مجھے زبانی ہدایات ملیں کئی چیزیں دکھائی بھی گئیں انور منصور
فروغ نسیم نے پردہ اٹھایا تو میں بھی اٹھاؤں گا‘ استعفیٰ دباؤ پر نہیں‘ اپنی مرضی سے دیا
سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا ہے کہ جو کچھ سپریم کورٹ میں کہا وہ زبانی طور پر بتایا گیا اور واضح طور پر بہت ساری چیزیں دکھائی بھی گئیں مگر ان کی تفصیلات میں نہیں جاسکتا۔
نجی ٹی وی سے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ بہت ساری چیزیں نہیں بتا سکتے، اس سے جھگڑے پیدا ہوں گے اور وہ جھگڑوں میں نہیں پڑنا چاہتے، جب ضرورت ہو گی۔
تفصیلات میں ضرور جائیں گے، وزیرقانون چیزوں سے پردہ اٹھائیں گے تو وہ بھی پردہ اٹھا دیں گے، جو ان پر غلط بیانی کا الزام لگا رہے ہیں وہ خود غلط بیانی کررہے ہیں، استعفیٰ دباؤ میں نہیں، اپنی مرضی سے دیا، فروغ نسیم عدالت میں موجود تھے، دلائل پر اعتراض تھا تو عدالت میں کھڑے ہو کر کہہ سکتے تھے کہ ہم نے اٹارنی جنرل کو اس قسم کی کوئی ہدایات نہیں دیں، وزیر اعظم عمران خان نے ملاقات کیلئے بلایا ہے اور وہ ان سے ملاقات کیلئے جائیں گے۔
ہر چیز کا حکومت کو علم تھا، بیان سے حکومت کی لاتعلقی ہوتی تو48گھنٹے بعد کیوں کوئی خیال آتا، پہلے دن فروغ نسیم اور شہزاد اکبر ان کے ساتھ ہی عدالت سے نکلے تھے، کوئی ایسی بات نہیں تھی، اگلے دن بھی کوئی بات نہیں تھی، تیسرے دن انھوں نے نیا ایشو کھڑا کر دیا جو مناسب نہیں، ان کے ساتھ معلومات کس نے شیئر کی تھیں۔
اس مرحلہ پر کچھ نہیں کہوں گا، جیسے ہی اس سے پردہ اٹھائیں گے تو اداروں کے درمیان جھگڑے شروع ہو جائیں گے، جسٹس فائز عیسیٰ اور فیملی کی لندن میں جاسوسی کیلیے فرم کی خدمات حاصل کرنے کا علم نہیں تھا، چند دستاویزات آج تک میرے سامنے نہیں آئیں، مجھ سے بہت ساری چیزیں چھپائی بھی گئی تھیں، ججوں کی سرویلنس نہیں ہو رہی اور نہ ہونی چاہیے۔
نجی ٹی وی سے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ بہت ساری چیزیں نہیں بتا سکتے، اس سے جھگڑے پیدا ہوں گے اور وہ جھگڑوں میں نہیں پڑنا چاہتے، جب ضرورت ہو گی۔
تفصیلات میں ضرور جائیں گے، وزیرقانون چیزوں سے پردہ اٹھائیں گے تو وہ بھی پردہ اٹھا دیں گے، جو ان پر غلط بیانی کا الزام لگا رہے ہیں وہ خود غلط بیانی کررہے ہیں، استعفیٰ دباؤ میں نہیں، اپنی مرضی سے دیا، فروغ نسیم عدالت میں موجود تھے، دلائل پر اعتراض تھا تو عدالت میں کھڑے ہو کر کہہ سکتے تھے کہ ہم نے اٹارنی جنرل کو اس قسم کی کوئی ہدایات نہیں دیں، وزیر اعظم عمران خان نے ملاقات کیلئے بلایا ہے اور وہ ان سے ملاقات کیلئے جائیں گے۔
ہر چیز کا حکومت کو علم تھا، بیان سے حکومت کی لاتعلقی ہوتی تو48گھنٹے بعد کیوں کوئی خیال آتا، پہلے دن فروغ نسیم اور شہزاد اکبر ان کے ساتھ ہی عدالت سے نکلے تھے، کوئی ایسی بات نہیں تھی، اگلے دن بھی کوئی بات نہیں تھی، تیسرے دن انھوں نے نیا ایشو کھڑا کر دیا جو مناسب نہیں، ان کے ساتھ معلومات کس نے شیئر کی تھیں۔
اس مرحلہ پر کچھ نہیں کہوں گا، جیسے ہی اس سے پردہ اٹھائیں گے تو اداروں کے درمیان جھگڑے شروع ہو جائیں گے، جسٹس فائز عیسیٰ اور فیملی کی لندن میں جاسوسی کیلیے فرم کی خدمات حاصل کرنے کا علم نہیں تھا، چند دستاویزات آج تک میرے سامنے نہیں آئیں، مجھ سے بہت ساری چیزیں چھپائی بھی گئی تھیں، ججوں کی سرویلنس نہیں ہو رہی اور نہ ہونی چاہیے۔