بھنبھور ایک قدیم تجارتی شہر
محکمہ ثقافت و سیاحت بھنبھور کی ساٸٹ کو ورلڈ ہیریٹیج میں شامل کروانے کےلیے کوشاں ہے
بھنبھور محض ایک اجڑا ہوا دیار نہیں، یہ دیار محبت بھی رہا ہے۔ "سسی پنوں" کی لوک رومانوی داستان یہاں سے پروان چڑھی۔ سسی جوکہ وادی سندھ کے عظیم آفاقی شاعر حضرت شاہ عبداللطیف کی سات "سورمیوں" میں سے ایک ہے اور حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی نے سسی کو پورے پانچ سروں میں گایا ہے۔ اس حوالے سے سسی پنوں کی داستان کو "شاہ جو رسالو" میں اہم درجہ حاصل ہے۔
"سسی پنوں" کی داستان کی گرہیں کھولنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھنبھور ایک بہت ہی خوشحال، وسیع و عریض رقبے اور آبادی کے اعتبار سے بڑا شہر رہا ہوگا۔ "پنوں" بطور ایک تاجر سوداگروں کے قافلے کے ساتھ بھنبھور آیا تھا اور یہ لوک رومانوی داستان ہمیں بتاتی ہے کہ "سسی" اپنی سکھیوں کے ساتھ خریداری کے لیے بازار جایا کرتی تھی۔ یوں اسے دیکھ کیچ مکران کا بلوچ شہزادہ "پنوں" اسے پہلی نظر میں دل دے بیٹھا۔ داستان میں آگے وصل، ہجر اور سفر در سفر سسی کے نصیب میں لکھا ہوا ملتا ہے۔
تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ بھنبھور جو پہلی صدی سے تیرہویں صدی تک اپنے عروج پر رہا۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ یہی شہر دیبل بندر کے نام سے آباد تھا۔ جو اس وقت کی وادی مہران کا تجارتی مرکز تھا۔ سمندری اور خشکی کے راستے یہاں سے تاجروں کے قافلے دنیا کے مختلف ممالک تک سفر کرتے تھے اور عرب فاتح محمد بن قاسم نے اس شہر کو سب سے پہلے فتح کیا۔ جس کی وجہ سے بھنبھور کو برصغیر کا باب الاسلام بھی کہا جاتا ہے اور یہاں ملنے والی جامع مسجد کے آثار، جسے جنوب مشرقی ایشیا کی پہلی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
بھنبھور کا مقام دریائے سندھ کے طاس پر گھارو کریک کے شمالی کنارے پر ابھرتا ہے، جو موجودہ ساحلی پٹی سے 30 کلو میٹر دور واقع ہے۔ یہ برجوں کے گھیرے میں ایک 'قلعے' پر مبنی ہے اور اس کا وسیع علاقہ ایسے کھنڈرات کا مجموعہ ہے جن میں بندرگاہ کا اسٹرکچر، رہائش گاہیں، نواحی علاقے، کچی بستیاں، گودام، کام کرنے کی جگہیں اور مصنوعی بیراج وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہ چھوٹے قلعے اور ارگرد پھیلے مقامات مل جل کر 65 ہیکڑ کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔
سندھ کے اس عظیم و قدیم شہر کی حقیقت جاننے اور بھنبھور اور دیبل تنازعہ حل کرنے کےلیے حکومت سندھ کا محکمہ ثقافت و سیاحت اور نوادرات ملکی و غیرملکی ماہرین آرکیالوجی و محققین کے ساتھ مصروف عمل ہے۔ ویسے تو بھنبھور کی آرکیالوجیکل سائٹ کی شروعاتی ایکسکیویشن کا کام 1928 کے دوران رمیش چندرا مجمدار نے شروع کروایا اور اس کے بعد 1951 میں اس شہر کی دوبارہ کھدائی کی گئی۔ 1957 سے 1965 تک پاکستانی آرکیالوجسٹ ایف اے خان نے اس سائٹ پر اپنی خدمات سر انجام دیں۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ سائٹ حکومتِ سندھ کے محکمہ ثقافت و سیاحت اور نوادرات کے سپرد ہوٸی تو پاک اٹالین اور فرنچ جوائنٹ آرکیالوجیکل مشن نے مشترکہ طور پر اس سائٹ کی پھر سے کھدائی کا کام اپنے ذمے لیا، جو 2015 تک جاری رہا۔ جبکہ 2017 سے اب تک اٹالین آرکیالوجیکل مشن اور محکمہ ثقافت و نوادرات سندھ مشترکہ طور پر بھنبھور کی کھدائی کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس شہر کی قدامت اور تہذیب تہہ در تہہ کھل کر سامنے آرہی ہے اور اب تک شہر کے تین مختلف ادوار کے نشانات رونما ہوچکے ہیں۔ جن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بھنبھور وادی مہران کا ایک بہت ہی قدیم تجارتی مرکز رہ چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق ساحل پر ہونے کی وجہ سے یہاں کی باقیات سمندر برد ہوچکی ہیں، مگر پھر بھی ملکی و غیرملکی ماہرین ہمت نہیں ہار رہے۔ بھنبھور کی سائٹ پر کھدائی کے دوران نوادرات کے جو نمونے پائے گئے ہیں ان میں سکے، موتیوں کی مالائیں، مٹی کے برتن اور ہاتھی دانت سے بنی اشیا کی باقیات شامل ہیں۔
اطالوی ریسرچر کے مطابق یہاں سے جو برتنوں کی باقیات ملی ہیں، بالکل ویسے ہی چند سال پہلے جو انڈونیشیا کے ساحل سے بحری جہاز کا ڈھانچہ ملا تھا وہاں سے بھی ایسی ہی باقیات ملی تھیں۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ لوگ برتنوں کا کام کرتے تھے اور یہ شہر کسی زمانے میں بڑاتجارتی مرکز تھا۔
محکمہ ثقافت و سیاحت اور نوادرات کے منظور کناسرو کے مطابق وہ اس وقت بھنبھور کی سائٹ کو ورلڈ ہیریٹیج میں شامل کروانے کےلیے کوشاں ہے اور حال ہی میں اطالوی ریسرچر کو کھدائی کے دوران بڑی تعداد میں ہاتھی کے دانتوں سے بنی باقیات کے ملنے سے عالمی ورثے میں شمولیت کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ ثقافت وسیاحت اور نوادرات کی طرف سے بھنبھور کی کھدائی کے ساتھ بحالی کے کام پر بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور سیاحوں کی رہائش اور تحقیق کےلیے آنے والوں کےلیے میوزیم قائم کیا گیا ہے، جہاں کھدائی کے دوران ملنے والے نوادرات رکھے گئے ہیں۔ بھنبھور سائٹ کی معلومات پر مبنی اینٹی کیوٹیز جنرل بھی اشاعت کےلیے تیار ہے۔ سندھ ثقافت اور قدیم تہذیب کے حوالے سے اپنی جداگانہ پہچان رکھتا ہے، جس کےلیے محکمہ ثقافت و سیاحت اور نوادرات اپنی بھرپور کوشش کررہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
"سسی پنوں" کی داستان کی گرہیں کھولنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھنبھور ایک بہت ہی خوشحال، وسیع و عریض رقبے اور آبادی کے اعتبار سے بڑا شہر رہا ہوگا۔ "پنوں" بطور ایک تاجر سوداگروں کے قافلے کے ساتھ بھنبھور آیا تھا اور یہ لوک رومانوی داستان ہمیں بتاتی ہے کہ "سسی" اپنی سکھیوں کے ساتھ خریداری کے لیے بازار جایا کرتی تھی۔ یوں اسے دیکھ کیچ مکران کا بلوچ شہزادہ "پنوں" اسے پہلی نظر میں دل دے بیٹھا۔ داستان میں آگے وصل، ہجر اور سفر در سفر سسی کے نصیب میں لکھا ہوا ملتا ہے۔
تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ بھنبھور جو پہلی صدی سے تیرہویں صدی تک اپنے عروج پر رہا۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ یہی شہر دیبل بندر کے نام سے آباد تھا۔ جو اس وقت کی وادی مہران کا تجارتی مرکز تھا۔ سمندری اور خشکی کے راستے یہاں سے تاجروں کے قافلے دنیا کے مختلف ممالک تک سفر کرتے تھے اور عرب فاتح محمد بن قاسم نے اس شہر کو سب سے پہلے فتح کیا۔ جس کی وجہ سے بھنبھور کو برصغیر کا باب الاسلام بھی کہا جاتا ہے اور یہاں ملنے والی جامع مسجد کے آثار، جسے جنوب مشرقی ایشیا کی پہلی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
بھنبھور کا مقام دریائے سندھ کے طاس پر گھارو کریک کے شمالی کنارے پر ابھرتا ہے، جو موجودہ ساحلی پٹی سے 30 کلو میٹر دور واقع ہے۔ یہ برجوں کے گھیرے میں ایک 'قلعے' پر مبنی ہے اور اس کا وسیع علاقہ ایسے کھنڈرات کا مجموعہ ہے جن میں بندرگاہ کا اسٹرکچر، رہائش گاہیں، نواحی علاقے، کچی بستیاں، گودام، کام کرنے کی جگہیں اور مصنوعی بیراج وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہ چھوٹے قلعے اور ارگرد پھیلے مقامات مل جل کر 65 ہیکڑ کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔
سندھ کے اس عظیم و قدیم شہر کی حقیقت جاننے اور بھنبھور اور دیبل تنازعہ حل کرنے کےلیے حکومت سندھ کا محکمہ ثقافت و سیاحت اور نوادرات ملکی و غیرملکی ماہرین آرکیالوجی و محققین کے ساتھ مصروف عمل ہے۔ ویسے تو بھنبھور کی آرکیالوجیکل سائٹ کی شروعاتی ایکسکیویشن کا کام 1928 کے دوران رمیش چندرا مجمدار نے شروع کروایا اور اس کے بعد 1951 میں اس شہر کی دوبارہ کھدائی کی گئی۔ 1957 سے 1965 تک پاکستانی آرکیالوجسٹ ایف اے خان نے اس سائٹ پر اپنی خدمات سر انجام دیں۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ سائٹ حکومتِ سندھ کے محکمہ ثقافت و سیاحت اور نوادرات کے سپرد ہوٸی تو پاک اٹالین اور فرنچ جوائنٹ آرکیالوجیکل مشن نے مشترکہ طور پر اس سائٹ کی پھر سے کھدائی کا کام اپنے ذمے لیا، جو 2015 تک جاری رہا۔ جبکہ 2017 سے اب تک اٹالین آرکیالوجیکل مشن اور محکمہ ثقافت و نوادرات سندھ مشترکہ طور پر بھنبھور کی کھدائی کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس شہر کی قدامت اور تہذیب تہہ در تہہ کھل کر سامنے آرہی ہے اور اب تک شہر کے تین مختلف ادوار کے نشانات رونما ہوچکے ہیں۔ جن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بھنبھور وادی مہران کا ایک بہت ہی قدیم تجارتی مرکز رہ چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق ساحل پر ہونے کی وجہ سے یہاں کی باقیات سمندر برد ہوچکی ہیں، مگر پھر بھی ملکی و غیرملکی ماہرین ہمت نہیں ہار رہے۔ بھنبھور کی سائٹ پر کھدائی کے دوران نوادرات کے جو نمونے پائے گئے ہیں ان میں سکے، موتیوں کی مالائیں، مٹی کے برتن اور ہاتھی دانت سے بنی اشیا کی باقیات شامل ہیں۔
اطالوی ریسرچر کے مطابق یہاں سے جو برتنوں کی باقیات ملی ہیں، بالکل ویسے ہی چند سال پہلے جو انڈونیشیا کے ساحل سے بحری جہاز کا ڈھانچہ ملا تھا وہاں سے بھی ایسی ہی باقیات ملی تھیں۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ لوگ برتنوں کا کام کرتے تھے اور یہ شہر کسی زمانے میں بڑاتجارتی مرکز تھا۔
محکمہ ثقافت و سیاحت اور نوادرات کے منظور کناسرو کے مطابق وہ اس وقت بھنبھور کی سائٹ کو ورلڈ ہیریٹیج میں شامل کروانے کےلیے کوشاں ہے اور حال ہی میں اطالوی ریسرچر کو کھدائی کے دوران بڑی تعداد میں ہاتھی کے دانتوں سے بنی باقیات کے ملنے سے عالمی ورثے میں شمولیت کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ ثقافت وسیاحت اور نوادرات کی طرف سے بھنبھور کی کھدائی کے ساتھ بحالی کے کام پر بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور سیاحوں کی رہائش اور تحقیق کےلیے آنے والوں کےلیے میوزیم قائم کیا گیا ہے، جہاں کھدائی کے دوران ملنے والے نوادرات رکھے گئے ہیں۔ بھنبھور سائٹ کی معلومات پر مبنی اینٹی کیوٹیز جنرل بھی اشاعت کےلیے تیار ہے۔ سندھ ثقافت اور قدیم تہذیب کے حوالے سے اپنی جداگانہ پہچان رکھتا ہے، جس کےلیے محکمہ ثقافت و سیاحت اور نوادرات اپنی بھرپور کوشش کررہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔