پتنگ بازی کا جان لیوا کھیل
ہر سال گلے پر ڈور پھرنے سے درجنوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں
پتنگ بازی شاید دنیا کا سب سے زیادہ خطرناک کھیل ہے۔ آپ سوچیں گے کہ دنیا میں تو اور بھی بہت سے خطرناک کھیل ہیں۔ ایسے ایسے کھیل بھی ہیں کہ دیکھنے والوں کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ دیکھنے والے سانس روک کر دیکھتے ہیں جبکہ کھیلنے والے انتہائی احتیاط اور مہارت کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ اگر ان سے ذرہ برابر بھی غلطی ہوجائے تو ان کی جان جاسکتی ہے یا عمر بھر کی معذوری ان کا مقدر بن سکتی ہے۔ تو پھر راقم الحروف پتنگ بازی کو سب سے خطرناک کھیل کیوں قرار دے رہا ہے؟
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں تو بالکل درست سوچ رہے ہیں کہ دنیا میں اور بھی بہت سے جان لیوا کھیل موجود ہیں، لیکن ان کھیلوں میں خطرہ صرف کھلاڑی کےلیے ہوتا ہے، جبکہ تماشا بین یا دیگر افراد کےلیے یہ خطرہ بہت کم ہوتا ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ لیکن پتنگ بازی ایک ایسا کھیل ہے جس میں کھلاڑی اپنا نقصان کم جبکہ دوسروں کا زیادہ نقصان کردیتے ہیں۔ یہ نقصان ایسے ہوتے ہیں جن کا کبھی ازالہ نہیں ہوسکتا۔ پتنگ بازی کے نتیجے میں مالی نقصان شاید ہی کہیں ہوتا ہے، اس میں اکثر و بیشتر جانی نقصان ہی سامنے آیا ہے۔
پتنگ بازی نے بہت سے نوجوان، بچے، خواتین اور بزرگ ہم سے چھینے ہیں۔ ہر سال گلے پر ڈور پھرنے سے درجنوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو پتنگ بازی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، پتنگ بازی میں کسی طرح ملوث نہیں ہوتے، بلکہ پتنگ بازی کو پسند بھی نہیں کرتے۔ لیکن دوسروں کے اس جان لیوا شوق اور ان کے بڑوں کی غفلت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خود پتنگ بازی کے شوقین افراد بھی اس شوق کی وجہ سے چھتوں سے گرنے، بجلی کے تاروں سے کرنٹ لگنے اور پتنگ کی ڈور پکڑنے کی تگ و دو میں حادثات یا لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے زخمی ہوجاتے ہیں۔
پتنگ بازی کی وجہ سے ایسے ایسے دلخراش واقعات پیش آتے ہیں کہ سن کر آنکھیں بھر آتی ہیں۔ چند روز قبل ہی لاہور میں ڈولفن فورس کا ایک اہلکار گلے میں پتنگ کی ڈور پھرنے سے جان کی بازی ہار گیا۔ یہ تو شہریوں کے محافظ ہیں، اگر ان کی اپنی زندگیاں محفوظ نہیں ہوں گی تو شہریوں کی حفاظت کون کرے گا؟ ان سانحات کے ذمے دار بھی کوئی اور نہیں، وہی شہری ہیں جن کی یہ جوان حفاظت کرتے ہیں۔ ایک اور دقت ان سانحات سے نجات حاصل کرنے میں یہ ہے کہ یہاں مجرم کا تعین نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ ڈور کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ کہاں سے آئی ہے، کس نے خریدی اور کس نے اسے پتنگ بازی کےلیے استعمال کرکے دوسروں کی جان لینے کےلیے چھوڑ دیا؟ یوں قاتل کا تعین اور گرفتاری نہیں ہوپاتی اور معصوم انسان اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں، جبکہ قاتل کو بھی علم نہیں ہوتا کہ اس کے فعل سے کتنا بڑا نقصان ہوچکا ہے، اپنی اسی لاعلمی کی وجہ سے وہ خود کو بے گناہ تصور کرتا رہتا ہے۔ جب اسے اپنے گناہ کا علم ہی نہیں ہوتا تو وہ آئندہ بھی اپنے فعل سے توبہ نہیں کرتا۔
حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا ہر ممکن تحفظ کرے اور مجرموں کی نشان دہی کرکے انہیں سخت سزائیں دے، تاکہ جرائم کی روک تھام کرکے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی جاسکے۔ پتنگ بازی جیسے جان لیوا کھیل کے خلاف ابھی تک حکومت نے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پتنگ بازی جاری ہے۔ تمام گنجان آباد علاقوں میں ہر گلی محلے میں پتنگیں اڑتے دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایسا خطرناک کھیل ہے جس کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی اس کھیل میں ملوث افراد کسی قسم کی رعایت کے مستحق ہیں۔ انہیں معافی دینا یا ان سے چشم پوشی کرنا معاشرے کےلیے نہایت خطرناک ثابت ہورہا ہے۔
اس گھناؤنے جرم کی روک تھام کےلیے سب سے پہلے ان فیکٹریوں کو بند کیا جائے جہاں بتنگ اور کیمیکل ڈوریں تیار ہورہی ہیں۔ ان کے مالکان کو گرفتار کرکے سخت سزائیں دی جائیں۔ پھر ان دکانوں کو بند کیا جائے جن میں پتنگ اور پتنگ بازی کا سامان فروخت ہورہا ہے اور ان پر بھی بھاری جرمانے کیے جائیں۔ اس کے بعد ان لوگوں کا تعین کیا جائے جو پتنگ بازی کرتے ہیں۔ انہیں گرفتار کرکے انہیں بھی سخت سزائیں دی جائیں۔ اس کے علاوہ جس مکان کے چھت پر پتنگ بازی کی جارہی ہو اس مکان کے مالک پر بھی بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔ یوں کم از کم لوگ اپنے کرایہ داروں اور اپنے بچوں کو چھتوں پر پتنگ بازی سے روکیں گے۔ پتنگ بازی کی روک تھام کےلیے ضروری ہے کہ سخت سزائیں اور بھاری جرمانہ عائد کیا جائے، تبھی اس جرم کی روک تھام ممکن ہوپائے گی۔
حکومت کے علاوہ جرائم کی روک تھام کےلیے معاشرے پر بھی کچھ ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ پتنگ بازی کو عام طور پر تو کھیل سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقتاً یہ کھیل نہیں ایک جرم ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ لہٰذا اس کی روک تھام کےلیے پہلی ذمے داری ان بچوں کے والدین پر عائد ہوتی ہے جو پتنگ بازی کے شوقین ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور پتنگ بازی کےلیے انہیں ہرگز پیسے نہ دیں اور نہ ہی گھر کی چھت پر پتنگ بازی کی اجازت دیں۔ اگر اس کے باوجود وہ دوستوں وغیرہ کے ساتھ مل کر اس جرم میں ملوث ہوجاتے ہیں تو پھر انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے انہیں خود تھوڑی بہت سزا دلوائیں۔ اگر بچے آپ کے قابو میں نہیں اور آپ سے نہیں ڈرتے تو کم ازکم پولیس کے ڈر سے وہ پتنگ بازی چھوڑ ہی دیں گے۔
ایسے ہی تمام شہریوں پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس جرم کی روک تھام کےلیے اپنے اردگرد نظر رکھیں اور پتنگ بازوں کی نشاندہی کرکے ان تک پہنچنے میں پولیس اور انتظامیہ کی مدد کریں۔ اپنے گھر کی سیڑھیاں اور چھت استعمال کرکے ایسے افراد یا بچوں تک رسائی دیں جو اس وقت اپنی چھتوں پر پتنگ بازی میں مصروف ہوں۔ اس کے علاوہ کسی علاقے میں پتنگ سازی کی فیکٹری ہے یا پتنگ بازی کا سامان فروخت کرنے والی دکان ہے یا کوئی شخص خفیہ طور پر اپنے گھر وغیرہ میں پتنگ فروخت کررہا ہے تو پولیس کو ان کی بھی اطلاع دیں اور ان کے خلاف کارروائی میں پولیس کی مدد کریں، تاکہ اس جرم کا مکمل طور پر خاتمہ ہو اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع سے بچا جاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں تو بالکل درست سوچ رہے ہیں کہ دنیا میں اور بھی بہت سے جان لیوا کھیل موجود ہیں، لیکن ان کھیلوں میں خطرہ صرف کھلاڑی کےلیے ہوتا ہے، جبکہ تماشا بین یا دیگر افراد کےلیے یہ خطرہ بہت کم ہوتا ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ لیکن پتنگ بازی ایک ایسا کھیل ہے جس میں کھلاڑی اپنا نقصان کم جبکہ دوسروں کا زیادہ نقصان کردیتے ہیں۔ یہ نقصان ایسے ہوتے ہیں جن کا کبھی ازالہ نہیں ہوسکتا۔ پتنگ بازی کے نتیجے میں مالی نقصان شاید ہی کہیں ہوتا ہے، اس میں اکثر و بیشتر جانی نقصان ہی سامنے آیا ہے۔
پتنگ بازی نے بہت سے نوجوان، بچے، خواتین اور بزرگ ہم سے چھینے ہیں۔ ہر سال گلے پر ڈور پھرنے سے درجنوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو پتنگ بازی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، پتنگ بازی میں کسی طرح ملوث نہیں ہوتے، بلکہ پتنگ بازی کو پسند بھی نہیں کرتے۔ لیکن دوسروں کے اس جان لیوا شوق اور ان کے بڑوں کی غفلت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خود پتنگ بازی کے شوقین افراد بھی اس شوق کی وجہ سے چھتوں سے گرنے، بجلی کے تاروں سے کرنٹ لگنے اور پتنگ کی ڈور پکڑنے کی تگ و دو میں حادثات یا لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے زخمی ہوجاتے ہیں۔
پتنگ بازی کی وجہ سے ایسے ایسے دلخراش واقعات پیش آتے ہیں کہ سن کر آنکھیں بھر آتی ہیں۔ چند روز قبل ہی لاہور میں ڈولفن فورس کا ایک اہلکار گلے میں پتنگ کی ڈور پھرنے سے جان کی بازی ہار گیا۔ یہ تو شہریوں کے محافظ ہیں، اگر ان کی اپنی زندگیاں محفوظ نہیں ہوں گی تو شہریوں کی حفاظت کون کرے گا؟ ان سانحات کے ذمے دار بھی کوئی اور نہیں، وہی شہری ہیں جن کی یہ جوان حفاظت کرتے ہیں۔ ایک اور دقت ان سانحات سے نجات حاصل کرنے میں یہ ہے کہ یہاں مجرم کا تعین نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ ڈور کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ کہاں سے آئی ہے، کس نے خریدی اور کس نے اسے پتنگ بازی کےلیے استعمال کرکے دوسروں کی جان لینے کےلیے چھوڑ دیا؟ یوں قاتل کا تعین اور گرفتاری نہیں ہوپاتی اور معصوم انسان اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں، جبکہ قاتل کو بھی علم نہیں ہوتا کہ اس کے فعل سے کتنا بڑا نقصان ہوچکا ہے، اپنی اسی لاعلمی کی وجہ سے وہ خود کو بے گناہ تصور کرتا رہتا ہے۔ جب اسے اپنے گناہ کا علم ہی نہیں ہوتا تو وہ آئندہ بھی اپنے فعل سے توبہ نہیں کرتا۔
حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا ہر ممکن تحفظ کرے اور مجرموں کی نشان دہی کرکے انہیں سخت سزائیں دے، تاکہ جرائم کی روک تھام کرکے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی جاسکے۔ پتنگ بازی جیسے جان لیوا کھیل کے خلاف ابھی تک حکومت نے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پتنگ بازی جاری ہے۔ تمام گنجان آباد علاقوں میں ہر گلی محلے میں پتنگیں اڑتے دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایسا خطرناک کھیل ہے جس کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی اس کھیل میں ملوث افراد کسی قسم کی رعایت کے مستحق ہیں۔ انہیں معافی دینا یا ان سے چشم پوشی کرنا معاشرے کےلیے نہایت خطرناک ثابت ہورہا ہے۔
اس گھناؤنے جرم کی روک تھام کےلیے سب سے پہلے ان فیکٹریوں کو بند کیا جائے جہاں بتنگ اور کیمیکل ڈوریں تیار ہورہی ہیں۔ ان کے مالکان کو گرفتار کرکے سخت سزائیں دی جائیں۔ پھر ان دکانوں کو بند کیا جائے جن میں پتنگ اور پتنگ بازی کا سامان فروخت ہورہا ہے اور ان پر بھی بھاری جرمانے کیے جائیں۔ اس کے بعد ان لوگوں کا تعین کیا جائے جو پتنگ بازی کرتے ہیں۔ انہیں گرفتار کرکے انہیں بھی سخت سزائیں دی جائیں۔ اس کے علاوہ جس مکان کے چھت پر پتنگ بازی کی جارہی ہو اس مکان کے مالک پر بھی بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔ یوں کم از کم لوگ اپنے کرایہ داروں اور اپنے بچوں کو چھتوں پر پتنگ بازی سے روکیں گے۔ پتنگ بازی کی روک تھام کےلیے ضروری ہے کہ سخت سزائیں اور بھاری جرمانہ عائد کیا جائے، تبھی اس جرم کی روک تھام ممکن ہوپائے گی۔
حکومت کے علاوہ جرائم کی روک تھام کےلیے معاشرے پر بھی کچھ ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ پتنگ بازی کو عام طور پر تو کھیل سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقتاً یہ کھیل نہیں ایک جرم ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ لہٰذا اس کی روک تھام کےلیے پہلی ذمے داری ان بچوں کے والدین پر عائد ہوتی ہے جو پتنگ بازی کے شوقین ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور پتنگ بازی کےلیے انہیں ہرگز پیسے نہ دیں اور نہ ہی گھر کی چھت پر پتنگ بازی کی اجازت دیں۔ اگر اس کے باوجود وہ دوستوں وغیرہ کے ساتھ مل کر اس جرم میں ملوث ہوجاتے ہیں تو پھر انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے انہیں خود تھوڑی بہت سزا دلوائیں۔ اگر بچے آپ کے قابو میں نہیں اور آپ سے نہیں ڈرتے تو کم ازکم پولیس کے ڈر سے وہ پتنگ بازی چھوڑ ہی دیں گے۔
ایسے ہی تمام شہریوں پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس جرم کی روک تھام کےلیے اپنے اردگرد نظر رکھیں اور پتنگ بازوں کی نشاندہی کرکے ان تک پہنچنے میں پولیس اور انتظامیہ کی مدد کریں۔ اپنے گھر کی سیڑھیاں اور چھت استعمال کرکے ایسے افراد یا بچوں تک رسائی دیں جو اس وقت اپنی چھتوں پر پتنگ بازی میں مصروف ہوں۔ اس کے علاوہ کسی علاقے میں پتنگ سازی کی فیکٹری ہے یا پتنگ بازی کا سامان فروخت کرنے والی دکان ہے یا کوئی شخص خفیہ طور پر اپنے گھر وغیرہ میں پتنگ فروخت کررہا ہے تو پولیس کو ان کی بھی اطلاع دیں اور ان کے خلاف کارروائی میں پولیس کی مدد کریں، تاکہ اس جرم کا مکمل طور پر خاتمہ ہو اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع سے بچا جاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔