لیڈی گاگا اور مائلی سائرس بجلی کی پیداوار بھی بڑھائیں گی
ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ غریب ترقی پذیر ملکوں میں بھی دھوپ سے بجلی بنائی جارہی ہے۔
دیپک راگ سے چراغ کے روشن ہوجانے کی باتیں تو آپ نے ضرور سنی ہوں گی۔
ان باتوں میں صداقت کس حد تک ہے، اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ البتہ ذہن میں یہ خیال ضرور آتا ہے دیپک راگ گاکر چراغ کو روشن کردینے کا عملی مظاہرہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ کلاسیکی موسیقی کے اس ' چمتکار' کی حقیقت سے قطع نظر محققین نے پاپ میوزک کی افادیت ضرور دریافت کرلی ہے جو توانائی کی قلت دور کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
دنیا بھر میں شمسی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ غریب ترقی پذیر ملکوں میں بھی دھوپ سے بجلی بنائی جارہی ہے۔ شمسی لہروں کو برقی توانائی میں تبدیل کرنے کا کام سولر پینلز سے لیا جاتا ہے۔ انھیں سولر سیلز بھی کہا جاتا ہے۔ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پاپ میوزک سولر پینلز کی کارکردگی بڑھاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ زیادہ بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہ تحقیق لندن کی کوئن میری یونی ورسٹی اور امپیریل کالج کے ماہرین کی مشترکہ ٹیم نے کی ہے۔
دوران تحقیق، ریسرچ ٹیم کے علم میں یہ بات آئی کہ اونچے تعدد ( high frequencies) اور بلند پِچ (pitch) کی وجہ سے پاپ اور راک میوزک سولر پینلز میں ارتعاش پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کلاسیکی موسیقی کا سولر سیلز پر یہ اثر نہیں ہوتا۔
برطانوی اداروں کے محققین نے اس ریسرچ کے لیے زنک آکسائیڈ کے اربوں ''نینو راڈز'' تیار کیے اور پھر ان پر ایک فعال پولیمر کی تہہ چڑھا کر انھیں دھوپ سے بجلی بنانے والی ڈیوائس میں بدل دیا۔زنک آکسائیڈ کی خصوصیات سے کام لیتے ہوئے ریسرچ ٹیم یہ جاننے میں کام یاب رہی کہ 75 ڈیسی بل تک کی آوازوں، جیسے کہ پاپ میوزک، نے اس سولر پینل کی کارکردگی 40 فی صد تک بڑھا دی تھی۔ تحقیقی ٹیم کے رکن ڈاکٹر اسٹیو ڈن کا کہنا تھا کہ عام فوٹو وولٹیک سیلز پر بھی 75 ڈیسی بل تک کی آوازیں یہی اثرظاہر کرتی ہیں۔
سائنس داں ماضی میں یہ معلوم کرچکے تھے کہ زنک آکسائیڈ سے بنے مادّوں پر دباؤڈالنے سے ان میں وولٹیج پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس مظہر کو ''piezoelectric effect'' کہا جاتا ہے۔ تاہم اس سے قبل اس ایفیکٹ کو اتنی توجہ حاصل نہیں ہوئی تھی۔
امپیریل کالج میں فوٹوکیمسٹری کے پروفیسر اور اس ریسرچ کے نگراں جیمز ڈرینٹ کہتے ہیں،'' ہم نے سوچا تھا کہ صوتی لہریں جوکہ بے ترتیب fluctuations پیدا کرتی ہیں، ایک دوسرے کو کینسل کردیں گی اور اس طرح بجلی کی پیداوار پر کوئی نمایاں اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم دوران تحقیق یہ بات سامنے آئی کہ ان لہروں نے ایک دوسرے کو کینسل نہیں کیا بلکہ آواز کی کچھ فریکوئنسیوں نے سولر سیل کی کارکردگی میں نمایاں اضافہ کردیا۔ ریسرچ کے دوران ہم نے آواز کی مختلف پِچوں کو کھوجنے کے لیے موسیقی کا سہارا لیا۔ جب ہم نے پاپ میوزک بجایا تو سولر سیلز سے بجلی کی پیداوار 40 فی صد تک بڑھ گئی، جب کہ کلاسیکی موسیقی کا سولر سیلز پر کوئی اثر نہیں ہوا۔'' چناں چہ اب آپ مائلی سائرس، لیڈی گاگا، برٹنی اسپیئرز اور میڈونا کے گیتوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ان سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ بھی کرسکیں گے۔ یعنی آم کے آم گٹھلیوں کے دام!
ان باتوں میں صداقت کس حد تک ہے، اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ البتہ ذہن میں یہ خیال ضرور آتا ہے دیپک راگ گاکر چراغ کو روشن کردینے کا عملی مظاہرہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ کلاسیکی موسیقی کے اس ' چمتکار' کی حقیقت سے قطع نظر محققین نے پاپ میوزک کی افادیت ضرور دریافت کرلی ہے جو توانائی کی قلت دور کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
دنیا بھر میں شمسی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ غریب ترقی پذیر ملکوں میں بھی دھوپ سے بجلی بنائی جارہی ہے۔ شمسی لہروں کو برقی توانائی میں تبدیل کرنے کا کام سولر پینلز سے لیا جاتا ہے۔ انھیں سولر سیلز بھی کہا جاتا ہے۔ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پاپ میوزک سولر پینلز کی کارکردگی بڑھاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ زیادہ بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہ تحقیق لندن کی کوئن میری یونی ورسٹی اور امپیریل کالج کے ماہرین کی مشترکہ ٹیم نے کی ہے۔
دوران تحقیق، ریسرچ ٹیم کے علم میں یہ بات آئی کہ اونچے تعدد ( high frequencies) اور بلند پِچ (pitch) کی وجہ سے پاپ اور راک میوزک سولر پینلز میں ارتعاش پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کلاسیکی موسیقی کا سولر سیلز پر یہ اثر نہیں ہوتا۔
برطانوی اداروں کے محققین نے اس ریسرچ کے لیے زنک آکسائیڈ کے اربوں ''نینو راڈز'' تیار کیے اور پھر ان پر ایک فعال پولیمر کی تہہ چڑھا کر انھیں دھوپ سے بجلی بنانے والی ڈیوائس میں بدل دیا۔زنک آکسائیڈ کی خصوصیات سے کام لیتے ہوئے ریسرچ ٹیم یہ جاننے میں کام یاب رہی کہ 75 ڈیسی بل تک کی آوازوں، جیسے کہ پاپ میوزک، نے اس سولر پینل کی کارکردگی 40 فی صد تک بڑھا دی تھی۔ تحقیقی ٹیم کے رکن ڈاکٹر اسٹیو ڈن کا کہنا تھا کہ عام فوٹو وولٹیک سیلز پر بھی 75 ڈیسی بل تک کی آوازیں یہی اثرظاہر کرتی ہیں۔
سائنس داں ماضی میں یہ معلوم کرچکے تھے کہ زنک آکسائیڈ سے بنے مادّوں پر دباؤڈالنے سے ان میں وولٹیج پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس مظہر کو ''piezoelectric effect'' کہا جاتا ہے۔ تاہم اس سے قبل اس ایفیکٹ کو اتنی توجہ حاصل نہیں ہوئی تھی۔
امپیریل کالج میں فوٹوکیمسٹری کے پروفیسر اور اس ریسرچ کے نگراں جیمز ڈرینٹ کہتے ہیں،'' ہم نے سوچا تھا کہ صوتی لہریں جوکہ بے ترتیب fluctuations پیدا کرتی ہیں، ایک دوسرے کو کینسل کردیں گی اور اس طرح بجلی کی پیداوار پر کوئی نمایاں اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم دوران تحقیق یہ بات سامنے آئی کہ ان لہروں نے ایک دوسرے کو کینسل نہیں کیا بلکہ آواز کی کچھ فریکوئنسیوں نے سولر سیل کی کارکردگی میں نمایاں اضافہ کردیا۔ ریسرچ کے دوران ہم نے آواز کی مختلف پِچوں کو کھوجنے کے لیے موسیقی کا سہارا لیا۔ جب ہم نے پاپ میوزک بجایا تو سولر سیلز سے بجلی کی پیداوار 40 فی صد تک بڑھ گئی، جب کہ کلاسیکی موسیقی کا سولر سیلز پر کوئی اثر نہیں ہوا۔'' چناں چہ اب آپ مائلی سائرس، لیڈی گاگا، برٹنی اسپیئرز اور میڈونا کے گیتوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ان سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ بھی کرسکیں گے۔ یعنی آم کے آم گٹھلیوں کے دام!