دنیا تبدیلی کے ایک بڑے دہانے پر
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق شام کے مسئلے پر سعودی عرب اور امریکا کے درمیان اختلافات گہرے ہو گئے ہیں...
لاہور:
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق شام کے مسئلے پر سعودی عرب اور امریکا کے درمیان اختلافات گہرے ہو گئے ہیں جب کہ ایران اور امریکا ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں' عرب بادشاہتوں کی اب بھی خواہش ہے کہ بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹا جا سکے اور وہ اس مقصد کے لیے باغیوں کو مالی اور فنی امداد فراہم کر رہی ہیں۔ شامی باغیوں کی پشت پناہی کرنے والوں کو امریکا سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ شامی حکومت کے خاتمے میں مرکزی کردار ادا کرے گا لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ امریکا جو شامی باغیوں کا سب سے بڑا سرپرست تھا بوجوہ پیچھے ہٹ گیا ہے جس سے شامی باغی گروپ اور اس کے حامی شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ بعض عرب ممالک شامی باغیوں کے ذریعے دو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پہلا اسد حکومت کا خاتمہ ، دوسرا القاعدہ سے تعلقات رکھنے والے گروپوں کو کمزور کرنا ہے۔ ایک عرب ملک کے سابق انٹیلی جنس چیف نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ شامی باغیوں کے مرکزی گروہ کی مدد ہو گی تا کہ وہ ان انتہا پسندوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں جو مختلف ملکوں سے شامی حکومت سے لڑنے کے لیے آ رہے ہیں۔ پاکستان کا کردار اس صورت حال میں ابھی تک محدود ہے ان معنوں میں کہ پاکستان کے جنگجو شامی باغی بریگیڈز کو ٹریننگ دیں گے جن کی تعداد پانچ سے دس ہزار ہو گی۔
سعودی عرب کے لیے افسوسناک صورت حال یہ تھی کہ اسے شام کے حوالے سے امریکا کی عدم دلچسپی کا پتہ بھی سی این این کے ذریعے چلا حالانکہ امریکا اور سعودی عرب طویل مدت سے ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔ اب جیسے جیسے حالات تبدیل ہوں گے' بشار حکومت مضبوط ہوتی چلی جائے گی جس سے عرب بادشاہتوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا اور شامی باغیوں میں بھی مایوسی بڑھے گی۔ امریکا نے شام کے محاذ پر پیچھے ہٹ کر سعودی عرب کو بہت مایوس کیا ہے اس کی وجہ امریکا کے ایران سے مذاکرات ہیں جس میں اس کے ساتھ برطانیہ فرانس جرمنی روس اور چین بھی شامل ہیں۔ جس سے ان مذاکرات کی نوعیت اور سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ امریکا کو اندازہ ہو چکا ہے کہ شامی باغیوں کی مدد کے نتیجے میں شام القاعدہ کے کنٹرول میں چلا جائے گا۔ جب کہ مصر میں مرسی حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں صورت حال سنگین ہے۔ عرب بہار کا تجربہ مشرق وسطیٰ میں ناکام ہو چکا ہے۔
اس صورت حال میں امریکا ایران مصالحت اس کے لیے امید کی کرن ہے۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران کا معاملہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس مصالحت کے نتیجے میں اس پر عائد معاشی پابندیوں وغیرہ سمیت عالمی تنہائی کا خاتمہ ہو گا۔ اور اس مصالحت کے نتیجے میں پاکستانی عوام اور اس کی معیشت کو بہت بڑا فائدہ ہو گا کہ ایران گیس پائپ لائن پر امریکا کا اعتراض ختم ہو جائے گا۔ پاکستانی عوام کا یہ جاننا ضروری ہے کہ اس گیس پائپ لائن کی مخالفت امریکا سے بڑھ کر سعودیہ اور بعض مسلم ملک کر رہے ہیں ۔ بات ہو رہی تھی کہ اس مصالحت میں امریکا کا کیا فائدہ ہے۔ امریکا اس مصالحت سے مشرق وسطی میں طاقت کا توازن اور معاشی توازن حاصل کرے گا۔ جس کے نتیجے میں امریکا اپنی افواج کو مشرق وسطیٰ سے نکال کر اپنی ساری توجہ چین اور روس پر مرکوز کر سکے گا تو دوسری طرف القاعدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کے اثر و رسوخ کا اس خطے میں خاتمہ کیا جا سکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران امریکا مصالحت سے دنیا تبدیلی کے ایک بڑے دہانے پر کھڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متوقع امریکا ایران مصالحت کو اسرائیل ڈیل آف دی سنچری کہہ رہا ہے۔
یعنی اس ڈیل کے اثرات ایک صدی تک مرتب ہوتے رہیں گے۔ اسی لیے اسرائیل بھی امریکا ایران مصالحت کا شدید مخالف ہے کیونکہ اس ڈیل کے نتیجے میں اسرائیل کا کردار غیر موثر محدود اور غیر اہم ہو جائے گا جس نے ایرانی خطرے کو اچھال کر اپنے مغربی اتحادیوں سے غیر معمولی اسٹرٹیجک فوائد حاصل کیے ہیں۔ اس صورت حال پر سعودی عرب سمیت تمام عرب بادشاہتیں امریکا سے سخت ناراض ہیں۔ یہاں تک کہ سعودی عرب نے اس صورت حال سے دلبرداشتہ ہو کر نہ صرف سلامتی کونسل کی نشست ٹھکرا دی بلکہ اس ادارے پر شدید تنقید بھی کی۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس مصالحت کے نہ ہونے کے لیے امریکا کا دورہ کیا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی مڈل ایسٹ کے دورے میں شاہ عبداللہ سے ملاقات کر کے سعودیوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی۔ ادھر امریکا اور ایران ڈیل کے نتیجے میں آخر کار عرب بادشاہتوں کے سیاسی اور معاشی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ یہ بادشاہتیں امریکا کو ایران کے خطرے سے ڈرا کر ہی اپنا اقتدار قائم رکھ سکتی ہیں۔
اب تو عرب بادشاہتوں کی بقا امریکا ایران دشمنی میں مضمر ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ایران امریکا مخالف تبدیلی نے مسلم دنیا کو کیا دیا۔ ایران افغانستان عراق پاکستان پر امریکا نے انتقامی طور پر تباہی مسلط کر دی۔ القاعدہ طالبان اور اس کی ذیلی تنظیموں کو تخلیق کیا گیا۔ کئی ملین مسلمان مارے گئے۔ ہزاروں ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور کئی نسلیں تباہ ہو گئیں امریکا ایران دشمنی کا یہ نتیجہ نکلا۔ یہ ٹھیک ہے کہ خود ایران نے سامراجی غلامی سے نجات حاصل کر لی۔ دنیا اور مشرق وسطی میں سامراج کے خلاف مزاحمت بڑھی اور اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا تصور ختم ہو گیا سامراج پر انحصار ختم ہونے اور خود انحصاری کے نتیجے میں ایران نے سائنس اور دوسرے شعبوں میں عالمی سطح پر کامیابی حاصل کی۔ لیکن ان فوائد کے باوجود مجموعی طور پر مسلمانوں کا نقصان بہت بڑا اور ناقابل تلافی ہے۔ اس صورت حال میں ایران نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ صورت حال برقرار رکھنی ہے یا مسلم دنیا کو اس تباہی و بربادی سے نجات دلانا ہے جس کا اسے کئی دہائیوں سے سامنا ہے۔ جس میں فرقہ واریت سرفہرست ہے جس نے معاشی طور پر ان ملکوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ اس صورت حال میں صرف ایران ہی ہے جو کئی دہائیوں سے جاری اس تباہ کن صورت حال کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ امریکا ایران مصالحت کا نتیجہ امن، معاشی بہتری، ترقی اور خوشحالی لے کر آئے گا۔ مسلم ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں تعصبات کا خاتمہ ہو گا اور دوریاں نزدیکیوں میں بدلیں گی۔
طالبان کے خلاف آپریشن کب ہو گا اس کا پتہ جنوری فروری 2014ء میں چلے گا۔
پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے نومبر کا آخر اور دسمبر کا شروع اہم وقت ہے۔
2015ء میں ڈرون حملے بند ہو جائیں گے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق شام کے مسئلے پر سعودی عرب اور امریکا کے درمیان اختلافات گہرے ہو گئے ہیں جب کہ ایران اور امریکا ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں' عرب بادشاہتوں کی اب بھی خواہش ہے کہ بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹا جا سکے اور وہ اس مقصد کے لیے باغیوں کو مالی اور فنی امداد فراہم کر رہی ہیں۔ شامی باغیوں کی پشت پناہی کرنے والوں کو امریکا سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ شامی حکومت کے خاتمے میں مرکزی کردار ادا کرے گا لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ امریکا جو شامی باغیوں کا سب سے بڑا سرپرست تھا بوجوہ پیچھے ہٹ گیا ہے جس سے شامی باغی گروپ اور اس کے حامی شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ بعض عرب ممالک شامی باغیوں کے ذریعے دو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پہلا اسد حکومت کا خاتمہ ، دوسرا القاعدہ سے تعلقات رکھنے والے گروپوں کو کمزور کرنا ہے۔ ایک عرب ملک کے سابق انٹیلی جنس چیف نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ شامی باغیوں کے مرکزی گروہ کی مدد ہو گی تا کہ وہ ان انتہا پسندوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں جو مختلف ملکوں سے شامی حکومت سے لڑنے کے لیے آ رہے ہیں۔ پاکستان کا کردار اس صورت حال میں ابھی تک محدود ہے ان معنوں میں کہ پاکستان کے جنگجو شامی باغی بریگیڈز کو ٹریننگ دیں گے جن کی تعداد پانچ سے دس ہزار ہو گی۔
سعودی عرب کے لیے افسوسناک صورت حال یہ تھی کہ اسے شام کے حوالے سے امریکا کی عدم دلچسپی کا پتہ بھی سی این این کے ذریعے چلا حالانکہ امریکا اور سعودی عرب طویل مدت سے ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔ اب جیسے جیسے حالات تبدیل ہوں گے' بشار حکومت مضبوط ہوتی چلی جائے گی جس سے عرب بادشاہتوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا اور شامی باغیوں میں بھی مایوسی بڑھے گی۔ امریکا نے شام کے محاذ پر پیچھے ہٹ کر سعودی عرب کو بہت مایوس کیا ہے اس کی وجہ امریکا کے ایران سے مذاکرات ہیں جس میں اس کے ساتھ برطانیہ فرانس جرمنی روس اور چین بھی شامل ہیں۔ جس سے ان مذاکرات کی نوعیت اور سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ امریکا کو اندازہ ہو چکا ہے کہ شامی باغیوں کی مدد کے نتیجے میں شام القاعدہ کے کنٹرول میں چلا جائے گا۔ جب کہ مصر میں مرسی حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں صورت حال سنگین ہے۔ عرب بہار کا تجربہ مشرق وسطیٰ میں ناکام ہو چکا ہے۔
اس صورت حال میں امریکا ایران مصالحت اس کے لیے امید کی کرن ہے۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران کا معاملہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس مصالحت کے نتیجے میں اس پر عائد معاشی پابندیوں وغیرہ سمیت عالمی تنہائی کا خاتمہ ہو گا۔ اور اس مصالحت کے نتیجے میں پاکستانی عوام اور اس کی معیشت کو بہت بڑا فائدہ ہو گا کہ ایران گیس پائپ لائن پر امریکا کا اعتراض ختم ہو جائے گا۔ پاکستانی عوام کا یہ جاننا ضروری ہے کہ اس گیس پائپ لائن کی مخالفت امریکا سے بڑھ کر سعودیہ اور بعض مسلم ملک کر رہے ہیں ۔ بات ہو رہی تھی کہ اس مصالحت میں امریکا کا کیا فائدہ ہے۔ امریکا اس مصالحت سے مشرق وسطی میں طاقت کا توازن اور معاشی توازن حاصل کرے گا۔ جس کے نتیجے میں امریکا اپنی افواج کو مشرق وسطیٰ سے نکال کر اپنی ساری توجہ چین اور روس پر مرکوز کر سکے گا تو دوسری طرف القاعدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کے اثر و رسوخ کا اس خطے میں خاتمہ کیا جا سکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران امریکا مصالحت سے دنیا تبدیلی کے ایک بڑے دہانے پر کھڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متوقع امریکا ایران مصالحت کو اسرائیل ڈیل آف دی سنچری کہہ رہا ہے۔
یعنی اس ڈیل کے اثرات ایک صدی تک مرتب ہوتے رہیں گے۔ اسی لیے اسرائیل بھی امریکا ایران مصالحت کا شدید مخالف ہے کیونکہ اس ڈیل کے نتیجے میں اسرائیل کا کردار غیر موثر محدود اور غیر اہم ہو جائے گا جس نے ایرانی خطرے کو اچھال کر اپنے مغربی اتحادیوں سے غیر معمولی اسٹرٹیجک فوائد حاصل کیے ہیں۔ اس صورت حال پر سعودی عرب سمیت تمام عرب بادشاہتیں امریکا سے سخت ناراض ہیں۔ یہاں تک کہ سعودی عرب نے اس صورت حال سے دلبرداشتہ ہو کر نہ صرف سلامتی کونسل کی نشست ٹھکرا دی بلکہ اس ادارے پر شدید تنقید بھی کی۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس مصالحت کے نہ ہونے کے لیے امریکا کا دورہ کیا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی مڈل ایسٹ کے دورے میں شاہ عبداللہ سے ملاقات کر کے سعودیوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی۔ ادھر امریکا اور ایران ڈیل کے نتیجے میں آخر کار عرب بادشاہتوں کے سیاسی اور معاشی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ یہ بادشاہتیں امریکا کو ایران کے خطرے سے ڈرا کر ہی اپنا اقتدار قائم رکھ سکتی ہیں۔
اب تو عرب بادشاہتوں کی بقا امریکا ایران دشمنی میں مضمر ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ایران امریکا مخالف تبدیلی نے مسلم دنیا کو کیا دیا۔ ایران افغانستان عراق پاکستان پر امریکا نے انتقامی طور پر تباہی مسلط کر دی۔ القاعدہ طالبان اور اس کی ذیلی تنظیموں کو تخلیق کیا گیا۔ کئی ملین مسلمان مارے گئے۔ ہزاروں ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور کئی نسلیں تباہ ہو گئیں امریکا ایران دشمنی کا یہ نتیجہ نکلا۔ یہ ٹھیک ہے کہ خود ایران نے سامراجی غلامی سے نجات حاصل کر لی۔ دنیا اور مشرق وسطی میں سامراج کے خلاف مزاحمت بڑھی اور اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا تصور ختم ہو گیا سامراج پر انحصار ختم ہونے اور خود انحصاری کے نتیجے میں ایران نے سائنس اور دوسرے شعبوں میں عالمی سطح پر کامیابی حاصل کی۔ لیکن ان فوائد کے باوجود مجموعی طور پر مسلمانوں کا نقصان بہت بڑا اور ناقابل تلافی ہے۔ اس صورت حال میں ایران نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ صورت حال برقرار رکھنی ہے یا مسلم دنیا کو اس تباہی و بربادی سے نجات دلانا ہے جس کا اسے کئی دہائیوں سے سامنا ہے۔ جس میں فرقہ واریت سرفہرست ہے جس نے معاشی طور پر ان ملکوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ اس صورت حال میں صرف ایران ہی ہے جو کئی دہائیوں سے جاری اس تباہ کن صورت حال کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ امریکا ایران مصالحت کا نتیجہ امن، معاشی بہتری، ترقی اور خوشحالی لے کر آئے گا۔ مسلم ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں تعصبات کا خاتمہ ہو گا اور دوریاں نزدیکیوں میں بدلیں گی۔
طالبان کے خلاف آپریشن کب ہو گا اس کا پتہ جنوری فروری 2014ء میں چلے گا۔
پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے نومبر کا آخر اور دسمبر کا شروع اہم وقت ہے۔
2015ء میں ڈرون حملے بند ہو جائیں گے۔