لاہور میں چیلوں کی بڑھتی تعداد کے باعث چھوٹے پرندوں کی نسل معدوم ہونے کا خطرہ
لاہورمیں چیلوں کی تعدادبڑھنے سے کئی چھوٹے پرندوں پرمنفی اثرپڑا ہے
KARACHI:
پنجاب کے دارالحکومت لاہورکی مختلف شاہراؤں پر بکنے والے چیل گوشت سے ناصرف شہر میں چیلوں کی بہتات ہوتی جارہی ہے بلکہ صدقے کے گوشت نے ان شکاری پرندوں کو خطرناک بھی بنادیا ہے اور گوشت کے حصول کے لئے یہ راہ چلتے انسانوں پر بھی جھپٹ پڑتی ہیں، چیلوں کی بڑھتی تعدادکی وجہ سے کئی چھوٹے پرندوں کی نسلیں بھی معدوم ہوتی جارہی ہیں۔
لاہورکینال،لاہوررنگ روڈ محمود بوٹی اور راوی پل پرسفرکریں توچیلوں کی غول دکھائی دیتے ہیں۔ یہ چیلیں یہاں پھینکے جانیوالے صدقے کے گوشت جسے ''چیل گوشت'' بھی کہا جاتا ہے اس کے حصول کے لئے یہاں جمع رہتی ہیں۔ صبح کے اوقات میں کینال روڈ پر جلو اور ہربنس پورہ کے درمیانی علاقے میں درجنوں افراد چیل گوشت بیچتے نظرآتے ہیں۔ صبح کے اوقات میں گھروں سے دفاتراورکام کاج کے لئے جانیوالے چیل گوشت کا صدقہ دیتے ہیں اور گوشت بیچنے والے یہ گوشت نہر میں پھینک دیتے ہیں جنہیں کھانے کے لئے چیلیں جھپٹتی اورآپس میں لڑتی ہیں،بعض اوقات راہ چلتے شہریوں اورموٹرسائیکل سواروں پربھی جھپٹ پڑتی اورگاڑیوں کے شیشوں سے ٹکڑاجاتی ہیں۔
ضلعی حکومت اورٹریفک پولیس کی طرف سے شہرکے اندرچیل گوشت بیچنے والوں کیخلاف کارروائیوں کے بعد ان لوگوں نے شہر سے باہر جلو،ہربنس پورہ،مناواں،راوی پل پرڈیرے لگارکھے ہیں۔ اس گوشت کی وجہ سے سینکڑوں چیلیں یہاں جمع رہتی ہیں اورلاہورکی فضاؤں میں ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
ڈبلیوڈبلیوایف پاکستان کے ڈائریکٹرجنرل حماد نقی نے بتایا کہ چیل ایک شکاری پرندہ ہے، پہلے ان کی جگہ ویرانوں اور بیابانوں میں ہوا کرتی تھی مگر جب شہروں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگنا شروع ہوئے توانہوں نے آہستہ آہستہ شہروں کا رخ کرنا شروع کردیا۔ جہاں انہیں محنت کئے بغیر صدقے کا گوشت کھانے کومل جاتا ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ جانور کی نفسیات میں یہ شامل ہے کہ جہاں انھیں چیزیں آسانی مل جاتی ہیں وہ وہیں کا رخ کرتے ہیں۔ لاہورمیں محمود بوٹی کے قریب سالڈاینڈویسٹ مینمجنٹ کی ڈپمنگ سائٹ ان کا سب سے بڑامسکن ہے جہاں ہزاروں چیلیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لاہورمیں چیلوں کی تعدادبڑھنے سے کئی چھوٹے پرندوں پرمنفی اثرپڑا ہے، چیل چھوٹے پرندوں کو گھونسلہ نہیں بنانے دیتی جبکہ ان کے انڈے بھی کھاجاتی ہیں۔ اگروہ زیادہ بھوکی ہوں توکئی چھوٹے پرندوں کو شکاربھی کرلیتی ہیں۔ چیلوں کی تعداد کا بڑھنا ناصرف ماحول کے لئے خطرناک ہے بلکہ ان کی تعداد بڑھنے سے چڑیا، طوطے، مینا،لالیاں، کوئل، ہد ہد اور دوسرے نازک پرندے نایاب ہوتے جارہے ہیں۔
پنجاب وائلدلائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر چوہدری شفقت علی نے ایکسپریس کوبتایا کہ بغیرشکار، آسانی سے ملنے والے صدقے کے گوشت نے چیلوں کے مزاج کوبدل دیاہے اوران میں جارحیت پیدا ہوگئی ہے۔ ان کی طبیعت میں غصیلاپن پیداہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہ اکثر شہریوں پرحملے بھی کرتی ہیں۔
؎انسانوں نے صدقے کے نام پر گوشت ڈال کر ان چیلوں کو خوراک کے حصول کے قدرتی طریقہ کار سے دور کر دیا ہے۔ اس لیے اب یہ خود خوراک تلاش کرنے کی بجائے انسانوں کی پھینکی گئی خوراک کھانا زیادہ پسند کرتی ہیں۔ لاہورمیں جن مقامات پرصدقے کا گوشت فروخت ہوتا ہے وہاں یہ چیلیں جمع رہتی ہیں۔ جیسے ہی کوئی موٹر سائیکل یا گاڑی گوشت پھینکنے کے لیے رکتی ہے، چیلیں اڑتی ہوئی اس کی جانب لپکتی ہیں اور پھر فضا میں پھینکے جانے والے گوشت کو اچکنا شروع کر دیتی ہیں۔
پنجاب کے دارالحکومت لاہورکی مختلف شاہراؤں پر بکنے والے چیل گوشت سے ناصرف شہر میں چیلوں کی بہتات ہوتی جارہی ہے بلکہ صدقے کے گوشت نے ان شکاری پرندوں کو خطرناک بھی بنادیا ہے اور گوشت کے حصول کے لئے یہ راہ چلتے انسانوں پر بھی جھپٹ پڑتی ہیں، چیلوں کی بڑھتی تعدادکی وجہ سے کئی چھوٹے پرندوں کی نسلیں بھی معدوم ہوتی جارہی ہیں۔
لاہورکینال،لاہوررنگ روڈ محمود بوٹی اور راوی پل پرسفرکریں توچیلوں کی غول دکھائی دیتے ہیں۔ یہ چیلیں یہاں پھینکے جانیوالے صدقے کے گوشت جسے ''چیل گوشت'' بھی کہا جاتا ہے اس کے حصول کے لئے یہاں جمع رہتی ہیں۔ صبح کے اوقات میں کینال روڈ پر جلو اور ہربنس پورہ کے درمیانی علاقے میں درجنوں افراد چیل گوشت بیچتے نظرآتے ہیں۔ صبح کے اوقات میں گھروں سے دفاتراورکام کاج کے لئے جانیوالے چیل گوشت کا صدقہ دیتے ہیں اور گوشت بیچنے والے یہ گوشت نہر میں پھینک دیتے ہیں جنہیں کھانے کے لئے چیلیں جھپٹتی اورآپس میں لڑتی ہیں،بعض اوقات راہ چلتے شہریوں اورموٹرسائیکل سواروں پربھی جھپٹ پڑتی اورگاڑیوں کے شیشوں سے ٹکڑاجاتی ہیں۔
ضلعی حکومت اورٹریفک پولیس کی طرف سے شہرکے اندرچیل گوشت بیچنے والوں کیخلاف کارروائیوں کے بعد ان لوگوں نے شہر سے باہر جلو،ہربنس پورہ،مناواں،راوی پل پرڈیرے لگارکھے ہیں۔ اس گوشت کی وجہ سے سینکڑوں چیلیں یہاں جمع رہتی ہیں اورلاہورکی فضاؤں میں ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
ڈبلیوڈبلیوایف پاکستان کے ڈائریکٹرجنرل حماد نقی نے بتایا کہ چیل ایک شکاری پرندہ ہے، پہلے ان کی جگہ ویرانوں اور بیابانوں میں ہوا کرتی تھی مگر جب شہروں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگنا شروع ہوئے توانہوں نے آہستہ آہستہ شہروں کا رخ کرنا شروع کردیا۔ جہاں انہیں محنت کئے بغیر صدقے کا گوشت کھانے کومل جاتا ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ جانور کی نفسیات میں یہ شامل ہے کہ جہاں انھیں چیزیں آسانی مل جاتی ہیں وہ وہیں کا رخ کرتے ہیں۔ لاہورمیں محمود بوٹی کے قریب سالڈاینڈویسٹ مینمجنٹ کی ڈپمنگ سائٹ ان کا سب سے بڑامسکن ہے جہاں ہزاروں چیلیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لاہورمیں چیلوں کی تعدادبڑھنے سے کئی چھوٹے پرندوں پرمنفی اثرپڑا ہے، چیل چھوٹے پرندوں کو گھونسلہ نہیں بنانے دیتی جبکہ ان کے انڈے بھی کھاجاتی ہیں۔ اگروہ زیادہ بھوکی ہوں توکئی چھوٹے پرندوں کو شکاربھی کرلیتی ہیں۔ چیلوں کی تعداد کا بڑھنا ناصرف ماحول کے لئے خطرناک ہے بلکہ ان کی تعداد بڑھنے سے چڑیا، طوطے، مینا،لالیاں، کوئل، ہد ہد اور دوسرے نازک پرندے نایاب ہوتے جارہے ہیں۔
پنجاب وائلدلائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر چوہدری شفقت علی نے ایکسپریس کوبتایا کہ بغیرشکار، آسانی سے ملنے والے صدقے کے گوشت نے چیلوں کے مزاج کوبدل دیاہے اوران میں جارحیت پیدا ہوگئی ہے۔ ان کی طبیعت میں غصیلاپن پیداہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہ اکثر شہریوں پرحملے بھی کرتی ہیں۔
؎انسانوں نے صدقے کے نام پر گوشت ڈال کر ان چیلوں کو خوراک کے حصول کے قدرتی طریقہ کار سے دور کر دیا ہے۔ اس لیے اب یہ خود خوراک تلاش کرنے کی بجائے انسانوں کی پھینکی گئی خوراک کھانا زیادہ پسند کرتی ہیں۔ لاہورمیں جن مقامات پرصدقے کا گوشت فروخت ہوتا ہے وہاں یہ چیلیں جمع رہتی ہیں۔ جیسے ہی کوئی موٹر سائیکل یا گاڑی گوشت پھینکنے کے لیے رکتی ہے، چیلیں اڑتی ہوئی اس کی جانب لپکتی ہیں اور پھر فضا میں پھینکے جانے والے گوشت کو اچکنا شروع کر دیتی ہیں۔