ڈیسک
ریکارڈ گھوسٹ اساتذہ دیکھ کر اور جب کہ سندھ کا 25 فیصد بجٹ تعلیم پر اور 25 فیصد بجٹ صحت پر خرچ ہوتا ہے
WASHINGTON:
ہم سب اسکول کے مختلف ادوار سے گزرے ہوں گے، بہت سی یادیں وابستہ ہوں گی ان زمانوں سے۔ وہ نیم کا درخت، اس کے نیچے دکھی پر رکھے، پانی سے بھرے مٹکے، مٹکوں کے بیچ زنجیر سے لٹکتا تانبے کا گلاس، وہ نلکا، وہ میدان، اک لمبا سا برآمدہ، بلیک بورڈ، وہ پھٹے اور وہ ڈیسک، تختی، سیاہی، بلا اور بال۔ ان اسکولوں میں اونچ نیچ نہ تھی۔ وڈیرے کا بیٹا بھی وہیں تو دہقان کا بیٹا بھی۔ یہ اور بات ہے کہ قد کاٹھ میں، جسم کی ساخت میں دہقان کا بیٹا اور وڈیرے کے بیٹے میں فرق تھا۔ وہ فرق غذا کی وجہ سے تھا۔ اس غربت اور امارت کی وجہ سے تھا مگر صف ایک تھی۔ وڈیرے اور دہقان کے بیٹے میں اونچ نیچ نہ تھی۔ استاد کی آنکھ کے تارے تھے وہ سارے۔ شاگرد اور استاد کی عزت بھی کتنی عزیز تھی سب کو، وڈیرے کے بیٹے کو بھی، دہقان کے بیٹے کو بھی۔
ہالانی کے جس اسکول میں چھٹی جماعت میں پڑھا ، وہ پاکستان سے پہلے کی بنی ہوئی عمارت تھی، جس کی چھتیں کلاس روم کو کم تپش دیتی تھیں، جہاں ہم پڑھا کرتے تھے۔ پھر میں پٹارو کالج چلا گیا جہاں عجیب ہی دنیا تھی وہاں کیا نہ تھا ۔ بس وہاں بچے سب رؤسا اور شرفاء کے بچے تھے۔ اس سے پہلے نواب شاہ دو تین اسکولوں سے میں گزرا تھا۔
پہلے پرائمری پھر سیکنڈری میں نے ایچ ایم خواجہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انیتا غلام علی، غلام مصطفی جتوئی کو، اپنے گھر کو بورڈنگ ہاؤس بناکے رکھا اور کئی امیرزادوں کے بچے تھے جو ان کے گھر میں رہا کرتے تھے۔ شادی نہیں کی انھوں نے۔ اسمبلی میں اک دن کھڑے ہو کر کہا کہ ''لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں شادی کیوں نہیں کرتا، میں نے کہا ، ان لوگوں کو میری شادی ہو چکی ہے۔ میرا اسکول میرا خاندان ہے اور یہ سب بچے میرے بچے ہیں''۔ نواب شاہ سے اب اگر ایچ ایم خواجہ کو نکال دو۔ نواب شاہ ادھورا ہو جاتا ہے۔
امر جلیل کہتے ہیں نواب شاہ میں ایچ ایم خواجہ کے زمانے میں، اسکول غریبوں کا پٹارو کالج تھا۔ وہ خود روہڑی سے چل کر یہاں پڑھنے آئے تھے اور ایسے کئی شاگرد تھے جو دور افتادہ جگہوں سے یہاں پڑھنے آئے تھے۔ کتنے سارے بورڈنگ ہاؤس تھے۔ میدان تھے اور وہ ایچ ایم خواجہ گارڈن جہاں پھولوں کی نمائش لگتی تھی۔ جہاں شاگردوں کے بنائے ہوئے فن پارے سجائے جاتے تھے۔ پورا شہر امڈ پڑتا تھا۔ بہار کے موسم میں۔ غلام مصطفی جتوئی نے جب نواب شاہ میں میڈیکل کالج بنایا تو ایچ ایم خواجہ کا اسکول اور ہاسٹل جو کہ آدھے شہر پر پھیلا ہوا تھا نواب شاہ کالج کو دینا چاہئیں کہ وہ سول اسپتال کے برابر میں ہی تھے۔ ایچ ایم خواجہ وہ دینا نہیں چاہتے تھے مگر کیا کرتے وہ ان کی ذاتی زمین تھوڑی تھی، وہ سرکاری زمین تھی۔
میں نے خود اپنی آنکھوں سے اس اسکول کا لطیف ہال نواب شاہ کالج کو جاتے ہوئے دیکھا جہاں اسٹیج ڈرامے ہوا کرتے تھے۔ اس کے سامنے ایک خوبصورت گراؤنڈ تھا۔ روزانہ صبح اور شام وہاں بینڈ بجتا تھا۔ اور ان کی ا سکاٹ لینڈ ڈریس اور روزانہ پریڈ ہوا کرتی تھی۔ یہ سب باتیں مجھے اب اس لیے یاد آئیں جب سندھ حکومت کے محکمہ تعلیم نے اسکولوں کے لیے ڈیسک لینے کا کام اپنے آپ کو سونپ کر ڈیڑھ لاکھ ڈیسکس لینے کا فیصلہ کیا اور ساڑھے تین ارب روپے کہ یہ ڈیسکس فی عدد 22000 روپے میں لیے جائیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام محکمہ تعلیم نے خود اپنے ذمے کیوں نہیں لیا۔ کیا یہ اسکول خود نہیں کر سکتے تھے؟ اور اگر اسکول والے یہ ڈیسکس لینے کے کام میں خورد برد کر سکتے تھے تو کیا محکمہ تعلیم اس بیماری کا عادی ہے۔ 22000 روپے، فی ڈیسک خود اپنا بیان ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ڈیسک 22000 کیوں؟ اور اگر کسی سے ڈیڑھ لاکھ ڈیسکس لیے جا رہے ہیں تو کیا وہ بتائے گا کہ اس کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ڈیڑھ لاکھ ڈیسکس بنا سکے یا تو وہ یہ کام مختلف فرنیچر والوں کو ٹھیکے پر دے گا تو پھر ان ٹھیکیداروں کو اس میں کتنا بچے گا۔ اگر شیشم کی لکڑی استعمال ہو رہی ہے تو اس کی لاگت تیرہ ہزار سے زیادہ نہیں ہو سکتی اور خود یہ بھی بتائے کہ اس ڈیسک میں کون سی لکڑی استعمال ہو رہی ہے؟ اس ٹھیکے میں گڑ بڑ ہے محکمے اس میں پیپرا و سیپرا کے اصول بھی مدنظر رکھے گئے ہوں۔ لوگوں نے پیپرا و سیپرا کو بھی اب نیوٹرل کر لیا ہے۔ اپنی مرضی کا اشتہار دینا اور پسندیدہ لوگوں کو ٹھیکہ دینا اتنا مشکل نہیں۔
یہ ڈیسکس جو چند سو اسکولوں میں دیے جائیں گے وہ بے چارے کتنی زندگی یاد رہیں گے۔ کچھ پتہ نہیں۔ کیا کوئی ایسی شق اس کنٹریکٹ میں رکھی گئی ہے کہ نہیں ہے؟ آج کل یہ محکمہ سعید غنی صاحب کو دیا۔ آج کل یہ محکمہ سعید غنی صاحب کو سونپ دیا گیا ہے۔ واقعی میں یہ بھی اس حکومت کے بہترین کارکردگی دینے والے وزیر ہیں اس لیے ان کو ابھی دو ہفتے بھی نہیں ہوئے، انھوں نے خبریں بڑی بنوائی ہیں۔ روزانہ مختلف اسکولوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے مراد علی شاہ بھی جب وزیر اعلیٰ بنے تھے تو روزانہ صبح سویرے سیکریٹریٹ پہنچ جاتے تھے۔
انھوں نے ''تعلیمی ایمرجنسی'' بھی نافذ کی تھی اسکولوں کی تباہی کا یہ عالم دیکھ کر پھر نہ جانے وہ تعلیمی ایمرجنسی کہاں رخصت ہوئی۔ دنیا میں ریکارڈ اسٹوڈنٹ بچے جو ذہنی معذور ہوتے ہیں، وہ کم غذا کی وجہ سے ہوتے ہیں ان کو دیکھ کر دنیا کے اور ریکارڈ ڈراپ آؤٹ ریٹ دیکھ کر، ریکارڈ گھوسٹ اساتذہ دیکھ کر اور جب کہ سندھ کا 25 فیصد بجٹ تعلیم پر اور 25 فیصد بجٹ صحت پر خرچ ہوتا ہے مگر یہ دونوں محکمے بد سے بدتر کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟
مگر میرے بچپن کے ڈیسک، وہ نیم کی چھاؤں میں پڑے مٹکے، وہ پھٹے، وہ بلا اور بال میری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتے، دل تو کہتا ہے کہ لوٹ جاؤں وہیں اسی زماں و مکاں میں جہاں وڈیرے کا بیٹا اور دہقان کا بیٹا سب ایک ڈیسک پر بیٹھا کرتے تھے جہاں کوئی بھی پرائیویٹ اسکول نہ تھا۔ جہاں ایچ ایم خواجہ ہوا کرتے تھے۔ جہاں اسکولوں میں کھیلنے کے لیے میدان ہوا کرتے تھے اور ڈیسک 22000 روپے میں نہیں ملا کرتی تھیں۔ اگر اس روپے کو آج کے حقیقی روپے کی قدر کے تناسب سے دیکھا جائے تب بھی!
ہم سب اسکول کے مختلف ادوار سے گزرے ہوں گے، بہت سی یادیں وابستہ ہوں گی ان زمانوں سے۔ وہ نیم کا درخت، اس کے نیچے دکھی پر رکھے، پانی سے بھرے مٹکے، مٹکوں کے بیچ زنجیر سے لٹکتا تانبے کا گلاس، وہ نلکا، وہ میدان، اک لمبا سا برآمدہ، بلیک بورڈ، وہ پھٹے اور وہ ڈیسک، تختی، سیاہی، بلا اور بال۔ ان اسکولوں میں اونچ نیچ نہ تھی۔ وڈیرے کا بیٹا بھی وہیں تو دہقان کا بیٹا بھی۔ یہ اور بات ہے کہ قد کاٹھ میں، جسم کی ساخت میں دہقان کا بیٹا اور وڈیرے کے بیٹے میں فرق تھا۔ وہ فرق غذا کی وجہ سے تھا۔ اس غربت اور امارت کی وجہ سے تھا مگر صف ایک تھی۔ وڈیرے اور دہقان کے بیٹے میں اونچ نیچ نہ تھی۔ استاد کی آنکھ کے تارے تھے وہ سارے۔ شاگرد اور استاد کی عزت بھی کتنی عزیز تھی سب کو، وڈیرے کے بیٹے کو بھی، دہقان کے بیٹے کو بھی۔
ہالانی کے جس اسکول میں چھٹی جماعت میں پڑھا ، وہ پاکستان سے پہلے کی بنی ہوئی عمارت تھی، جس کی چھتیں کلاس روم کو کم تپش دیتی تھیں، جہاں ہم پڑھا کرتے تھے۔ پھر میں پٹارو کالج چلا گیا جہاں عجیب ہی دنیا تھی وہاں کیا نہ تھا ۔ بس وہاں بچے سب رؤسا اور شرفاء کے بچے تھے۔ اس سے پہلے نواب شاہ دو تین اسکولوں سے میں گزرا تھا۔
پہلے پرائمری پھر سیکنڈری میں نے ایچ ایم خواجہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انیتا غلام علی، غلام مصطفی جتوئی کو، اپنے گھر کو بورڈنگ ہاؤس بناکے رکھا اور کئی امیرزادوں کے بچے تھے جو ان کے گھر میں رہا کرتے تھے۔ شادی نہیں کی انھوں نے۔ اسمبلی میں اک دن کھڑے ہو کر کہا کہ ''لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں شادی کیوں نہیں کرتا، میں نے کہا ، ان لوگوں کو میری شادی ہو چکی ہے۔ میرا اسکول میرا خاندان ہے اور یہ سب بچے میرے بچے ہیں''۔ نواب شاہ سے اب اگر ایچ ایم خواجہ کو نکال دو۔ نواب شاہ ادھورا ہو جاتا ہے۔
امر جلیل کہتے ہیں نواب شاہ میں ایچ ایم خواجہ کے زمانے میں، اسکول غریبوں کا پٹارو کالج تھا۔ وہ خود روہڑی سے چل کر یہاں پڑھنے آئے تھے اور ایسے کئی شاگرد تھے جو دور افتادہ جگہوں سے یہاں پڑھنے آئے تھے۔ کتنے سارے بورڈنگ ہاؤس تھے۔ میدان تھے اور وہ ایچ ایم خواجہ گارڈن جہاں پھولوں کی نمائش لگتی تھی۔ جہاں شاگردوں کے بنائے ہوئے فن پارے سجائے جاتے تھے۔ پورا شہر امڈ پڑتا تھا۔ بہار کے موسم میں۔ غلام مصطفی جتوئی نے جب نواب شاہ میں میڈیکل کالج بنایا تو ایچ ایم خواجہ کا اسکول اور ہاسٹل جو کہ آدھے شہر پر پھیلا ہوا تھا نواب شاہ کالج کو دینا چاہئیں کہ وہ سول اسپتال کے برابر میں ہی تھے۔ ایچ ایم خواجہ وہ دینا نہیں چاہتے تھے مگر کیا کرتے وہ ان کی ذاتی زمین تھوڑی تھی، وہ سرکاری زمین تھی۔
میں نے خود اپنی آنکھوں سے اس اسکول کا لطیف ہال نواب شاہ کالج کو جاتے ہوئے دیکھا جہاں اسٹیج ڈرامے ہوا کرتے تھے۔ اس کے سامنے ایک خوبصورت گراؤنڈ تھا۔ روزانہ صبح اور شام وہاں بینڈ بجتا تھا۔ اور ان کی ا سکاٹ لینڈ ڈریس اور روزانہ پریڈ ہوا کرتی تھی۔ یہ سب باتیں مجھے اب اس لیے یاد آئیں جب سندھ حکومت کے محکمہ تعلیم نے اسکولوں کے لیے ڈیسک لینے کا کام اپنے آپ کو سونپ کر ڈیڑھ لاکھ ڈیسکس لینے کا فیصلہ کیا اور ساڑھے تین ارب روپے کہ یہ ڈیسکس فی عدد 22000 روپے میں لیے جائیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام محکمہ تعلیم نے خود اپنے ذمے کیوں نہیں لیا۔ کیا یہ اسکول خود نہیں کر سکتے تھے؟ اور اگر اسکول والے یہ ڈیسکس لینے کے کام میں خورد برد کر سکتے تھے تو کیا محکمہ تعلیم اس بیماری کا عادی ہے۔ 22000 روپے، فی ڈیسک خود اپنا بیان ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ڈیسک 22000 کیوں؟ اور اگر کسی سے ڈیڑھ لاکھ ڈیسکس لیے جا رہے ہیں تو کیا وہ بتائے گا کہ اس کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ڈیڑھ لاکھ ڈیسکس بنا سکے یا تو وہ یہ کام مختلف فرنیچر والوں کو ٹھیکے پر دے گا تو پھر ان ٹھیکیداروں کو اس میں کتنا بچے گا۔ اگر شیشم کی لکڑی استعمال ہو رہی ہے تو اس کی لاگت تیرہ ہزار سے زیادہ نہیں ہو سکتی اور خود یہ بھی بتائے کہ اس ڈیسک میں کون سی لکڑی استعمال ہو رہی ہے؟ اس ٹھیکے میں گڑ بڑ ہے محکمے اس میں پیپرا و سیپرا کے اصول بھی مدنظر رکھے گئے ہوں۔ لوگوں نے پیپرا و سیپرا کو بھی اب نیوٹرل کر لیا ہے۔ اپنی مرضی کا اشتہار دینا اور پسندیدہ لوگوں کو ٹھیکہ دینا اتنا مشکل نہیں۔
یہ ڈیسکس جو چند سو اسکولوں میں دیے جائیں گے وہ بے چارے کتنی زندگی یاد رہیں گے۔ کچھ پتہ نہیں۔ کیا کوئی ایسی شق اس کنٹریکٹ میں رکھی گئی ہے کہ نہیں ہے؟ آج کل یہ محکمہ سعید غنی صاحب کو دیا۔ آج کل یہ محکمہ سعید غنی صاحب کو سونپ دیا گیا ہے۔ واقعی میں یہ بھی اس حکومت کے بہترین کارکردگی دینے والے وزیر ہیں اس لیے ان کو ابھی دو ہفتے بھی نہیں ہوئے، انھوں نے خبریں بڑی بنوائی ہیں۔ روزانہ مختلف اسکولوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے مراد علی شاہ بھی جب وزیر اعلیٰ بنے تھے تو روزانہ صبح سویرے سیکریٹریٹ پہنچ جاتے تھے۔
انھوں نے ''تعلیمی ایمرجنسی'' بھی نافذ کی تھی اسکولوں کی تباہی کا یہ عالم دیکھ کر پھر نہ جانے وہ تعلیمی ایمرجنسی کہاں رخصت ہوئی۔ دنیا میں ریکارڈ اسٹوڈنٹ بچے جو ذہنی معذور ہوتے ہیں، وہ کم غذا کی وجہ سے ہوتے ہیں ان کو دیکھ کر دنیا کے اور ریکارڈ ڈراپ آؤٹ ریٹ دیکھ کر، ریکارڈ گھوسٹ اساتذہ دیکھ کر اور جب کہ سندھ کا 25 فیصد بجٹ تعلیم پر اور 25 فیصد بجٹ صحت پر خرچ ہوتا ہے مگر یہ دونوں محکمے بد سے بدتر کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟
مگر میرے بچپن کے ڈیسک، وہ نیم کی چھاؤں میں پڑے مٹکے، وہ پھٹے، وہ بلا اور بال میری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتے، دل تو کہتا ہے کہ لوٹ جاؤں وہیں اسی زماں و مکاں میں جہاں وڈیرے کا بیٹا اور دہقان کا بیٹا سب ایک ڈیسک پر بیٹھا کرتے تھے جہاں کوئی بھی پرائیویٹ اسکول نہ تھا۔ جہاں ایچ ایم خواجہ ہوا کرتے تھے۔ جہاں اسکولوں میں کھیلنے کے لیے میدان ہوا کرتے تھے اور ڈیسک 22000 روپے میں نہیں ملا کرتی تھیں۔ اگر اس روپے کو آج کے حقیقی روپے کی قدر کے تناسب سے دیکھا جائے تب بھی!