مطالباتِ جہیز کی آفات
ظلم و ستم کے طریقوں اور ناجائز رسوم کو اپنا کر بھیک کی طرح جہیز مانگ کر جمع کرنا کوئی شریفانہ طریقہ نہیں
آج معاشرے میں جہیز کا مطالبہ عام ہوتا جا رہا ہے اور جو دلہن کم جہیز لائے اس کو کوسنے، ستانے، طلاق، یہاں تک کہ جلانے اور مار ڈالنے تک کے واقعات سننے میں آتے ہیں۔
آج دین سے دُور خاندانوں کے نوجوانوں نے اسے نفع جوئی اور زر طلبی کا ایک کاروبار سمجھ لیا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ جہیز کی کمی کی وجہ سے عورتوں کو ستانے والے جوان اور خاندانوں میں یہ حریصانہ طبیعت اور ظالمانہ جرأت کیسے پیدا ہوئی اور اس کے اسباب و عوامل کیا ہیں ؟
حریصانہ طبیعت حب دنیا کی پیداوار ہے اور یہ ظالمانہ جرأت دین سے دُوری کا نتیجہ ہے۔ دین اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کہ آدمی اپنی کوشش و محنت سے جتنا چاہے مال کمائے مگر دوسرے کے مال کی طمع اور اسے اپنا مال بنانے کی حرص یقینا مذموم اور گھٹیا ہے۔ جو آدمی دین دار ہو وہ کبھی بھی بیوی یا سسرال کے مال و دولت کا حریص نہیں ہو سکتا۔
اسلامی نقطۂ نظر سے تو جہیز کا سارا سامان بیوی ہی کی ملکیت ہے۔ اس پر زکوٰۃ فرض ہو تو اس کی ادائی بیوی ہی کی ذمّے داری ہے اور اس کا استعمال کوئی دوسرا اگر کرنا بھی چاہے تو بیوی کی رضا مندی اور اجازت ہی پر منحصر ہے۔ سنت رسول ﷺ اور احکام اسلام کی رُو سے نکاح کے بعد مہر، نان نفقہ اور سکونت کے سارے مصارف شوہر پر عاید ہوتے ہیں۔
بیوی پر قطعاً یہ کوئی واجب یا فرض یا سنّت نہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال و دولت شوہر اور اس کے خاندان والوں کے حصے میں لائے۔ لڑکی کے خاندان پر بھی صرف یہ فرض عاید ہوتا ہے کہ مناسب لڑکے سے اس کا عقد کریں۔ یہ ان کی ذمّے داری ہرگز نہیں کہ اس لڑکے کو مال دولت سے بھی سرفراز کریں۔ عقد نکاح تو وہ عمل ہے جس کی رُو سے لڑکی کے ذاتی مصارف کی ذمے داری بھی شوہر کے ذمّے ہے۔ لیکن یہ عجب حرص و ہوس ہے کہ آج کا نوجوان اور اس کا خاندان نکاح کے ذریعے اپنی ضروریات اور مصارف کی ذمّے داری بھی نادار و ناتواں لڑکی کے والدین کے سر ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس ظلم و ستم اور جذبات و خیالات کے اندھے پن سے خدا کی پناہ!
عورت پر ظلم کی وجہ یہ ہے کہ جہیز کی کمی کے باعث جو خاندان اور نوجوان شاکی ہوتے اور اپنی بے جا توقعات پر پانی پھرتا دیکھ کر اس قدر غیظ و غضب میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ظلم و ستم اور ننگی جارحیت پر اتر آتے ہیں، وہ دین و شریعت کے مزاج اور اصول و قوانین ہی سے نابلد ہوتے ہیں اور ان کی روز مرہ کی زندگی میں بھی دین و شریعت سے انحراف نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ جہیز یا کسی دنیاوی رنجش کی بناء پر قتل مسلم کے متعلق قرآن کریم نے بتایا ہے کہ جو کسی بھی انسان کو بلاوجہ قصداً قتل کرے اس کا بدلہ جہنّم ہے جس میں اسے ہمیشہ رہنا ہے۔
زیادہ جہیز لینے اور دینے کا عمل کیوں پروان چڑھ رہا ہے اور اس سلسلے میں کوئی آہ و فغاں اور شور و فریاد کارگر کیوں نہیں ہوتی؟ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ جو اہل ثروت ہیں وہ اپنی دولت کی نام و نمود کی خاطر یا لڑکی اور داماد سے بے پناہ محبّت کی نمائش کی خاطر اتنا جہیز دے ڈالتے ہیں کہ متوسط طبقے کی ساری جائیداد کی مالیت لگائی جائے تو اس کے برابر نہ ہو۔ ان حضرات کا یہ عمل دیکھ کر دوسرے بھی زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کی بہ امر مجبوری کوشش کرتے ہیں اور اسی کو عزت و عظمت خیال کرتے ہیں اور نہ دینے میں اپنی بے توقیری اور ہتک محسوس کرتے ہیں۔ زیادہ جہیز دینے کا رواج دولت مند اور متوسط قسم کے اچھے خاصے دین دار اور پابند شرع لوگوں میں بھی کثرت سے پایا جاتا ہے۔
اگر کوئی شخص بہ ظاہر خوش حال نظر آتا ہو لیکن حقیقت میں وہ پریشان حال اور تنگ دست ہو اور اس لیے اتنا جہیز نہ دے سکے جو معاشرے میں اس کے برابر اور ہم پلہ شمار کیے جانے والوں نے دیا ہے تو اسے بخیل کہا جاتا اور بیٹی اور داماد سے عدم محبّت پر محمول کیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے جب جہیز معزز گھرانوں کا علامتی نشان بن چکا ہو اور فخر کے ساتھ اسے عملاً رواج مل رہا ہو اس ماحول میں اگر یہ تحریک چلائی جائے کہ جہیز بند کرو تو یہ کہاں تک کام یاب ہو سکتی ہے اور نہ پانے والے کہاں تک صبر کر سکتے ہیں۔ خصوصاً جب کہ وہ دینی فکر و مزاج اور شرعی کردار و عمل سے بھی عاری ہوں۔ دولت مندوں کے لیے تو لاکھوں کا جہیز دینا کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کے دامادوں کو دیکھ کر ہر نوجوان آرزو مند ہوتا ہے کہ مجھے بھی ایسی لڑکی ملے جو اپنے ساتھ اسی طرح وافر جہیز لائے اور جس کی یہ آرزو پوری نہیں ہوتی وہ اس حد تک بد دل ہوتا ہے کہ لڑکی پر طعن و تشنیع سے لے کر ضرب و قتل تک پہنچ جاتا ہے۔
آخر علاج کیا ہے؟
معاشرے میں اسلامی روح بیدار کی جائے۔ اسلامی احکامات کی اہمیت و عظمت عوام کے دلوں میں اتاری جائے۔ ان میں آخرت کا خوف پیدا کیا جائے۔ متاع دنیا کی حرص سے دُور کیا جائے۔ اس بات کو دل و دماغ میں راسخ کیا جائے کہ مومن کی سرخ روئی اور کام یابی اسی میں ہے کہ خدا کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز و بہتر طور پر اپنی دنیا بھی خوش حال بنائے اور آخرت بھی سنوارے۔ ناانصافی اور ظلم و ستم سے بہ ہر حال پرہیز کرے ورنہ اس کا انجام بڑا ہی بھیانک اور خطرناک ہے۔ خالق حقیقی کی سزا سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو انسان کو انسان کی حفاظت و بقاء اور اس کے فطری جذبات کی مناسب تحدید کے لیے وضع ہوا ہے۔
لیکن مصارف و اخراجات کی ساری ذمے داری شریعت نے مرد کے سر رکھی ہے اور عورت قطعاً اس کی پابند نہیں کہ شوہر کو اپنی یا اپنے ماں باپ کی دولت سے نفع اندوز کرے۔ مرد کی عزّت اور وقار کا تقاضا یہی ہے کہ مرد خود اپنی ذاتی کمائی، محنت اور اپنی ذاتی دولت پر مسرور ہو۔ بیوی یا اس کے ماں باپ اور اہل خاندان کی کمائی اور دولت پر حریصانہ نظر رکھنا گھٹیاپن کا عکاس ہے۔
جس سے ہر شریف اور باغیرت فرد اور خاندان کو بہت دُور رہنا چاہیے۔ عملی طور پر شادی بیاہ کے موقع پر خصوصاً دولت مندوں کو سمجھایا جائے کہ خدا نے آپ کو دولت دی ہے۔ آپ اپنی بیٹی داماد کو جو چاہے دے سکتے ہیں لیکن اس کا بھی خیال رکھیں کہ اس سے غریبوں کی دل شکنی نہ ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ غریب خاندانوں کی لڑکیاں اس رسم جہیز کی وجہ سے کنواری بیٹھی رہ جاتی ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ جس کا نتیجہ معاشرہ میں آوارگی اور بے حیائی کی صورت میں بھی نمودار ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کو وافر جہیز دینا ہی ہے تو خاموشی سے دے لیں لیکن خدارا اپنے جہیز اور دولت کی نمائش کر کے مفلس و نادار والدین کی بیٹیوں کی زندگی اجیرن نہ بنائیں۔
نوجوانوں کو بہ ہر حال یہ یقین دلایا جائے کہ تم اگر اپنی محنت کی کمائی سے دولت کے مالک بن سکے تو یہ دولت تمہارے لیے راحت و عزت کا باعث ہو سکتی ہے۔ لیکن ظلم و ستم کے طریقوں اور ناجائز رسوم کو اپنا کر بھیک کی طرح جہیز مانگ کر مال و اسباب جمع کرنا کوئی شریفانہ طریقہ نہیں۔ انہیں بتایا جائے کہ قناعت ہی اصل مال داری ہے۔ آدمی نے اگر قناعت نہ کی تو وہ فقیر اور محتاج ہی رہے گا۔
مذکورہ بالا تجاویز کا حاصل یہ ہے کہ فکر و مزاج میں تبدیلی لائی جائے۔ تصورات و خیالات، معاملات و عادات کو اسلامی و ایمانی رنگ میں ڈھالا جائے اور دولت مند طبقہ نادار و کم زور کے دکھ درد اور اس کے مصائب و مشکلات کا سچے دل سے احساس کرے، جبھی جہیز میں افراط اور اس سے پیدا ہونے والے مفاسد کا سدباب ہو سکتا ہے۔
آج دین سے دُور خاندانوں کے نوجوانوں نے اسے نفع جوئی اور زر طلبی کا ایک کاروبار سمجھ لیا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ جہیز کی کمی کی وجہ سے عورتوں کو ستانے والے جوان اور خاندانوں میں یہ حریصانہ طبیعت اور ظالمانہ جرأت کیسے پیدا ہوئی اور اس کے اسباب و عوامل کیا ہیں ؟
حریصانہ طبیعت حب دنیا کی پیداوار ہے اور یہ ظالمانہ جرأت دین سے دُوری کا نتیجہ ہے۔ دین اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کہ آدمی اپنی کوشش و محنت سے جتنا چاہے مال کمائے مگر دوسرے کے مال کی طمع اور اسے اپنا مال بنانے کی حرص یقینا مذموم اور گھٹیا ہے۔ جو آدمی دین دار ہو وہ کبھی بھی بیوی یا سسرال کے مال و دولت کا حریص نہیں ہو سکتا۔
اسلامی نقطۂ نظر سے تو جہیز کا سارا سامان بیوی ہی کی ملکیت ہے۔ اس پر زکوٰۃ فرض ہو تو اس کی ادائی بیوی ہی کی ذمّے داری ہے اور اس کا استعمال کوئی دوسرا اگر کرنا بھی چاہے تو بیوی کی رضا مندی اور اجازت ہی پر منحصر ہے۔ سنت رسول ﷺ اور احکام اسلام کی رُو سے نکاح کے بعد مہر، نان نفقہ اور سکونت کے سارے مصارف شوہر پر عاید ہوتے ہیں۔
بیوی پر قطعاً یہ کوئی واجب یا فرض یا سنّت نہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال و دولت شوہر اور اس کے خاندان والوں کے حصے میں لائے۔ لڑکی کے خاندان پر بھی صرف یہ فرض عاید ہوتا ہے کہ مناسب لڑکے سے اس کا عقد کریں۔ یہ ان کی ذمّے داری ہرگز نہیں کہ اس لڑکے کو مال دولت سے بھی سرفراز کریں۔ عقد نکاح تو وہ عمل ہے جس کی رُو سے لڑکی کے ذاتی مصارف کی ذمے داری بھی شوہر کے ذمّے ہے۔ لیکن یہ عجب حرص و ہوس ہے کہ آج کا نوجوان اور اس کا خاندان نکاح کے ذریعے اپنی ضروریات اور مصارف کی ذمّے داری بھی نادار و ناتواں لڑکی کے والدین کے سر ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس ظلم و ستم اور جذبات و خیالات کے اندھے پن سے خدا کی پناہ!
عورت پر ظلم کی وجہ یہ ہے کہ جہیز کی کمی کے باعث جو خاندان اور نوجوان شاکی ہوتے اور اپنی بے جا توقعات پر پانی پھرتا دیکھ کر اس قدر غیظ و غضب میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ظلم و ستم اور ننگی جارحیت پر اتر آتے ہیں، وہ دین و شریعت کے مزاج اور اصول و قوانین ہی سے نابلد ہوتے ہیں اور ان کی روز مرہ کی زندگی میں بھی دین و شریعت سے انحراف نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ جہیز یا کسی دنیاوی رنجش کی بناء پر قتل مسلم کے متعلق قرآن کریم نے بتایا ہے کہ جو کسی بھی انسان کو بلاوجہ قصداً قتل کرے اس کا بدلہ جہنّم ہے جس میں اسے ہمیشہ رہنا ہے۔
زیادہ جہیز لینے اور دینے کا عمل کیوں پروان چڑھ رہا ہے اور اس سلسلے میں کوئی آہ و فغاں اور شور و فریاد کارگر کیوں نہیں ہوتی؟ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ جو اہل ثروت ہیں وہ اپنی دولت کی نام و نمود کی خاطر یا لڑکی اور داماد سے بے پناہ محبّت کی نمائش کی خاطر اتنا جہیز دے ڈالتے ہیں کہ متوسط طبقے کی ساری جائیداد کی مالیت لگائی جائے تو اس کے برابر نہ ہو۔ ان حضرات کا یہ عمل دیکھ کر دوسرے بھی زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کی بہ امر مجبوری کوشش کرتے ہیں اور اسی کو عزت و عظمت خیال کرتے ہیں اور نہ دینے میں اپنی بے توقیری اور ہتک محسوس کرتے ہیں۔ زیادہ جہیز دینے کا رواج دولت مند اور متوسط قسم کے اچھے خاصے دین دار اور پابند شرع لوگوں میں بھی کثرت سے پایا جاتا ہے۔
اگر کوئی شخص بہ ظاہر خوش حال نظر آتا ہو لیکن حقیقت میں وہ پریشان حال اور تنگ دست ہو اور اس لیے اتنا جہیز نہ دے سکے جو معاشرے میں اس کے برابر اور ہم پلہ شمار کیے جانے والوں نے دیا ہے تو اسے بخیل کہا جاتا اور بیٹی اور داماد سے عدم محبّت پر محمول کیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے جب جہیز معزز گھرانوں کا علامتی نشان بن چکا ہو اور فخر کے ساتھ اسے عملاً رواج مل رہا ہو اس ماحول میں اگر یہ تحریک چلائی جائے کہ جہیز بند کرو تو یہ کہاں تک کام یاب ہو سکتی ہے اور نہ پانے والے کہاں تک صبر کر سکتے ہیں۔ خصوصاً جب کہ وہ دینی فکر و مزاج اور شرعی کردار و عمل سے بھی عاری ہوں۔ دولت مندوں کے لیے تو لاکھوں کا جہیز دینا کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کے دامادوں کو دیکھ کر ہر نوجوان آرزو مند ہوتا ہے کہ مجھے بھی ایسی لڑکی ملے جو اپنے ساتھ اسی طرح وافر جہیز لائے اور جس کی یہ آرزو پوری نہیں ہوتی وہ اس حد تک بد دل ہوتا ہے کہ لڑکی پر طعن و تشنیع سے لے کر ضرب و قتل تک پہنچ جاتا ہے۔
آخر علاج کیا ہے؟
معاشرے میں اسلامی روح بیدار کی جائے۔ اسلامی احکامات کی اہمیت و عظمت عوام کے دلوں میں اتاری جائے۔ ان میں آخرت کا خوف پیدا کیا جائے۔ متاع دنیا کی حرص سے دُور کیا جائے۔ اس بات کو دل و دماغ میں راسخ کیا جائے کہ مومن کی سرخ روئی اور کام یابی اسی میں ہے کہ خدا کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز و بہتر طور پر اپنی دنیا بھی خوش حال بنائے اور آخرت بھی سنوارے۔ ناانصافی اور ظلم و ستم سے بہ ہر حال پرہیز کرے ورنہ اس کا انجام بڑا ہی بھیانک اور خطرناک ہے۔ خالق حقیقی کی سزا سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو انسان کو انسان کی حفاظت و بقاء اور اس کے فطری جذبات کی مناسب تحدید کے لیے وضع ہوا ہے۔
لیکن مصارف و اخراجات کی ساری ذمے داری شریعت نے مرد کے سر رکھی ہے اور عورت قطعاً اس کی پابند نہیں کہ شوہر کو اپنی یا اپنے ماں باپ کی دولت سے نفع اندوز کرے۔ مرد کی عزّت اور وقار کا تقاضا یہی ہے کہ مرد خود اپنی ذاتی کمائی، محنت اور اپنی ذاتی دولت پر مسرور ہو۔ بیوی یا اس کے ماں باپ اور اہل خاندان کی کمائی اور دولت پر حریصانہ نظر رکھنا گھٹیاپن کا عکاس ہے۔
جس سے ہر شریف اور باغیرت فرد اور خاندان کو بہت دُور رہنا چاہیے۔ عملی طور پر شادی بیاہ کے موقع پر خصوصاً دولت مندوں کو سمجھایا جائے کہ خدا نے آپ کو دولت دی ہے۔ آپ اپنی بیٹی داماد کو جو چاہے دے سکتے ہیں لیکن اس کا بھی خیال رکھیں کہ اس سے غریبوں کی دل شکنی نہ ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ غریب خاندانوں کی لڑکیاں اس رسم جہیز کی وجہ سے کنواری بیٹھی رہ جاتی ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ جس کا نتیجہ معاشرہ میں آوارگی اور بے حیائی کی صورت میں بھی نمودار ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کو وافر جہیز دینا ہی ہے تو خاموشی سے دے لیں لیکن خدارا اپنے جہیز اور دولت کی نمائش کر کے مفلس و نادار والدین کی بیٹیوں کی زندگی اجیرن نہ بنائیں۔
نوجوانوں کو بہ ہر حال یہ یقین دلایا جائے کہ تم اگر اپنی محنت کی کمائی سے دولت کے مالک بن سکے تو یہ دولت تمہارے لیے راحت و عزت کا باعث ہو سکتی ہے۔ لیکن ظلم و ستم کے طریقوں اور ناجائز رسوم کو اپنا کر بھیک کی طرح جہیز مانگ کر مال و اسباب جمع کرنا کوئی شریفانہ طریقہ نہیں۔ انہیں بتایا جائے کہ قناعت ہی اصل مال داری ہے۔ آدمی نے اگر قناعت نہ کی تو وہ فقیر اور محتاج ہی رہے گا۔
مذکورہ بالا تجاویز کا حاصل یہ ہے کہ فکر و مزاج میں تبدیلی لائی جائے۔ تصورات و خیالات، معاملات و عادات کو اسلامی و ایمانی رنگ میں ڈھالا جائے اور دولت مند طبقہ نادار و کم زور کے دکھ درد اور اس کے مصائب و مشکلات کا سچے دل سے احساس کرے، جبھی جہیز میں افراط اور اس سے پیدا ہونے والے مفاسد کا سدباب ہو سکتا ہے۔