نیٹو سپلائی جذبات نہیں تدبر کی ضرورت
پاکستان میں امریکی ڈرون حملے ایک عرصے سے اہم سیاسی ایشو بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں امریکی ڈرون حملے ایک عرصے سے اہم سیاسی ایشو بنے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے اقتدار میں آنے سے قبل اپنی انتخابی مہم میں امریکی ڈرون حملوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ ان کے بیانات کو دیکھتے ہوئے امید تھی کہ وہ برسراقتدار آنے کے بعد ڈرون حملوں رکوانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور قبائلی علاقوں کے عوام کو ان ہلاکت خیز حملوں سے نجات مل جائے گی ۔ طالبان کا الزام تھا کہ ڈرون حملوں میں حکومت پاکستان کی مرضی شامل ہے لہذا ہر ڈرون حملے کے بعد وہ جواب میں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں تیز کر دیتے۔ عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ ڈرون حملے رک جاتے ہیں تو طالبان کے پاس بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا جواز ختم ہو جائے گا اور عوام کی اس عفریت سے جان چھوٹ جائے گی۔
مسلم لیگ ن کی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد ڈرون حملے رکوانے میں کامیاب نہ ہو سکی بلکہ ان حملوں میں ماضی کی نسبت شدت آ گئی جس پر حکومت پر ڈرون حملے رکوانے کے لیے دائیں بازو کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کا عوامی دبائو بڑھنے لگا۔ تحریک انصاف' جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے حملوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ تحریک انصاف نے تو اسے باقاعدہ سیاسی رنگ دے دیا اور وفاقی حکومت سے شدت کے ساتھ مطالبہ کیا جانے لگا کہ ڈرون حملوں کو رکوانے کے لیے نیٹو سپلائی بند کر کے امریکا پر دبائو بڑھایا جائے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی ڈرون حملوں کی شدید مذمت کی مگر نیٹو سپلائی روکنے کے مطالبے پر اس کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دورہ امریکا کے دوران صدر اوبامہ سے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کیا مگر امریکی ڈرون پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ آئی بلکہ اس میں شدت آ گئی ۔
کچھ عرصہ قبل حکومت پاکستان نے دہشت گردی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کا عندیہ دیا مگر امریکا نے مذاکرات سے قبل ہی ڈرون حملہ کر کے حکیم اللہ محسود کو ہلاک کرکے حکومت پاکستان کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد حکومت پاکستان شدید دبائو میں آ گئی اور سیاستدانوں کی جانب سے اس کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا جانے لگا۔ مذہبی جماعتوں اور تحریک انصاف نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر شدید احتجاج کیا اور امریکا کے خلاف نفرت کو مزید ہوا دی جس سے عوام کے ایک حلقے میں یہ تاثر ابھرا کہ امریکا پاکستان میں دہشت گردی کے عنصر کو قائم رکھنا چاہتا اور جب بھی حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی کوشش کرتی ہے تو امریکا اسے سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہو جاتا ہے۔ اس حملے کے بعد عوام کے ایک طبقے میں امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا۔
چند روز قبل ہنگو میں ایک مدرسے پر امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما جاں بحق ہو گئے جن کا تعلق اگرچہ افغانستان سے تھا مگر اس حملے نے مذہبی جماعتوں خاص طور پر تحریک انصاف کو یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ کھل کر میدان میں آئیں، تحریک انصاف نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور نیٹو سپلائی عملی طور پر روکنے کے لیے ہفتہ کو پشاور میں دھرنا دے دیا۔ دھرنے کے لیے رنگ روڈ انٹرچینج پر کنٹینر لگا کر سڑک بند کر دی گئی۔ دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ ''کچھ بھی ہو ہر صورت میں نیٹو سپلائی روکیں گے کیونکہ صوبے میں ہماری حکومت ہے اور ہماری اجازت کے بغیر ایک بھی کنٹینر یہاں سے نہیں گزرے گا''، انھوں نے ڈرون حملوں کے خلاف پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ لے کر سپریم کورٹ جانے اور حملے رکنے تک احتجاج کا دائرہ پورے ملک تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
دھرنے میں جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد کے رہنمائوں اور کارکنوں نے بھی شرکت کی۔ عمران خان نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ نیٹو سپلائی روکنے کا فیصلہ کرے' پوری قوم اس جنگ سے ملنے والی ذلت سے جان چھڑانا اور امن چاہتی ہے۔ عمران خان کے اس مطالبے پر وفاقی حکومت نے بھی اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے لاہور میں ویمن میڈیا سینٹر کے تحت تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت امریکا سے ناتا توڑ کر دشمنی مول نہیں لینا چاہتی' پاکستان اس وقت کسی بھی طرح کی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا' ن لیگ نہ تو امریکا سے لڑنا چاہتی ہے اور نہ طالبان ہی سے بلکہ دونوں سے بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا حل چاہتی ہے۔ انھوں نے دھرنے پر تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملوں پر تحریک انصاف کی پالیسی میں تضاد ہے' خیبر پختونخوا کی حکومت امریکا سے ڈالر لے کر خاموش بیٹھی ہے' وہ ڈرونز حملے روکنا چاہتی ہے تو امریکی امداد استعمال نہ کرے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے بھی خیبر پختونخوا حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ امریکی ڈالروں کی امداد مانگنے والوں کی صف میں خیبرپختونخوا حکومت آگے آگے ہے۔ انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ڈرون حملے بند کروا سکتی ہے اور نہ فوج کو انھیں گرانے کا حکم دے سکتی ہے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف ہیں اور وفاقی حکومت جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے اسے بڑی حکمت عملی اور بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہ رہی ہے۔ پاکستان اس وقت شدید مسائل کا شکار ہے اور اگر پاک امریکا تعلقات خراب ہوتے ہیں اور امریکی امداد بند ہو جاتی ہے تو حکومت پاکستان کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا کیونکہ امریکا اس وقت بڑے پیمانے پر پاکستان کی سول اور دفاعی امداد کر رہا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ نیٹو سپلائی پر سیاست چمکائی جا رہی ہے' تمام سیاسی جماعتوں کو حقائق سے آگاہی ہے مگر وہ زیادہ سے زیادہ عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے سیاسی کھیل کھیل رہی ہیں۔ سیاست کے اس کھیل میں عوام ابہام کا شکار ہیں' انھیں اصل صورت حال سے آگاہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف خیبر پختون خوا نے ڈرون حملے بند ہونے تک اتوار سے صوبہ بھر میں نیٹو سپلائی روکنے کا اعلان کر دیا ہے۔ نیٹو سپلائی روکنے کے معاملے پر خیبر پختونخوا حکومت اور مرکزی حکومت کے موقف میں واضح فرق ہے۔ دونوں حکومتوں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے کو جذبات سے حل کرنے کے بجائے حکمت اور تدبیر سے اس طرح حل کریں کہ پاکستانی مفادات کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد ڈرون حملے رکوانے میں کامیاب نہ ہو سکی بلکہ ان حملوں میں ماضی کی نسبت شدت آ گئی جس پر حکومت پر ڈرون حملے رکوانے کے لیے دائیں بازو کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کا عوامی دبائو بڑھنے لگا۔ تحریک انصاف' جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے حملوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ تحریک انصاف نے تو اسے باقاعدہ سیاسی رنگ دے دیا اور وفاقی حکومت سے شدت کے ساتھ مطالبہ کیا جانے لگا کہ ڈرون حملوں کو رکوانے کے لیے نیٹو سپلائی بند کر کے امریکا پر دبائو بڑھایا جائے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی ڈرون حملوں کی شدید مذمت کی مگر نیٹو سپلائی روکنے کے مطالبے پر اس کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دورہ امریکا کے دوران صدر اوبامہ سے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کیا مگر امریکی ڈرون پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ آئی بلکہ اس میں شدت آ گئی ۔
کچھ عرصہ قبل حکومت پاکستان نے دہشت گردی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کا عندیہ دیا مگر امریکا نے مذاکرات سے قبل ہی ڈرون حملہ کر کے حکیم اللہ محسود کو ہلاک کرکے حکومت پاکستان کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد حکومت پاکستان شدید دبائو میں آ گئی اور سیاستدانوں کی جانب سے اس کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا جانے لگا۔ مذہبی جماعتوں اور تحریک انصاف نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر شدید احتجاج کیا اور امریکا کے خلاف نفرت کو مزید ہوا دی جس سے عوام کے ایک حلقے میں یہ تاثر ابھرا کہ امریکا پاکستان میں دہشت گردی کے عنصر کو قائم رکھنا چاہتا اور جب بھی حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی کوشش کرتی ہے تو امریکا اسے سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہو جاتا ہے۔ اس حملے کے بعد عوام کے ایک طبقے میں امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا۔
چند روز قبل ہنگو میں ایک مدرسے پر امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما جاں بحق ہو گئے جن کا تعلق اگرچہ افغانستان سے تھا مگر اس حملے نے مذہبی جماعتوں خاص طور پر تحریک انصاف کو یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ کھل کر میدان میں آئیں، تحریک انصاف نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور نیٹو سپلائی عملی طور پر روکنے کے لیے ہفتہ کو پشاور میں دھرنا دے دیا۔ دھرنے کے لیے رنگ روڈ انٹرچینج پر کنٹینر لگا کر سڑک بند کر دی گئی۔ دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ ''کچھ بھی ہو ہر صورت میں نیٹو سپلائی روکیں گے کیونکہ صوبے میں ہماری حکومت ہے اور ہماری اجازت کے بغیر ایک بھی کنٹینر یہاں سے نہیں گزرے گا''، انھوں نے ڈرون حملوں کے خلاف پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ لے کر سپریم کورٹ جانے اور حملے رکنے تک احتجاج کا دائرہ پورے ملک تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
دھرنے میں جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد کے رہنمائوں اور کارکنوں نے بھی شرکت کی۔ عمران خان نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ نیٹو سپلائی روکنے کا فیصلہ کرے' پوری قوم اس جنگ سے ملنے والی ذلت سے جان چھڑانا اور امن چاہتی ہے۔ عمران خان کے اس مطالبے پر وفاقی حکومت نے بھی اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے لاہور میں ویمن میڈیا سینٹر کے تحت تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت امریکا سے ناتا توڑ کر دشمنی مول نہیں لینا چاہتی' پاکستان اس وقت کسی بھی طرح کی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا' ن لیگ نہ تو امریکا سے لڑنا چاہتی ہے اور نہ طالبان ہی سے بلکہ دونوں سے بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا حل چاہتی ہے۔ انھوں نے دھرنے پر تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملوں پر تحریک انصاف کی پالیسی میں تضاد ہے' خیبر پختونخوا کی حکومت امریکا سے ڈالر لے کر خاموش بیٹھی ہے' وہ ڈرونز حملے روکنا چاہتی ہے تو امریکی امداد استعمال نہ کرے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے بھی خیبر پختونخوا حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ امریکی ڈالروں کی امداد مانگنے والوں کی صف میں خیبرپختونخوا حکومت آگے آگے ہے۔ انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ڈرون حملے بند کروا سکتی ہے اور نہ فوج کو انھیں گرانے کا حکم دے سکتی ہے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف ہیں اور وفاقی حکومت جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے اسے بڑی حکمت عملی اور بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہ رہی ہے۔ پاکستان اس وقت شدید مسائل کا شکار ہے اور اگر پاک امریکا تعلقات خراب ہوتے ہیں اور امریکی امداد بند ہو جاتی ہے تو حکومت پاکستان کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا کیونکہ امریکا اس وقت بڑے پیمانے پر پاکستان کی سول اور دفاعی امداد کر رہا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ نیٹو سپلائی پر سیاست چمکائی جا رہی ہے' تمام سیاسی جماعتوں کو حقائق سے آگاہی ہے مگر وہ زیادہ سے زیادہ عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے سیاسی کھیل کھیل رہی ہیں۔ سیاست کے اس کھیل میں عوام ابہام کا شکار ہیں' انھیں اصل صورت حال سے آگاہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف خیبر پختون خوا نے ڈرون حملے بند ہونے تک اتوار سے صوبہ بھر میں نیٹو سپلائی روکنے کا اعلان کر دیا ہے۔ نیٹو سپلائی روکنے کے معاملے پر خیبر پختونخوا حکومت اور مرکزی حکومت کے موقف میں واضح فرق ہے۔ دونوں حکومتوں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے کو جذبات سے حل کرنے کے بجائے حکمت اور تدبیر سے اس طرح حل کریں کہ پاکستانی مفادات کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔