ساڑھے تین ماہ گزر گئے مقتول بیٹے کا بوڑھا باپ انصاف کیلیے تین ماہ سے دربدر
مدثر کے نزعی بیان کے باوجود پولیس بااثر ملزم نہ پکڑسکی، کیس ڈی پی او کے لئے چیلنج بن گیا
دْنیا کی روایت اور رِیت ہے کہ اولاد اپنے والدین کے جنازے اْٹھاتی ہے، لیکن اولاد کا جنازہ اْٹھانا کِس قدر مْشکل ہے، اِس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔ بے شک جوانی کی موت بڑی تکلیف دی ہوتی ہے۔ اگر زندگی میں مال و زر چلا جائے تو بندہ مرتا نہیں چوںکہ مال آنی جانی شے ہے لیکن اولاد چلی جائے تو انسان نہ مرتا اور نہ ہی جی پاتا ہے۔
پرانی کہاوت ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا بوجھ بوڑھے باپ کے کندھے پر جواں بٹیے کا جنازہ ہوتا ہے اس کربناک ، اذیت ناک اور المناک آزمائش بارے وہی بتا سکتا ہے جس پر بیتی ہو۔گجرات میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ رونما ہوا جس میں 75سالہ باپ کو بڑھاپے میں اپنے 43 سالہ بیٹے کا نہ صرف جنازہ کندھے پراُٹھانا پڑابلکہ اُس کے قاتلوںکو انجام تک پہنچانے اور حصول انصاف کے لئے زمینی خداؤں کے در کی ٹھوکریں بھی کھانا پڑیں۔
نواحی گاؤں گورالہ کے رہائشی 75سالہ راجہ محمد عنایت کی آنکھوں کے سامنے ساڑھے 3ماہ قبل اُس کے جواں سالہ بیٹے مدثر مقصود کو اڑھائی کروڑ روپے مالیت کے پلاٹ اور مقدمہ بازی کے تنازع پر ملزمان نے ڈیرہ سے واپس گھر جاتے ہوئے سرشام اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کر دیا، اپنی جان کو لاحق خطرات اور گاؤں کے حالا ت و واقعات سے آگاہ مقتول مدثر مقصود نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زخمی حالت میں بھی اپنے موبائل کی ویڈیو ریکارڈنگ آن کر لی۔
جس میں اُس نے تڑپتے اور زندگی کی آخری سانسیں لیتے ہوئے قاتلوں کے نام ریکارڈ کر ڈالے، اس ویڈیو کے وائرل ہونے اور لواحقین کی جانب سے پولیس کو دئیے گئے بیانات کے بعد تھانہ صدر گجرات نے مقتول مدثر کے بھائی احمد محمود کی رپورٹ پر پلاٹ کی لالچ میں اندھے اُن کے تایا زاد آصف رسول، اس کی بیوی نگہت آصف، بیٹے نوران محمد آصف اور گاؤں کے رہائشی اس سے خائف مخالفین شاہد زمان ،زاہد زمان ، محمد زمان اور دو نامعلوم کیخلاف قتل کا درج کر کے نعش ورثاء کے حوالے کر دی۔
پولیس نے مقتول کے خاندان کو انصاف کی فراہمی اور ملزمان فوری طور پرگرفتار کروانے کی ایسی یقین دہانی کروائی کہ مدعیان سمیت مدثر کی موت کی غم میں مبتلا اہل دیہہ بھی مطمئن ہو گئے، چوں کہ مقتول کے نزعی بیان سے پولیس کو نہ صرف ملزمان کو گرفتار کرنے میں آسانی ہوتی بلکہ انہیں انصاف بھی فوری مل جانے کی توقع تھی، مگر مقتول مدثر مقصود کے بوڑھے باپ ، بھائی اور چار بہنوں کے مطابق وہ انصاف کے حصول کیلئے ساڑھے 3 ماہ سے ایسے دربدر ہوئے کہ گویا ان کا بیٹا بھائی قتل نہیں ہوا بلکہ انہوں نے کسی بااثر شخصیت کا قتل کر دیا ہو اور اُن سے ملزمان جیسا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔
انصاف کے حصول اور میرٹ پر تفتیش کے لئے درخواستیں تھامے وہ تھانہ صدر گجرات، ڈی ایس پی صدر ریاض الحق گجر سمیت جس جس اعلیٰ آفیسر کے پاس پہنچے، وہاں خوش اخلاقی سے پیش آنے کے بجائے انہیں دھتکارا ہی گیا۔ مقتول کے بھائی احمد محمود کے مطابق مدثر بی اے پاس تھا اور وکالت کی تعلیم حاصل کر رہا تھا، وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو غلامی کی دلدل سے نکالنے کیلئے سیاسی ، سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا اور پسے طبقات کیلئے آواز بلند کرکے قانون کی دہلیز پر پہنچ جاتا تاکہ کوئی وڈیرہ ، جاگیردار، چوہدری ان کے حقوق غصب نہ کر سکے بس یہی بات اس کے مخالفین کو پسند نہ تھی وہ علاقے میں قبرستان ، پھاٹک کے ارگردگر صفائی ستھرائی سمیت سیوریج و نالہ کی صفائی کے اخراجات اپنی ذاتی گرہ سے ادا کرکے علاقہ کی خوشحالی کے لئے بھی متحرک رہتا تھا جبکہ علاقے میں سابق بلدیاتی الیکشن میں آزاد حیثیت سے کھڑا ہو کر بااثر افراد کی شکست کا بھی باعث بنا، جس کی وجہ سے وہ علاقے کے بااثر مافیا کی آنکھ میں عرصہ سے کھٹک رہا تھا۔
مقتول کے بھائی کے بقول وہ ماضی میں اپنی جان کو درپیش خطرات بارے پولیس کو درخواستیں بھی دیتا رہا لیکن اسے تحفظ فراہم نہ کیا گیا۔ مقدمہ میں سیاست اور بااثر افراد کے اثر انداز ہونے کی وجہ سے ساڑھے تین ماہ میںصفدر عطاء بھٹی ،اسلم کدھر ،رانا عامرشہباز سمیت 3 ایس ایچ اوز تعینات کیے جاچکے ہیں اور ملزمان کو ریلیف دینے کیلئے کئی آفیسرز کو تفتیش سونپی گئی تاکہ ملزمان پولیس کی گرفت میں آنے سے بچ سکیں، اسی وجہ سے ایف آئی آر کے نامزد بااثر ملزمان کو کوئی بھی آفیسر پکڑنے کی ہمت جرات نہیں کر پایا۔
مقتول کے نزعی بیان اور قتل جیسے سنگین مقدمہ میں نامزد مرکزی ملزمان کا پولیس کی ملی بھگت سے فوری عبوری ضمانتیں کروالینا اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ انویسٹی گیشن آفیسران کی جانب سے تھانوں میں انصاف بک بھی رہا اور بااثر افراد کی جانب سے خریدا بھی جارہاہے۔ اگر مقدمہ میں نامزد ملزمان نے مدثر مقصود کو قتل نہیں کیا تو پھر مدثر نے کیوں نزعی ویڈیو بیان میں ان ملزمان کانام لیا اور اگر پولیس کے مطابق ملزمان یہ نہیں تھے تو پھر سینے میں 7گولیاں پیوست کرنیوالے کون تھے؟ انہیں قانون کے کٹہرے میں کون اور کب لایاجائے گا؟ جوان بیٹے کا جنازہ اٹھانے والے بوڑھے باپ راجہ عنایت کا کہنا ہے کہ اپنے بیٹے کی دم توڑتی سانسیں آج بھی اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتی رہتی ہیں، وہ گھر کا سربراہ اور علاقہ کا مسیحا تھا، اُس کے قتل سے ایسے ہی لگتا ہے کہ ہماری دنیا ہی ختم ہو گئی ہے۔ آر پی او ،ڈی پی او کو بھی صورت حال سے آگاہ کر چکے ہیں مگر کہیں شنوائی نہیں ہو رہی، ہم انصاف خریدنے کی سکت نہیں رکھتے لیکن اس کرپٹ نظام کے خلاف عرش کی طرف ہاتھ اُٹھاتے ہوئے لب کشائی کرنے کی ہمت ضرور رکھتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں ڈی پی او گجرات سید توصیف حیدر کو سیاسی دباؤ پر تفتیش کا رخ بدلنے ،تمام تر ثبوت ہونے کے باوجود کارروائی کرنے سے گریزاںاور انصاف بیچنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لے کر محکمہ کی بدنامی کا باعث بننے والی کالی بھیڑوں کو سامنے لا کر حقائق سے پردہ اُٹھانا ہو گا۔ ڈی پی او کو بوڑھے والدین کو ان کے بیٹے کے قاتلوں کو انجام تک پہنچا کر اپنی وردی کا قرض چکانا ہوگا تاکہ مزید کسی بوڑھے باپ کو انصاف کے لئے دھکے نہ کھانے پڑیں کیوں کہ بڑھاپے کی لاٹھی بیٹے ہی ہوتے ہیں۔ جوان بیٹے کا لاشہ اٹھانا والدین کے لئے ایسی قیامت ہے، جو عمر بھرگزرتی ہی نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مقتول مدثر مقصود کے بوڑھے والدین کو ان کی زندگی میں ہی بیٹے کے قتل کا انصاف مل پاتا ہے یا وہ باقی ماندہ زندگی انصاف کی سولی پر لٹکتے ہوئے گزار دیں گے۔
پرانی کہاوت ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا بوجھ بوڑھے باپ کے کندھے پر جواں بٹیے کا جنازہ ہوتا ہے اس کربناک ، اذیت ناک اور المناک آزمائش بارے وہی بتا سکتا ہے جس پر بیتی ہو۔گجرات میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ رونما ہوا جس میں 75سالہ باپ کو بڑھاپے میں اپنے 43 سالہ بیٹے کا نہ صرف جنازہ کندھے پراُٹھانا پڑابلکہ اُس کے قاتلوںکو انجام تک پہنچانے اور حصول انصاف کے لئے زمینی خداؤں کے در کی ٹھوکریں بھی کھانا پڑیں۔
نواحی گاؤں گورالہ کے رہائشی 75سالہ راجہ محمد عنایت کی آنکھوں کے سامنے ساڑھے 3ماہ قبل اُس کے جواں سالہ بیٹے مدثر مقصود کو اڑھائی کروڑ روپے مالیت کے پلاٹ اور مقدمہ بازی کے تنازع پر ملزمان نے ڈیرہ سے واپس گھر جاتے ہوئے سرشام اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کر دیا، اپنی جان کو لاحق خطرات اور گاؤں کے حالا ت و واقعات سے آگاہ مقتول مدثر مقصود نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زخمی حالت میں بھی اپنے موبائل کی ویڈیو ریکارڈنگ آن کر لی۔
جس میں اُس نے تڑپتے اور زندگی کی آخری سانسیں لیتے ہوئے قاتلوں کے نام ریکارڈ کر ڈالے، اس ویڈیو کے وائرل ہونے اور لواحقین کی جانب سے پولیس کو دئیے گئے بیانات کے بعد تھانہ صدر گجرات نے مقتول مدثر کے بھائی احمد محمود کی رپورٹ پر پلاٹ کی لالچ میں اندھے اُن کے تایا زاد آصف رسول، اس کی بیوی نگہت آصف، بیٹے نوران محمد آصف اور گاؤں کے رہائشی اس سے خائف مخالفین شاہد زمان ،زاہد زمان ، محمد زمان اور دو نامعلوم کیخلاف قتل کا درج کر کے نعش ورثاء کے حوالے کر دی۔
پولیس نے مقتول کے خاندان کو انصاف کی فراہمی اور ملزمان فوری طور پرگرفتار کروانے کی ایسی یقین دہانی کروائی کہ مدعیان سمیت مدثر کی موت کی غم میں مبتلا اہل دیہہ بھی مطمئن ہو گئے، چوں کہ مقتول کے نزعی بیان سے پولیس کو نہ صرف ملزمان کو گرفتار کرنے میں آسانی ہوتی بلکہ انہیں انصاف بھی فوری مل جانے کی توقع تھی، مگر مقتول مدثر مقصود کے بوڑھے باپ ، بھائی اور چار بہنوں کے مطابق وہ انصاف کے حصول کیلئے ساڑھے 3 ماہ سے ایسے دربدر ہوئے کہ گویا ان کا بیٹا بھائی قتل نہیں ہوا بلکہ انہوں نے کسی بااثر شخصیت کا قتل کر دیا ہو اور اُن سے ملزمان جیسا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔
انصاف کے حصول اور میرٹ پر تفتیش کے لئے درخواستیں تھامے وہ تھانہ صدر گجرات، ڈی ایس پی صدر ریاض الحق گجر سمیت جس جس اعلیٰ آفیسر کے پاس پہنچے، وہاں خوش اخلاقی سے پیش آنے کے بجائے انہیں دھتکارا ہی گیا۔ مقتول کے بھائی احمد محمود کے مطابق مدثر بی اے پاس تھا اور وکالت کی تعلیم حاصل کر رہا تھا، وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو غلامی کی دلدل سے نکالنے کیلئے سیاسی ، سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا اور پسے طبقات کیلئے آواز بلند کرکے قانون کی دہلیز پر پہنچ جاتا تاکہ کوئی وڈیرہ ، جاگیردار، چوہدری ان کے حقوق غصب نہ کر سکے بس یہی بات اس کے مخالفین کو پسند نہ تھی وہ علاقے میں قبرستان ، پھاٹک کے ارگردگر صفائی ستھرائی سمیت سیوریج و نالہ کی صفائی کے اخراجات اپنی ذاتی گرہ سے ادا کرکے علاقہ کی خوشحالی کے لئے بھی متحرک رہتا تھا جبکہ علاقے میں سابق بلدیاتی الیکشن میں آزاد حیثیت سے کھڑا ہو کر بااثر افراد کی شکست کا بھی باعث بنا، جس کی وجہ سے وہ علاقے کے بااثر مافیا کی آنکھ میں عرصہ سے کھٹک رہا تھا۔
مقتول کے بھائی کے بقول وہ ماضی میں اپنی جان کو درپیش خطرات بارے پولیس کو درخواستیں بھی دیتا رہا لیکن اسے تحفظ فراہم نہ کیا گیا۔ مقدمہ میں سیاست اور بااثر افراد کے اثر انداز ہونے کی وجہ سے ساڑھے تین ماہ میںصفدر عطاء بھٹی ،اسلم کدھر ،رانا عامرشہباز سمیت 3 ایس ایچ اوز تعینات کیے جاچکے ہیں اور ملزمان کو ریلیف دینے کیلئے کئی آفیسرز کو تفتیش سونپی گئی تاکہ ملزمان پولیس کی گرفت میں آنے سے بچ سکیں، اسی وجہ سے ایف آئی آر کے نامزد بااثر ملزمان کو کوئی بھی آفیسر پکڑنے کی ہمت جرات نہیں کر پایا۔
مقتول کے نزعی بیان اور قتل جیسے سنگین مقدمہ میں نامزد مرکزی ملزمان کا پولیس کی ملی بھگت سے فوری عبوری ضمانتیں کروالینا اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ انویسٹی گیشن آفیسران کی جانب سے تھانوں میں انصاف بک بھی رہا اور بااثر افراد کی جانب سے خریدا بھی جارہاہے۔ اگر مقدمہ میں نامزد ملزمان نے مدثر مقصود کو قتل نہیں کیا تو پھر مدثر نے کیوں نزعی ویڈیو بیان میں ان ملزمان کانام لیا اور اگر پولیس کے مطابق ملزمان یہ نہیں تھے تو پھر سینے میں 7گولیاں پیوست کرنیوالے کون تھے؟ انہیں قانون کے کٹہرے میں کون اور کب لایاجائے گا؟ جوان بیٹے کا جنازہ اٹھانے والے بوڑھے باپ راجہ عنایت کا کہنا ہے کہ اپنے بیٹے کی دم توڑتی سانسیں آج بھی اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتی رہتی ہیں، وہ گھر کا سربراہ اور علاقہ کا مسیحا تھا، اُس کے قتل سے ایسے ہی لگتا ہے کہ ہماری دنیا ہی ختم ہو گئی ہے۔ آر پی او ،ڈی پی او کو بھی صورت حال سے آگاہ کر چکے ہیں مگر کہیں شنوائی نہیں ہو رہی، ہم انصاف خریدنے کی سکت نہیں رکھتے لیکن اس کرپٹ نظام کے خلاف عرش کی طرف ہاتھ اُٹھاتے ہوئے لب کشائی کرنے کی ہمت ضرور رکھتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں ڈی پی او گجرات سید توصیف حیدر کو سیاسی دباؤ پر تفتیش کا رخ بدلنے ،تمام تر ثبوت ہونے کے باوجود کارروائی کرنے سے گریزاںاور انصاف بیچنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لے کر محکمہ کی بدنامی کا باعث بننے والی کالی بھیڑوں کو سامنے لا کر حقائق سے پردہ اُٹھانا ہو گا۔ ڈی پی او کو بوڑھے والدین کو ان کے بیٹے کے قاتلوں کو انجام تک پہنچا کر اپنی وردی کا قرض چکانا ہوگا تاکہ مزید کسی بوڑھے باپ کو انصاف کے لئے دھکے نہ کھانے پڑیں کیوں کہ بڑھاپے کی لاٹھی بیٹے ہی ہوتے ہیں۔ جوان بیٹے کا لاشہ اٹھانا والدین کے لئے ایسی قیامت ہے، جو عمر بھرگزرتی ہی نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مقتول مدثر مقصود کے بوڑھے والدین کو ان کی زندگی میں ہی بیٹے کے قتل کا انصاف مل پاتا ہے یا وہ باقی ماندہ زندگی انصاف کی سولی پر لٹکتے ہوئے گزار دیں گے۔