کنٹریکٹ مینوفیکچرنگ پر پابندی نے فارما انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا

ملک میں 70سے 80فیصد بڑی فارما برانڈز کنٹریکٹ پر ہی تیار کی جارہی تھیں

لاگت بڑھنے کے باوجود 12سال سے قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا،4ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کام بندکردیا ،فارماسیوٹیکل مینو فیکچررز۔ فوٹو: فائل

RAWALPINDI:
حکومت کی جانب سے فارما انڈسٹری پر کنٹریکٹ مینوفیکچرنگ پرپابندی کے فیصلے نے انڈسٹری کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔

ملک میں 70سے 80فیصد بڑی فارما برانڈز کنٹریکٹ کی بنیاد پر ہی تیار کی جارہی تھیں تاہم 31اگست سے لگائی جانے والی پابندی کے نتیجے میں پیداواری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں اور انڈسٹری کی توسیع پر کی جانے والی بھاری مالیت کی سرمایہ کاری پھنس کر رہ گئی ہے۔ پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین زاہد سعید کے مطابق فارما انڈسٹری کے بارے میں حکومتی پالیسیوں میں عدم تسلسل ، پیداواری لاگت بڑھنے کے باوجود گزشتہ 12سال سے قیمتوں میں اضافہ نہ کیے جانے سے انڈسٹری کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے، گزشتہ چند سال کے دوران ملک سے 4ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنا کاروبار سمیٹ چکی ہیں جبکہ مزید تین بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پاکستان سے کاروبار ختم کرنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ حکومت کی جانب سے کنٹریکٹ بنیادوں پر فارما سیوٹیکل پراڈکٹس کی پیداوار پر پابندی کے فیصلے نے بحران کا شکار انڈسٹری کو ایک نئے مسئلے سے دوچار کردیا ہے۔

کنٹریکٹ مینوفیکچرنگ کے ذریعے بنگلہ دیش اور بھارت کی انڈسٹری دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی انڈسڑی میں شامل ہوچکے ہیں۔ بنگلہ دیش کے 4مینوفیکچرنگ یونٹس ایف ڈی اے سے منظوری حاصل کرچکے ہیں جبکہ بھارت کی صرف فارما انڈسٹری کی برآمدات پاکستان کی مجموعی برآمدات کے برابر پہنچ چکی ہیں۔ پاکستان میں کنٹریکٹ مینوفیکچرنگ پر پابندی کے فیصلے کے نتیجے میں ملک میں 70سے 80فیصد بڑی اور زیادہ طلب کی حامل برانڈز کی پیداوار متاثر ہورہی ہے، بالخصوص اینٹی بائیوٹک ادویات کی شدید قلت کا خدشہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے ادویات کی برآمد 18کروڑ ڈالر ہے، پاکستانی ادویات سستی ہونے کے باوجود عالمی معیار پر پورا اتررہی ہیں اور اب پاکستان سے ادویات کی برآمد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔




خود وفاقی حکومت کی جانب سے 2010میں کرائی گئی ایک اسٹڈی میں غیرملکی ماہرین نے پاکستانی فارما انڈسٹری کی برآمدات 4سال میں ایک ارب ڈالر کی سطح تک بڑھائے جانے کے بھرپور مواقع کی نشاندہی کی ہے، تاہم انڈسٹری کے لیے پالیسیوں میں عدم تسلسل قیمتوں پر عدم نظر ثانی کی وجہ سے انڈسٹری شدید دبائو کا شکار ہے۔ حال ہی میں کنٹریکٹ مینوفیکچرنگ پر بننے والی ایک سب سے زیادہ بکنے والی ٹیبلٹ کی تیاری کے لیے 9ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے جدید ترین پلانٹ لگایا گیا تاہم کنٹریکٹ مینوفیکچرنگ پر پابندی کی وجہ سے یہ سرمایہ کاری پھنس کر رہ گئی ہے۔ حکومت کے انڈسٹری مخالف فیصلوں سے نہ صرف عوام کے لیے ادویات کا حصول مشکل ہوگا بلکہ مقامی سطح پر انڈسٹری میں کی جانے والی غیرملکی سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی کی آمد اور ہرمند افرادی صلاحیت میں بہتری کا عمل ساتھ ہی ادویات کی برآمدات میں بھی نمایاں کمی واقع ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 220ارب روپے کی ادویات فروخت کی جاتی ہیں جس میں سالانہ 15فیصد کی نمو ہورہی ہے پاکستان ادویات کے استعمال کے حجم کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا جبکہ مالیت کے لحاظ سے 45واں ملک ہے، اس کے برعکس بھارت مقدار کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا اور مالیت کے لحاظ سے 15بڑا ملک ہے، پاکستان میں ادویات کی فی کس کھپت 110روپے سالانہ ہے۔ پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کو بھارت کی طرح سالانہ افراط زر کی شرح سے منسلک کرکے انڈسٹری کے مسائل کسی حد تک کم کیے جاسکتے ہیں۔ پالیسیوں کی تشکیل کے لیے انڈسٹری کی مشاورت ناگزیر ہے اسی طرح ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی زیادہ توجہ معیار پر ہونی چاہیے، انڈسٹری کی اکنامکس کے بارے میں کوئی بھی پالیسی کاروباری حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرتب کی جانی چاہیے۔
Load Next Story