بہت بڑا اعتراف
اب ہماری آواز نگار خانے میں کسی طوطی کی طرح نہیں رہی، وہ جو سر پیٹ کے ہم کہتے تھے اس کی باز گشت...
اب ہماری آواز نگار خانے میں کسی طوطی کی طرح نہیں رہی، وہ جو سر پیٹ کے ہم کہتے تھے اس کی باز گشت اب سنی جارہی ہے، ہم جن شعلوں کے رجز اپنا پتا بھیجتے تھے وہ بھٹکے ہوئے مسافر کو اندھیروں کے فصیلوں کے ادھر بالآخر نظر آہی گیا۔ وہ بھٹکا ہوا مسافر کوئی اور نہیں بلکہ میرا پیارا پاکستان ہے۔ میرے لیے بڑے سال کے بعد یہ بڑی خبر سے کم نہ تھی جو میں نے سنی اور دیکھی۔ جب اس ملک کے وزیر اطلاعات پرویز رشید پچھلے جمعے کو راولپنڈی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فساد پر اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے آج جو کچھ ہورہا ہے وہ ریاست کے بوئے ہوئے بیج کا ثمر ہے۔ یہ ایک بہت بڑا اعتراف تو تھا مگر تھا آدھا اعتراف۔ اور وہ بھی ریاست کے خرچے پر یا اسٹیبلشمنٹ کے خرچے پر۔ پورا اعتراف یہ تب ہوتا، جب تمام سیاسی قوتوں کا بھی ذکر کرتے۔ بتاتے کہ کون تھا وہ جو ایسے انتہا پرست قوتوں کے مسلح دستوں سے سلامی لیتا تھا؟ کون تھا وہ جو ایسی سوچ رکھنے والوں سے الیکشنی اتحاد بناتا تھا؟ اس کی تفصیل میں اگر چلے گئے تو ہم موضوع کے بنیادی مقصد سے ہٹ جائیں گے۔ دیر آید درست آید تو بہرحال پرویز رشید کے اس واضح سچ بولنے پر کہا جائے گا۔ انھوں نے مرض کی وجہ تو پائی اب مرض کی دوا بھی مل جائے گی۔ میاں صاحب کی پارٹی کے بہت ہی معقول شخص ہیں۔ اپنے ذاتی حلقوں میں سیکولر سوچ رکھنے والی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔
ریاستی سطح پر اس اعتراف کا معنی یہی ہے کہ اب ریاست نے یہ کام چھوڑ دیا مگر ریاست کے اس کام کے چھوڑنے کی وجہ سے جو لاکھوں لوگوں کی بے روزگاری ہوگی، اس کا کیا ہوگا؟ ہم نے جو مجموعی طور پر ایک محب وطنیت کا اسکرپٹ لکھا تھا، جس میں ہمارے قائداعظم بے معنی ہوگئے تھے اور مرد مومن، مرد حق ضیاالحق بامعنی، وہ اب کھوٹے سکے کی طرح ہوگیا ہے، اب کوئی سکہ رائج الوقت نہیں رہا۔ لیکن جن کے پاس ایسے کھوٹے سکے رہ گئے ہیں، وہ کیا کریں؟ وہ پرویز رشید سے کچھ سیکھیں اور جلدی سے ن، م راشد کی اس سطر ''فرشتو نئی حمد گاؤ'' کی طرح نیا اسکرپٹ لکھیں اور بدلتے ہوئے موسم میں بدلتی بیان بازیوں کی بانسری بجائیں، اور اگر نہیں تو پھر کافکا کے کوے کی طرح جو کسی زمانے میں کشادگی سے گھومتا پھرتا تھا اب بے چارہ تنگ گلیوں کی نذر ہوگیا ہو، جیسے یہ بھی ''شہید'' لفظ کی تشریح پر کتنے سال پیچھے رہ گئے اور اگر پرویز رشید جیسے دو چار اعتراف اور سامنے آئے تو معاملہ ان کے لیے اور پیچیدہ ہوجائے گا۔
کل جو فوج یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہم کورس ہوکے یہ راگ الاپتے تھے آج بے وفا اسٹیبلشمنٹ و فوج ان کو اکیلا چھوڑ گئی۔ کل جو پارٹیاں محب وطن نہیں کہلاتی تھیں آج اسٹیبلشمنٹ و ریاست ان کے نزدیک نظر آتی ہے۔ یا تو پھر محب وطنیت کی تشریح میں تبدیلی آئی ہے یا پھر طالبان اور ان کے نظریاتی دوست محب وطن ہیں اور باقی سارے غدار۔ جس طرح ملکوں کی اپنی کہانی Narrative ہوتی ہے اسی طرح سیاسی پارٹیوں کی بھی اپنی Narrative ہوتی ہے۔ اکثر پارٹیوں کی Narrative ریاستی افسانےNarrative کا تسلسل ہوتی ہے اور اکثر پارٹیوں کی نہیں ہوتی اور ایسی ریاست جس کے اندر چور دروازوں سے اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے کا رواج ہو اور عوام کے حق حکمرانی پر ہمیشہ ڈاکہ زنی کی ہوئی ہو، وہاں بے چاری عوامی پارٹیاں و دانشور نقصان میں رہتے ہیں اور چونکہ یہی ان کی حرکیات Dynamics ہوتی ہے اور یہی ان کا اصول، تو وہ اس گھاٹے کے سودے کے سوا کچھ کر بھی نہیں سکتے۔
ہمارے فیض بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھے جو ایسے گلشن کے کاروبار کرتے تھے جس میں نقصان ہونا پہلے سے ہی مشروط تھا۔ وہ جنھیں غدار کا لقب ہم نے بڑی فراخدلی سے دیا وہ لقب بے معنی ہوگیا، جس طرح ان کے حکیم اﷲ محسود کو دیا ہوا ''شہید'' کا لقب کوئی نہیں مانتا۔ وہ جو حبیب جالب تھے، جو کہتے تھے ''اس صبح بے نور کو، اس دستور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا'' ایسے بہت تھے جن کے لہو سے یہ ارض وطن پھر بھی شاداب رہا اور روشنی کا سراغ جو یہ ریاست اب پانے کو چلی ہے وہ یقیناً اسے نصیب ہوگا۔ نہ یہ ملک اب سوویت یونین بنے گا، نہ شام کی طرح بازار میں ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھ جائے گا۔ ہر چیز جو سامنے نظر آتی ہے جسے ہم ''سپر اسٹرکچر'' بھی کہہ سکتے ہیں وہ بذات خود کسی بنیادی حقیقت کا ردعمل ہوتی ہے اور اس بنیادی حقیقت کو ہم بیسک اسٹرکچر بھی کہہ سکتے ہیں یا جس طرح فیض کہتے ہیں:
یہ سخن جو ہم نے رقم کیے
یہ ورق ہیں سب تیری یاد کے
کوئی لمحہ صبح وصال کا
کوئی شام ہجر کی مدتیں
یہ جو آج پرویز رشید کہتے ہیں، اسی بیسک اسٹرکچر کی بات کرتے ہیں اور وہ جو جناح نے گیارہ اگست کو کہا تھا یہ سزا ہے اس Roadmap سے انحراف کی جو ہم پا رہے ہیں۔ پاکستان مذہب کے نام پر نہیں بلکہ مسلمانوں سے کانگریس کی قیادت کا ناروا سلوک 1937 میں بنائی ہوئی کانگریس کی حکومت نے جو سلوک روا کیا تھا اس کی وجہ سے مسلمانوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے بنا تھا۔ اب تو اس ملک میں سب سے پریشان کن وہ دن ہے جو اکثر بڑی خبر ہمارے لیے لاتا ہے کہ ایک مسلمان نے دوسرے کو کافر قرار دے کر قتل کردیا۔ وہ اس لیے بھی کہ خود ریاست مذہب سے علیحدہ ہوکر اپنے شہریوں کی ماں بن کر ان کو ایک آنکھ سے نہیں دیکھتی۔ ریاست بنیادی طور پر اس کے شہریوں کے درمیان ریفری ہوتی ہے اور اگر نہیں ہوگی تو پھر کسی نہ کسی مکتبہ فکر کی فریق ہوگی اور یہ بات کسی اور نے نہیں بلکہ جسٹس منیر نے 1952 میں لاہور کے اندر ہوتے ہوئے فرقہ ورانہ فسادات کی وجوہات جاننے کے لیے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ میں کہی تھی۔
اب جب پولیو کے خلاف بچوں کو ڈراپ پلانا غیر اسلامی کہنے والا شہید قرار دیا جائے، لڑکیوں کے اسکول تباہ کرنا شریعتاً صحیح مانا جائے۔
کنفیوشس الفاظ کے استعمال پر بہت فکر انگیز بات کہہ گئے ہیں کہ ہر لفظ کی اپنی تاریخ ہوتی ہے، اس کے معنی ہوتے ہیں، حوالہ ہوتا ہے اور بدلتے حالات میں وہ اپنے اور بھی معنی تبدیل کرسکتا ہے۔ ہم نے ہندوستان دشمنی میں سیکولر لفظ کے معنی لادینیت قرار دے دیے۔ ہمیں اس لفظ کے نہ معنی پتہ ہیں، نہ تاریخ اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ دنیا میں کس طرح اس نے اپنی حیثیت منوائی ہے بالخصوص آئین کے بنیادی ڈھانچے Basic Structure تھیوری میں۔ مگر یہ راستے سمجھنے کے بعد اور کھلیں گے جب پرویز رشید کی طرح اور اعترافات آنا شروع ہوجائیں گے۔
ریاستی سطح پر اس اعتراف کا معنی یہی ہے کہ اب ریاست نے یہ کام چھوڑ دیا مگر ریاست کے اس کام کے چھوڑنے کی وجہ سے جو لاکھوں لوگوں کی بے روزگاری ہوگی، اس کا کیا ہوگا؟ ہم نے جو مجموعی طور پر ایک محب وطنیت کا اسکرپٹ لکھا تھا، جس میں ہمارے قائداعظم بے معنی ہوگئے تھے اور مرد مومن، مرد حق ضیاالحق بامعنی، وہ اب کھوٹے سکے کی طرح ہوگیا ہے، اب کوئی سکہ رائج الوقت نہیں رہا۔ لیکن جن کے پاس ایسے کھوٹے سکے رہ گئے ہیں، وہ کیا کریں؟ وہ پرویز رشید سے کچھ سیکھیں اور جلدی سے ن، م راشد کی اس سطر ''فرشتو نئی حمد گاؤ'' کی طرح نیا اسکرپٹ لکھیں اور بدلتے ہوئے موسم میں بدلتی بیان بازیوں کی بانسری بجائیں، اور اگر نہیں تو پھر کافکا کے کوے کی طرح جو کسی زمانے میں کشادگی سے گھومتا پھرتا تھا اب بے چارہ تنگ گلیوں کی نذر ہوگیا ہو، جیسے یہ بھی ''شہید'' لفظ کی تشریح پر کتنے سال پیچھے رہ گئے اور اگر پرویز رشید جیسے دو چار اعتراف اور سامنے آئے تو معاملہ ان کے لیے اور پیچیدہ ہوجائے گا۔
کل جو فوج یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہم کورس ہوکے یہ راگ الاپتے تھے آج بے وفا اسٹیبلشمنٹ و فوج ان کو اکیلا چھوڑ گئی۔ کل جو پارٹیاں محب وطن نہیں کہلاتی تھیں آج اسٹیبلشمنٹ و ریاست ان کے نزدیک نظر آتی ہے۔ یا تو پھر محب وطنیت کی تشریح میں تبدیلی آئی ہے یا پھر طالبان اور ان کے نظریاتی دوست محب وطن ہیں اور باقی سارے غدار۔ جس طرح ملکوں کی اپنی کہانی Narrative ہوتی ہے اسی طرح سیاسی پارٹیوں کی بھی اپنی Narrative ہوتی ہے۔ اکثر پارٹیوں کی Narrative ریاستی افسانےNarrative کا تسلسل ہوتی ہے اور اکثر پارٹیوں کی نہیں ہوتی اور ایسی ریاست جس کے اندر چور دروازوں سے اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے کا رواج ہو اور عوام کے حق حکمرانی پر ہمیشہ ڈاکہ زنی کی ہوئی ہو، وہاں بے چاری عوامی پارٹیاں و دانشور نقصان میں رہتے ہیں اور چونکہ یہی ان کی حرکیات Dynamics ہوتی ہے اور یہی ان کا اصول، تو وہ اس گھاٹے کے سودے کے سوا کچھ کر بھی نہیں سکتے۔
ہمارے فیض بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھے جو ایسے گلشن کے کاروبار کرتے تھے جس میں نقصان ہونا پہلے سے ہی مشروط تھا۔ وہ جنھیں غدار کا لقب ہم نے بڑی فراخدلی سے دیا وہ لقب بے معنی ہوگیا، جس طرح ان کے حکیم اﷲ محسود کو دیا ہوا ''شہید'' کا لقب کوئی نہیں مانتا۔ وہ جو حبیب جالب تھے، جو کہتے تھے ''اس صبح بے نور کو، اس دستور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا'' ایسے بہت تھے جن کے لہو سے یہ ارض وطن پھر بھی شاداب رہا اور روشنی کا سراغ جو یہ ریاست اب پانے کو چلی ہے وہ یقیناً اسے نصیب ہوگا۔ نہ یہ ملک اب سوویت یونین بنے گا، نہ شام کی طرح بازار میں ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھ جائے گا۔ ہر چیز جو سامنے نظر آتی ہے جسے ہم ''سپر اسٹرکچر'' بھی کہہ سکتے ہیں وہ بذات خود کسی بنیادی حقیقت کا ردعمل ہوتی ہے اور اس بنیادی حقیقت کو ہم بیسک اسٹرکچر بھی کہہ سکتے ہیں یا جس طرح فیض کہتے ہیں:
یہ سخن جو ہم نے رقم کیے
یہ ورق ہیں سب تیری یاد کے
کوئی لمحہ صبح وصال کا
کوئی شام ہجر کی مدتیں
یہ جو آج پرویز رشید کہتے ہیں، اسی بیسک اسٹرکچر کی بات کرتے ہیں اور وہ جو جناح نے گیارہ اگست کو کہا تھا یہ سزا ہے اس Roadmap سے انحراف کی جو ہم پا رہے ہیں۔ پاکستان مذہب کے نام پر نہیں بلکہ مسلمانوں سے کانگریس کی قیادت کا ناروا سلوک 1937 میں بنائی ہوئی کانگریس کی حکومت نے جو سلوک روا کیا تھا اس کی وجہ سے مسلمانوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے بنا تھا۔ اب تو اس ملک میں سب سے پریشان کن وہ دن ہے جو اکثر بڑی خبر ہمارے لیے لاتا ہے کہ ایک مسلمان نے دوسرے کو کافر قرار دے کر قتل کردیا۔ وہ اس لیے بھی کہ خود ریاست مذہب سے علیحدہ ہوکر اپنے شہریوں کی ماں بن کر ان کو ایک آنکھ سے نہیں دیکھتی۔ ریاست بنیادی طور پر اس کے شہریوں کے درمیان ریفری ہوتی ہے اور اگر نہیں ہوگی تو پھر کسی نہ کسی مکتبہ فکر کی فریق ہوگی اور یہ بات کسی اور نے نہیں بلکہ جسٹس منیر نے 1952 میں لاہور کے اندر ہوتے ہوئے فرقہ ورانہ فسادات کی وجوہات جاننے کے لیے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ میں کہی تھی۔
اب جب پولیو کے خلاف بچوں کو ڈراپ پلانا غیر اسلامی کہنے والا شہید قرار دیا جائے، لڑکیوں کے اسکول تباہ کرنا شریعتاً صحیح مانا جائے۔
کنفیوشس الفاظ کے استعمال پر بہت فکر انگیز بات کہہ گئے ہیں کہ ہر لفظ کی اپنی تاریخ ہوتی ہے، اس کے معنی ہوتے ہیں، حوالہ ہوتا ہے اور بدلتے حالات میں وہ اپنے اور بھی معنی تبدیل کرسکتا ہے۔ ہم نے ہندوستان دشمنی میں سیکولر لفظ کے معنی لادینیت قرار دے دیے۔ ہمیں اس لفظ کے نہ معنی پتہ ہیں، نہ تاریخ اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ دنیا میں کس طرح اس نے اپنی حیثیت منوائی ہے بالخصوص آئین کے بنیادی ڈھانچے Basic Structure تھیوری میں۔ مگر یہ راستے سمجھنے کے بعد اور کھلیں گے جب پرویز رشید کی طرح اور اعترافات آنا شروع ہوجائیں گے۔