پاکستان جنوبی افریقہ ون ڈے سیریز
شکستوں کے بھنور سے نکلنے کے لیے دلیرانہ کھیل پیش کرنا ہوگا.
''جناب میں آپ کی بات سے بالکل بھی متفق نہیں ہوں'' میں نے یہ جملہ سننے کے بعد اپنے عقب میں دیکھا تو وہاں بھارتی گلوکار ہمیش رشمیا سے مشابہ ایک لڑکے کو موجود پایا۔
کانوں میں بالیاں اور سر پر کیپ پہنے ہلکی داڑھی کا حامل وہ لڑکا دبئی اسٹیڈیم کے باہر شائد ہماری باتیں سن رہا تھا، میں وہاں اپنے ایک دوست سے محو گفتگو تھا، ہماری بات چیت کا محور عمر اکمل کا ٹیلنٹ بنا، میرے رائے کے مطابق نوجوان بیٹسمین صلاحیتوں میں کسی صورت بھارتی ویرت کوہلی سے کم نہیں، میرا یہ کہنا اس نوجوان کو پسند نہ آیا، اس نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا کہ اگر عمر اکمل اتنا ہی باصلاحیت ہے تو کوہلی کی طرح رنز کے ڈھیر کیوں نہیں لگا رہا، میں نے اسے جواب دیا ''دماغ میرے دوست، جس دن عمر اکمل نے عقل کا استعمال کیا، کوہلی اور روہت شرما جیسے تمام بیٹسمین اس سے بہت پیچھے رہ جائیں گے''۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ اگر کسی میں صلاحیت ہے اور اگر وہ اس کا اظہار نہ کر سکے تو کیا فائدہ ، جیسے ماضی میں منصور اختر کا ٹیلنٹ عمران خان نے پرکھ لیا، انھیں متواتر مواقع دیے مگر وہ کچھ نہ کر پائے۔
اسی طرح ساجد علی جیسے بیٹسمین ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے ڈھیر لگاتے رہے مگر انٹرنیشنل مقابلوں میں کچھ نہ کر پائے، اب عمر اکمل کا بھی یہی مسئلہ ہے، وہ کسی میچ میں تو ایسے خطرناک پلیئر لگتے ہیں کہ بڑے بڑے بولرز پناہ مانگیں جبکہ بعض اوقات عام بیٹسمین کی طرح وکٹ گنوا کرچلتے بنتے ہیں، جنوبی افریقہ کے خلاف دوسرے ٹوئنٹی 20میں عمر نے اپنی صلاحیتوں کی معمولی سی جھلک دکھائی، انھوں نے جس طرح کے اسٹروکس کھیلے اس سے یہ بات واضح تھی کہ اگر وہ چاہیں تو کیا کچھ کر سکتے ہیں، کپتان محمد حفیظ بھی بے جگری سے کھیلے، کافی عرصے بعد شائقین پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ سے لطف اندوز ہوئے، انھوں نے حیرت سے آنکھیں مل کر خود کو یقین دلایا ہو گا کہ یہ وہی اسکواڈ ہے جس کی پروٹیز نے یو اے ای کی سازگار کنڈیشنز میں درگت بنا دی تھی، پلیئرز تقریباً وہی تھے تو اچانک کارکردگی میں ایسی بہتری کیسے آ گئی؟ اس کا جواب جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، سارا معاملہ اعتماد کا ہے۔
گرین شرٹس امارات میں ایسے سہمے ہوئے نظر آئے جیسے بولرز گیند نہیں بم پھینک رہے ہیں، کیپ ٹائون کے میچ میں مثبت اپروچ اپنائی اور حفیظ و عمر اکمل نے اپنے اصل اسٹروکس کھیلے جس کی وجہ سے مجموعہ176 تک پہنچ گیا، ایسے میں اگر ٹیم میچ ہار بھی جاتی تو لوگوں کو اتنا افسوس نہ ہوتا،ڈر کر کھیلتے ہوئے 90،100رنز بنانے کے بعد آسانی سے ہارنا کسی کو قبول نہیں، البتہ شیروں کی طرح لڑے تو سب شاباشی دیں گے، اگر پاکستانی کرکٹرز اسی طرح اعتماد سے مثبت کرکٹ کھیلتے رہے تو جلد ٹیم دوبارہ سے فتوحات کی راہ پر گامزن ہو جائے گی، دوسرے میچ میں شاہدآفریدی بیٹنگ میں حد سے زیادہ جدوجہد کرتے دکھائی دیے، اس کی وجہ ان پر موجود دبائو ہے، لوگ ان سے ڈان بریڈمین جیسے کھیل کی توقع رکھتے ہیں، اگر ٹیم کوئی میچ ہارے تو شائقین دیگر 10پلیئرز کو بُرا نہیں کہتے بلکہ انھیں آفریدی ہی قصور وار نظر آتا ہے،اس کی ایک وجہ آل رائونڈ سے وابستہ توقعات ہوتی ہیں،اس کا اثر اب ان کی بیٹنگ پر پڑنے لگا۔
دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں اگر آخری اوور میں قسمت ساتھ نہ دیتی اور ایجز پر آفریدی کو2 چوکے نہیں ملتے تو یہی اسکور فیصلہ کن ثابت ہوتا،اس کے بعد ناقدین کی توپیں ہوتیں اور آفریدی کا سینہ، اگر اس میچ میں فتح کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ان کا اہم ترین کردار تھا، انھوں نے آتے ہی پارٹنر شپ توڑی اور پھر اپنے تینوں اوورز میں ایک ، ایک وکٹ لے کر پاکستان کو فتح کے نزدیک پہنچایا۔ میچ میں سہیل تنویر نے آخری اوور میں نپی تلی بولنگ کر کے حریف کو ہدف تک پہنچنے سے باز رکھا، اس پر وہ قابل تعریف ہیں، نوجوان پیسر بلاول بھٹی نے اپنی رفتار سے سب ہی کو متاثر کیا، البتہ جنید خان مایوس کر رہے ہیں، ٹیم کو اس وقت عمر گل کی شدید ضرورت ہے، سری لنکا کیخلاف سیریز کے لیے محمد عرفان کی بھی واپسی ہو جائے گی، ان دونوں کی آمد سے پیس بیٹری کو استحکام ملے گا۔ شعیب ملک اور عبدالرزاق جنوبی افریقہ سے بغیر کھیلے واپس لوٹ گئے، دونوں پر ان دنوں تنقید ہو رہی ہے جو درست نہیں، ٹیم میں کم بیک کے فوراً بعد کسی سے میچ وننگ کارکردگی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
شعیب کا درست استعمال نہیں کیا جا رہا، کیریبیئن لیگ میں بارباڈوس کے کپتان کیرون پولارڈ نے ان پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا جس کی وجہ سے وہ سب سے کامیاب بیٹسمین ثابت ہوئے، انھوں نے بولنگ میں بھی اچھی کارکردگی دکھائی، حفیظ کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، پاکستانی ٹیم کسی ایک کھلاڑی کی نہیں بلکہ سب کی ہے، اس ڈر سے کہ کہیں کوئی آگے آ کر ہمارے لیے مشکل پیدا نہ کر دے اسے درست مواقع نہ دینا ٹھیک نہیں، طے کر لیں کہ پوری سیریز میں فلاں نمبر پر بیٹنگ کرائیں گے اور پھر اس پر عمل بھی کریں، ٹوئنٹی20 ورلڈ کپ قریب ہے، اس میں ہمیں شعیب ملک جیسے پھرتیلے فیلڈر، بیٹسمین اور بولر کی ضرورت پڑے گی، اسکواڈ میں جو تبدیلیاں کرنی ہیں ابھی سے کر لینا چاہئیں، صہیب مقصود اور بلاول بھٹی اچھااضافہ لگتے ہیں، ایک ٹیم تشکیل دے کر پھر اسی کو کھلانا چاہیے تاکہ میگا ایونٹ تک بہترین کمبی نیشن بن جائے۔
پاکستانی ٹیم آج سے پروٹیز کے خلاف ون ڈے سیریز شروع کر رہی ہے، اس سے قبل مصباح الحق کو ورلڈکپ 2015ء تک قیادت پر برقرار رہنے کی خوشخبری مل گئی، یہ اور بات ہے کہ یہ اعلان ایڈہاک کمیٹی کے سربراہ نے کیا جو نجانے خود کتنے ماہ تک اس عہدے پر برقرار رہ سکیں گے، پاکستانی کرکٹ کو قریب سے جاننے والے لوگ اس بیان پر زیر لب مسکرا کر رہ گئے، بعض نے تو یہ بھی دعویٰ کر دیا کہ اس وقت تک تین، چار کپتان تو تبدیل ہو ہی چکے ہوں گے، خود مصباح کو بھی اس بیان کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے، یقینا وہ رواں برس 1119رنز بنا کر تیسرے بہترین بیٹسمین ہیں مگر بات وہی آ جاتی ہے کہ ٹیم نے اس دوران کیا کارنامے انجام دیے، اب انھیں اس تاثر کو غلط ثابت کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کیخلاف پاکستان کو فتوحات دلانی چاہئیں، مصباح کا مسئلہ دفاعی اپروچ ہے اسی وجہ سے اتنے رنز بنانے کے باوجود وہ زیادہ مقبول نہیں ہو سکے، انھیں ٹیم کو فیلڈ میں لڑانا چاہیے، کھلاڑی ہر گیند پر جان لڑاتے نظر آئیں، یہی ان کی کامیابی ہو گی، وہ خود آگے بڑھ کر ذمہ داری سنبھالیں اور تیسرے نمبر پر بیٹنگ کریں، اس دوران رن ریٹ پر بھی نظر رکھیں تاکہ ان کے آئوٹ ہونے پر دیگر بیٹسمینوں کو پریشانی نہ ہو، ورلڈکپ میں قیادت کا خواب دیکھنا بری بات نہیں مگر ایونٹ میں حصہ تو بنگلہ دیش کی ٹیم بھی لیتی ہے، اصل بات پرفارمنس ہے اور اس کے لیے شیر دل کپتان کی ضرورت پڑے گی، اگر مصباح جیسے بہترین بیٹسمین ہی ایسے بن جائیں تو اس سے اچھی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی۔
کوچ ڈیو واٹمور ان دنوں اپنی تخواہ کھری کرنے کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ وقت گزاری کر رہے ہیں، کچھ عرصے قبل لاہور میں ان سے جب ون آن ون ملاقات ہوئی تب ہی انھوں نے ایسی باتیںکی تھیں جس سے لگتا تھا کہ وہ کوچنگ جاری رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، انھیں اپنی پرائیویسی اور زیادہ سکیورٹی کے حوالے سے بھی شکایات تھیں، بورڈ ان پر اعتماد کھو چکا،اس کے باوجود چند لاکھ روپے بچانے کے لیے اسکواڈ کے ساتھ رکھا ہوا ہے، اب کون ان کی بات سن رہا ہو گا یا وہ خود کون سی بہتری کی کوشش کر رہے ہوں گے، انھیں ہٹانے کا اعلان پہلے سے کر کے ایک احمقانہ فیصلہ کیا گیا جس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، ایسے کام خاموشی سے ہوتے ہیں میڈیا ریلیز جاری نہیں کی جاتیں، واٹمور کی جگہ سنبھالنے کے لیے وقار یونس بھی دوڑ میں موجود ہیں، کوچنگ کے دور میں ان کے کپتان شاہد آفریدی سے شدید اختلافات ہوئے، بعد میں وہ ازخود صحت کو جواز بنا کر ذمہ داری سے الگ ہو گئے، یہ اور بات ہے کہ چند روز بعد ہی مکمل صحت مند کمنٹری کرتے نظر آئے تھے، آسٹریلوی شہریت کے حامل وقار یونس نے کینگروز کی کوچنگ کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر مشکوک ماضی کی وجہ سے کرکٹ آسٹریلیا نے انھیں لفٹ نہیں کرائی، اب انھیں ایک بار پھر قومی ٹیم کی یاد ستانے لگی ہے، گزشتہ دنوں دبئی میں ٹی ٹوئنٹی 20میچ کے دوران آئی سی سی کے میڈیا منیجر سمیع برنی، سینئر صحافی ماجد بھٹی اور راقم سے گفتگو میں وقار نے ڈھکے چھپے الفاظ میں کہا کہ ''اگر مکمل اختیارات کے ساتھ ذمہ داری ملے تو قبول کرنے پر غور کریں گے۔'' ان کے گزشتہ دور میں کئی سینئرز کی چھٹی ہو گئی تھی شائد اب بھی اشارہ اسی جانب تھا۔ سابق کوچ محسن خان کو ان کی انا لے ڈوبی تھی، نیا چیئرمین بھی ان جیسے کسی نان کوالیفائیڈ فرد کو کوچ بنانا شائد پسند نہ کرے، ایسے میں دیکھتے ہیں کہ قرہ فال کس کے نام نکلتا ہے۔
یو اے ای میں پاکستان کی ہوم سیریز تھی مگر وہ رونق دیکھنے میں نہیں آئی، البتہ بورڈ کے چند افسران مکمل پروٹوکول کے ساتھ ضرور موجود تھے، ایک دن میڈیا سینٹر میں داخلے سے قبل وی وی آئی پی فلور کے سامنے ایک مہنگی سی جیپ رکی، میں یہ دیکھنے کے لیے رک گیا کہ کون آیا ہے، ایسے میں ڈرائیور نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو ہاتھوں میں بلیک بیری موبائل فونز تھامے سوٹ میں ملبوس گلاسز لگائے ہوئے بورڈ کے منیجر انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ شان سے نیچے اترے، بعد میں مجھے بتایا گیا کہ ان کا قیام بھی ٹیم ہوٹل میں ہے،اس وقت میں نے سوچا کہ ایک منیجر کے یہ ٹھاٹ باٹ، شائد یہی وجہ ہے کہ پی سی بی میں ملازمت کے لیے لوگ سفارشیں کراتے ہیں، قائم مقام بھی مستقل ہونے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں، بھلا ایسا پروٹوکول کہیں اور ملے گا کیا؟
اپنے گزشتہ مضمون میں سابق ٹیسٹ کرکٹر عبدالقادر کے بارے میں کچھ باتیں تحریر کی تھیں جو انھیں گراں گزریں، انھوں نے فون پر وضاحتیں دیں جو من و عن پیش کر رہا ہوں، عبدالقادر کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ بورڈ کی ملازمت کے دوران انھوں نے مخالفانہ بیانات نہیں دیے تھے، ایسا کئی بار ہوا جس کی وجہ سے انھیں شوکاز نوٹس بھی جاری کیے گئے، نئے اسپنرز سامنے نہ لانے کے الزام پر انھوں نے بتایا کہ وہ کئی پروپوزلز بورڈ حکام کو پیش کر چکے اگر کوئی نوٹس نہ لیا گیا تو اس میں ان کا کیا قصور ہے۔
عدالت کی جانب سے نرمی کے بعد سے نجم سیٹھی نے اب قدم پھیلانا شروع کر دیے ہیں لیکن انھیں میڈیا میں کچھ کہنے سے قبل سوچنا بھی چاہیے، انھوں نے مصباح کی قیادت کے حوالے سے جذبات میں آکر بیان دے دیا، پھر بھارت سے ٹھوس بات چیت کے بغیر آئندہ سال سیریز کا دعویٰ کر رہے ہیں، پاکستان کرکٹ کو ابھی کئی اہم مسائل کا سامنا ہے، چیف سلیکٹر موجود نہیں، کوچ کو بھی چھٹی کا پروانہ تھمایا جا چکا، دیگر بورڈز سے تعلقات بھی مثالی نہیں ہیں، پہلے ان معاملات پر توجہ دیں تو بہتر رہے گا، خاص طور پر بنگلہ دیش کے ساتھ کشیدگی کا پاکستانی کرکٹرز کو خاصا نقصان ہو رہا ہے، اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے تاکہ ہمارے پلیئرز وہاں کی ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر کچھ رقم کما سکیں۔ چیف سلیکٹر بھی کسی بڑے کھلاڑی کو بنانا مناسب ہو گا جس کا انٹرنیشنل کرکٹ میں کوئی نام ہو، اسی صورت نئے ٹیلنٹ کو منظر عام پر لانے میں مدد مل سکے گی، عدالتی حکم پر معین خان یہ عہدہ نہیں سنبھال سکے تھے، اب جبکہ چیئرمین دیگر فیصلے بھی کر رہے ہیں انھیں سابق کپتان کو چیف سلیکٹر بنانے کا بھی اعلان کر دینا چاہیے، نئے منیجر تو کئی اور بھی مل جائیں گے۔
skhaliq@express.com.pk
کانوں میں بالیاں اور سر پر کیپ پہنے ہلکی داڑھی کا حامل وہ لڑکا دبئی اسٹیڈیم کے باہر شائد ہماری باتیں سن رہا تھا، میں وہاں اپنے ایک دوست سے محو گفتگو تھا، ہماری بات چیت کا محور عمر اکمل کا ٹیلنٹ بنا، میرے رائے کے مطابق نوجوان بیٹسمین صلاحیتوں میں کسی صورت بھارتی ویرت کوہلی سے کم نہیں، میرا یہ کہنا اس نوجوان کو پسند نہ آیا، اس نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا کہ اگر عمر اکمل اتنا ہی باصلاحیت ہے تو کوہلی کی طرح رنز کے ڈھیر کیوں نہیں لگا رہا، میں نے اسے جواب دیا ''دماغ میرے دوست، جس دن عمر اکمل نے عقل کا استعمال کیا، کوہلی اور روہت شرما جیسے تمام بیٹسمین اس سے بہت پیچھے رہ جائیں گے''۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ اگر کسی میں صلاحیت ہے اور اگر وہ اس کا اظہار نہ کر سکے تو کیا فائدہ ، جیسے ماضی میں منصور اختر کا ٹیلنٹ عمران خان نے پرکھ لیا، انھیں متواتر مواقع دیے مگر وہ کچھ نہ کر پائے۔
اسی طرح ساجد علی جیسے بیٹسمین ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے ڈھیر لگاتے رہے مگر انٹرنیشنل مقابلوں میں کچھ نہ کر پائے، اب عمر اکمل کا بھی یہی مسئلہ ہے، وہ کسی میچ میں تو ایسے خطرناک پلیئر لگتے ہیں کہ بڑے بڑے بولرز پناہ مانگیں جبکہ بعض اوقات عام بیٹسمین کی طرح وکٹ گنوا کرچلتے بنتے ہیں، جنوبی افریقہ کے خلاف دوسرے ٹوئنٹی 20میں عمر نے اپنی صلاحیتوں کی معمولی سی جھلک دکھائی، انھوں نے جس طرح کے اسٹروکس کھیلے اس سے یہ بات واضح تھی کہ اگر وہ چاہیں تو کیا کچھ کر سکتے ہیں، کپتان محمد حفیظ بھی بے جگری سے کھیلے، کافی عرصے بعد شائقین پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ سے لطف اندوز ہوئے، انھوں نے حیرت سے آنکھیں مل کر خود کو یقین دلایا ہو گا کہ یہ وہی اسکواڈ ہے جس کی پروٹیز نے یو اے ای کی سازگار کنڈیشنز میں درگت بنا دی تھی، پلیئرز تقریباً وہی تھے تو اچانک کارکردگی میں ایسی بہتری کیسے آ گئی؟ اس کا جواب جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، سارا معاملہ اعتماد کا ہے۔
گرین شرٹس امارات میں ایسے سہمے ہوئے نظر آئے جیسے بولرز گیند نہیں بم پھینک رہے ہیں، کیپ ٹائون کے میچ میں مثبت اپروچ اپنائی اور حفیظ و عمر اکمل نے اپنے اصل اسٹروکس کھیلے جس کی وجہ سے مجموعہ176 تک پہنچ گیا، ایسے میں اگر ٹیم میچ ہار بھی جاتی تو لوگوں کو اتنا افسوس نہ ہوتا،ڈر کر کھیلتے ہوئے 90،100رنز بنانے کے بعد آسانی سے ہارنا کسی کو قبول نہیں، البتہ شیروں کی طرح لڑے تو سب شاباشی دیں گے، اگر پاکستانی کرکٹرز اسی طرح اعتماد سے مثبت کرکٹ کھیلتے رہے تو جلد ٹیم دوبارہ سے فتوحات کی راہ پر گامزن ہو جائے گی، دوسرے میچ میں شاہدآفریدی بیٹنگ میں حد سے زیادہ جدوجہد کرتے دکھائی دیے، اس کی وجہ ان پر موجود دبائو ہے، لوگ ان سے ڈان بریڈمین جیسے کھیل کی توقع رکھتے ہیں، اگر ٹیم کوئی میچ ہارے تو شائقین دیگر 10پلیئرز کو بُرا نہیں کہتے بلکہ انھیں آفریدی ہی قصور وار نظر آتا ہے،اس کی ایک وجہ آل رائونڈ سے وابستہ توقعات ہوتی ہیں،اس کا اثر اب ان کی بیٹنگ پر پڑنے لگا۔
دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں اگر آخری اوور میں قسمت ساتھ نہ دیتی اور ایجز پر آفریدی کو2 چوکے نہیں ملتے تو یہی اسکور فیصلہ کن ثابت ہوتا،اس کے بعد ناقدین کی توپیں ہوتیں اور آفریدی کا سینہ، اگر اس میچ میں فتح کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ان کا اہم ترین کردار تھا، انھوں نے آتے ہی پارٹنر شپ توڑی اور پھر اپنے تینوں اوورز میں ایک ، ایک وکٹ لے کر پاکستان کو فتح کے نزدیک پہنچایا۔ میچ میں سہیل تنویر نے آخری اوور میں نپی تلی بولنگ کر کے حریف کو ہدف تک پہنچنے سے باز رکھا، اس پر وہ قابل تعریف ہیں، نوجوان پیسر بلاول بھٹی نے اپنی رفتار سے سب ہی کو متاثر کیا، البتہ جنید خان مایوس کر رہے ہیں، ٹیم کو اس وقت عمر گل کی شدید ضرورت ہے، سری لنکا کیخلاف سیریز کے لیے محمد عرفان کی بھی واپسی ہو جائے گی، ان دونوں کی آمد سے پیس بیٹری کو استحکام ملے گا۔ شعیب ملک اور عبدالرزاق جنوبی افریقہ سے بغیر کھیلے واپس لوٹ گئے، دونوں پر ان دنوں تنقید ہو رہی ہے جو درست نہیں، ٹیم میں کم بیک کے فوراً بعد کسی سے میچ وننگ کارکردگی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
شعیب کا درست استعمال نہیں کیا جا رہا، کیریبیئن لیگ میں بارباڈوس کے کپتان کیرون پولارڈ نے ان پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا جس کی وجہ سے وہ سب سے کامیاب بیٹسمین ثابت ہوئے، انھوں نے بولنگ میں بھی اچھی کارکردگی دکھائی، حفیظ کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، پاکستانی ٹیم کسی ایک کھلاڑی کی نہیں بلکہ سب کی ہے، اس ڈر سے کہ کہیں کوئی آگے آ کر ہمارے لیے مشکل پیدا نہ کر دے اسے درست مواقع نہ دینا ٹھیک نہیں، طے کر لیں کہ پوری سیریز میں فلاں نمبر پر بیٹنگ کرائیں گے اور پھر اس پر عمل بھی کریں، ٹوئنٹی20 ورلڈ کپ قریب ہے، اس میں ہمیں شعیب ملک جیسے پھرتیلے فیلڈر، بیٹسمین اور بولر کی ضرورت پڑے گی، اسکواڈ میں جو تبدیلیاں کرنی ہیں ابھی سے کر لینا چاہئیں، صہیب مقصود اور بلاول بھٹی اچھااضافہ لگتے ہیں، ایک ٹیم تشکیل دے کر پھر اسی کو کھلانا چاہیے تاکہ میگا ایونٹ تک بہترین کمبی نیشن بن جائے۔
پاکستانی ٹیم آج سے پروٹیز کے خلاف ون ڈے سیریز شروع کر رہی ہے، اس سے قبل مصباح الحق کو ورلڈکپ 2015ء تک قیادت پر برقرار رہنے کی خوشخبری مل گئی، یہ اور بات ہے کہ یہ اعلان ایڈہاک کمیٹی کے سربراہ نے کیا جو نجانے خود کتنے ماہ تک اس عہدے پر برقرار رہ سکیں گے، پاکستانی کرکٹ کو قریب سے جاننے والے لوگ اس بیان پر زیر لب مسکرا کر رہ گئے، بعض نے تو یہ بھی دعویٰ کر دیا کہ اس وقت تک تین، چار کپتان تو تبدیل ہو ہی چکے ہوں گے، خود مصباح کو بھی اس بیان کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے، یقینا وہ رواں برس 1119رنز بنا کر تیسرے بہترین بیٹسمین ہیں مگر بات وہی آ جاتی ہے کہ ٹیم نے اس دوران کیا کارنامے انجام دیے، اب انھیں اس تاثر کو غلط ثابت کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کیخلاف پاکستان کو فتوحات دلانی چاہئیں، مصباح کا مسئلہ دفاعی اپروچ ہے اسی وجہ سے اتنے رنز بنانے کے باوجود وہ زیادہ مقبول نہیں ہو سکے، انھیں ٹیم کو فیلڈ میں لڑانا چاہیے، کھلاڑی ہر گیند پر جان لڑاتے نظر آئیں، یہی ان کی کامیابی ہو گی، وہ خود آگے بڑھ کر ذمہ داری سنبھالیں اور تیسرے نمبر پر بیٹنگ کریں، اس دوران رن ریٹ پر بھی نظر رکھیں تاکہ ان کے آئوٹ ہونے پر دیگر بیٹسمینوں کو پریشانی نہ ہو، ورلڈکپ میں قیادت کا خواب دیکھنا بری بات نہیں مگر ایونٹ میں حصہ تو بنگلہ دیش کی ٹیم بھی لیتی ہے، اصل بات پرفارمنس ہے اور اس کے لیے شیر دل کپتان کی ضرورت پڑے گی، اگر مصباح جیسے بہترین بیٹسمین ہی ایسے بن جائیں تو اس سے اچھی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی۔
کوچ ڈیو واٹمور ان دنوں اپنی تخواہ کھری کرنے کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ وقت گزاری کر رہے ہیں، کچھ عرصے قبل لاہور میں ان سے جب ون آن ون ملاقات ہوئی تب ہی انھوں نے ایسی باتیںکی تھیں جس سے لگتا تھا کہ وہ کوچنگ جاری رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، انھیں اپنی پرائیویسی اور زیادہ سکیورٹی کے حوالے سے بھی شکایات تھیں، بورڈ ان پر اعتماد کھو چکا،اس کے باوجود چند لاکھ روپے بچانے کے لیے اسکواڈ کے ساتھ رکھا ہوا ہے، اب کون ان کی بات سن رہا ہو گا یا وہ خود کون سی بہتری کی کوشش کر رہے ہوں گے، انھیں ہٹانے کا اعلان پہلے سے کر کے ایک احمقانہ فیصلہ کیا گیا جس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، ایسے کام خاموشی سے ہوتے ہیں میڈیا ریلیز جاری نہیں کی جاتیں، واٹمور کی جگہ سنبھالنے کے لیے وقار یونس بھی دوڑ میں موجود ہیں، کوچنگ کے دور میں ان کے کپتان شاہد آفریدی سے شدید اختلافات ہوئے، بعد میں وہ ازخود صحت کو جواز بنا کر ذمہ داری سے الگ ہو گئے، یہ اور بات ہے کہ چند روز بعد ہی مکمل صحت مند کمنٹری کرتے نظر آئے تھے، آسٹریلوی شہریت کے حامل وقار یونس نے کینگروز کی کوچنگ کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر مشکوک ماضی کی وجہ سے کرکٹ آسٹریلیا نے انھیں لفٹ نہیں کرائی، اب انھیں ایک بار پھر قومی ٹیم کی یاد ستانے لگی ہے، گزشتہ دنوں دبئی میں ٹی ٹوئنٹی 20میچ کے دوران آئی سی سی کے میڈیا منیجر سمیع برنی، سینئر صحافی ماجد بھٹی اور راقم سے گفتگو میں وقار نے ڈھکے چھپے الفاظ میں کہا کہ ''اگر مکمل اختیارات کے ساتھ ذمہ داری ملے تو قبول کرنے پر غور کریں گے۔'' ان کے گزشتہ دور میں کئی سینئرز کی چھٹی ہو گئی تھی شائد اب بھی اشارہ اسی جانب تھا۔ سابق کوچ محسن خان کو ان کی انا لے ڈوبی تھی، نیا چیئرمین بھی ان جیسے کسی نان کوالیفائیڈ فرد کو کوچ بنانا شائد پسند نہ کرے، ایسے میں دیکھتے ہیں کہ قرہ فال کس کے نام نکلتا ہے۔
یو اے ای میں پاکستان کی ہوم سیریز تھی مگر وہ رونق دیکھنے میں نہیں آئی، البتہ بورڈ کے چند افسران مکمل پروٹوکول کے ساتھ ضرور موجود تھے، ایک دن میڈیا سینٹر میں داخلے سے قبل وی وی آئی پی فلور کے سامنے ایک مہنگی سی جیپ رکی، میں یہ دیکھنے کے لیے رک گیا کہ کون آیا ہے، ایسے میں ڈرائیور نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو ہاتھوں میں بلیک بیری موبائل فونز تھامے سوٹ میں ملبوس گلاسز لگائے ہوئے بورڈ کے منیجر انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ شان سے نیچے اترے، بعد میں مجھے بتایا گیا کہ ان کا قیام بھی ٹیم ہوٹل میں ہے،اس وقت میں نے سوچا کہ ایک منیجر کے یہ ٹھاٹ باٹ، شائد یہی وجہ ہے کہ پی سی بی میں ملازمت کے لیے لوگ سفارشیں کراتے ہیں، قائم مقام بھی مستقل ہونے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں، بھلا ایسا پروٹوکول کہیں اور ملے گا کیا؟
اپنے گزشتہ مضمون میں سابق ٹیسٹ کرکٹر عبدالقادر کے بارے میں کچھ باتیں تحریر کی تھیں جو انھیں گراں گزریں، انھوں نے فون پر وضاحتیں دیں جو من و عن پیش کر رہا ہوں، عبدالقادر کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ بورڈ کی ملازمت کے دوران انھوں نے مخالفانہ بیانات نہیں دیے تھے، ایسا کئی بار ہوا جس کی وجہ سے انھیں شوکاز نوٹس بھی جاری کیے گئے، نئے اسپنرز سامنے نہ لانے کے الزام پر انھوں نے بتایا کہ وہ کئی پروپوزلز بورڈ حکام کو پیش کر چکے اگر کوئی نوٹس نہ لیا گیا تو اس میں ان کا کیا قصور ہے۔
عدالت کی جانب سے نرمی کے بعد سے نجم سیٹھی نے اب قدم پھیلانا شروع کر دیے ہیں لیکن انھیں میڈیا میں کچھ کہنے سے قبل سوچنا بھی چاہیے، انھوں نے مصباح کی قیادت کے حوالے سے جذبات میں آکر بیان دے دیا، پھر بھارت سے ٹھوس بات چیت کے بغیر آئندہ سال سیریز کا دعویٰ کر رہے ہیں، پاکستان کرکٹ کو ابھی کئی اہم مسائل کا سامنا ہے، چیف سلیکٹر موجود نہیں، کوچ کو بھی چھٹی کا پروانہ تھمایا جا چکا، دیگر بورڈز سے تعلقات بھی مثالی نہیں ہیں، پہلے ان معاملات پر توجہ دیں تو بہتر رہے گا، خاص طور پر بنگلہ دیش کے ساتھ کشیدگی کا پاکستانی کرکٹرز کو خاصا نقصان ہو رہا ہے، اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے تاکہ ہمارے پلیئرز وہاں کی ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر کچھ رقم کما سکیں۔ چیف سلیکٹر بھی کسی بڑے کھلاڑی کو بنانا مناسب ہو گا جس کا انٹرنیشنل کرکٹ میں کوئی نام ہو، اسی صورت نئے ٹیلنٹ کو منظر عام پر لانے میں مدد مل سکے گی، عدالتی حکم پر معین خان یہ عہدہ نہیں سنبھال سکے تھے، اب جبکہ چیئرمین دیگر فیصلے بھی کر رہے ہیں انھیں سابق کپتان کو چیف سلیکٹر بنانے کا بھی اعلان کر دینا چاہیے، نئے منیجر تو کئی اور بھی مل جائیں گے۔
skhaliq@express.com.pk