امریکا کا افغانستان سے انخلا کیا پاکستان نیٹو رقم کے بغیر رہ سکتا ہے
ستمبر2014 کے تیزی سے قریب آتے ہی تمام نظریں افغانستان اور وہاں موجود اتحادی فوجیوں کے اعلانیہ انخلا پر مرکوز ہیں۔
KARACHI:
ستمبر 2014 کے تیزی سے قریب آتے ہی تمام نظریں افغانستان اور وہاں امریکی قیادت میں موجود اتحادی فوجیوں کے اعلانیہ انخلا پر مرکوز ہیں۔ اگرچہ افغان لویہ جرگہ نے صدر کرزئی سے امریکا کے ساتھ امن معاہدہ پردستخط کرنے کا کہا ہے تاہم وہاں موجود فوجیوں کی بھاری نفری کا 2014 تک انخلا طے ہے۔
اس بڑے پیمانے پر افغانستان سے فوجیوں کےانخلا سے سیکیورٹی کی تمام تر ذمہ داری افغان آرمی اور پولیس پر منتقل ہو جائے گی۔ اس بات کی پیشگوئی کرنا کافی مشکل ہے کہ افغان فورسز انخلا کے بعد سیکیورٹی کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا سکیں گی یا نہیں۔ تاہم ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ انخلا کے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
سیکورٹی خدشات سے قطعہ نظر ڈالر زکا ذرمبادلہ حاصل کرنے کا اہم ذریعہ نیٹو سپلائی اور کارگو بند ہونے سے پاکستان کی معیشت بھی سکڑے گی۔
واضح طور پر اس کے اثرات افغانستان پرزیادہ ہوں گے، یہ سوچتے ہوئے کہ وہاں کمائی کا بڑا انحصار ٹرانزٹ کارگو اور ایساف فورس پر ہے، پاکستان ابھی سے ان لوگوں کے لیے متبادل تلاش کررہا ہے جو کہ 2014 کے بعد روزگار سے محروم ہوجائیں گے۔
عمران خان نے حال ہی میں صوبہ خیبرپختون خوا میں ایک بڑا عوامی اجتماع منعقد کیا ہے اور اپنے حمایتوں کو نیٹوسپلائی روٹ کی بندش کر حکم دیا۔ انہوں نے نیٹوسپلائی لائن کھولنے کے بدلے ڈرون حملوں کی بندش کا مطالبہ کیا ہے۔ عمران خان کی پارٹی اس وقت کمزور صوبہ خیبرپختونخوا پر حکومت کر رہی ہے۔ ان کے ناقدین کا خیال ہے کہ عمران خان نیٹو سپلائی کی بندش سے پیدا ہونے والے معاشی مسائل کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر عوام کو جذبات سے متاثر کر رہے ہیں۔
نیٹو کارگو کی آمد نے ٹرانسپورٹ سیکٹر میں گزشتہ دہائی کے دوران ایک "بوم " پیدا کیا ہے اور کنٹریکٹرز اور اس شعبے سے وابستہ دیگر افراد نے کمرشل اور نیشنل ٹریڈ کی نسبت تین گنا زیادہ رقم کمائی ۔ نیٹو سپلائی میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ یا اس میں بڑی کمی سے پاکستان کی آمدنی میں ایک بڑی کمی واقع ہو گی۔
2001 کے بعد سے نیٹوسپلائی کی آمد سے پاکستان میں کئی قسم کے کاروبار پروان چڑھے ہیں جس کا سب سے زیادہ فائدہ ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک فرمز کو ہوا۔ اگرچہ مال و دولت اور ٹھیکے زیادہ ترکچھ ہاتھوں میں رہے تاہم اس شعبے سے وابستہ کم ترقی یافتہ فاٹا کے علاقے کے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد کو اس نقل و حمل سے کافی فائدہ پہنچا۔ فاٹا کی خیبر اور مہمند ایجنسیز سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والی ایجنسیوں میں شمار ہوتی ہیں کیونکہ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے ڈرائیورز، ہیلپرز اور سیکورٹی اہلکار اپنے علاقے میں موجود روٹس کے بارے میں اچھی معلومات رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہی اس کام میں ترجیح بھی دی جاتی ہے۔
اس شعبے سے تعلق رکھنے والے ڈرائیورز ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن جیسے ہی نیٹو یہاں سے چلی جائے گی ان ڈرائیورز کو متبادل ملازمت کے حصول میں کافی مشکلات کا سامنا ہوگا کیونکہ قبائلی علاقے میں اس حوالے سے بہت ہی محدود مواقع موجود ہیں۔ حقیقت میں سب سے بہتر انتخاب اس علاقے ميں کسی بھی کالعدم جنگجو گروپ کے لیے کام کرنا ہے۔ یہ گروپس نا صرف پرتشدد حملوں میں شامل ہیں بلکہ پیسوں کے عوض غیرقانونی کارگو کے لیے راستے اور سیکورٹی بھی مہیا کرتے ہیں۔
2640 کلومیٹر محیط پاکستان افغانستان بارڈر غیرمعمولی ٹریڈ کا اڈاہ ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ یہاں ہونے والی غیرمعمولی تجارت کا حجم ایک ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ اگر ٹرانزٹ اور کمرشل تجارت کم ہوتی ہے تو ٹرانسپورٹ کے اداروں کو غیرمعمولی تجارت جسے آسان زبان میں اسمگلنگ کیا جاتا ہے کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔
نیٹو ٹرانزٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ اور کمرشل تجارت کو بھی کافی فروغ ملا ہے۔ افغانستان اب پاکستان کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنرہے جو کہ بڑی تعداد میں سامان پاکستان سے درآمد کرتا ہے۔ 2014 کے بعد کی سیکورٹی صورتحال اس رینکنگ کو بھی شدید متاثر کر سکتی ہے جس سے پاکستان کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔
لیکن ایک مستحکم صورتحال میں بھی یہ خدشہ موجود ہے کہ کابل سے غیرملکی سرمایہ واپس چلا جائے جس سے افغانستان کی معیشت کمزور اور وہاں لوگوں کی قوت خرید میں کمی ہو سکتی ہے جو کہ پاکستان کی برآمدات کو متاثر کر سکتا ہے۔ افغانستان میں پاکستان کثیرتعداد بالخصوص غیرمنافع بخش اور تعمیراتی سیکٹرز میں کام کرتی ہیں۔ کمزور افغان معیشت سے ممکن ہے کہ یہ کام کرنے والے افراد واپس آ جائیں جہاں ان کے حوالے سے صورتحال بھی غیریقینی ہے۔
آخر میں، سیکورٹی خدشات بہت سے افغان شہریوں کو پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کی جانب ہجرت پر مجبور کر سکتے ہیں جس سے معاشی مشکلات ميں اضافہ ہو جائے گا۔
ان تمام چیزوں سے پتا چلتا ہے کہ افغانستان کی سیکورٹی اور استحکام سب بڑی ترجیح ہونا چاہیے بالخصوص پاکستان کے لیے۔
افغانستان کی سیکورٹی صرف امریکا یا اس کے اتحادیوں کا مسئلہ نہيں ہونا چاہیے بلکہ اس کے پڑوسیوں ایران، بھارت اور باالخصوص پاکستان کے لیے۔ ان تینوں پڑوسیوں کو اس چیز کو بھی سمجھنا ہو گا کہ مستحکم افغانستان خطے کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔
جب کہ افغانستان کے مستقبل میں کسی بھی قسم کی دخل اندازی ایک غیرعقلمندانہ چیز ہو گی تاہم وہاں محدود پیمانے پر بین الاقوامی سیکورٹی کی موجودگی افغان فوجیوں کو مدد فراہم کرنے میں کافی مدد گار ثابت ہو گی۔
ستمبر 2014 کے تیزی سے قریب آتے ہی تمام نظریں افغانستان اور وہاں امریکی قیادت میں موجود اتحادی فوجیوں کے اعلانیہ انخلا پر مرکوز ہیں۔ اگرچہ افغان لویہ جرگہ نے صدر کرزئی سے امریکا کے ساتھ امن معاہدہ پردستخط کرنے کا کہا ہے تاہم وہاں موجود فوجیوں کی بھاری نفری کا 2014 تک انخلا طے ہے۔
اس بڑے پیمانے پر افغانستان سے فوجیوں کےانخلا سے سیکیورٹی کی تمام تر ذمہ داری افغان آرمی اور پولیس پر منتقل ہو جائے گی۔ اس بات کی پیشگوئی کرنا کافی مشکل ہے کہ افغان فورسز انخلا کے بعد سیکیورٹی کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا سکیں گی یا نہیں۔ تاہم ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ انخلا کے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
سیکورٹی خدشات سے قطعہ نظر ڈالر زکا ذرمبادلہ حاصل کرنے کا اہم ذریعہ نیٹو سپلائی اور کارگو بند ہونے سے پاکستان کی معیشت بھی سکڑے گی۔
واضح طور پر اس کے اثرات افغانستان پرزیادہ ہوں گے، یہ سوچتے ہوئے کہ وہاں کمائی کا بڑا انحصار ٹرانزٹ کارگو اور ایساف فورس پر ہے، پاکستان ابھی سے ان لوگوں کے لیے متبادل تلاش کررہا ہے جو کہ 2014 کے بعد روزگار سے محروم ہوجائیں گے۔
عمران خان نے حال ہی میں صوبہ خیبرپختون خوا میں ایک بڑا عوامی اجتماع منعقد کیا ہے اور اپنے حمایتوں کو نیٹوسپلائی روٹ کی بندش کر حکم دیا۔ انہوں نے نیٹوسپلائی لائن کھولنے کے بدلے ڈرون حملوں کی بندش کا مطالبہ کیا ہے۔ عمران خان کی پارٹی اس وقت کمزور صوبہ خیبرپختونخوا پر حکومت کر رہی ہے۔ ان کے ناقدین کا خیال ہے کہ عمران خان نیٹو سپلائی کی بندش سے پیدا ہونے والے معاشی مسائل کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر عوام کو جذبات سے متاثر کر رہے ہیں۔
نیٹو کارگو کی آمد نے ٹرانسپورٹ سیکٹر میں گزشتہ دہائی کے دوران ایک "بوم " پیدا کیا ہے اور کنٹریکٹرز اور اس شعبے سے وابستہ دیگر افراد نے کمرشل اور نیشنل ٹریڈ کی نسبت تین گنا زیادہ رقم کمائی ۔ نیٹو سپلائی میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ یا اس میں بڑی کمی سے پاکستان کی آمدنی میں ایک بڑی کمی واقع ہو گی۔
2001 کے بعد سے نیٹوسپلائی کی آمد سے پاکستان میں کئی قسم کے کاروبار پروان چڑھے ہیں جس کا سب سے زیادہ فائدہ ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک فرمز کو ہوا۔ اگرچہ مال و دولت اور ٹھیکے زیادہ ترکچھ ہاتھوں میں رہے تاہم اس شعبے سے وابستہ کم ترقی یافتہ فاٹا کے علاقے کے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد کو اس نقل و حمل سے کافی فائدہ پہنچا۔ فاٹا کی خیبر اور مہمند ایجنسیز سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والی ایجنسیوں میں شمار ہوتی ہیں کیونکہ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے ڈرائیورز، ہیلپرز اور سیکورٹی اہلکار اپنے علاقے میں موجود روٹس کے بارے میں اچھی معلومات رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہی اس کام میں ترجیح بھی دی جاتی ہے۔
اس شعبے سے تعلق رکھنے والے ڈرائیورز ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن جیسے ہی نیٹو یہاں سے چلی جائے گی ان ڈرائیورز کو متبادل ملازمت کے حصول میں کافی مشکلات کا سامنا ہوگا کیونکہ قبائلی علاقے میں اس حوالے سے بہت ہی محدود مواقع موجود ہیں۔ حقیقت میں سب سے بہتر انتخاب اس علاقے ميں کسی بھی کالعدم جنگجو گروپ کے لیے کام کرنا ہے۔ یہ گروپس نا صرف پرتشدد حملوں میں شامل ہیں بلکہ پیسوں کے عوض غیرقانونی کارگو کے لیے راستے اور سیکورٹی بھی مہیا کرتے ہیں۔
2640 کلومیٹر محیط پاکستان افغانستان بارڈر غیرمعمولی ٹریڈ کا اڈاہ ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ یہاں ہونے والی غیرمعمولی تجارت کا حجم ایک ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ اگر ٹرانزٹ اور کمرشل تجارت کم ہوتی ہے تو ٹرانسپورٹ کے اداروں کو غیرمعمولی تجارت جسے آسان زبان میں اسمگلنگ کیا جاتا ہے کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔
نیٹو ٹرانزٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ اور کمرشل تجارت کو بھی کافی فروغ ملا ہے۔ افغانستان اب پاکستان کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنرہے جو کہ بڑی تعداد میں سامان پاکستان سے درآمد کرتا ہے۔ 2014 کے بعد کی سیکورٹی صورتحال اس رینکنگ کو بھی شدید متاثر کر سکتی ہے جس سے پاکستان کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔
لیکن ایک مستحکم صورتحال میں بھی یہ خدشہ موجود ہے کہ کابل سے غیرملکی سرمایہ واپس چلا جائے جس سے افغانستان کی معیشت کمزور اور وہاں لوگوں کی قوت خرید میں کمی ہو سکتی ہے جو کہ پاکستان کی برآمدات کو متاثر کر سکتا ہے۔ افغانستان میں پاکستان کثیرتعداد بالخصوص غیرمنافع بخش اور تعمیراتی سیکٹرز میں کام کرتی ہیں۔ کمزور افغان معیشت سے ممکن ہے کہ یہ کام کرنے والے افراد واپس آ جائیں جہاں ان کے حوالے سے صورتحال بھی غیریقینی ہے۔
آخر میں، سیکورٹی خدشات بہت سے افغان شہریوں کو پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کی جانب ہجرت پر مجبور کر سکتے ہیں جس سے معاشی مشکلات ميں اضافہ ہو جائے گا۔
ان تمام چیزوں سے پتا چلتا ہے کہ افغانستان کی سیکورٹی اور استحکام سب بڑی ترجیح ہونا چاہیے بالخصوص پاکستان کے لیے۔
افغانستان کی سیکورٹی صرف امریکا یا اس کے اتحادیوں کا مسئلہ نہيں ہونا چاہیے بلکہ اس کے پڑوسیوں ایران، بھارت اور باالخصوص پاکستان کے لیے۔ ان تینوں پڑوسیوں کو اس چیز کو بھی سمجھنا ہو گا کہ مستحکم افغانستان خطے کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔
جب کہ افغانستان کے مستقبل میں کسی بھی قسم کی دخل اندازی ایک غیرعقلمندانہ چیز ہو گی تاہم وہاں محدود پیمانے پر بین الاقوامی سیکورٹی کی موجودگی افغان فوجیوں کو مدد فراہم کرنے میں کافی مدد گار ثابت ہو گی۔