امریکی صدر کا دَورئہ بھارت اہداف کیا ہیں
امریکی صدر صرف تین گھنٹے کے لیے احمد آباد میں رکیں گے لیکن بھارت نے ان کی خوشنودی کے لیے 85 کروڑ روپے خرچ کرڈالے ہیں۔
امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، آج 24فروری 2020 کو بھارت کا دوروزہ سرکاری دَورہ شروع کر رہے ہیں۔ہماری وزارتِ خارجہ کی ترجمان محترمہ عائشہ فاروقی نے کہا ہے: ''پاکستان کو اُمید ہے کہ امریکی صدر، دَورئہ بھارت میں مقبوضہ کشمیر پر بات کرینگے اور مسئلہ کے حل کے لیے سے اپنی ثالثی کی پیشکش کو عملی جامہ پہنائیں گے۔''
بھارتی وزارتِ خارجہ امریکی صدر کے اُس بیان کی سختی سے تردید کر چکی ہے کہ نریندر مودی نے کبھی ڈونلڈ ٹرمپ سے مسئلہ کشمیر پر ''ثالثی'' کی کوئی ''درخواست'' کی تھی۔ آئیے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ امریکی صدر اپنے اس بھارتی دَورے کے پسِ پشت کیا مقاصد اور اہداف رکھتے ہیں؟
دُنیا کی واحد سُپر پاور کے سربراہ نے ایسے موقع پر آج بھارت میں قدم رکھا ہے جب مقبوضہ کشمیر کے حالات دگرگوں ہو چکے ہیں اور امتیازی قوانین (CAA۔NRC۔NPR)کی مخالفت میں سبھی بھارتی اقلیتیں مودی حکومت کے خلاف ہر بڑے شہر میں دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید پامالی اور بھارت میں امتیازی قوانین کی بازگشت امریکی ایوانوں میں بھی گونج رہی ہے۔ گزشتہ روز ایک مشہور اور موثر امریکی سینیٹر (لنڈسے گراہم) اور بھارتی وزیر خارجہ ( جے شنکر) کے درمیان جرمنی میں منعقدہ ایک سیکیورٹی کانفرنس میں لفظی تصادم بھی ہُوا ہے۔
اِس دَورے کا آغاز نرنیدر مودی کی آبائی ریاست (گجرات ) اور شہر احمد آباد سے ہو رہا ہے۔ یہ ریاست گاندھی جی کی جنم بھومی بھی ہے ۔ امریکی صدر کے پروگرام میں گاندھی جی کے اُس گھر کی ''زیارت'' بھی شامل ہے جہاں انھوں نے آنکھ کھولی۔ اِسی ریاست میں نریندرمودی تیرہ سال وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ اِسی ریاست میں انھوں نے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دوران نہتے سیکڑوں مسلمانوں کا خون بھی بہایا تھا۔ اس بہیمانہ جرم کی اساس پر امریکا نے مودی کے امریکا آنے پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ زمانے کی چال اور ستم دیکھیے کہ آج وہی ''قاتل'' نریندر مودی اور وہی امریکا ایک دوسرے سے بغلگیر ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا بطورِ امریکی صدر یہ پہلا دَورئہ بھارت ہے۔ امریکی خاتونِ اوّل، ملانیا ٹرمپ، نے چند دن پہلے ٹویٹ کیا تھا کہ مَیں تو بھارت جانے اور تاج محل دیکھنے کے لیے بیقرار ہو رہی ہُوں۔ جب سے مودی بھارتی اقتدار پر براجمان ہُوئے ہیں، چینی صدر اور جاپانی و اسرائیلی وزرائے اعظم بھی مودی کے ساتھ گجرات کے دَورے کر چکے ہیں۔
تازہ دَورے کی مگر خاص بات یہ ہے کہ گجرات میں ( موتیرا) کرکٹ اسٹیڈیم کے راستے میں پڑنے والی غریبوں کی ایک بستی کے 60 خاندانوں کو مودی کے حکم پر زبردستی وہاں سے اُٹھا دیا گیا ہے تاکہ ان کے ''بدنما چہروں پر اکلوتی سپر پاور کے صدر کی نظریں نہ پڑ سکیں۔ جن بقیہ خاندانوں نے وہاں سے جبر اور ظلم کے باوجود اُٹھنے سے انکار کر دیا، اُن کے سامنے ہنگامی بنیادوں پر دو کلومیٹر طویل اور سات فٹ بلند دیوار تعمیر کر دی گئی ہے تاکہ ٹرمپ کی نظریں اُدھر جا ہی نہ سکیں۔ امریکی اخبار ''واشنگٹن پوسٹ'' نے مودی کے اس اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کی اوراسے غیر انسانی قرار دیا۔
بھارت پہنچنے سے قبل صدر ٹرمپ، نے اپنے ایک حیران کن بیان میں کہا تھا: ''مجھے نہیں معلوم کہ بھارت کے ساتھ کئی متوقع تجارتی معاہدے ہو سکیں گے یا نہیں لیکن بھارتی وزیر اعظم، مودی، نے مجھے یقین دلایا ہے کہ لاکھوں بھارتی شہری گجرات میں میرا استقبال کریں گے۔'' امریکی صدر کے بیان اور بھارتی حکومت کے اعلان کے مطابق، ٹرمپ آج گجرات میں دُنیا کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم (موتیرا) کا افتتاح کرتے ہُوئے بھارتی دَورے کی شروعات کر رہے ہیں۔ اس اسٹیڈیم میں (جس کی تعمیر پر 22 ارب بھارتی روپے خرچ ہُوئے ہیں) سوا لاکھ شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ اس سے پہلے آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کو دُنیا کا سب سے بڑا اسٹیڈیم ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔
امریکی صدر کو مگر ان ''لاکھوں'' بھارتیوں سے خطاب اور اُن کے استقبال سے ملے گا کیا؟ امریکی تھنک ٹینک Pew Researchکا کہنا ہے : ''ہمارے ایک سروے کے مطابق 56فیصد بھارتی ڈونلڈ ٹرمپ کو پسند کرتے ہیں اور اپنے ملک کے لیے فائدہ مند بھی قرار دیتے ہیں۔ امریکا میں آباد کاروباری اور دولتمند بھارتی نژاد امریکی اکثریتی طور پر ٹرمپ کے حامی اور سپورٹر ہیں۔'' اس سے تجزیہ کار یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ امریکی صدر اپنے اس دَورئہ سے دراصل رواں برس منعقد ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں اپنے لیے اِنہی بھارتی نژاد امریکیوں کے ووٹ پکّے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نریندر مودی بھی امریکی صدر کے اس خفی لالچ سے آگاہ ہیں ، اس لیے وہ بھی اس لالچ کو ایکسپلائیٹ کرنے کے چکر میں ہیں۔
امریکی صدر نے کہا ہے کہ ''بھارت تجارتی میدان میں ہم سے اچھا سلوک نہیں کر رہا۔'' اس کے باوجود دونوں ممالک میں اونچے پیمانے پر ٹریڈ ہورہی ہے۔ چین کے بعد امریکا، بھارت کا دوسرا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر ہے۔گزشتہ سال بھارت اور امریکا نے 143ارب ڈالر کی تجارت کی تھی۔ ممتازامریکی جریدے ''فارن پالیسی'' نے لکھا ہے کہ ٹرمپ اپنے اِس دَورے میں بھارت سے کچھ زیادہ تجارتی فائدے نہیں سمیٹ سکیں گے۔ اس کے باوجود امریکی صدر کے اس دَورے میں بھارت اُس دفاعی ڈِیل پر دستخط کرے گا جس کے تحت امریکا سے 24 جنگی ہیلی کاپٹر(Seahawk) خریدے جائیں گے۔ ان کی مالیت تقریباً3ارب ڈالر ہے۔ اس سودے سے پاک بھارت نیول اسٹرٹیجک توازن بگڑ جائے گا یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
امریکی صدر کی یہ بھی خواہش ہے کہ امریکی پولٹری اور ڈیری سامان کے لیے بھارتی منڈی میں زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کی جائے۔ اُن کی ایک کوشش یہ بھی ہو گی کہ بھارت میں آنے والی امریکی مصنوعات پر ٹیکس کم کروایا جا سکے۔ اپنی ایک تازہ ٹویٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے عمداً اِسی بارے بھارتی وزیر اعظم سے بین السطور شکوہ بھی کیا ہے ۔
معروف خلیجی ٹی وی ''الجزیرہ'' نے اپنے ایک تجزئیے میں کہا ہے :''امریکی صدر 24 فروری2020 کو صرف تین گھنٹے کے لیے احمد آباد (گجرات) میں رکیں گے لیکن بھارت نے اُن کی خوشنودی کے لیے 85 کروڑ روپے خرچ کر ڈالے ہیں، محض اس لیے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی نظریں اُن دفاعی مفادات پر ٹکی ہیں جو امریکی صدر سے حاصل کیے جا سکتے ہیں، مگر ڈونلڈ ٹرمپ لمبا سفر کرنا پسند نہیں کرتے۔ اب اگر وہ بھارت آنے جانے پر 35 ہزار کلومیٹر کا طویل سفر کرنے کی کلفت اُٹھا رہے ہیں تو یہ تکلیف خالی از علت نہیں ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو مسئلہ کشمیر بارے ثالثی کی پیشکشیں کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی دَورے میں مظلوم مقبوضہ کشمیر بارے کیا لہجہ اختیار کرتے ہیں؟؟
بھارتی وزارتِ خارجہ امریکی صدر کے اُس بیان کی سختی سے تردید کر چکی ہے کہ نریندر مودی نے کبھی ڈونلڈ ٹرمپ سے مسئلہ کشمیر پر ''ثالثی'' کی کوئی ''درخواست'' کی تھی۔ آئیے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ امریکی صدر اپنے اس بھارتی دَورے کے پسِ پشت کیا مقاصد اور اہداف رکھتے ہیں؟
دُنیا کی واحد سُپر پاور کے سربراہ نے ایسے موقع پر آج بھارت میں قدم رکھا ہے جب مقبوضہ کشمیر کے حالات دگرگوں ہو چکے ہیں اور امتیازی قوانین (CAA۔NRC۔NPR)کی مخالفت میں سبھی بھارتی اقلیتیں مودی حکومت کے خلاف ہر بڑے شہر میں دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید پامالی اور بھارت میں امتیازی قوانین کی بازگشت امریکی ایوانوں میں بھی گونج رہی ہے۔ گزشتہ روز ایک مشہور اور موثر امریکی سینیٹر (لنڈسے گراہم) اور بھارتی وزیر خارجہ ( جے شنکر) کے درمیان جرمنی میں منعقدہ ایک سیکیورٹی کانفرنس میں لفظی تصادم بھی ہُوا ہے۔
اِس دَورے کا آغاز نرنیدر مودی کی آبائی ریاست (گجرات ) اور شہر احمد آباد سے ہو رہا ہے۔ یہ ریاست گاندھی جی کی جنم بھومی بھی ہے ۔ امریکی صدر کے پروگرام میں گاندھی جی کے اُس گھر کی ''زیارت'' بھی شامل ہے جہاں انھوں نے آنکھ کھولی۔ اِسی ریاست میں نریندرمودی تیرہ سال وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ اِسی ریاست میں انھوں نے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دوران نہتے سیکڑوں مسلمانوں کا خون بھی بہایا تھا۔ اس بہیمانہ جرم کی اساس پر امریکا نے مودی کے امریکا آنے پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ زمانے کی چال اور ستم دیکھیے کہ آج وہی ''قاتل'' نریندر مودی اور وہی امریکا ایک دوسرے سے بغلگیر ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا بطورِ امریکی صدر یہ پہلا دَورئہ بھارت ہے۔ امریکی خاتونِ اوّل، ملانیا ٹرمپ، نے چند دن پہلے ٹویٹ کیا تھا کہ مَیں تو بھارت جانے اور تاج محل دیکھنے کے لیے بیقرار ہو رہی ہُوں۔ جب سے مودی بھارتی اقتدار پر براجمان ہُوئے ہیں، چینی صدر اور جاپانی و اسرائیلی وزرائے اعظم بھی مودی کے ساتھ گجرات کے دَورے کر چکے ہیں۔
تازہ دَورے کی مگر خاص بات یہ ہے کہ گجرات میں ( موتیرا) کرکٹ اسٹیڈیم کے راستے میں پڑنے والی غریبوں کی ایک بستی کے 60 خاندانوں کو مودی کے حکم پر زبردستی وہاں سے اُٹھا دیا گیا ہے تاکہ ان کے ''بدنما چہروں پر اکلوتی سپر پاور کے صدر کی نظریں نہ پڑ سکیں۔ جن بقیہ خاندانوں نے وہاں سے جبر اور ظلم کے باوجود اُٹھنے سے انکار کر دیا، اُن کے سامنے ہنگامی بنیادوں پر دو کلومیٹر طویل اور سات فٹ بلند دیوار تعمیر کر دی گئی ہے تاکہ ٹرمپ کی نظریں اُدھر جا ہی نہ سکیں۔ امریکی اخبار ''واشنگٹن پوسٹ'' نے مودی کے اس اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کی اوراسے غیر انسانی قرار دیا۔
بھارت پہنچنے سے قبل صدر ٹرمپ، نے اپنے ایک حیران کن بیان میں کہا تھا: ''مجھے نہیں معلوم کہ بھارت کے ساتھ کئی متوقع تجارتی معاہدے ہو سکیں گے یا نہیں لیکن بھارتی وزیر اعظم، مودی، نے مجھے یقین دلایا ہے کہ لاکھوں بھارتی شہری گجرات میں میرا استقبال کریں گے۔'' امریکی صدر کے بیان اور بھارتی حکومت کے اعلان کے مطابق، ٹرمپ آج گجرات میں دُنیا کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم (موتیرا) کا افتتاح کرتے ہُوئے بھارتی دَورے کی شروعات کر رہے ہیں۔ اس اسٹیڈیم میں (جس کی تعمیر پر 22 ارب بھارتی روپے خرچ ہُوئے ہیں) سوا لاکھ شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ اس سے پہلے آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کو دُنیا کا سب سے بڑا اسٹیڈیم ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔
امریکی صدر کو مگر ان ''لاکھوں'' بھارتیوں سے خطاب اور اُن کے استقبال سے ملے گا کیا؟ امریکی تھنک ٹینک Pew Researchکا کہنا ہے : ''ہمارے ایک سروے کے مطابق 56فیصد بھارتی ڈونلڈ ٹرمپ کو پسند کرتے ہیں اور اپنے ملک کے لیے فائدہ مند بھی قرار دیتے ہیں۔ امریکا میں آباد کاروباری اور دولتمند بھارتی نژاد امریکی اکثریتی طور پر ٹرمپ کے حامی اور سپورٹر ہیں۔'' اس سے تجزیہ کار یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ امریکی صدر اپنے اس دَورئہ سے دراصل رواں برس منعقد ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں اپنے لیے اِنہی بھارتی نژاد امریکیوں کے ووٹ پکّے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نریندر مودی بھی امریکی صدر کے اس خفی لالچ سے آگاہ ہیں ، اس لیے وہ بھی اس لالچ کو ایکسپلائیٹ کرنے کے چکر میں ہیں۔
امریکی صدر نے کہا ہے کہ ''بھارت تجارتی میدان میں ہم سے اچھا سلوک نہیں کر رہا۔'' اس کے باوجود دونوں ممالک میں اونچے پیمانے پر ٹریڈ ہورہی ہے۔ چین کے بعد امریکا، بھارت کا دوسرا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر ہے۔گزشتہ سال بھارت اور امریکا نے 143ارب ڈالر کی تجارت کی تھی۔ ممتازامریکی جریدے ''فارن پالیسی'' نے لکھا ہے کہ ٹرمپ اپنے اِس دَورے میں بھارت سے کچھ زیادہ تجارتی فائدے نہیں سمیٹ سکیں گے۔ اس کے باوجود امریکی صدر کے اس دَورے میں بھارت اُس دفاعی ڈِیل پر دستخط کرے گا جس کے تحت امریکا سے 24 جنگی ہیلی کاپٹر(Seahawk) خریدے جائیں گے۔ ان کی مالیت تقریباً3ارب ڈالر ہے۔ اس سودے سے پاک بھارت نیول اسٹرٹیجک توازن بگڑ جائے گا یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
امریکی صدر کی یہ بھی خواہش ہے کہ امریکی پولٹری اور ڈیری سامان کے لیے بھارتی منڈی میں زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کی جائے۔ اُن کی ایک کوشش یہ بھی ہو گی کہ بھارت میں آنے والی امریکی مصنوعات پر ٹیکس کم کروایا جا سکے۔ اپنی ایک تازہ ٹویٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے عمداً اِسی بارے بھارتی وزیر اعظم سے بین السطور شکوہ بھی کیا ہے ۔
معروف خلیجی ٹی وی ''الجزیرہ'' نے اپنے ایک تجزئیے میں کہا ہے :''امریکی صدر 24 فروری2020 کو صرف تین گھنٹے کے لیے احمد آباد (گجرات) میں رکیں گے لیکن بھارت نے اُن کی خوشنودی کے لیے 85 کروڑ روپے خرچ کر ڈالے ہیں، محض اس لیے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی نظریں اُن دفاعی مفادات پر ٹکی ہیں جو امریکی صدر سے حاصل کیے جا سکتے ہیں، مگر ڈونلڈ ٹرمپ لمبا سفر کرنا پسند نہیں کرتے۔ اب اگر وہ بھارت آنے جانے پر 35 ہزار کلومیٹر کا طویل سفر کرنے کی کلفت اُٹھا رہے ہیں تو یہ تکلیف خالی از علت نہیں ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو مسئلہ کشمیر بارے ثالثی کی پیشکشیں کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی دَورے میں مظلوم مقبوضہ کشمیر بارے کیا لہجہ اختیار کرتے ہیں؟؟