تحقیقی ادارے یا قتل گاہیں
برطانوی یونی ورسٹیوں اور ریسرچ انسٹیٹیوٹس میں گذشتہ برس 13 لاکھ جانور ہلاک کیے گئے۔
قدیم دور کے مقابلے میں آج انسان کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات میسر ہیں۔
ایسے امراض کی ادویہ بھی تیار کی جاچکی ہیں جو کبھی ناقابل علاج سمجھے جاتے تھے۔ ہم اکثر اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ فلاں لاعلاج مرض کی دوا دریافت کرلی گئی ہے، یا فلاں بیماری کی مزید مؤثر ویکسین تیار کرلی گئی ہے۔ کبھی آپ کے ذہنوں میں یہ خیال گزرا کہ امراض کا علاج کیسے دریافت ہوتا ہے؟اس امر کا تعین کیسے کیا جاتا ہے کہ کسی مخصوص بیماری میں کون سی دوا مفید رہے گی؟ قارئین! ان مقاصد کے لیے تجربہ گاہوں میں معصوم جانوروں کو تختۂ مشق بنایا جاتا ہے۔ تمام دواؤں کے تجربات ان پر کیے جاتے ہیں۔ تجربات کے کسی نہ کسی مرحلے میں یہ جانور زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جانوروں کو ہلاک کرنے کے بعد ان پرتجربات کیے جاتے ہیں۔ یوں ان بے زبانوں کی زندگی کی قیمت پر انسان خود کو مختلف امراض سے محفوظ و مامون رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔
مختلف امراض کا علاج دریافت کرنے کی غرض سے تحقیق کے نام پر کتنی بڑی تعداد میں جانور ہلاک کیے جاتے ہیں، اس کا اندازہ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جو گذشتہ برس برطانیہ کے مختلف تعلیمی و تحقیقی اداروں میں زندگی سے محروم کیے جانے والے جانوروں کی تعداد سے متعلق ہے۔ اس رپورٹ میں دیے گئے اعدادوشمار طلبا کے اخبار''دی ٹیب'' نے معلومات تک رسائی کے حق کے تحت حاصل کیے۔ اخبار نے برطانیہ کے 132 تحقیقی اداروں اور جامعات سے اعدادوشمار فراہم کرنے کی درخواست کی تھی مگر صرف 44 نے اس پر عمل کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزرے برس کے دوران 44برطانوی یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں ریسرچ کے نام پر 13لاکھ جانور ہلاک کیے گئے۔ ان میں دس لاکھ کے لگ بھگ چوہوں کے علاوہ 124 بندر ، 10 کتے اور چھے شترمرغ بھی شامل تھے۔
اس ضمن میں ایڈنبرگ یونی ورسٹی پہلے نمبر پر رہی جہاں 226341 جانور ریسرچ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس کے بعد اوکسفرڈ، اور پھر کیمبرج یونی ورسٹی میں سب سے زیادہ جانور دوران تحقیق ہلاک کیے گئے۔
انسٹیٹیوٹ برائے کینسر ریسرچ میں 226000 مچھلیاں، 50000 مینڈک، اور 4250 پرندوں کی جانیں تحقیق کی نذر ہوئیں۔
ان جانوروں پر بے رحمانہ تجربات کیے گئے۔ چوہوں کو ڈیزل کے مضر اثرات کی تحقیق کے لیے چوہوں کو اس مائع کے بخارات میں سانس لینے پر مجبور کیا گیا، جانوروں کے بچوں پر شدید ذہنی دباؤ ڈالا گیا تاکہ دیکھا جاسکے کہ اس دباؤ کی وجہ سے بالغ ہونے کے بعد ان میں ذہنی صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں یا نہیں۔
ایڈنبرگ یونی ورسٹی کے کالج آف میڈیسن اینڈ ویٹرنری میڈیسن میں 165050 چوہے، 51368 مچھلیاں اور 1824پرندے ہلاک کیے گئے، جب کہ اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں ہونے والی ' ہلاکتوں' میں درج بالا اقسام کے جانوروں کے علاوہ 29بندر، 18 سور، اور 43 بجو بھی شامل تھے۔ کیمبرج یونی ورسٹی میں چوہوں، مچھلیوں، پرندوں کے علاوہ 186 امریکی چوہے اور چھے شترمرغ بھی تجربات کی نذر کردیا گئے۔ کنگز کالج لندن، امپیریل کالج لندن، اور اسکاٹ لینڈ کی اسٹرلنگ یونی ورسٹی میں سے ہر ایک میں ایک لاکھ سے زائد جانور مختلف انسانی امراض کے علاج کی کھوج میں قربان کیے گئے۔
اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے مختلف اداروں کی جانب سے کڑی تنقید کی جارہی ہے۔ '' اینیمل ایڈ'' کے ڈائریکٹر اینڈریو ٹیلر کا کہنا ہے کہ انسانی امراض کا علاج دریافت کرنے کے لیے جانوروں پر کیے جانے والے تجربات ناقابل بھروسا ہیں۔ اینڈریو ٹیلر کہتے ہیں،''ان جانوروں کے ساتھ ہونے والے بے رحمانہ سلوک سے قطع نظر اس قسم کے تجربات وہ معلومات فراہم نہیں کرتے جو انسان کو لاحق ہونے والے امراض کے علاج کے لیے قابل بھروسا ہوں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے، کم از کم یونی ورسٹیوں کی سطح پر نہیں، کیوں کہ80 فی صد برطانوی نہیں چاہتے کہ ان کے ٹیکسوں کی رقم اس طرح کی تحقیق پر خرچ کی جائے۔''
ایسے امراض کی ادویہ بھی تیار کی جاچکی ہیں جو کبھی ناقابل علاج سمجھے جاتے تھے۔ ہم اکثر اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ فلاں لاعلاج مرض کی دوا دریافت کرلی گئی ہے، یا فلاں بیماری کی مزید مؤثر ویکسین تیار کرلی گئی ہے۔ کبھی آپ کے ذہنوں میں یہ خیال گزرا کہ امراض کا علاج کیسے دریافت ہوتا ہے؟اس امر کا تعین کیسے کیا جاتا ہے کہ کسی مخصوص بیماری میں کون سی دوا مفید رہے گی؟ قارئین! ان مقاصد کے لیے تجربہ گاہوں میں معصوم جانوروں کو تختۂ مشق بنایا جاتا ہے۔ تمام دواؤں کے تجربات ان پر کیے جاتے ہیں۔ تجربات کے کسی نہ کسی مرحلے میں یہ جانور زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جانوروں کو ہلاک کرنے کے بعد ان پرتجربات کیے جاتے ہیں۔ یوں ان بے زبانوں کی زندگی کی قیمت پر انسان خود کو مختلف امراض سے محفوظ و مامون رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔
مختلف امراض کا علاج دریافت کرنے کی غرض سے تحقیق کے نام پر کتنی بڑی تعداد میں جانور ہلاک کیے جاتے ہیں، اس کا اندازہ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جو گذشتہ برس برطانیہ کے مختلف تعلیمی و تحقیقی اداروں میں زندگی سے محروم کیے جانے والے جانوروں کی تعداد سے متعلق ہے۔ اس رپورٹ میں دیے گئے اعدادوشمار طلبا کے اخبار''دی ٹیب'' نے معلومات تک رسائی کے حق کے تحت حاصل کیے۔ اخبار نے برطانیہ کے 132 تحقیقی اداروں اور جامعات سے اعدادوشمار فراہم کرنے کی درخواست کی تھی مگر صرف 44 نے اس پر عمل کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزرے برس کے دوران 44برطانوی یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں ریسرچ کے نام پر 13لاکھ جانور ہلاک کیے گئے۔ ان میں دس لاکھ کے لگ بھگ چوہوں کے علاوہ 124 بندر ، 10 کتے اور چھے شترمرغ بھی شامل تھے۔
اس ضمن میں ایڈنبرگ یونی ورسٹی پہلے نمبر پر رہی جہاں 226341 جانور ریسرچ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس کے بعد اوکسفرڈ، اور پھر کیمبرج یونی ورسٹی میں سب سے زیادہ جانور دوران تحقیق ہلاک کیے گئے۔
انسٹیٹیوٹ برائے کینسر ریسرچ میں 226000 مچھلیاں، 50000 مینڈک، اور 4250 پرندوں کی جانیں تحقیق کی نذر ہوئیں۔
ان جانوروں پر بے رحمانہ تجربات کیے گئے۔ چوہوں کو ڈیزل کے مضر اثرات کی تحقیق کے لیے چوہوں کو اس مائع کے بخارات میں سانس لینے پر مجبور کیا گیا، جانوروں کے بچوں پر شدید ذہنی دباؤ ڈالا گیا تاکہ دیکھا جاسکے کہ اس دباؤ کی وجہ سے بالغ ہونے کے بعد ان میں ذہنی صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں یا نہیں۔
ایڈنبرگ یونی ورسٹی کے کالج آف میڈیسن اینڈ ویٹرنری میڈیسن میں 165050 چوہے، 51368 مچھلیاں اور 1824پرندے ہلاک کیے گئے، جب کہ اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں ہونے والی ' ہلاکتوں' میں درج بالا اقسام کے جانوروں کے علاوہ 29بندر، 18 سور، اور 43 بجو بھی شامل تھے۔ کیمبرج یونی ورسٹی میں چوہوں، مچھلیوں، پرندوں کے علاوہ 186 امریکی چوہے اور چھے شترمرغ بھی تجربات کی نذر کردیا گئے۔ کنگز کالج لندن، امپیریل کالج لندن، اور اسکاٹ لینڈ کی اسٹرلنگ یونی ورسٹی میں سے ہر ایک میں ایک لاکھ سے زائد جانور مختلف انسانی امراض کے علاج کی کھوج میں قربان کیے گئے۔
اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے مختلف اداروں کی جانب سے کڑی تنقید کی جارہی ہے۔ '' اینیمل ایڈ'' کے ڈائریکٹر اینڈریو ٹیلر کا کہنا ہے کہ انسانی امراض کا علاج دریافت کرنے کے لیے جانوروں پر کیے جانے والے تجربات ناقابل بھروسا ہیں۔ اینڈریو ٹیلر کہتے ہیں،''ان جانوروں کے ساتھ ہونے والے بے رحمانہ سلوک سے قطع نظر اس قسم کے تجربات وہ معلومات فراہم نہیں کرتے جو انسان کو لاحق ہونے والے امراض کے علاج کے لیے قابل بھروسا ہوں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے، کم از کم یونی ورسٹیوں کی سطح پر نہیں، کیوں کہ80 فی صد برطانوی نہیں چاہتے کہ ان کے ٹیکسوں کی رقم اس طرح کی تحقیق پر خرچ کی جائے۔''