وزیر اعظم کو کمزور کرنے کیلئے ان کے اہم سیاسی رفقاء نشانے پر
اپوزیشن کو معلوم ہے کہ عمران خان کو کمزور بنانا ہے تو اس کے سب سے قریب اور با اعتماد ساتھیوں کو نشانہ بنانا ہوگا۔
دنیا بھر میں ہر سیاسی جماعت میں دھڑے بندی ہوتی ہے، مختلف معاملات پر ایک ہی جماعت میں مختلف رہنماوں کی متضاد آراء ہوتی ہیں۔ جماعت کی قیادت سب کی سنتی ہے اور پھر جو اسے زیادہ بہتر اور فائدہ مند معلوم ہو اس رائے کو اختیار کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے اندر موجود دھڑے بندی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں پارٹی قیادت کو ''یرغمال'' بنانے کیلئے پریشر گروپس بنائے جاتے ہیں اور اگر کوئی ایسا رہنما پارٹی میں شامل ہوجائے جو قیادت کو ''آزاد'' کروانے کیلئے متحرک ہوجائے اور قیادت بھی اس کی رائے کو اہمیت دینا شروع کردے تو پھر تمام ''وار لارڈز''مشترکہ اور متفقہ طور پر یک نکاتی ہدف کے طور پر نئے رہنما کے خلاف محاذ کھول دیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اندر بھی گروپس موجود رہتے ہیں لیکن ان کی قیادت بذات خود سب سے بڑا گروپ ہے، دونوں پارٹیوں کے قائدین کے پاس''ویٹو پاور'' موجود ہے اور ان کا کہا ہوا''حرف آخر'' کی حیثیت رکھتا ہے، چونکہ دونوں جماعتیں کئی دہائیوں سے اقتدارکا حصہ رہی ہیں اور ان کے تمام مرکزی رہنماؤں نے بھی وزارتوں اور پرکشش عہدوں کو انجوائے کیا ہے لہذا یہ رہنما اپنی ''کمزوریوں'' کے سبب اپنی قیادت کے سامنے مضبوط موقف نہ تو پیش کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی عوامی مفاد کے معاملے پر STAND لیتے ہیں۔
اس کے برعکس تحریک انصاف 22 برس تک جدوجہد اور مزاحمت کے خاردار راستے کا سفر طے کر کے پہلی مرتبہ اقتدار کے گلستان میں پہنچی ہے۔1996 سے ستمبر2011 والی تحریک انصاف ایک چھوٹی جماعت کے طور پر جانی جاتی تھی اور اس عرصہ میں مرکزی، صوبائی، ضلعی رہنماؤں کی اکثریت نے نہ ہی پارٹی کی وسعت کیلئے کوئی غیر معمولی جدوجہد کی اور نہ ہی مالی طور پر پارٹی کیلئے وافر فنڈز کی فراہمی میں حصہ لیا۔ یہ تو محترمہ سلونی بخاری (مرحومہ)، احسن رشید (مرحوم)، نعیم الحق (مرحوم) جیسے گنتی کے چند لوگ تھے۔
جنہوں نے روز اول سے لیکر اپنی آخری سانس تک عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ اپنی محبت اور وفاداری کو بھرپور نبھایا۔2010 ء سے ''بادشاہ گروں'' کی آشیر باد حاصل ہونے کے بعد تحریک انصاف نے رفتار پکڑنا شروع کی تو پرانے رہنماؤں نے مستقبل کو بھانپتے ہوئے کپتان کے گرد اپنا حصار مزید مضبوط اور تنگ کرنا شروع کردیا لیکن عمران خان کو بھی ادراک ہو گیا تھا کہ روایتی طریقہ سے پارٹی آگے نہیں بڑھ سکتی لہذا عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے حوالے سے گزشتہ کئی برسوں سے تعلق رکھنے والے منجھے ہوئے سیاسی افراد سے روابط کو فروغ دینا شروع کیا اور اکتوبر 2011 ء کے تاریخ ساز جلسہ کے بعد توتحریک انصاف میں شامل ہونے والوں کا تانتا بندھ گیا اور بہت بڑی تعداد میں تجربہ کار اور بااثر سیاستدان پارٹی میں شامل ہوئے اور یوں ایک ایسی تحریک انصاف تشکیل پائی جس نے 2018 ء کے الیکشن تک دونوں روایتی پارٹیوں کو ٹف ٹائم دی ۔
شاہ محمود قریشی، چوہدری محمد سرور، اسد عمر سمیت دیگر کئی اہم شخصیات نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، بالخصوص 2018 ء کے عام انتخابات سے قبل بڑی تعداد میں الیکٹ ایبلز نے کپتان کا ہاتھ تھام لیا تھا اور الیکشن نتائج کا جائزہ لیا جائے تو الیکٹ ایبلز نے پارٹی کے دیگر امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔
جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان بھی2011 ء کے جلسے کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہونے والے نئے رہنماؤں میں سے ہیں لیکن انہوں نے عمران خان کے ساتھ اپنی دوستی اور وفاداری کو ایسے نبھایا کہ یہ دونوں پارٹی کے مرکزی رہنما تو بن ہی گئے لیکن انہوں نے عمران خان کے سب سے بااعتماد ساتھیوں کے طور پر اپنی شناخت بنائی اور وقت آنے پر اپنی سیاست کو بھی قربان گاہ میں پیش کردیا، یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے سیاسی مخالفین نے شاید ان دونوں رہنماؤں کو اتنا نشانہ نہیں بنایا جتنا کہ خود تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں نے انہیں ٹارگٹ کیا اور کروایا ہے۔
اس حقیقت سے ابھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان دونوں رہنماؤں سے بہت سی سیاسی غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں گی، لیکن مجموعی طور پر ان کی کارکردگی غیر معمولی رہی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے آٹا اور چینی بحران کو جواز بنا کر جہانگیر ترین کو جارحانہ انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہے بالخصوص وفاقی وزیر اسد عمر کے بڑے بھائی اور ن لیگ کے رہنما محمد زبیر نے تو جہانگیر ترین پر سخت سیاسی حملے کیئے۔
گزشتہ 7 یا8 برس سے جہانگیر ترین کی تحریک انصاف میں حیثیت عمران خان کے بعد دوسرے بڑے رہنما کے تسلیم کی جاتی ہے۔ عمران خان ہر سیاسی و حکومتی معاملے میں جہانگیر ترین کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے اور مشاورت بھی انہی سے کرتے ہیں۔ان کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کی وجہ سے ہی شاہ محمود قریشی، چوہدری محمد سرور، اسد عمر، شفقت محمود، شیریں مزاری، فردوس نقوی، نعیم الحق(مرحوم)، سیف اللہ نیازی، حامد خان و دیگر رہنماؤں نے ''اینٹی ترین'' گروپ بنایا جس کا مقابلہ کرنے کیلئے ''ترین گروپ'' تخلیق کیا گیا تھا۔
پانامہ کیس میں جس انداز میں جہانگیر ترین نے عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا لیکن نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ''توازن'' قائم کرنے کیلئے ایک بڑی قربانی کی ضرورت پڑی تو جہانگیر ترین ''نا اہلی'' کی سولی چڑھ گئے تا کہ کپتان بچ جائے۔اینٹی ترین گروپ کوشش کے باوجود کامیاب نہ ہو سکا، حالیہ گندم چینی بحران کے دوران بھی عمران خان کے کانوں میں زہر انڈیلنے کی کوشش کی گئی لیکن کپتان نے دبنگ اعلان کیا کہ جہانگیر ترین نے کوئی غلط کام نہیں کیا، وہ آئندہ بھی جہانگیر ترین سے مشاورت جاری رکھیں گے۔ یہی صورتحال عبدالعلیم خان کی ہے عمران خان آج بھی ان پر غیر معمولی بھروسہ کرتے ہیں۔
تحریک انصاف لاہور کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلی شہباز شریف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔3 مرتبہ مینار پاکستان میں بڑے پارٹی جلسے، لانگ مارچ اور لاہور کا لاک ڈاون علیم خان کی کریڈٹ لسٹ پر ہے لیکن سب سے اہم یہ کہ بطور صدر سنٹرل پنجاب انہوں نے پہلی مرتبہ کارکنوں اور عمران خان کو ایک جگہ ملاقات کا موقع دیا، چیئرمین سیکرٹریٹ میں ہونے والا یہ ایونٹ آج بھی ورکرز کو جوش دلاتا ہے۔ سینئر وزیر کے طور پر بھی علیم خان کی کارکردگی دیگر وزراء کے مقابلے میں نمایاں رہی۔
نئے بلدیاتی نظام کا تمام ڈھانچہ انہوں نے ہی تیار کروایا تھا اس کے ساتھ ساتھ وزیرا عظم کے 100 روزہ پروگرام کے لئے انہوں نے 30 دن میں 10 سے زائد صوبائی محکموں کے 60 سے زائد اجلاس منعقد کیئے تھے لیکن شاید ان کی یہی محنت ان کی''خامی'' بن گئی اور وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کو بعض افراد نے یہ یقین دلا دیا کہ ان کی وزارت اعلی کیلئے سب سے بڑا خطرہ علیم خان ہی ہے۔ وزارت اعلی پر ممکنہ تبدیلی کے تناظر میں ہی علیم خان کو گرفتار کروایا گیا تھا جس کے بعد علیم خان نے کابینہ میں دوبارہ واپسی سے انکار کردیا۔
اپوزیشن کو معلوم ہے کہ عمران خان کو کمزور بنانا ہے تو اس کے سب سے قریب اور با اعتماد ساتھیوں کو نشانہ بنانا ہوگا۔ تحریک انصاف کو اصل خطرہ اپوزیشن سے نہیں بلکہ اپنے اندر موجود باہمی سازشوں اور مخالفتوں سے ہے جو کہ نہ صرف حکومت کی کارکردگی کو متاثر کر رہی ہیں بلکہ پارٹی کو بھی دیمک زدہ بنا رہی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے اندر موجود دھڑے بندی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں پارٹی قیادت کو ''یرغمال'' بنانے کیلئے پریشر گروپس بنائے جاتے ہیں اور اگر کوئی ایسا رہنما پارٹی میں شامل ہوجائے جو قیادت کو ''آزاد'' کروانے کیلئے متحرک ہوجائے اور قیادت بھی اس کی رائے کو اہمیت دینا شروع کردے تو پھر تمام ''وار لارڈز''مشترکہ اور متفقہ طور پر یک نکاتی ہدف کے طور پر نئے رہنما کے خلاف محاذ کھول دیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اندر بھی گروپس موجود رہتے ہیں لیکن ان کی قیادت بذات خود سب سے بڑا گروپ ہے، دونوں پارٹیوں کے قائدین کے پاس''ویٹو پاور'' موجود ہے اور ان کا کہا ہوا''حرف آخر'' کی حیثیت رکھتا ہے، چونکہ دونوں جماعتیں کئی دہائیوں سے اقتدارکا حصہ رہی ہیں اور ان کے تمام مرکزی رہنماؤں نے بھی وزارتوں اور پرکشش عہدوں کو انجوائے کیا ہے لہذا یہ رہنما اپنی ''کمزوریوں'' کے سبب اپنی قیادت کے سامنے مضبوط موقف نہ تو پیش کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی عوامی مفاد کے معاملے پر STAND لیتے ہیں۔
اس کے برعکس تحریک انصاف 22 برس تک جدوجہد اور مزاحمت کے خاردار راستے کا سفر طے کر کے پہلی مرتبہ اقتدار کے گلستان میں پہنچی ہے۔1996 سے ستمبر2011 والی تحریک انصاف ایک چھوٹی جماعت کے طور پر جانی جاتی تھی اور اس عرصہ میں مرکزی، صوبائی، ضلعی رہنماؤں کی اکثریت نے نہ ہی پارٹی کی وسعت کیلئے کوئی غیر معمولی جدوجہد کی اور نہ ہی مالی طور پر پارٹی کیلئے وافر فنڈز کی فراہمی میں حصہ لیا۔ یہ تو محترمہ سلونی بخاری (مرحومہ)، احسن رشید (مرحوم)، نعیم الحق (مرحوم) جیسے گنتی کے چند لوگ تھے۔
جنہوں نے روز اول سے لیکر اپنی آخری سانس تک عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ اپنی محبت اور وفاداری کو بھرپور نبھایا۔2010 ء سے ''بادشاہ گروں'' کی آشیر باد حاصل ہونے کے بعد تحریک انصاف نے رفتار پکڑنا شروع کی تو پرانے رہنماؤں نے مستقبل کو بھانپتے ہوئے کپتان کے گرد اپنا حصار مزید مضبوط اور تنگ کرنا شروع کردیا لیکن عمران خان کو بھی ادراک ہو گیا تھا کہ روایتی طریقہ سے پارٹی آگے نہیں بڑھ سکتی لہذا عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے حوالے سے گزشتہ کئی برسوں سے تعلق رکھنے والے منجھے ہوئے سیاسی افراد سے روابط کو فروغ دینا شروع کیا اور اکتوبر 2011 ء کے تاریخ ساز جلسہ کے بعد توتحریک انصاف میں شامل ہونے والوں کا تانتا بندھ گیا اور بہت بڑی تعداد میں تجربہ کار اور بااثر سیاستدان پارٹی میں شامل ہوئے اور یوں ایک ایسی تحریک انصاف تشکیل پائی جس نے 2018 ء کے الیکشن تک دونوں روایتی پارٹیوں کو ٹف ٹائم دی ۔
شاہ محمود قریشی، چوہدری محمد سرور، اسد عمر سمیت دیگر کئی اہم شخصیات نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، بالخصوص 2018 ء کے عام انتخابات سے قبل بڑی تعداد میں الیکٹ ایبلز نے کپتان کا ہاتھ تھام لیا تھا اور الیکشن نتائج کا جائزہ لیا جائے تو الیکٹ ایبلز نے پارٹی کے دیگر امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔
جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان بھی2011 ء کے جلسے کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہونے والے نئے رہنماؤں میں سے ہیں لیکن انہوں نے عمران خان کے ساتھ اپنی دوستی اور وفاداری کو ایسے نبھایا کہ یہ دونوں پارٹی کے مرکزی رہنما تو بن ہی گئے لیکن انہوں نے عمران خان کے سب سے بااعتماد ساتھیوں کے طور پر اپنی شناخت بنائی اور وقت آنے پر اپنی سیاست کو بھی قربان گاہ میں پیش کردیا، یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے سیاسی مخالفین نے شاید ان دونوں رہنماؤں کو اتنا نشانہ نہیں بنایا جتنا کہ خود تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں نے انہیں ٹارگٹ کیا اور کروایا ہے۔
اس حقیقت سے ابھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان دونوں رہنماؤں سے بہت سی سیاسی غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں گی، لیکن مجموعی طور پر ان کی کارکردگی غیر معمولی رہی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے آٹا اور چینی بحران کو جواز بنا کر جہانگیر ترین کو جارحانہ انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہے بالخصوص وفاقی وزیر اسد عمر کے بڑے بھائی اور ن لیگ کے رہنما محمد زبیر نے تو جہانگیر ترین پر سخت سیاسی حملے کیئے۔
گزشتہ 7 یا8 برس سے جہانگیر ترین کی تحریک انصاف میں حیثیت عمران خان کے بعد دوسرے بڑے رہنما کے تسلیم کی جاتی ہے۔ عمران خان ہر سیاسی و حکومتی معاملے میں جہانگیر ترین کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے اور مشاورت بھی انہی سے کرتے ہیں۔ان کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کی وجہ سے ہی شاہ محمود قریشی، چوہدری محمد سرور، اسد عمر، شفقت محمود، شیریں مزاری، فردوس نقوی، نعیم الحق(مرحوم)، سیف اللہ نیازی، حامد خان و دیگر رہنماؤں نے ''اینٹی ترین'' گروپ بنایا جس کا مقابلہ کرنے کیلئے ''ترین گروپ'' تخلیق کیا گیا تھا۔
پانامہ کیس میں جس انداز میں جہانگیر ترین نے عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا لیکن نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ''توازن'' قائم کرنے کیلئے ایک بڑی قربانی کی ضرورت پڑی تو جہانگیر ترین ''نا اہلی'' کی سولی چڑھ گئے تا کہ کپتان بچ جائے۔اینٹی ترین گروپ کوشش کے باوجود کامیاب نہ ہو سکا، حالیہ گندم چینی بحران کے دوران بھی عمران خان کے کانوں میں زہر انڈیلنے کی کوشش کی گئی لیکن کپتان نے دبنگ اعلان کیا کہ جہانگیر ترین نے کوئی غلط کام نہیں کیا، وہ آئندہ بھی جہانگیر ترین سے مشاورت جاری رکھیں گے۔ یہی صورتحال عبدالعلیم خان کی ہے عمران خان آج بھی ان پر غیر معمولی بھروسہ کرتے ہیں۔
تحریک انصاف لاہور کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلی شہباز شریف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔3 مرتبہ مینار پاکستان میں بڑے پارٹی جلسے، لانگ مارچ اور لاہور کا لاک ڈاون علیم خان کی کریڈٹ لسٹ پر ہے لیکن سب سے اہم یہ کہ بطور صدر سنٹرل پنجاب انہوں نے پہلی مرتبہ کارکنوں اور عمران خان کو ایک جگہ ملاقات کا موقع دیا، چیئرمین سیکرٹریٹ میں ہونے والا یہ ایونٹ آج بھی ورکرز کو جوش دلاتا ہے۔ سینئر وزیر کے طور پر بھی علیم خان کی کارکردگی دیگر وزراء کے مقابلے میں نمایاں رہی۔
نئے بلدیاتی نظام کا تمام ڈھانچہ انہوں نے ہی تیار کروایا تھا اس کے ساتھ ساتھ وزیرا عظم کے 100 روزہ پروگرام کے لئے انہوں نے 30 دن میں 10 سے زائد صوبائی محکموں کے 60 سے زائد اجلاس منعقد کیئے تھے لیکن شاید ان کی یہی محنت ان کی''خامی'' بن گئی اور وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کو بعض افراد نے یہ یقین دلا دیا کہ ان کی وزارت اعلی کیلئے سب سے بڑا خطرہ علیم خان ہی ہے۔ وزارت اعلی پر ممکنہ تبدیلی کے تناظر میں ہی علیم خان کو گرفتار کروایا گیا تھا جس کے بعد علیم خان نے کابینہ میں دوبارہ واپسی سے انکار کردیا۔
اپوزیشن کو معلوم ہے کہ عمران خان کو کمزور بنانا ہے تو اس کے سب سے قریب اور با اعتماد ساتھیوں کو نشانہ بنانا ہوگا۔ تحریک انصاف کو اصل خطرہ اپوزیشن سے نہیں بلکہ اپنے اندر موجود باہمی سازشوں اور مخالفتوں سے ہے جو کہ نہ صرف حکومت کی کارکردگی کو متاثر کر رہی ہیں بلکہ پارٹی کو بھی دیمک زدہ بنا رہی ہیں۔