی طرف موڑ دیا گیا، اور اس چوک پر عین وسط میں چہار طرف سے آنے والی گاڑیاں اس طرح درمیان میں آ کر پھنس گئی تھیں کہ نہ صرف ان گاڑیوں کی بلکہ تمام کی تمام ٹریفک کی حرکت بند ہوچکی تھی۔ گاڑیوں کے انجن بند کر کے لوگ گاڑیوں سے نکل کر باہر کھڑے تھے، کچھ اس مسئلے کو سلجھانے کا سوچ رہے تھے تو کچھ گھنٹوں سے گاڑی میں بیٹھے ہونے کے باعث ٹانگیں سیدھی کرنے کو باہر نکل گئے تھے... کچھ مرد حضرات سڑکوں کے کناروں پر nature call سے نمٹ رہے تھے... اس سہولت سے بلا شبہ صرف مرد حضرات ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
صاحب اپنے دفتر سے مسلسل رابطے میں تھے، ''اب کہاں پہنچیں آپ؟'' میں لگ بھگ ایک گھنٹے سے انھیں یہی بتا رہی تھی کہ ٹرانزٹ کیمپ سے پہلے والے چوک پر ... انھیں حیرت ہو رہی تھی کہ گاڑیاں اتنی آہستہ کیوں حرکت کر رہی تھیں، حرکت ہوتی تو اس کی رفتار کا تعین کیا جاتا۔ شام کا اندھیرا، رات کی سیاہی میں تبدیل ہو چکا تھا اور دل ہی دل میں ساری سورتیں اور آیات دہرائے جا رہی تھی، گاڑیوں کا تو تھا ہی،... ارد گرد لوگوں کا ہجوم بھی بڑھ رہا تھا کوئی معجزہ ہی اس صورت حال کو سلجھا سکتا تھا، کسی ریڈیو چینل سے بھی علم نہ ہو رہا تھا کہ ہنگامہ کیا تھا!!
ذہن میں آیا کہ اپنی گاڑی کو بند کر کے، یہیں چھوڑ کر باہر نکل کر پیدل چلنا شروع کر دیتی... مگر پھر خیال آیا کہ میری گاڑی کے یہاں کھڑے رہنے سے پیچھے گاڑیوں کی ایک طویل قطار پھنس جائے گی۔ دو گھنٹے اور پندرہ منٹ... یااللہ!!! خاندان کا ہر وہ شخص جسے علم تھا کہ میں کس بری طرح پھنس چکی تھی، مسلسل رابطے میں تھا اور میری خیریت کے لیے دعا گو۔ اس اژدہام میں کتنے مریض پھنسے ہوئے ہوں گے، کتنے لوگوں کو اپنی پرواز پکڑنا ہو گی، کتنی عورتیں خود گاڑی ڈرائیو کر رہی ہوں گی اور میری طرح پریشان ہوں گی، کتنے بچے اسکولوں سے واپس جارہے ہوں گے اور گھنٹوں سے گاڑیوں میں بھوکے پیاسے اور حوائج ضروریہ سے مجبور ہوں گے، کتنے بزرگ ہوں گے، کتنے مجبور اور لاچار لوگ...
کس کو کوسیں اور کس کو بد دعا دیں؟ کس سے فریاد کریں اور کس سے شکایت؟ کس سے امید رکھیں؟ ان سے جن کو ہم اپنے ووٹ کی طاقت سے، جانے کس امید کے تحت خود اپنے سروں پر مسلط کر چکے ہیں اور اب کوئی راہ نظر نہیں آتی... وہی حالات ہیں، وہیں مہنگائی وہی رونا... جن سے امید تھی کہ وہ ہمیں دہشت گردی سے نجات دلا دیں گے وہ خود نہیں سمجھ پا رہے کہ کیا کریں۔ غنڈہ گردی اور دخل اندازی اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ ڈرون ہمارے شہروں اور ان علاقوں تک پہنچ گئے ہیں جن علاقوں میں صورت حال پرامن ہے۔ ہر شخص اپنی جان، مال اور عزت کی حفاظت کی فکر میں مبتلا ہوتا ہے، اس وقت ہم سب اسی فکر میں مبتلا تھے...
یہ سب کچھ اتفاقیہ نہیں ہو رہا، سوچی سمجھی سازش کے تحت عام لوگوں کو ان مسائل میں الجھا کر ہر کوئی اپنے اپنے مفادات پورے کر رہا ہے۔ حکومت میں آکر کشکول توڑنے کے وعدے کرنے والے، کشکول ہاتھ میں لیے قومی خزانے پر سارا بوجھ ڈال کر ملکوں ملکوں گھوم رہے ہیں۔ گھروں سے کام کرنے کو ہر کوئی اپنا پیٹ بھرنے کو نکلتا ہے اور ہر کوئی شام سے پہلے گھر لوٹنا بھی چاہتا ہے، یہی فطرت ہے... خواہ انسان ہو یا جانور۔ مگر اس ملک میں جو حالات بن چکے ہیں، اس میں گھرسے کسی نکلنے والے کو علم نہیں ہوتا کہ اسے شام کو گھر لوٹنا بھی نصیب ہو گا کہ نہیں۔ کوئی ہے جو ہمیں جواب دے سکے کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں، یہ طوفان کہاں جا کر تھمے گا، ملک کے ہر شہر میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ کر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکے ہیں۔
ہم جو ایک دستر خوان پر بہن بھائیوں کی طرح بیٹھ کر کھاتے تھے، اس وقت ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگے ہیں، خون کے پیاسے ہو رہے ہیں، ایک ایک لفظ پر پکڑ کرنے کو تیار ہیں اور اس پر المیہ یہ کہ ہم ترقی کی راہ پر آگے چلنے کی بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ پیچھے کو جا رہے ہیں۔ مزید پندرہ منٹ گزرے تو دو ایک پولیس والوں کی شکل نظر آئی انھوں نے درمیان میں پھنسی گاڑیوں کو ایک ایک کر کے ہٹوایا اور ٹریفک بحال کی، دو گھنٹے اور بیس منٹ... میں نے وقت دیکھا اور جونہی اس چوک سے نکلی، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا، اگلے پندرہ منٹ میں، میں گھر پر تھی۔ کھانا جیسے تیسے کھایا اور دل مردہ سا ہو رہا تھا، رات کو سونے سے قبل خود سے پوچھ رہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے، ہم کیا کر رہے ہیں، کیا ہم لکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہو گیا ہے؟ کیا کوئی اس لکھے کو پڑھتا ہے؟ کیا ہم میں سے کسی کو احساس ہے کہ ہم کس طرح کے مسائل سے دو چار ہیں اور ان مسائل کا حل کیا ہے؟
''نہیں...'' دل کی گہرائیوں سے جواب ملا۔ کوئی ہمارے مسائل کیوں حل کرنا چاہے گا جب ہم خود ہی انھیں حل نہیں کرنا چاہتے؟ کوئی اور ہمیں کیا بہکائے یا لڑائے گا جب ہماری اپنی صفوں میں ہی اتحاد مفقود ہے؟ ہمیں بکاؤ کہا جاتا ہے کہ ہم ڈالر کی خاطر اپنوں کے گلے کاٹنے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں اور اپنی ماں کو... میں نے زور سے آنکھیں میچ کر اس حقیقت کی تلخی کو بھولنے کی کوشش کی!!!!
فرض کریں کہ آپ کی گاڑی اچھی حالت میں ہو، پٹرول بھی ٹنکی میں پورا ہو، پانی اور تیل بھی باقاعدگی سے چیک ہوتا ہو اور پورا ہو...آپ چھتیس کلو میٹر کا فاصلہ، جو کہ عموما تیس منٹ میں طے ہو جاتا ہو اسے 155 منٹ میں طے کریں تو اس کے اسباب کیا ہو سکتے ہیں؟ اگرچہ موجودہ حالات میں اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں لیکن مندرجہ ذیل ''داستان'' پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہم مسائل کے انبار کی کس چوٹی پر کھڑے ہیں۔
میں ہر روز صبح چھتیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اپنے کام پر اسلام آباد جاتی ہوں، واپسی کا سفر اس جمعرات کو میں نے تین بجے شروع کیا اور پندرہ منٹ کے بعد زیرو پوائنٹ پر پہنچی تو وہاں پولیس کے چند ارکان کھڑے تھے جنھوں نے کہا کہ آپ گاڑی واپس موڑ کر بذریعہ کشمیر روڈ، براستہ راولپنڈی اپنی منزل کی راہ لیں ''کہاں سے جائیں کہ گھر پہنچ جائیں بھائی؟'' وہ کمر پھیر کر کھڑا ہو گیا کیونکہ اس کا جواب ان کے پاس کوئی نہ تھا... ''آپ باقی گاڑیوں کے پیچھے پیچھے چلتے جائیں... سب وہیں جا رہے ہیں!'' مفت مشورہ ملا اور میں گاڑی موڑ کر ان گاڑیوںکے پیچھے پیچھے چل دی، جن کی منزل کا بھی مجھے علم نہ تھا۔
کشمیر روڈ سے ہوتے ہوئے آغا شاہی ایونیو سے جب فیض آباد کی طرف مڑی تو وہاں گاڑیوں کا ایک جم غفیر نظر آیا جو کہ نصف کلومیٹر کے فاصلے سے واپس مڑ رہی تھیں۔ دیر تک وہاں پھنس کر جب مڑنے کے مقام پر پہنچی تو استفسار پر پولیس والے نے بتایا کہ فیض آباد پر جلوس ہے اور اس لیے گاڑیوں کو واپس موڑا جا رہا ہے... ''پیر ودھائی سے ہوتے ہوئے، ویسٹریج سے گزر کر پشاور روڈ محفوظ راستہ ہے...'' ایک اور مفت مشورہ ملا اور اس پر عمل کے سوا کوئی چارہ تک نہ تھا۔
بے بسی سے ایک گہری سانس لے کر، دوسری گاڑیوں کے سمندر میں گاڑی ڈال دی۔ اب معلوم نہیں گاڑی چل رہی تھی کہ رکی ہوئی تھی، کتنی دیر چلی اور کتنی دیر رکی رہی، دائیں بائیں سے ایک ایک انچ کے فاصلے سے گاڑی سے گاڑی جڑی ہوئی تھی۔ بے بسی کا احساس ہر احساس پر طاری ہو گیا، گاڑی ان راستوں پر رواں تھی جن پر عام حالات میں کوئی عورت گاڑی خود چلا کر جانا کبھی پسند نہ کرے۔ پیر ودھائی کے بے انتظام اژدہام کو بصد مشکل عبورکیا اور پھر اسی گاڑیوں کے سمندر میں بہتے بہتے ویسٹریج کی طرف مڑ گئی... لگتا تھا کہ پورا پاکستان اسی سڑک پر رواں دواں تھا۔ چار بج کر پندرہ منٹ کا وقت ہو رہا تھا، سوا گھنٹہ...
دائیں بائیں جانے کے سارے راستے مسدود تھے، بہاؤ کے ساتھ ساتھ ہی جانا لازم تھا، بیکری چوک سے ریلوے کالونی، وہاں سے ٹرانزٹ کیمپ والی سڑک کی طرف موڑ دیا گیا، اور اس چوک پر عین وسط میں چہار طرف سے آنے والی گاڑیاں اس طرح درمیان میں آ کر پھنس گئی تھیں کہ نہ صرف ان گاڑیوں کی بلکہ تمام کی تمام ٹریفک کی حرکت بند ہوچکی تھی۔ گاڑیوں کے انجن بند کر کے لوگ گاڑیوں سے نکل کر باہر کھڑے تھے، کچھ اس مسئلے کو سلجھانے کا سوچ رہے تھے تو کچھ گھنٹوں سے گاڑی میں بیٹھے ہونے کے باعث ٹانگیں سیدھی کرنے کو باہر نکل گئے تھے... کچھ مرد حضرات سڑکوں کے کناروں پر nature call سے نمٹ رہے تھے... اس سہولت سے بلا شبہ صرف مرد حضرات ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
صاحب اپنے دفتر سے مسلسل رابطے میں تھے، ''اب کہاں پہنچیں آپ؟'' میں لگ بھگ ایک گھنٹے سے انھیں یہی بتا رہی تھی کہ ٹرانزٹ کیمپ سے پہلے والے چوک پر ... انھیں حیرت ہو رہی تھی کہ گاڑیاں اتنی آہستہ کیوں حرکت کر رہی تھیں، حرکت ہوتی تو اس کی رفتار کا تعین کیا جاتا۔ شام کا اندھیرا، رات کی سیاہی میں تبدیل ہو چکا تھا اور دل ہی دل میں ساری سورتیں اور آیات دہرائے جا رہی تھی، گاڑیوں کا تو تھا ہی،... ارد گرد لوگوں کا ہجوم بھی بڑھ رہا تھا کوئی معجزہ ہی اس صورت حال کو سلجھا سکتا تھا، کسی ریڈیو چینل سے بھی علم نہ ہو رہا تھا کہ ہنگامہ کیا تھا!!
ذہن میں آیا کہ اپنی گاڑی کو بند کر کے، یہیں چھوڑ کر باہر نکل کر پیدل چلنا شروع کر دیتی... مگر پھر خیال آیا کہ میری گاڑی کے یہاں کھڑے رہنے سے پیچھے گاڑیوں کی ایک طویل قطار پھنس جائے گی۔ دو گھنٹے اور پندرہ منٹ... یااللہ!!! خاندان کا ہر وہ شخص جسے علم تھا کہ میں کس بری طرح پھنس چکی تھی، مسلسل رابطے میں تھا اور میری خیریت کے لیے دعا گو۔ اس اژدہام میں کتنے مریض پھنسے ہوئے ہوں گے، کتنے لوگوں کو اپنی پرواز پکڑنا ہو گی، کتنی عورتیں خود گاڑی ڈرائیو کر رہی ہوں گی اور میری طرح پریشان ہوں گی، کتنے بچے اسکولوں سے واپس جارہے ہوں گے اور گھنٹوں سے گاڑیوں میں بھوکے پیاسے اور حوائج ضروریہ سے مجبور ہوں گے، کتنے بزرگ ہوں گے، کتنے مجبور اور لاچار لوگ...
کس کو کوسیں اور کس کو بد دعا دیں؟ کس سے فریاد کریں اور کس سے شکایت؟ کس سے امید رکھیں؟ ان سے جن کو ہم اپنے ووٹ کی طاقت سے، جانے کس امید کے تحت خود اپنے سروں پر مسلط کر چکے ہیں اور اب کوئی راہ نظر نہیں آتی... وہی حالات ہیں، وہیں مہنگائی وہی رونا... جن سے امید تھی کہ وہ ہمیں دہشت گردی سے نجات دلا دیں گے وہ خود نہیں سمجھ پا رہے کہ کیا کریں۔ غنڈہ گردی اور دخل اندازی اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ ڈرون ہمارے شہروں اور ان علاقوں تک پہنچ گئے ہیں جن علاقوں میں صورت حال پرامن ہے۔ ہر شخص اپنی جان، مال اور عزت کی حفاظت کی فکر میں مبتلا ہوتا ہے، اس وقت ہم سب اسی فکر میں مبتلا تھے...
یہ سب کچھ اتفاقیہ نہیں ہو رہا، سوچی سمجھی سازش کے تحت عام لوگوں کو ان مسائل میں الجھا کر ہر کوئی اپنے اپنے مفادات پورے کر رہا ہے۔ حکومت میں آکر کشکول توڑنے کے وعدے کرنے والے، کشکول ہاتھ میں لیے قومی خزانے پر سارا بوجھ ڈال کر ملکوں ملکوں گھوم رہے ہیں۔ گھروں سے کام کرنے کو ہر کوئی اپنا پیٹ بھرنے کو نکلتا ہے اور ہر کوئی شام سے پہلے گھر لوٹنا بھی چاہتا ہے، یہی فطرت ہے... خواہ انسان ہو یا جانور۔ مگر اس ملک میں جو حالات بن چکے ہیں، اس میں گھرسے کسی نکلنے والے کو علم نہیں ہوتا کہ اسے شام کو گھر لوٹنا بھی نصیب ہو گا کہ نہیں۔ کوئی ہے جو ہمیں جواب دے سکے کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں، یہ طوفان کہاں جا کر تھمے گا، ملک کے ہر شہر میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ کر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکے ہیں۔
ہم جو ایک دستر خوان پر بہن بھائیوں کی طرح بیٹھ کر کھاتے تھے، اس وقت ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگے ہیں، خون کے پیاسے ہو رہے ہیں، ایک ایک لفظ پر پکڑ کرنے کو تیار ہیں اور اس پر المیہ یہ کہ ہم ترقی کی راہ پر آگے چلنے کی بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ پیچھے کو جا رہے ہیں۔ مزید پندرہ منٹ گزرے تو دو ایک پولیس والوں کی شکل نظر آئی انھوں نے درمیان میں پھنسی گاڑیوں کو ایک ایک کر کے ہٹوایا اور ٹریفک بحال کی، دو گھنٹے اور بیس منٹ... میں نے وقت دیکھا اور جونہی اس چوک سے نکلی، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا، اگلے پندرہ منٹ میں، میں گھر پر تھی۔ کھانا جیسے تیسے کھایا اور دل مردہ سا ہو رہا تھا، رات کو سونے سے قبل خود سے پوچھ رہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے، ہم کیا کر رہے ہیں، کیا ہم لکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہو گیا ہے؟ کیا کوئی اس لکھے کو پڑھتا ہے؟ کیا ہم میں سے کسی کو احساس ہے کہ ہم کس طرح کے مسائل سے دو چار ہیں اور ان مسائل کا حل کیا ہے؟
''نہیں...'' دل کی گہرائیوں سے جواب ملا۔ کوئی ہمارے مسائل کیوں حل کرنا چاہے گا جب ہم خود ہی انھیں حل نہیں کرنا چاہتے؟ کوئی اور ہمیں کیا بہکائے یا لڑائے گا جب ہماری اپنی صفوں میں ہی اتحاد مفقود ہے؟ ہمیں بکاؤ کہا جاتا ہے کہ ہم ڈالر کی خاطر اپنوں کے گلے کاٹنے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں اور اپنی ماں کو... میں نے زور سے آنکھیں میچ کر اس حقیقت کی تلخی کو بھولنے کی کوشش کی!!!!