نامعلوم کی گردان

ملکی حالات دن بدن بگڑتے جارہے ہیں۔ لیکن ان حالات پر قابو پانے کے لیے کوئی حکمت عملی اپنائی نہیں جارہی ہے۔

ملکی حالات دن بدن بگڑتے جارہے ہیں۔ لیکن ان حالات پر قابو پانے کے لیے کوئی حکمت عملی اپنائی نہیں جارہی ہے۔ دہشت گردی کا عفریت حد درجہ تک بڑھ گیا ہے۔ آئے دن کہیں نہ کہیں سے قتل و غارت گری کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ روزانہ بے گناہوں کا خون بہہ رہا ہے جس کی مایوس کن مثال کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں قتل ہورہے ہیں۔ بعض اوقات تو 10سے 15 افراد کی ٹارگٹڈ کلنگ کی خبریں آتی رہتی ہیں مگر نہ حکومت کی رٹ نظر آرہی ہے اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والوں کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہورہی ہے۔ سندھ حکومت کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اتنی سنگین وارداتیں ہوجاتی ہیں لیکن جائے وقوعہ پر نہ کوئی وزیر نہ کوئی مشیر، نہ کوئی قانون نافذ کرنے والوں کا اعلیٰ عہدیدار نظر نہیں آتا، محض پولیس اہلکاروں پر بھروسہ کرکے اور ان کی تحقیقاتی، تفتیشی رپورٹس کو سچ مان لیا جاتاہے۔ کوئی ذمے دار حکومتی نمائندہ تک حقیقی صورت حال معلوم کرنے نہیں آتا۔

بے گناہوں کے قاتل واردات کرتے ہیں اور با آسانی فرار ہوجاتے ہیں۔ زخمی سڑکوں پر تڑپتے رہتے ہیں انھیں کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے نہ طبی امداد کے لیے اسپتالوں میں پہنچایا جاتاہے۔ اگر اتفاقاً کوئی بھولا بھٹکا سماجی کارکن کا وہاں سے گزر ہوجائے تو وہ زخمیوں اور لاشوں کو اسپتال پہنچانے کا انتظام کرتاہے۔ اس کے بعد کیا ہوتاہے وہ صورت حال بیان کرنا آسان نہیں۔ زخمیوں اور لاشوں کو ایمرجنسی وارڈ میں لاوارثوں کی طرح پڑا رہنے دیا جاتاہے۔ اگر کسی کے جانبر ہونے کی امید بھی ہوتی ہے تو ایمرجنسی وارڈ کے عملے کی لاپرواہی یا عدم توجہی کی وجہ سے دم توڑ جاتاہے۔ دہشت گرد بے گناہوں کو اغوا کرلیتے ہیں اور پھر انھیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیتے ہیں اور بعد ازاں لاشیں سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں۔ سماجی خدمت کے اداروں کے رضاکار ان لاوارث لاشوں کو کسی ایک ادارے کے سرد خانوں یا مردہ خانوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ مرنے والے کو ان کے اہل خاندان ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان سرد خانوں اور مردہ خانوں میں پہنچ جاتے ہیں اور اپنے اپنے وارثوں کی شناخت کرکے لے جاتے ہیں۔

کیا یہ انسانیت کے ساتھ ظلم اور بربریت نہیں؟ لیکن اس بے حسی، لاپرواہی کے ذمے داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ بس ایک حربہ استعمال کرتے ہیں کہ ''نامعلوم'' شخص کی لاش ایدھی کے سرد خانے سے ملنے کی اطلاع مشتہر کردیتے ہیں۔ ''نامعلوم'' نہ جانے یہ اصطلاح کب تک استعمال ہوتی رہے گی کسی کو نہیں معلوم۔ سب سے آسان طریقہ ذمے داری سے سبکدوش ہونے کا ہے۔ ''نامعلوم'' کا استعمال اپنالیا گیا ہے۔ ایسے حربے استعمال کرنے والے ذمے داروں سے میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا انسانیت کی خدمت کا یہی اصول و قانون ہے کہ ہر واردات اور ہر واقعے میں اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے ''نامعلوم'' کی گردان سے فائدہ اٹھایا جائے؟ یہی ''نامعلوم'' کی گردان سے دہشت گرد اور دیگر جرائم پیشہ افراد کس قدر فائدہ اٹھارہے ہیں اس کا احساس کسی کے دل و دماغ میں نہیں ہے۔ ''نامعلوم'' کے ساتھ ''بے حسی'' کا مظاہرہ کرانا کہاں کی عقل مندی ہے، کہاں کا قانون ہے، کہاں کا اصول ہے۔


عوام کیا کرے عوام کی آواز سنتا کون ہے۔ عوام کو تو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے لیکن کوئی ذمے دار اس کا نوٹس نہیں لیتا۔ کیا ان ذمے داروں کو نہیں معلوم کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے تو پھر کیوں نہیں، قاتلوں کا سراغ نہیں لگایا جاتا اور کیوں نہیں انھیں گرفتار کرکے قانونی تقاضے پورے کیوں نہیں کیے جاتے۔ چونکہ عوام پہلے ہی مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور لا قانونیت جیسے گمبھیر مسائل تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ان مسائل سے نمٹنے کے لیے وسائل نہیں ہیں تو آپ ان سے کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور سڑکوں پر نکل آئیں۔ اگر وہ سڑکوں پر بادل نخواستہ آبھی جاتے ہیں تو نقصان ان ہی کا ہوتاہے۔ قانون نافذ کرنے والے ان بے بس عوام کی داد رسی کرنے کے بجائے ان پر لاٹھیاں برساتے ہیں، گیس شیلنگ ہوتی ہے، کینن واٹر استعمال ہوتاہے۔ کیا ایسی صورت حال سے نہتے عوام مقابلہ کرسکتے ہیں ۔ بالکل نہیں، اس پر ظلم یہ ہے کہ ان ہی کو مار پڑتی ہے، ان ہی پر جھوٹے مقدمات بنتے ہیں، غیر قانونی گرفتاریاں ہوتی ہیں، ان کو جیلوں میں دھکیل دیا جاتاہے۔

دیکھا آپ نے سڑکوں پر آنے والے عوام پر کیسا انسانیت سوز سلوک کیا جاتاہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ جیلوں میں ان پر اتنا تشدد کیاجاتاہے کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے اعتراف جرم کرلیتے ہیں یا پھر موت کو گلے لگالیتے ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے ہی اقتدار تک پہنچنے والے ان تمام انسانیت سوز کارروائیوں کی طرف دیکھنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ ان کی آنکھوں پر پردے پڑجاتے ہیں، وہ بھی مظلوم عوام کی داد رسی کو نہیں آتے اور جو خوش قسمتی سے آبھی جاتے ہیں تو ان کی آواز کو بھی طاقت کے بل بوتے پر دبایا جاتاہے۔ دیکھا آپ نے یہ ہے بے بس عوام کی حالت زار جس پر خون کے آنسو ٹپکتے ہیں۔ ان ظالموں کو کیا یہ نہیں معلوم کہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتاہے تو مٹ جاتاہے۔ پھر بے زبان کو بھی زبان مل جاتی ہے، پھر کیا نتیجہ برآمد ہوتاہے وہ سب جانتے ہیں کہ تنگ آمد بجنگ آمد۔

پھر عوام کے پاس جارحانہ اقدام اٹھانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا اور جو بھی راستہ وہ اختیار کرتے ہیں، وہی ''آواز خلق خدا ہوتی ہے'' وہی نقارہ خدا کہلاتی ہے، جس کا اشارہ قدرت کی جانب سے ملتاہے۔ یہی نقارہ خدا عوام کا حوصلہ بڑھا دیتا ہے اور حکمرانوں پر غضب ڈھاتاہے۔ شاید یہی وقت عنقریب آتا نظر آرہاہے جب عوام بیزار ہوکر حکمرانوں کے ایوانوں پر چڑھائی کریںگے۔ وہی وقت ثابت کردے گا کہ ''آواز خلق کو نقارہ خدا '' کیوں کہاجاتاہے۔ یہ حقیقت نہیں تو کیا ہے کہ جب بے بس عوام کو مظالم کا احسان چکانا ہوتاہے تو ان کو غیبی امداد ملنا شروع ہوجاتی ہے۔ اسی لیے سبق آموز راستہ ظالموں کے لیے یہی ہوتاہے کہ ''آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو'' انصاف کے راستے پر آجائو، بے گناہوں پر ظلم ڈھانا چھوڑدو، ان کی آواز سنو، ان کی فلاح و بہبود کی طرف توجہ مرکوز کرو۔ ورنہ عوام کی آہ و بکا اور مظلومیت کا ٹھاٹھیں مارتا سیلاب تمہیں بہا لے جائے گا۔

سال 2013کا اختتام ہونے والا ہے۔ سال 2014 دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ دیکھنا یہی ہے کہ آیا حکمرانوں کے ایوانوں میں نقارہ خدا کی صدائیں سنی جارہی ہیں یا نہیں، اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر سال 2014کا آغاز ہمارے لیے کیا نوید لائے گا۔ وقت آنے پر پتہ لگ جائے گا۔ ویسے سال 2014شروع ہونے سے پہلے ہی ملکی سیاسی فضا مکدر ہوچکی ہے۔ ہر کونے سے تبدیلی، تبدیلی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، اس وقت ملک کو چہروں کی تبدیلی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر چہروں کی تبدیلی سے پھر وہی پرانے مہروں کی بساط جمے گی۔ پھر مظلوم عوام کی طرف سے اٹھنے والی صدا '' آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو'' بھی ہوا میں تحلیل ہوجائے گی۔ اﷲ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے اور جانے والے سال کا اختتام خوش آئند طریقے سے ہو اور آنے والا سال ہمارے لیے اور ملک کے لیے خوشیوں کی نوید لائے ۔(آمین)
Load Next Story