یادداشت کی کمزوری کیوں واقع ہوتی ہے
قدرت سے رشتہ جوڑ کر آپ دماغ کو مضبوط کر سکتے ہیں
سورج کی پہلی کرن نکلتے ہی ہر طرف چہل پہل بڑھنے لگی۔ روزانہ کے معمول کے مطابق بچوں اور اپنے میاں کا ناشتہ بنانے کے لیے رابیعہ (فرضی نام) بے حد مصروف تھی۔ اسی دوران ماتھے پر تیوری چڑھائے ان کے شوہر اجمل سر پر آکھڑے ہوئے۔ رابیعہ نے گھبرا کردیکا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں وجہ پوچھ ڈالی۔ ''تم نے میری نیوی بلیو فائل کہاں رکھی ہے؟'' بہت دیر سوچنے کے بعد بھی رابیعہ کو جب جواب نہ مل پایا کہ فائل کہاں رکھی تو کہا پتہ نہیں میں کہاں رکھ کر بھول گئی۔ اور بس یہیں سے جھگڑا شروع ہوگیا۔
بچے الگ سہمے بیٹھے ناشتے کو، تو کبھی لڑے جھگڑتے ماں باپ کو دیکھتے۔ ''یہ تمہارا روز کا معمول ہے'' اجمل نے بیزاریت بھرے لہجے میں کہا اور روزانہ جھگڑے کا اختتام اسی جملے پر ہوا کرتا کیونکہ... خیر اس وقت کچھ لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر رابیعہ بیچاری فائل رکھ کر بھول گئی تو اس میں اس کا کیا قصور؟ اور کچھ لوگوںکا یہ بھی خیال ہوگا کہ شوہر نے خود اپنی چیزوں کا خیال کیوں نہیں رکھا۔ تو آپ کی ہمدردی کس کے ساتھ ہے؟ خیر قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ تو جھگڑوں کی ایک ہلکی سی جھلک ہے اس طرح کے کئی جھگڑے روزانہ کی بنیاد پر ہوتے ہیں جن محرک رابیعہ کی بھولنے، خاص طور پر چیزیں رکھ کر بھول جانے کی عادت ہے۔
بچوں کی کتابیں ہوں یا شوہر کی جرابیں، رابیعہ اپنی قوی یادداشت کے سبب رکھ کر بھول جاتی ہیں۔ ایسا صرف یہی نہیں ہوتا بلکہ آج کل کم و بیش ہر گھر کی یہ صورت حال ہے۔ خواتین اس کا زیادہ شکار کیوں اور کیسے ہوتی ہیں۔ یہ کافی طویل گفتگو ہے لیکن یادداشت کی کمزوری واقعتاً ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے جس سے بوڑھے تو بوڑھے نوجوان بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
زندگی جب مصروف ہوجائے تو یادداشت کی کمزوری واقع ہوجانا ایک امر ہے مگر بعض اوقات یہ وبال جان بھی بن جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یادداشت کی کمزوری کے پیچھے جہاں دوسرے عوامل کارفرما ہوتے ہیں ونہی جینز کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر ذہنی امراض جیسے الزائمرز کے مرض میں۔ لیکن اس کے بعد آنے والی تحقیق اس بات پر زور ڈالتی دکھائی دیتی ہے کہ متوازن خوراک اور طرز زندگی یادداشت پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ آج کے دور میں جہاں ہم ہر بیماری کے علاج کے لیے دواؤں پر انحصار کرتے ہیں وہاں ہم دراصل قدرت کے بنائے ہوئے اصولوں کو فراموش کرنے کی سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں۔
میٹھا
ویسے تو شاید سب نے یہ سن رکھا ہو کہ زیادہ میٹھا کھانے سے دماغ تیز ہوتا ہے لیکن ایسا زیادہ میٹھا جیسے آپ تیار ہوئی چیز میں اوپر سے مزید ڈال کر کھاتے ہیں وہ ناصرف صحت کے مسائل پیدا کرتا ہے بلکہ دائمی مسائل جیسے کہ ذہنی استدعا کو بھی متاثر کرتا ہے۔
تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی کہ چینی سے بھرے کھانے ناصرف کمزور یادداشت بلکہ ذہن کے حجم کو کم کرنے خصوصاً محدود یادداشت کو ذہن میں محفوظ نہ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک تحقیق میں (4000) چار ہزار افراد جوکہ زیادہ میٹھا کھاتے اور پیتے انہیں کم میٹھا کھانے اور پینے والے افراد کی نسبت یادداشت کو برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
بہت زیادہ میٹھا دماغی صحت کے لیے درست نہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ میٹھا کھانا ہی بند کردیا جائے۔ میٹھا کاربوہائٹس کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ضرور کھانا چاہیے لیکن اس کی مقدار کے معملے میں احتیاط برتنا ضروری ہے۔
مچھلی کا تیل
مچھلی کا تیل اومیگا تھری Omega-3 آئل سے بھرپور ہوتا ہے جس میں ایکوسپٹانک ایسڈ (EPA) اور ڈوکوسکینیک ایسڈ (DHA) موجود ہوتے ہیں جوکہ بنیادی طور پر صحت کے لیے سود مند ہونے کے ساتھ دل کی بیماریوں، سوجن، دباؤ اور دماغی امراض سے بھی بچاتے ہیں۔ بہت سی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مچھلی کے تیل میں موجود سپلی منٹس ذہنی استعداد کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ دماغ کو قوت بھی فراہم کرتے ہیں۔ خصوصاً بڑی عمر کے افراد میں یہ چیز زیادہ دیکھنے کو ملی۔ چونکہ عمر بڑھنے کے ساتھ جہاں باقی جسم کمزوری کا شکار ہوتا ہے۔ ونہی یادداشت بھی آن کی زد میں آجاتی ہے۔
چھتیس برس کی عمر کے افراد پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ انہیں مختصر عرصے کے لیے باتوں کو یاد رکھنے اور اپنی یادداشت کو بہتر بنانے میں مسلسل بارہ ماہ اومیگا آئل/ فیش آئل سپلی مینٹ سے مدد ملی۔ گزشتہ 28 ریسرچ پہ نگاہ ڈالنے سے یہ خلاصہ سامنے آیا کہ بڑھتی عمر میں گھٹتی یادداشت کو بہتر بنانے کے لیے DHA اور EPA جیسے فیٹس جیسے کہ مچھلی کے تیل میں پائے جاتے ہیں۔ نفع بخش ہوتے ہیں۔ DHA اور PHA دونوں ذہنی صحت کی بہتری اور بہترین کارکردگی کے لیے مفید ہونے کے ساتھ جہاں یادداشت کو بہتر بنانے میں معاون ہیں ونہی جسمانی سوجن سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔
مراقبہ
مراقبہ کا لفظ آتے ہی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ شاید کوئی گیان دھیان والے، بزرگ یا کوئی اللہ والے ہی مراقبہ کرسکتے ہیں۔ مگر درحقیقت مراقبہ کا تعلق آپ کے ذہنی سکون سے ہے کیونکہ یہ عادت اپنانے سے آپ کی صحت پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ یہ سکون بخش اور درد کشا ہونے کے ساتھ ساتھ یادداشت کو بھی بہتر بنانا ہے۔ مراقبہ کرنے سے ذہن کے اندر دماغ کے اندر اندر گرے میٹر بڑھتا ہے۔
جوکہ سیل باڈیز پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کا کام یادداشت کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ اگر گرے مادہ گھٹ جائے تو اس کے نتائج یادداشت اور شعور کی خرابی کی صورت نکلتے ہیں۔ سکون آور تراکیب اور مراقبہ تمام عمر کے لوگوں میں محدود یادداشت کو محفوظ رکھنے کے لیے بہترین عمل ہیں۔
تائیوان کے طلباء پر کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ طلباء جوکہ مراقبہ کرتے ہیں ان کی یادداشت مراقبہ نہ کرنے والے سٹوڈنٹس کی نبت بہت قوی ہوتی ہے۔ متوازن یادداشت سے مراد دماغ کی وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے کسی بھی چیز کو دیکھا سمجھا اور اس سے متعلق معلومات کو ذہن نشین کیا جاسکتا ہو۔
نیند
ایک تندرت ذہن تندرست جسم میں ہوتا ہے۔ یہ محاورا درست ہے کیونکہ ذہن کو اپنی بہترین کارکردگی دکھانے کے لیے ایک تندرست صحت مند جسم درکار ہوتا ہے تاکہ ذہن نئے خیالات پر عمل پیرا ہونے کا سوچ سکے۔ اگر جسم ہی بیمار ہو اور اپنی بہتر حالت میں نہ ہو تو ذہن اس خرابی کے بارے میں تو سوچ ہے مگر نئے خیالات کے حوالے سے نہیں۔ اس ضمن میں وزن کا اہم کردار ہے۔ بہت سی تحقیقات اس طرف واضح اشارہ کرتی ہیں کہ موٹاپا ذہنی استعداد میں کمی کی بڑی وجہ ہے۔ حیرت انگیز طور پر موٹاپے سے ذہن کے جنیز پر اثر پڑتا ہے اور یادداشت سے سوجن پیدا ہوتی ہے اور انسولین میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جس کا ذہن پر منفی اثر پڑتا ہے۔
18 سے 35 برس کے افراد پر کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ جسم کے بڑھتے حجم اور بدترین ذہنی کارکردگی میں مثبت تعلق پایا جاتا ہے۔ الزائمر کی ایک بڑی وجہ موٹاپا بھی ہے جس سے شعور اور یادداشت تباہ وکر رہ جاتے ہیں۔
نیند میں کمی یادداشت کی خرابی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دور حاضر میں جہاں ہر شخص ایک مصروف زندگی گزار رہا ہے اور آسائشات کے لیے تگ و دو کررہا ہے وہاں نیند اور آرام کے لیے بہت کم وقت نکلتا ہے جس سے جسمانی اور ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نیند جہاں یادداشت کو استحکام بخشتی ہے ونہی محدود یادداشت کو قوی یادداشت میں بدلنے کا کام کرتی ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ کم سونے سے یادداشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ نرسیں جو رات کی ڈیوٹی کرتی ہیں دن میں ڈیوٹی کرنے والی نرسوں کے مقابلے میں 68% فیصد زیادہ غلطیاں کرتی ہیں۔ جن میں نمایاں غلطی ریاضیات سے متعلق ہوتی ہیں۔ ماہرین کے نزدیک آٹھ سے نو گھنٹے سونا صحت اور یادداشت کی بہتری کی علامت ہے۔
فکر و تدبر
ذہن اللہ کی عطا کردہ ایسی نعمت ہے جس کو جس قدر استعمال کریں وہ اتنی فعال ہوگی۔ فکر کرنے سوچنے سے مراد اکثر بس ٹینشن اور پریشانی لی جاتی ہے لیکن دراصل فکر ذہن کی وہ حالت موجود ہے جس میں ذہن سمجھنے محسوس کرنے اور اپنے اردگرد سے باخبر رہنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ فکر و تدبر کو مراقبہ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ دونوں ایک ہی سکے کے دوزخ نہیں۔ مراقبہ ایک باقاعدہ عمل ہے جبکہ فکر ایک ذہنی عادت ہے جو کسی بھی حالت میں کی جاسکتی ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ فکر و افکار انسان کے ذہن سے دباؤ کو کم کرنے میں معاونت فراہم کرنے کے ساتھ یادداشت کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔
سیکالوجی کے 293 طلباء پہ کی جانے والی ایک تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ وہ طلباء جو فکر پر دھیان نہیں دیتے انہیں دوسرے طلباء کی نسبت چیزوں کو یاد کرنے اور دوہرانے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مزید اس سے عمر کے ساتھ شعوری سطح پر پیدا ہونے والے مسائل سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنی روزمرہ زندگی میں فکر کرنے کے لیے تھوڑا وقت نکالیں۔ چیزوں کو پرسکون انداز میں سوچنے کی کوشش کیجئے اس سے یادداشت بہتر ہوگی۔
کھیل
آج کے دور کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ٹیکنالوجی پر انحصار کرکے خود کو بیکار بنالیا ہے جس سے ذہنی صلاحیت بڑھنے کے بجائے گھٹنے لگی ہے۔ ایک وقت تھا جب ایسی ذہنی صلاحیت کو استعمال کرنے والے کھیل کھیلے جاتے تھے جن سے ذہانت بڑھتی تھی مگر آج موبائل اور کمپیوٹر پر موجود کھیل صرف وقت کھانے کا ذریعہ ہیں۔ لفظی معمات، لفظوں کو یاد کرکے دہرانا اور پزل ایسی کھیل ہیں جن سے ذہنی استعداد کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ بیالس افراد پر کی جانے والی ایک تحقیق میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا جن کے شعوری سطح پر کچھ مسائل تھے۔ آٹھ گھنٹوں تک مسلسل چار ہفتے برین ٹرین ایپ پر گیم کھیلنے سے ان کی یادداشت میں بہتری آئی۔ ایک اور تحقیق میں چار ہزار سات سو پندرہ افراد کو شامل کیا گیا اور دیکھا گیا کہ جو لوگ اپنے ذہن کو بہتر بنانے کے لیے ہفتے میں 5 دن پندرہ منٹ کے لیے کسی آن لائن برین ٹرین کا استعمال کرتے ہیں انہیں اپنی یادداشت کو بہتر بننے، غور و فکر کرنے اور مسائل کے حل کی جانب متوجہ ہونے میں مدد ملتی ہے۔ ذہن کو تیز بنانے والی کھیلیں بڑی عمر کے افراد کو ڈینشیا (ذہنی بگاڑ) سے بھی بچانے میں مدد دیتی ہیں۔
کاربوہائیڈریٹس
کاربوہائیڈریٹس ویسے تو صحت کے لیے بہت ضروری ہیں مگر کچھ صورتوں میں ان کا استعمال ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ کاربز کوکیک، کوکیز، سفید چاول، سفید آٹے اور اناج (گندم، مکئی، چنے، جوء سرؤں وغیرہ) کی شکل میں زیادہ مقدار استعمال کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ایسی خوراک جسم میں بلڈ شوگر کو بڑھا دیتی ہے۔ بیرون ممالک ریفائڈ کاربوہائیڈریٹس والی غذا پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایسی غذائی، ڈیمنلشیا، شعوری تعطل اور مسائل پیدا کرتی ہے۔ 317 بچوں پر کی جانے والی ایک ریسرچ سے پتہ چلا کہ فاسٹ فوڈ، سفید چاول اور نوڈلز کھانے والے بچوں کی شعوری پختگی اور مختصر یادداشتیں دوسرے بچوں کی نسبت کمزور ہیں۔ ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ بالغ افراد جوکہ ریفائنٹ آٹا اور اناج کھاتے ہیں وہ سادہ اناج کھانے والوں کی نسبت یادداشت اور ذہنی امراض کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
وٹامنز
وٹامنزکا صحت کے ضمن میں اہم کردار فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وٹامن ڈی بھی ہمارے جسم کی نشوونما میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جسم میں اگر وٹامن کی مقدار کم ہوجائے تو یہ اس بات کے مترادف ہے کہ بیماریوں کو خود دعوت دی جائے۔ ایک ریسرچ سے یہ حقائق سامنے آئے کہ وہ افراد جن کے خون میں وٹامن ڈی 20 نینو گرام فی میل پایا جاتا ہے ان میں ذہنی صلاحیتیں زیادہ تیزی سے پروان چڑھ جاتی ہیں۔ کم مقدار میں وٹامن ڈی کا نتیجہ ڈیمنشیا کی صورت نمودار ہوسکتا ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر آپ کسی ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں سرد موم ہے تو آپ کو اس کی کمی وری کرنے کے لیے وٹامن ڈی کے سپلی مینٹس ضرور لینے چاہئیں۔
ورزش
ورزش ذہنی و جسمانی صحت کی ضمانت ہے۔ اب تو یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ خواہ انسان کا تعلق عمر کے کسی بھی حصے سے ہو ورزش اس کی یادداشت کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ 19 برس سے 93 برس کے 144 افراد پر کی گئی ایک ریسرچ سے معلوم ہوا کہ جو لوگ روزانہ 15 منٹ سائیکل چلانے کی ورزش کرتے ہیں ان کی ذہنی استعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ یادداشت بھی بہتر ہوتی ہے۔
بہت سی ریسرچز نے یہ بھی بتایا کہ ورزش کرنے سے نیوروپووٹیکٹو پروٹین رطوبتیں پیدا ہوتی ہیں جو نیو رونز کی نشوونماء کرنے کے ساتھ انہیں باحفاظت دماغ تک لے جاتی ہیں۔ بڑی عمر میں باقاعدگی سے ورزش کرنا بھولنے کی بھاری سے بچاسکتا ہے۔
سوزش
رافع سوزش (سوزش کم کرنے والے) خوراک کا استعمال یادداشت کو بہتر بناتا ہے۔ اینٹی اکسیڈنٹ مادے جسم میں سوزش کو کم کردیتے ہیں جیسا کہ پھل، سبزیاں اور قہوے۔ 13,000 افراد پر مشتمل ایک سروے سے معلوم ہوا کہ جو لوگ زیادہ پھل اور سبزیاں کھاتے ہیں وہ یادداشت کے مسائل سے کم ہی دوچار ہوتے ہیں۔ بیریز میں اینٹی اکسیڈنٹ زیادہ موجود ہوتے ہیں جوکہ یادداشت کو کم ہونے سے بچاتے ہیں۔ 16,000 خواتین پر کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ خواتین جو سٹابریز اور بلیو بیریز زیادہ کھاتی ہیں، ناکھانے والی خواتین کی بانسبت کم یادداشت کے مسائل کا شکار ہوتی ہیں۔
ہلدی
ہلدی کے بارے میں بزرگ خواتین سے فوائد سن کر تو شاید آپ یقین نہ کرتے ہوں مگر اب جدید سائنس نے بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ ہلدی میں موجود اینٹی اکسیڈنٹس جسم میں سوزش کو روکنے کا کام کرتے ہیں اور نیورونز کو دماغ تک باآسانی پہنچنے میں مدد فراہم کرتے ہیں جس سے یادداشت جانے کا خدشہ کم سے کم ہوتا ہے۔ جانوروں پر کی جانے والی متعدد ریسرچز سے تو یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ہلدی یادداشت کو بہتر بناتی ہے اور شعور کو نقصان سے بچاتی ہے۔
روابط
دور حاضر میں جہاں ہر شخص مصروفیت کا شکار ہے وہاں ملنا جلنا اور معاشرتی روابط کا رحجان ماند پڑ چکاہے۔ رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنا ملانا فقطہ شادی بیاہ اور فوتگی تک محدو ہو کر رہ گیا ہے۔ لیکن تحقیق سے بات سامنے آئی ہے کہ جو شخص معاشرتی روابطہ رکھتا ہو وہ یاداشت کے مسائل کا کم شکار ہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب لوگ آپس میں ملتے ہیں تو ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے چھٹکارا ملتا ہے جو کہ یاداشت کی کمی کی بڑی وجہ بنتا ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ اپنے دوستوں خاندان کے افراد اور کولیگز کے ساتھ وقتاً فوقتاً ملتے رہیں اور کوشش کریں کے ملاقات خوش گوار موڈ میں ہو جس کا محرک کوئی کام نہ ہو بلکہ وہ لیئر ٹائم ہو جسے گزار کر آپ اپنے آپ کو پرسکون وتوانا محسوس کریں۔ جب ذہن پر سکون ہو گا تو یاداشت خود بخود ٹھیک رہے گی۔ پھر کچھ بھی دوہرانا یا اپنی یاداشت میں محفوظ کرنا مشکل نہ رہے گا۔
نظم و ضبط
اس وقت بے حد پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کوئی چیز ڈھونڈنا مقصود ہو اور وہ چیز مل نہ رہی ہو بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ یہ تو یاد ہوتا ہے چیز رکھی تھی کہاں رکھی تھی یہ بھولنا وبال جان سے کم نہیں ہوتا کیونکہ اسے ڈھونڈنے کی خاطر ہر چیز کو اپنی جگہ سے ہلا دینا بھی پریشانی کا باعث بنتا ہے۔
اس کی ایک بنیادی وجہ اپنے روز معاملات میں نظم وضبط کا نہ ہونا ہے۔ اپنے ذہن میں اگر چیزوں کو ترتیب دے لیا جائے مثلاً آج کیا کرنا ہے؟ کس سے کس دن ملاقات کرنی ہے؟ کونسا وقت فارغ مل سکتا ہے۔اس قسم کے سوالات کا جواب اگر ذہن میں ترتیب دے دیا جائے تومشکل نہیں ہوتی لیکن اس کا ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ کیلنڈر یا کسی ڈائری یا اپنے موبائل فون کے نوٹس میں لکھ لیا جائے ایسا کرنے سے بھولنے والا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ چیزوں کو یاد کرنے کیلئے اونچی آواز میں بھی دوہرایا جا سکتا ہے جس سے ذہن کو باور کرایا جاتا ہے کہ کونسا کام کب کرنا ہے۔
ترجیحات بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اگر انسان یہ طے کر لے کہ کونسا کام اس کے لئے زیادہ ضروری ہے تو وہ وہ بے کار کام جن پہ وقت ضائع ہوتا رہتا ہے ان سے جان چھوٹ سکتی ہے ۔ ایک وقت میں ایک کام کرنا بہتر میں عمل ہے کیونکہ اس سے توجہ ایک جگہ مرکوز رہتی ہے اور ذہن میں انتشار پیدا نہیں ہوتا ۔ جس کا یاداشت پہ اچھا اثر پڑتا ہے۔ اپنی ضروری استعمال کی اشیاء کے لئے جگہ ترتیب دینا بھی ایک بہترین اور آسان طریقہ ہے جس سے کوئی بھی چیز ڈھونڈنے میں دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جیسے اپنے پرس یا بٹوے ' چربوں' عینک اور دیگر ضروری چیزوں کی کوئی مخصوص جگہ بنا لینے سے ڈھونڈنے کی پریشانی لاحق نہ ہو گی۔
مدد
کوئی بھی چیز یا معاملہ جب ایک حد سے زیادہ خراب ہو جائے تو اس وقت چوکنا ہونے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یاداشت کی کمزوری کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ اسے سر پر سوار کر لیا جائے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ ''بھول جانا بھی اس بات کی علامت ہے کہ آپ کی یاداشت موجود ہے''۔ اپنے روز مرہ معمولات پر دھیان دے کر اپنی یاداشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مگر خطرے کی گھنٹی اس وقت بجتی ہے جب آپ اپنی زندگی میں یاداشت کی کمزوری کا بری طرح شکار ہو کر اپنے روز مرہ کے کام سرانجام نہ دے سکیں اگر آپ روزانہ کی بنیاد پر اپنے اندر یاداشت کی کمی کی بدترین نشانیاں جیسے کہ کھانا یا دوا کھانا بھول جاتے ہوں تو آپ کو چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں فوری کسی ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر بہترین انداز میں بتا سکے گا کہ یاداشت کہ اس مسئلے کو کیسے حل کرنا ہے۔ اس ضمن میں اگر کچھ ٹیسٹوں کی بھی ضرورت ہو گی تو ڈاکٹر کے ساتھ تعاون کیجئے ۔ سائیکو تھراپی یا بعداوقات دواؤں سے یاداشت کی کمزوری کو دور کیا جا سکتاہے۔
بچے الگ سہمے بیٹھے ناشتے کو، تو کبھی لڑے جھگڑتے ماں باپ کو دیکھتے۔ ''یہ تمہارا روز کا معمول ہے'' اجمل نے بیزاریت بھرے لہجے میں کہا اور روزانہ جھگڑے کا اختتام اسی جملے پر ہوا کرتا کیونکہ... خیر اس وقت کچھ لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر رابیعہ بیچاری فائل رکھ کر بھول گئی تو اس میں اس کا کیا قصور؟ اور کچھ لوگوںکا یہ بھی خیال ہوگا کہ شوہر نے خود اپنی چیزوں کا خیال کیوں نہیں رکھا۔ تو آپ کی ہمدردی کس کے ساتھ ہے؟ خیر قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ تو جھگڑوں کی ایک ہلکی سی جھلک ہے اس طرح کے کئی جھگڑے روزانہ کی بنیاد پر ہوتے ہیں جن محرک رابیعہ کی بھولنے، خاص طور پر چیزیں رکھ کر بھول جانے کی عادت ہے۔
بچوں کی کتابیں ہوں یا شوہر کی جرابیں، رابیعہ اپنی قوی یادداشت کے سبب رکھ کر بھول جاتی ہیں۔ ایسا صرف یہی نہیں ہوتا بلکہ آج کل کم و بیش ہر گھر کی یہ صورت حال ہے۔ خواتین اس کا زیادہ شکار کیوں اور کیسے ہوتی ہیں۔ یہ کافی طویل گفتگو ہے لیکن یادداشت کی کمزوری واقعتاً ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے جس سے بوڑھے تو بوڑھے نوجوان بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
زندگی جب مصروف ہوجائے تو یادداشت کی کمزوری واقع ہوجانا ایک امر ہے مگر بعض اوقات یہ وبال جان بھی بن جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یادداشت کی کمزوری کے پیچھے جہاں دوسرے عوامل کارفرما ہوتے ہیں ونہی جینز کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر ذہنی امراض جیسے الزائمرز کے مرض میں۔ لیکن اس کے بعد آنے والی تحقیق اس بات پر زور ڈالتی دکھائی دیتی ہے کہ متوازن خوراک اور طرز زندگی یادداشت پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ آج کے دور میں جہاں ہم ہر بیماری کے علاج کے لیے دواؤں پر انحصار کرتے ہیں وہاں ہم دراصل قدرت کے بنائے ہوئے اصولوں کو فراموش کرنے کی سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں۔
میٹھا
ویسے تو شاید سب نے یہ سن رکھا ہو کہ زیادہ میٹھا کھانے سے دماغ تیز ہوتا ہے لیکن ایسا زیادہ میٹھا جیسے آپ تیار ہوئی چیز میں اوپر سے مزید ڈال کر کھاتے ہیں وہ ناصرف صحت کے مسائل پیدا کرتا ہے بلکہ دائمی مسائل جیسے کہ ذہنی استدعا کو بھی متاثر کرتا ہے۔
تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی کہ چینی سے بھرے کھانے ناصرف کمزور یادداشت بلکہ ذہن کے حجم کو کم کرنے خصوصاً محدود یادداشت کو ذہن میں محفوظ نہ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک تحقیق میں (4000) چار ہزار افراد جوکہ زیادہ میٹھا کھاتے اور پیتے انہیں کم میٹھا کھانے اور پینے والے افراد کی نسبت یادداشت کو برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
بہت زیادہ میٹھا دماغی صحت کے لیے درست نہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ میٹھا کھانا ہی بند کردیا جائے۔ میٹھا کاربوہائٹس کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ضرور کھانا چاہیے لیکن اس کی مقدار کے معملے میں احتیاط برتنا ضروری ہے۔
مچھلی کا تیل
مچھلی کا تیل اومیگا تھری Omega-3 آئل سے بھرپور ہوتا ہے جس میں ایکوسپٹانک ایسڈ (EPA) اور ڈوکوسکینیک ایسڈ (DHA) موجود ہوتے ہیں جوکہ بنیادی طور پر صحت کے لیے سود مند ہونے کے ساتھ دل کی بیماریوں، سوجن، دباؤ اور دماغی امراض سے بھی بچاتے ہیں۔ بہت سی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مچھلی کے تیل میں موجود سپلی منٹس ذہنی استعداد کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ دماغ کو قوت بھی فراہم کرتے ہیں۔ خصوصاً بڑی عمر کے افراد میں یہ چیز زیادہ دیکھنے کو ملی۔ چونکہ عمر بڑھنے کے ساتھ جہاں باقی جسم کمزوری کا شکار ہوتا ہے۔ ونہی یادداشت بھی آن کی زد میں آجاتی ہے۔
چھتیس برس کی عمر کے افراد پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ انہیں مختصر عرصے کے لیے باتوں کو یاد رکھنے اور اپنی یادداشت کو بہتر بنانے میں مسلسل بارہ ماہ اومیگا آئل/ فیش آئل سپلی مینٹ سے مدد ملی۔ گزشتہ 28 ریسرچ پہ نگاہ ڈالنے سے یہ خلاصہ سامنے آیا کہ بڑھتی عمر میں گھٹتی یادداشت کو بہتر بنانے کے لیے DHA اور EPA جیسے فیٹس جیسے کہ مچھلی کے تیل میں پائے جاتے ہیں۔ نفع بخش ہوتے ہیں۔ DHA اور PHA دونوں ذہنی صحت کی بہتری اور بہترین کارکردگی کے لیے مفید ہونے کے ساتھ جہاں یادداشت کو بہتر بنانے میں معاون ہیں ونہی جسمانی سوجن سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔
مراقبہ
مراقبہ کا لفظ آتے ہی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ شاید کوئی گیان دھیان والے، بزرگ یا کوئی اللہ والے ہی مراقبہ کرسکتے ہیں۔ مگر درحقیقت مراقبہ کا تعلق آپ کے ذہنی سکون سے ہے کیونکہ یہ عادت اپنانے سے آپ کی صحت پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ یہ سکون بخش اور درد کشا ہونے کے ساتھ ساتھ یادداشت کو بھی بہتر بنانا ہے۔ مراقبہ کرنے سے ذہن کے اندر دماغ کے اندر اندر گرے میٹر بڑھتا ہے۔
جوکہ سیل باڈیز پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کا کام یادداشت کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ اگر گرے مادہ گھٹ جائے تو اس کے نتائج یادداشت اور شعور کی خرابی کی صورت نکلتے ہیں۔ سکون آور تراکیب اور مراقبہ تمام عمر کے لوگوں میں محدود یادداشت کو محفوظ رکھنے کے لیے بہترین عمل ہیں۔
تائیوان کے طلباء پر کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ طلباء جوکہ مراقبہ کرتے ہیں ان کی یادداشت مراقبہ نہ کرنے والے سٹوڈنٹس کی نبت بہت قوی ہوتی ہے۔ متوازن یادداشت سے مراد دماغ کی وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے کسی بھی چیز کو دیکھا سمجھا اور اس سے متعلق معلومات کو ذہن نشین کیا جاسکتا ہو۔
نیند
ایک تندرت ذہن تندرست جسم میں ہوتا ہے۔ یہ محاورا درست ہے کیونکہ ذہن کو اپنی بہترین کارکردگی دکھانے کے لیے ایک تندرست صحت مند جسم درکار ہوتا ہے تاکہ ذہن نئے خیالات پر عمل پیرا ہونے کا سوچ سکے۔ اگر جسم ہی بیمار ہو اور اپنی بہتر حالت میں نہ ہو تو ذہن اس خرابی کے بارے میں تو سوچ ہے مگر نئے خیالات کے حوالے سے نہیں۔ اس ضمن میں وزن کا اہم کردار ہے۔ بہت سی تحقیقات اس طرف واضح اشارہ کرتی ہیں کہ موٹاپا ذہنی استعداد میں کمی کی بڑی وجہ ہے۔ حیرت انگیز طور پر موٹاپے سے ذہن کے جنیز پر اثر پڑتا ہے اور یادداشت سے سوجن پیدا ہوتی ہے اور انسولین میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جس کا ذہن پر منفی اثر پڑتا ہے۔
18 سے 35 برس کے افراد پر کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ جسم کے بڑھتے حجم اور بدترین ذہنی کارکردگی میں مثبت تعلق پایا جاتا ہے۔ الزائمر کی ایک بڑی وجہ موٹاپا بھی ہے جس سے شعور اور یادداشت تباہ وکر رہ جاتے ہیں۔
نیند میں کمی یادداشت کی خرابی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دور حاضر میں جہاں ہر شخص ایک مصروف زندگی گزار رہا ہے اور آسائشات کے لیے تگ و دو کررہا ہے وہاں نیند اور آرام کے لیے بہت کم وقت نکلتا ہے جس سے جسمانی اور ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نیند جہاں یادداشت کو استحکام بخشتی ہے ونہی محدود یادداشت کو قوی یادداشت میں بدلنے کا کام کرتی ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ کم سونے سے یادداشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ نرسیں جو رات کی ڈیوٹی کرتی ہیں دن میں ڈیوٹی کرنے والی نرسوں کے مقابلے میں 68% فیصد زیادہ غلطیاں کرتی ہیں۔ جن میں نمایاں غلطی ریاضیات سے متعلق ہوتی ہیں۔ ماہرین کے نزدیک آٹھ سے نو گھنٹے سونا صحت اور یادداشت کی بہتری کی علامت ہے۔
فکر و تدبر
ذہن اللہ کی عطا کردہ ایسی نعمت ہے جس کو جس قدر استعمال کریں وہ اتنی فعال ہوگی۔ فکر کرنے سوچنے سے مراد اکثر بس ٹینشن اور پریشانی لی جاتی ہے لیکن دراصل فکر ذہن کی وہ حالت موجود ہے جس میں ذہن سمجھنے محسوس کرنے اور اپنے اردگرد سے باخبر رہنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ فکر و تدبر کو مراقبہ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ دونوں ایک ہی سکے کے دوزخ نہیں۔ مراقبہ ایک باقاعدہ عمل ہے جبکہ فکر ایک ذہنی عادت ہے جو کسی بھی حالت میں کی جاسکتی ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ فکر و افکار انسان کے ذہن سے دباؤ کو کم کرنے میں معاونت فراہم کرنے کے ساتھ یادداشت کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔
سیکالوجی کے 293 طلباء پہ کی جانے والی ایک تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ وہ طلباء جو فکر پر دھیان نہیں دیتے انہیں دوسرے طلباء کی نسبت چیزوں کو یاد کرنے اور دوہرانے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مزید اس سے عمر کے ساتھ شعوری سطح پر پیدا ہونے والے مسائل سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنی روزمرہ زندگی میں فکر کرنے کے لیے تھوڑا وقت نکالیں۔ چیزوں کو پرسکون انداز میں سوچنے کی کوشش کیجئے اس سے یادداشت بہتر ہوگی۔
کھیل
آج کے دور کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ٹیکنالوجی پر انحصار کرکے خود کو بیکار بنالیا ہے جس سے ذہنی صلاحیت بڑھنے کے بجائے گھٹنے لگی ہے۔ ایک وقت تھا جب ایسی ذہنی صلاحیت کو استعمال کرنے والے کھیل کھیلے جاتے تھے جن سے ذہانت بڑھتی تھی مگر آج موبائل اور کمپیوٹر پر موجود کھیل صرف وقت کھانے کا ذریعہ ہیں۔ لفظی معمات، لفظوں کو یاد کرکے دہرانا اور پزل ایسی کھیل ہیں جن سے ذہنی استعداد کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ بیالس افراد پر کی جانے والی ایک تحقیق میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا جن کے شعوری سطح پر کچھ مسائل تھے۔ آٹھ گھنٹوں تک مسلسل چار ہفتے برین ٹرین ایپ پر گیم کھیلنے سے ان کی یادداشت میں بہتری آئی۔ ایک اور تحقیق میں چار ہزار سات سو پندرہ افراد کو شامل کیا گیا اور دیکھا گیا کہ جو لوگ اپنے ذہن کو بہتر بنانے کے لیے ہفتے میں 5 دن پندرہ منٹ کے لیے کسی آن لائن برین ٹرین کا استعمال کرتے ہیں انہیں اپنی یادداشت کو بہتر بننے، غور و فکر کرنے اور مسائل کے حل کی جانب متوجہ ہونے میں مدد ملتی ہے۔ ذہن کو تیز بنانے والی کھیلیں بڑی عمر کے افراد کو ڈینشیا (ذہنی بگاڑ) سے بھی بچانے میں مدد دیتی ہیں۔
کاربوہائیڈریٹس
کاربوہائیڈریٹس ویسے تو صحت کے لیے بہت ضروری ہیں مگر کچھ صورتوں میں ان کا استعمال ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ کاربز کوکیک، کوکیز، سفید چاول، سفید آٹے اور اناج (گندم، مکئی، چنے، جوء سرؤں وغیرہ) کی شکل میں زیادہ مقدار استعمال کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ایسی خوراک جسم میں بلڈ شوگر کو بڑھا دیتی ہے۔ بیرون ممالک ریفائڈ کاربوہائیڈریٹس والی غذا پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایسی غذائی، ڈیمنلشیا، شعوری تعطل اور مسائل پیدا کرتی ہے۔ 317 بچوں پر کی جانے والی ایک ریسرچ سے پتہ چلا کہ فاسٹ فوڈ، سفید چاول اور نوڈلز کھانے والے بچوں کی شعوری پختگی اور مختصر یادداشتیں دوسرے بچوں کی نسبت کمزور ہیں۔ ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ بالغ افراد جوکہ ریفائنٹ آٹا اور اناج کھاتے ہیں وہ سادہ اناج کھانے والوں کی نسبت یادداشت اور ذہنی امراض کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
وٹامنز
وٹامنزکا صحت کے ضمن میں اہم کردار فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وٹامن ڈی بھی ہمارے جسم کی نشوونما میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جسم میں اگر وٹامن کی مقدار کم ہوجائے تو یہ اس بات کے مترادف ہے کہ بیماریوں کو خود دعوت دی جائے۔ ایک ریسرچ سے یہ حقائق سامنے آئے کہ وہ افراد جن کے خون میں وٹامن ڈی 20 نینو گرام فی میل پایا جاتا ہے ان میں ذہنی صلاحیتیں زیادہ تیزی سے پروان چڑھ جاتی ہیں۔ کم مقدار میں وٹامن ڈی کا نتیجہ ڈیمنشیا کی صورت نمودار ہوسکتا ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر آپ کسی ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں سرد موم ہے تو آپ کو اس کی کمی وری کرنے کے لیے وٹامن ڈی کے سپلی مینٹس ضرور لینے چاہئیں۔
ورزش
ورزش ذہنی و جسمانی صحت کی ضمانت ہے۔ اب تو یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ خواہ انسان کا تعلق عمر کے کسی بھی حصے سے ہو ورزش اس کی یادداشت کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ 19 برس سے 93 برس کے 144 افراد پر کی گئی ایک ریسرچ سے معلوم ہوا کہ جو لوگ روزانہ 15 منٹ سائیکل چلانے کی ورزش کرتے ہیں ان کی ذہنی استعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ یادداشت بھی بہتر ہوتی ہے۔
بہت سی ریسرچز نے یہ بھی بتایا کہ ورزش کرنے سے نیوروپووٹیکٹو پروٹین رطوبتیں پیدا ہوتی ہیں جو نیو رونز کی نشوونماء کرنے کے ساتھ انہیں باحفاظت دماغ تک لے جاتی ہیں۔ بڑی عمر میں باقاعدگی سے ورزش کرنا بھولنے کی بھاری سے بچاسکتا ہے۔
سوزش
رافع سوزش (سوزش کم کرنے والے) خوراک کا استعمال یادداشت کو بہتر بناتا ہے۔ اینٹی اکسیڈنٹ مادے جسم میں سوزش کو کم کردیتے ہیں جیسا کہ پھل، سبزیاں اور قہوے۔ 13,000 افراد پر مشتمل ایک سروے سے معلوم ہوا کہ جو لوگ زیادہ پھل اور سبزیاں کھاتے ہیں وہ یادداشت کے مسائل سے کم ہی دوچار ہوتے ہیں۔ بیریز میں اینٹی اکسیڈنٹ زیادہ موجود ہوتے ہیں جوکہ یادداشت کو کم ہونے سے بچاتے ہیں۔ 16,000 خواتین پر کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ خواتین جو سٹابریز اور بلیو بیریز زیادہ کھاتی ہیں، ناکھانے والی خواتین کی بانسبت کم یادداشت کے مسائل کا شکار ہوتی ہیں۔
ہلدی
ہلدی کے بارے میں بزرگ خواتین سے فوائد سن کر تو شاید آپ یقین نہ کرتے ہوں مگر اب جدید سائنس نے بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ ہلدی میں موجود اینٹی اکسیڈنٹس جسم میں سوزش کو روکنے کا کام کرتے ہیں اور نیورونز کو دماغ تک باآسانی پہنچنے میں مدد فراہم کرتے ہیں جس سے یادداشت جانے کا خدشہ کم سے کم ہوتا ہے۔ جانوروں پر کی جانے والی متعدد ریسرچز سے تو یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ہلدی یادداشت کو بہتر بناتی ہے اور شعور کو نقصان سے بچاتی ہے۔
روابط
دور حاضر میں جہاں ہر شخص مصروفیت کا شکار ہے وہاں ملنا جلنا اور معاشرتی روابط کا رحجان ماند پڑ چکاہے۔ رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنا ملانا فقطہ شادی بیاہ اور فوتگی تک محدو ہو کر رہ گیا ہے۔ لیکن تحقیق سے بات سامنے آئی ہے کہ جو شخص معاشرتی روابطہ رکھتا ہو وہ یاداشت کے مسائل کا کم شکار ہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب لوگ آپس میں ملتے ہیں تو ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے چھٹکارا ملتا ہے جو کہ یاداشت کی کمی کی بڑی وجہ بنتا ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ اپنے دوستوں خاندان کے افراد اور کولیگز کے ساتھ وقتاً فوقتاً ملتے رہیں اور کوشش کریں کے ملاقات خوش گوار موڈ میں ہو جس کا محرک کوئی کام نہ ہو بلکہ وہ لیئر ٹائم ہو جسے گزار کر آپ اپنے آپ کو پرسکون وتوانا محسوس کریں۔ جب ذہن پر سکون ہو گا تو یاداشت خود بخود ٹھیک رہے گی۔ پھر کچھ بھی دوہرانا یا اپنی یاداشت میں محفوظ کرنا مشکل نہ رہے گا۔
نظم و ضبط
اس وقت بے حد پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کوئی چیز ڈھونڈنا مقصود ہو اور وہ چیز مل نہ رہی ہو بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ یہ تو یاد ہوتا ہے چیز رکھی تھی کہاں رکھی تھی یہ بھولنا وبال جان سے کم نہیں ہوتا کیونکہ اسے ڈھونڈنے کی خاطر ہر چیز کو اپنی جگہ سے ہلا دینا بھی پریشانی کا باعث بنتا ہے۔
اس کی ایک بنیادی وجہ اپنے روز معاملات میں نظم وضبط کا نہ ہونا ہے۔ اپنے ذہن میں اگر چیزوں کو ترتیب دے لیا جائے مثلاً آج کیا کرنا ہے؟ کس سے کس دن ملاقات کرنی ہے؟ کونسا وقت فارغ مل سکتا ہے۔اس قسم کے سوالات کا جواب اگر ذہن میں ترتیب دے دیا جائے تومشکل نہیں ہوتی لیکن اس کا ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ کیلنڈر یا کسی ڈائری یا اپنے موبائل فون کے نوٹس میں لکھ لیا جائے ایسا کرنے سے بھولنے والا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ چیزوں کو یاد کرنے کیلئے اونچی آواز میں بھی دوہرایا جا سکتا ہے جس سے ذہن کو باور کرایا جاتا ہے کہ کونسا کام کب کرنا ہے۔
ترجیحات بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اگر انسان یہ طے کر لے کہ کونسا کام اس کے لئے زیادہ ضروری ہے تو وہ وہ بے کار کام جن پہ وقت ضائع ہوتا رہتا ہے ان سے جان چھوٹ سکتی ہے ۔ ایک وقت میں ایک کام کرنا بہتر میں عمل ہے کیونکہ اس سے توجہ ایک جگہ مرکوز رہتی ہے اور ذہن میں انتشار پیدا نہیں ہوتا ۔ جس کا یاداشت پہ اچھا اثر پڑتا ہے۔ اپنی ضروری استعمال کی اشیاء کے لئے جگہ ترتیب دینا بھی ایک بہترین اور آسان طریقہ ہے جس سے کوئی بھی چیز ڈھونڈنے میں دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جیسے اپنے پرس یا بٹوے ' چربوں' عینک اور دیگر ضروری چیزوں کی کوئی مخصوص جگہ بنا لینے سے ڈھونڈنے کی پریشانی لاحق نہ ہو گی۔
مدد
کوئی بھی چیز یا معاملہ جب ایک حد سے زیادہ خراب ہو جائے تو اس وقت چوکنا ہونے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یاداشت کی کمزوری کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ اسے سر پر سوار کر لیا جائے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ ''بھول جانا بھی اس بات کی علامت ہے کہ آپ کی یاداشت موجود ہے''۔ اپنے روز مرہ معمولات پر دھیان دے کر اپنی یاداشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مگر خطرے کی گھنٹی اس وقت بجتی ہے جب آپ اپنی زندگی میں یاداشت کی کمزوری کا بری طرح شکار ہو کر اپنے روز مرہ کے کام سرانجام نہ دے سکیں اگر آپ روزانہ کی بنیاد پر اپنے اندر یاداشت کی کمی کی بدترین نشانیاں جیسے کہ کھانا یا دوا کھانا بھول جاتے ہوں تو آپ کو چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں فوری کسی ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر بہترین انداز میں بتا سکے گا کہ یاداشت کہ اس مسئلے کو کیسے حل کرنا ہے۔ اس ضمن میں اگر کچھ ٹیسٹوں کی بھی ضرورت ہو گی تو ڈاکٹر کے ساتھ تعاون کیجئے ۔ سائیکو تھراپی یا بعداوقات دواؤں سے یاداشت کی کمزوری کو دور کیا جا سکتاہے۔