ماں کی محبت یا ذہنی عارضہ
بہن بھائی نے انتقال کے بعد 12 سال تک ماں کی نعش گھر میں رکھی
بلاشبہ ماں کی محبت لازوال اور اس رشتے سے بڑھ کر دنیا میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان نہیں چاہتا کہ اس کی ماں اس سے کبھی جدا ہو، لیکن موت کی وجہ سے جدائی ایک اٹل حقیقت ہے، جسے کوئی بدل نہیں سکتا، تاہم کراچی میں دو بہن بھائیوں نے اس حقیقت کو بدلنے کی ہی ٹھان لی۔
ماں کی محبت میں بہن بھائی نے والدہ کی تدفین کرنے کے بجائے ان کی میت کو گھر میں ہی رکھنے کو بہتر سمجھ لیا، کچھ وقت گزرا تو دونوں بہن بھائی والدہ کی میت کو فلیٹ میں چھوڑ کر دوسرے علاقے میں منتقل ہوئے اور پھر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ بچوں کے انتقال کے بعد جب ان کا ماموں محبوب عالم اپنی بہن 65 سالہ ذکیہ بی بی کے فلیٹ پر گیا اور تالا کھول کر اندر داخل ہوا تو اس نے کمرے میں بہن کی کئی سال پرانی ڈھانچہ نما نعش دیکھی اور خود ہی فیصلہ کرلیا کہ اس نعش کو کہیں ٹھکانے لگا دیا جائے، جس میں اس کا ساتھ بیٹے اور بیوی نے بھی دیا، جو فلیٹ میں لگے ہوئے کلوز سرکٹ کیمرے کی فوٹیجز میں دکھائی دیئے۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ جب برائی آتی ہے تو ہوشیار سے ہوشیار شخص بھی کوئی نہ کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے اور یہی غلطی محبوب عالم نے بھی کر دی، جس کے باعث وہ قانون کی گرفت میں آگیا۔ اگر محبوب عالم اپنی بہن کی کئی سال پرانی نعش فلیٹ میں دیکھ کر پولیس کو مطلع کر دیتا تو شاید آج وہ جس صورتحال سے گزر رہا ہے وہ مختلف ہوتی۔
ذکیہ بی بی کے 12 سال قبل ہونے والے انتقال کا معمہ اس وقت حل ہوا جب گلستان جوہر پولیس کو فلیٹ کے مکینوں نے اطلاع دی کی اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر محبوب عالم نامی شخص نے اپنے بہن کے فلیٹ سے اس کا ملنے والا ڈھانچہ کسی مقام پر پھینک دیا ہے، جس پر پولیس فوری طور پر مذکورہ اپارٹمنٹ پہنچی اور محبوب عالم کو حراست میں لے کر اس کی نشاندہی پر گلشن اقبال بلاک 11 میں قائم اے جی پی بلڈنگ کے قریب کچرا کنڈی سے خاتون کی ڈھانچہ نما نعش برآمد کر کے ضابطے کی کارروائی کے لیے جناح اسپتال منتقل کردیا۔ اس حوالے سے ایس ایچ او گلستان جوہر شاہ جہاں لاشاری نے بتایا کہ خاتون کی شناخت 65 سالہ ذکیہ بی بی زوجہ معراج اختر زیدی کے نام سے ہوئی ہے۔
جو گلشن اقبال بلاک 11 کریسنٹ کمپلکس میں واقع فلیٹ کی رہائشی تھی جبکہ اس کا بھائی محبوب عالم بھی اسی اپارٹمنٹ کے دوسرے بلاک میں رہائش پذیر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خاتون کا بیٹا قیصر اور بیٹی شگفتہ نے ماں کی محبت میں ان کے انتقال کے بعد میت کو دفنانے کے بجائے گھر میں رکھ لی تھی اور بعدازاں فلیٹ کو تالا لگا کر گلشن اقبال بلاک 4 میں واقع اپارٹمنٹ منتقل ہوگئے تھے، جس میں بیٹے قیصر کا انتقال 4 ماہ قبل جبکہ بیٹی شگفتہ کا انتقال 10 روز قبل ہوا تھا، جس کے بعد ان کا ماموں محبوب عالم اپنی بہن کے گھر کی صفائی کے لیے گیا تو اسے کمرے میں بیڈ پر اپنی بہن ذکیہ کی ڈھانچہ نما نعش دکھائی دی، جسے اس نے فلیٹ سے نکال کر اے جی پی آر بلڈنگ کے قریب کچرا کنڈی میں پھینک دیا اور محلے والوں کو بتایا کہ فلیٹ سے ان کی بہن کا ڈھانچہ ملا تھا جسے وہ پھینک آیا ہے، جس کے بعد فلیٹ کے مکینوں نے پولیس کو آگاہ کیا۔ پولیس کا کہنا ہے خاتون ذکیہ اور اس کے بیٹا بیٹی ذہنی مریض تھے جبکہ محبوب عالم نے پولیس کو بیان دیا کہ اس کی بہن کا 12 سال قبل انتقال ہوگیا تھا جبکہ میرے بھانجے قیصر اور بھانجی شگفتہ کا کئی سالوں سے خاندان والوں سے ملنا جلنا نہیں تھا جبکہ چند ماہ قبل میرے بھتیجے اور چند روز قبل بھتیجی کا بھی انتقال ہوگیا۔
خاتون ذکیہ کا ڈھانچہ پھینکنے کے حوالے سے اپارٹمنٹ میں لگے ہوئے سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی منظر عام آگئیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ محبوب عالم چادر میں اپنی بہن کی ڈھانچہ نما نعش لے کر آتا ہے اور بیٹے کی سفید رنگ کی گاڑی میں پچھلی سیٹ پر رکھتے ہوئے دکھائی دیا جبکہ گاڑی اس کا بیٹا چلا رہا تھا اور اس کے ساتھ محبوب عالم کی اہلیہ بیٹھ کر نعش پھینکنے چلے جاتے ہیں۔ واقع کے حوالے سے اپارٹمنٹ کے جنرل سیکرٹری اور جنرل کونسلر دانش کریم نے بتایا کہ ذکیہ نامی خاتون اسکول ٹیچر تھیں اور انہیں آخری بار 2008ء میں دیکھا گیا تھا جبکہ خاتون کے بیٹے سے ان کی والدہ کے حوالے پوچھا جاتا تھا وہ جھگڑا کرتے تھے۔ دوسری طرف گلستان جوہر پولیس نے ذکیہ خاتون کی ہلاکت کے حوالے سے قتل اور نعش پھینکنے سے متعلق محبوب عالم کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس بات کا بھی تعین کیا جائیگا کہ ذکیہ خاتون کا انتقال طبعی طور پر ہوا تھا یا کوئی اور وجہ تھی، تاہم ابھی ذکیہ خاتون کی ہلاکت کے حوالے سے کچھ سوالات کے جواب آنا باقی ہے، جس کے بعد ہی اس کی ہلاکت کا تعین ہو سکے گا۔
ابھی پولیس اس واقعہ کی گتھیاں سلجا رہی تھی کہ ذکیہ خاتون کے بیٹے اور بیٹی جو کہ گلشن اقبال بلاک 4 میں واقع اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھے، ان کے بند فلیٹ سے تعفن اٹھنے پر مکینوں نے پولیس کو اطلاع دی جس پر ایس ایچ او گلشن اقبال غلام نبی آفریدی اور ایدھی کے رضا کار موقع پر پہنچ گئے اور فلیٹ میں داخل اندر ہوئی تو فریج میں گوشت رکھا ہوا تھا جس میں تعفن اٹھ رہا تھا تاہم پولیس نے تھیلیوں میں رکھے ہوئے گوشت کو اپنے قبضے میں لے کر عباسی شہید ہسپتال پہنچایا جبکہ ابتدائی طور پر یہ اطلاع گردش کرنے لگی تھی کہ مذکورہ گوشت انسانی ہے۔ عباسی شہید ہسپتال کے میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر سہیل نے بتایا کہ لائے جانے والے گوشت کا وزن 10 کلو سے زیادہ ہے، جس کے سیمپل ڈی این اے ٹیسٹ کی غرض سے جامشورو ، اسلام آباد اور لاہور کی لیبارٹریوں کو روانہ کر دیے گئے ہیں اور ان کی رپورٹ موصول ہونے کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جاسکے گا ، گوشت فریز حالت میں تھا اور ممکنہ طور پر جب فریج چلنا بند ہوا تو اس سے ہی تعفن اٹھا ہوگا۔
ماں کی محبت میں بہن بھائی نے والدہ کی تدفین کرنے کے بجائے ان کی میت کو گھر میں ہی رکھنے کو بہتر سمجھ لیا، کچھ وقت گزرا تو دونوں بہن بھائی والدہ کی میت کو فلیٹ میں چھوڑ کر دوسرے علاقے میں منتقل ہوئے اور پھر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ بچوں کے انتقال کے بعد جب ان کا ماموں محبوب عالم اپنی بہن 65 سالہ ذکیہ بی بی کے فلیٹ پر گیا اور تالا کھول کر اندر داخل ہوا تو اس نے کمرے میں بہن کی کئی سال پرانی ڈھانچہ نما نعش دیکھی اور خود ہی فیصلہ کرلیا کہ اس نعش کو کہیں ٹھکانے لگا دیا جائے، جس میں اس کا ساتھ بیٹے اور بیوی نے بھی دیا، جو فلیٹ میں لگے ہوئے کلوز سرکٹ کیمرے کی فوٹیجز میں دکھائی دیئے۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ جب برائی آتی ہے تو ہوشیار سے ہوشیار شخص بھی کوئی نہ کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے اور یہی غلطی محبوب عالم نے بھی کر دی، جس کے باعث وہ قانون کی گرفت میں آگیا۔ اگر محبوب عالم اپنی بہن کی کئی سال پرانی نعش فلیٹ میں دیکھ کر پولیس کو مطلع کر دیتا تو شاید آج وہ جس صورتحال سے گزر رہا ہے وہ مختلف ہوتی۔
ذکیہ بی بی کے 12 سال قبل ہونے والے انتقال کا معمہ اس وقت حل ہوا جب گلستان جوہر پولیس کو فلیٹ کے مکینوں نے اطلاع دی کی اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر محبوب عالم نامی شخص نے اپنے بہن کے فلیٹ سے اس کا ملنے والا ڈھانچہ کسی مقام پر پھینک دیا ہے، جس پر پولیس فوری طور پر مذکورہ اپارٹمنٹ پہنچی اور محبوب عالم کو حراست میں لے کر اس کی نشاندہی پر گلشن اقبال بلاک 11 میں قائم اے جی پی بلڈنگ کے قریب کچرا کنڈی سے خاتون کی ڈھانچہ نما نعش برآمد کر کے ضابطے کی کارروائی کے لیے جناح اسپتال منتقل کردیا۔ اس حوالے سے ایس ایچ او گلستان جوہر شاہ جہاں لاشاری نے بتایا کہ خاتون کی شناخت 65 سالہ ذکیہ بی بی زوجہ معراج اختر زیدی کے نام سے ہوئی ہے۔
جو گلشن اقبال بلاک 11 کریسنٹ کمپلکس میں واقع فلیٹ کی رہائشی تھی جبکہ اس کا بھائی محبوب عالم بھی اسی اپارٹمنٹ کے دوسرے بلاک میں رہائش پذیر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خاتون کا بیٹا قیصر اور بیٹی شگفتہ نے ماں کی محبت میں ان کے انتقال کے بعد میت کو دفنانے کے بجائے گھر میں رکھ لی تھی اور بعدازاں فلیٹ کو تالا لگا کر گلشن اقبال بلاک 4 میں واقع اپارٹمنٹ منتقل ہوگئے تھے، جس میں بیٹے قیصر کا انتقال 4 ماہ قبل جبکہ بیٹی شگفتہ کا انتقال 10 روز قبل ہوا تھا، جس کے بعد ان کا ماموں محبوب عالم اپنی بہن کے گھر کی صفائی کے لیے گیا تو اسے کمرے میں بیڈ پر اپنی بہن ذکیہ کی ڈھانچہ نما نعش دکھائی دی، جسے اس نے فلیٹ سے نکال کر اے جی پی آر بلڈنگ کے قریب کچرا کنڈی میں پھینک دیا اور محلے والوں کو بتایا کہ فلیٹ سے ان کی بہن کا ڈھانچہ ملا تھا جسے وہ پھینک آیا ہے، جس کے بعد فلیٹ کے مکینوں نے پولیس کو آگاہ کیا۔ پولیس کا کہنا ہے خاتون ذکیہ اور اس کے بیٹا بیٹی ذہنی مریض تھے جبکہ محبوب عالم نے پولیس کو بیان دیا کہ اس کی بہن کا 12 سال قبل انتقال ہوگیا تھا جبکہ میرے بھانجے قیصر اور بھانجی شگفتہ کا کئی سالوں سے خاندان والوں سے ملنا جلنا نہیں تھا جبکہ چند ماہ قبل میرے بھتیجے اور چند روز قبل بھتیجی کا بھی انتقال ہوگیا۔
خاتون ذکیہ کا ڈھانچہ پھینکنے کے حوالے سے اپارٹمنٹ میں لگے ہوئے سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی منظر عام آگئیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ محبوب عالم چادر میں اپنی بہن کی ڈھانچہ نما نعش لے کر آتا ہے اور بیٹے کی سفید رنگ کی گاڑی میں پچھلی سیٹ پر رکھتے ہوئے دکھائی دیا جبکہ گاڑی اس کا بیٹا چلا رہا تھا اور اس کے ساتھ محبوب عالم کی اہلیہ بیٹھ کر نعش پھینکنے چلے جاتے ہیں۔ واقع کے حوالے سے اپارٹمنٹ کے جنرل سیکرٹری اور جنرل کونسلر دانش کریم نے بتایا کہ ذکیہ نامی خاتون اسکول ٹیچر تھیں اور انہیں آخری بار 2008ء میں دیکھا گیا تھا جبکہ خاتون کے بیٹے سے ان کی والدہ کے حوالے پوچھا جاتا تھا وہ جھگڑا کرتے تھے۔ دوسری طرف گلستان جوہر پولیس نے ذکیہ خاتون کی ہلاکت کے حوالے سے قتل اور نعش پھینکنے سے متعلق محبوب عالم کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس بات کا بھی تعین کیا جائیگا کہ ذکیہ خاتون کا انتقال طبعی طور پر ہوا تھا یا کوئی اور وجہ تھی، تاہم ابھی ذکیہ خاتون کی ہلاکت کے حوالے سے کچھ سوالات کے جواب آنا باقی ہے، جس کے بعد ہی اس کی ہلاکت کا تعین ہو سکے گا۔
ابھی پولیس اس واقعہ کی گتھیاں سلجا رہی تھی کہ ذکیہ خاتون کے بیٹے اور بیٹی جو کہ گلشن اقبال بلاک 4 میں واقع اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھے، ان کے بند فلیٹ سے تعفن اٹھنے پر مکینوں نے پولیس کو اطلاع دی جس پر ایس ایچ او گلشن اقبال غلام نبی آفریدی اور ایدھی کے رضا کار موقع پر پہنچ گئے اور فلیٹ میں داخل اندر ہوئی تو فریج میں گوشت رکھا ہوا تھا جس میں تعفن اٹھ رہا تھا تاہم پولیس نے تھیلیوں میں رکھے ہوئے گوشت کو اپنے قبضے میں لے کر عباسی شہید ہسپتال پہنچایا جبکہ ابتدائی طور پر یہ اطلاع گردش کرنے لگی تھی کہ مذکورہ گوشت انسانی ہے۔ عباسی شہید ہسپتال کے میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر سہیل نے بتایا کہ لائے جانے والے گوشت کا وزن 10 کلو سے زیادہ ہے، جس کے سیمپل ڈی این اے ٹیسٹ کی غرض سے جامشورو ، اسلام آباد اور لاہور کی لیبارٹریوں کو روانہ کر دیے گئے ہیں اور ان کی رپورٹ موصول ہونے کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جاسکے گا ، گوشت فریز حالت میں تھا اور ممکنہ طور پر جب فریج چلنا بند ہوا تو اس سے ہی تعفن اٹھا ہوگا۔