پی ایس ایل 5 کے سنسنی خیز میچ جاری

اسٹیڈیمز میں شائقین کی کمی کھٹکنے لگی

فوٹو : فائل

MANCHESTER, ENGLAND:
سکیورٹی اداروں کی بے مثال قربانیوں کی بدولت پاکستان میں امن و امان کی صورتحال بحال ہوئی، ملک میں انٹرنیشنل کھیلوں کی رونقیں کے بھی بتدریج واپس آ رہی ہیں، پاکستان میں غیر ملکی کرکٹ ٹیموں کی آمد کا راستہ پی ایس ایل نے ہی کھولا تھا، لیگ اب مکمل طور پر اپنے گھر میں واپس لوٹ آئی ہے، جمعرات کو نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ہونے والی افتتاحی تقریب کے ساتھ شروع ہونے والا یہ میلہ ملک کے 4 شہروں میں شائقین کو بہترین تفریح فراہم کرنے کے ساتھ نوجوانوں میں آگے بڑھنے کا جوش اور جذبہ بھی بیدار کرے گا، ملکی اور غیر ملکی اسٹار کرکٹرز کی کہکشاں کو دیکھ کر نئی نسل میں اپنا مستقبل روشن کرنے کی لگن پیدا ہوگی، کھیلوں سمیت کسی شعبہ میں بھی ہیروز بچوں اور نوجوانوں کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں، ملک میں پی ایس ایل کا میلہ سجنے سے ایک مثبت رجحان فروغ پائے گا، مستقبل کے لیے باصلاحیت کرکٹرز کی کھیپ بھی میسر آئے گی۔

پاکستان میں کرکٹ کی رونقیں بحال کرنے میں سابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بورڈ کی موجودہ مینجمنٹ نے بھی اس سفر کو آگے بڑھایا ہے تاہم اس سفر میں ہونے والی چند غلطیوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے بعد ایم سی سی کی ٹیم پاکستان آئی تواس کے تمام میچزلاہورمیں شیڈول کئے گئے، دوسری طرف ملک میں پی ایس ایل کی تیاریاں عروج پر تھیں، اس صورتحال میں مہمان ٹیم کے ساتھ مقابلے پس منظر میں چلے گئے، لاہور قلندرز کے ساتھ پہلا میچ تو قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔

داخلہ مفت ہونے کی وجہ سے شائقین کی بڑی تعداد نے میدان کا رخ بھی کیا، اگرچہ لاہور قلندرز کی روایتی خراب کارکردگی کی وجہ سے بیشتر تماشائی میچ ختم ہونے سے قبل ہی اسٹیڈیم سے باہر جاچکے تھے، بہرحال مجموعی طور پر 95 فیصد اسٹینڈز بھرجانے کی وجہ سے دنیا کو ایک مثبت پیغام گیا، قذافی اسٹیڈیم کے پچز کو پی ایس ایل کے لیے محفوظ رکھنے کی خاطر ایم سی سی کے دیگر میچز ایچی سن کالج میں شیڈول کئے گئے، یہاں پر میڈیا کو بھی کوریج کی اجازت نہیں تھی، ان مقابلوں میں عوامی وابستگی نہ ہونے کی وجہ سے سیریز کا رنگ پھیکا پڑ گیا، ایم سی سی کے خلاف سیریز کو پاکستان آمد کے لیے گوری ٹیموں کا اعتماد بحال کرنے کی ایک کوشش کہا جاسکتا ہے لیکن کمار سنگاکارا کی قیادت میں کھیلنے والے بیشتر کاؤنٹی پلیئرز کی محدود سرگرمیوں سے شاید وہ مقاصد حاصل نہ ہو سکیں جو نظر میں رکھے گئے تھے، تاہم مایوس ہونے کی بات نہیں، پی ایس ایل میں 10کے قریب انگلش کرکٹر شرکت کر رہے ہیں۔

یہ سب یہاں سے خوشگوار یادیں لے کر اپنے وطن واپس جائیں گے تو پاکستان کے حوالے سے ایک مثبت پیغام بھی ان کے ساتھ جائے گا، قذافی اسٹیڈیم میں ہونے والی پریس کانفرنس میں انگلش کرکٹر معین علی نے کہا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے پاکستان کے حالیہ اقدامات اور سکیورٹی اداروں کے انتظامات کو دیکھتے ہوئے انگلش ٹیمیں اب یہاں آنے کے بارے میں سوچنے لگی ہیں، امید ہے کہ جلد یہ سلسلہ شروع ہوگا، یہی رائے دیگر غیر ملکی کرکٹرز کی بھی ہوئی تو بورڈز کے اپنی ٹیمیں پاکستان بھیجنے کا فیصلہ آسان ہوجائے گا۔


دوسری جانب کراچی میں ہونے والی پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب کی بات کی جائے تو شائقین کی بڑی تعداد مایوسی کا اظہار کرتی نظر آئی، ذرائع کے مطابق اس پر 21 کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی، تقریب کے دوران روشنی کم اور میدان میں آواز کم ہونے کے مسائل بھی سامنے آئے، افتتاحی تقریب کا میلہ کراچی میں سجایا گیا جہاں اردو زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے، بیشتر گلوکاروں نے نے پنجابی گیت گائے، ٹی ٹوئنٹی فاسٹ کرکٹ ہے لیکن اس کی تقریب سلو نظر آئی، ایک غیر دلچسپ پروگرام کے بعد آتش بازی کے شاندار مظاہرے نے تقریب میں تھوڑی جان ڈالی، ٹورنامنٹ کے افتتاح کے اگلے روز ہی لاہور میں میچ شیڈول ہونے کی وجہ سے سکواڈز کا روایتی مارچ پاسٹ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

یہاں تک کہ دو ٹیموں ملتان سلطانز اور لاہور قلندر کے کپتان شان مسعود اور سہیل اختر بھی افتتاحی تقریب کا حصہ نہیں بن سکے، بہتر شیڈول بناکر ملکی اور غیرملکی تمام کرکٹرز کی شرکت ممکن ہوسکتی تھی،بہرحال ایشیا کپ2008 کے بعد پاکستان میں پہلی بار کوئی ایسا میگاایونٹ ہو رہا ہے جس کے مقابلے 4 مختلف شہروں میں منعقد ہورہے ہیں، اس لیے غلطیوں کا احتمال بھی زیادہ ہے، پاکستان کو اس سفر میں ابھی بہت آگے جانا ہے، بہتر یہی ہوگا کہ مینجمنٹ خود کو عقل کل سمجھنے کے بجائے قابل بھروسہ افراد کی خدمات حاصل کرتے ہوئے اپنے کام کا بوجھ بانٹے، ون مین شو پی ایس ایل کے بڑے اسٹیج کے لیے قطعی طور پر موزوں نہیں ہوگا، ایونٹ میں نظم و ضبط کا ہونا ملک اور پی سی بی کی ساکھ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

کراچی میں ہونے والی ابتدائی تقریب میں تو شائقین کی تعداد قدرے بہتر تھی لیکن جمعہ کو آدھے سے زیادہ سٹینڈ خالی نظر آئے، لاہور میں بھی صورت حال مختلف نہیں تھی، افسوس کی بات یہ ہے کہ میچ شروع ہونے سے قبل اور اس کے دوران بھی سیکڑوں نوجوان 500 اور ہزار روپے کی ٹکٹوں کی امید پر وینیوز کے آس پاس مارے مارے پھرتے رہے، کئی مقامی کورئیر کمپنی کے دفاتر سے بھی مایوس ہو کر واپس آئے، اسٹیڈیمز کے پاس پی سی بی کی جانب سے قائم کیے جانے والا کوئی کاؤنٹر موجود ہوتا تو شاید ان کو ٹکٹ خریدنے میں کامیابی ہو جاتی، اس موقع پر نوجوانوں کی بڑی تعداد یہ شکوہ بھی کرتی نظر آئی کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے اس دور میں اگر ٹکٹوں کے نرخ کم رکھے جاتے تو ان کو میچ دیکھنے کا موقع مل جاتا، اسٹیڈیمز میں موجود شائقین کی بڑی تعداد کا کہنا تھا کہ اگر 500روپے والے ٹکٹوں کی تعداد زیادہ رکھی جائے تو سٹینڈز خالی نظر نہ آئیں،کراچی میں ہفتہ کو ہونے والے میچ میں بھی سٹینڈز خالی نظر آئے، دنیا کو مثبت پیغام دینے کے لیے وینیوز کو بھرنا ضروری ہے،اس معاملے میں کمائی کی فکر چھوڑ کر تماشائیوں کی تعداد بڑھانے پر توجہ دینا چاہیے۔

پی ایس ایل کے ابتدائی مرحلے میں ٹیموں کی کارکردگی کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا مناسب نہیں ہوگا، تاہم ابھی تک ہونے والے چند مقابلوں میں دلچسپ نتائج دیکھنے میں آئے ہیں، افتتاحی میچ میں دفاعی چیمپئن کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے مشکل وقت میں اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے اسلام آباد یونائیٹڈ کو 3وکٹ سے شکست دی،ناکام ٹیم کو تجربہ کار کپتان کی کمی محسوس ہوئی، شاداب خان قیادت کیساتھ بولنگ فارم کے معاملے میں جدوجہد کرتے نظر آئے، کراچی کنگز نے بھی ہوم گراؤنڈ پر 201کا مجموعہ حاصل کرنے کے بعد پشاور زلمی کو 10رنز سے زیر کیا، دوسری جانب لاہور قلندرز ایک بار پھر ناکامیوں کے بھنور سے نہ نکل پائے، ہوم گراؤنڈ پر کھیلتے ہوئے پہلے اچھے آغاز کے بعد بڑے سکور کا موقع گنوایا، اس کے بعد بولرز بھی ہدف کے دفاع میں مشکلات کا شکار نظر آئے،بہرحال ابھی ایونٹ کا آغاز اور ٹیموں کے لیے کم بیک کے بڑے مواقع باقی ہیں،لمبی ریس کے گھوڑے ہی پلے آف مرحلے میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوں گے۔
Load Next Story