گدڑی کے لعل
گزشتہ 20 نومبر کو اپنے گھرکی سیڑھیاں اترکر جوں ہی باہر گلی میں آیا تو ایک معصوم پھول سے بچے کو کچرا چنتے ہوئے دنیا۔۔۔
گزشتہ 20 نومبر کو اپنے گھرکی سیڑھیاں اترکر جوں ہی باہر گلی میں آیا تو ایک معصوم پھول سے بچے کو کچرا چنتے ہوئے دنیا ومافیہا سے بے خبر اور بے نیاز پایا۔ بچہ کیا تھا بس ایک ننھا فرشتہ تھا۔ ایک مرجھایا ہوا پھول تھا جسے دیکھتے ہی ابن انشاء کی شہرہ آفاق نظم یاد آگئی جس کا عنوان تھا ''یہ بچہ کس کا بچہ ہے'' بعد میں یہی نظم ایدھی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ریڈیو پاکستان کے اس مشہور اور مقبول پروگرام کا محرک اور عنوان بنی جس کا مقصد گمشدہ بچوں کی تلاش کے بعد انھیں ان کے والدین اور سر پرستوں تک بخیروعافیت پہنچانا تھا۔
بچوں کا عالمی دن یا عالمی یوم اطفال ہر سال 20 نومبر کو پوری دنیا میں پابندی کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ورلڈ کانگریس نے اس دن کو منانے کا آغاز 1925 میں کیا تھا۔ 1954 میں اس کے لیے عالمی سطح پر ایک دن مخصوص کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اقوام متحدہ نے اس کے لیے 20 نومبر کی تاریخ طے کی۔ حسن اتفاق ملاحظہ ہو کہ علامہ اقبال اور پنڈت جواہر لعل نہرو کا یوم پیدائش بھی بالترتیب اسی ماہ کی 9 اور 14 تاریخوں کو نہایت اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ان دونوں عظیم ہستیوں کی طرح شہید حکیم محمد سعید کو بھی بچوں سے بے انتہا محبت تھی جس کا جیتا جاگتا ثبوت ''ہمدرد نونہال'' نامی بچوں کا رسالہ ہے جو حکیم صاحب کی شہادت کے بعد بھی نہایت پابندی کے ساتھ ہر ماہ شایع ہوتا ہے۔ ہمیں خود بھی اپنا بچپن جب یاد آتا ہے تو ہمارے لبوں پر بے اختیار یہ شعر امنڈ آتا ہے۔
اسیر پنجہ عہد شباب کرکے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کرکے مجھے
پیرانہ سالی کی موجودہ کیفیت میں بچپن اور عہد شباب کا یہ تذکرہ ہمارے لیے دو آتشہ ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جسے اپنا بچپن رہ رہ کر یاد نہ آتا ہو۔
20 نومبر 1959 کو بچوں کے حقوق کا عالمی اعلامیہ جاری کیا گیا اور 20 نومبر 1989 کو بچوں کے حقوق سے متعلق بین الاقوامی کنونشن منظور کیا گیا۔ 2012 میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بچوں کی تعلیم کے ضمن میں جن کوششوں کی شروعات کی ان کا پہلا ہدف یہ مقرر کیا گیا کہ 2015 تک دنیا بھر میں اسکول جانے کی عمر کے تمام بچے اسکول میں جانے لگیں۔ اس کے بعد دوسرا ہدف یہ رکھا گیا کہ بچوں کو اسکول میں جو کچھ پڑھایا اور سکھایا جائے اس کے معیار کو بہتر کیا جائے۔ تیسرا اور آخری ہدف یہ قرار پایا کہ تعلیم سے متعلق ان حکمت عملیوں پر باقاعدہ عمل درآمد کیا جائے جن کے ذریعے اقوام عالم میں امن و آشتی، باہمی احترام اور ماحولیات کے بارے میں آگہی کو زیادہ سے زیادہ فروغ حاصل ہو۔
20 نومبر کو عالمی یوم اطفال کے موقعے پر ریڈیو اور ٹی وی سے خصوصی پروگرام نشر کیے جاتے ہیں، اخبارات کے ضمیمے نکالے جاتے ہیں اور جلسے اور سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔ تاہم بچوں کا عالمی دن منانے کا مقصد محض تقریبات کا انعقاد نہیں ہے بلکہ بچوں کے استحصال اور ان کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکی کا خاتمہ اور ان کے حقوق کے بارے میں شعورکو بیدارکرنا ہے۔ پاکستان میں بھی سال بہ سال بچوں کا عالمی دن بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور میڈیا پر اس کا چرچا بھی کیا جاتا ہے لیکن نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سارا عمل صرف نمائشی ہوتا ہے۔
ہمارے بچے پاکستان کی کل آبادی کا 148 اعشاریہ 75 فیصد ہیں جوکہ ایک بہت بڑی تعداد ہے یعنی ہماری مجموعی آبادی کا لگ بھگ آدھا حصہ۔ پاکستان نے 1990 میں بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کیے تھے اور اس کی توثیق بھی کی تھی۔ مگر اتنا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود ہمارے یہاں بچوں کو تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے سلسلے میں کوئی قابل ذکر پیش رفت ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ بچوں کی فلاح، بہبود کے لیے ادارے قائم کرنا تو بہت دور کی بات ہے ہم بچوں کے حقوق سے متعلق جامع قانون سازی تک نہیں کرسکے۔
دنیا کے بعض دیگر ممالک کی طرح بچوں سے مشقت لینے کا مسئلہ جوکہ چائلڈ لیبرکہلاتا ہے نہ صرف برابر موجود ہے بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ہمارے بچے دکانوں اور کارخانوں میں کام کر رہے ہیں اور بسوں، کوچوں اور ویگنوں میں کنڈیکٹری کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ بچوں سے جبری مشقت لینے کے علاوہ ان کے جنسی استحصال کا مسئلہ سب سے زیادہ سنگین ہے اور اس سلسلے میں اشارتاً صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ:
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
گزارش ہے کہ کم کہے کو زیادہ سمجھیں۔ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت نے ہماری معصوم کلیوں اور خوش نما پھولوں کو بھی دیگر اجناس کی طرح ایک قابل فروخت جنس بنا دیا ہے۔ غریب والدین جو بچوں کو پیٹ بھر روٹی نہیں کھلا سکتے وہ بھلا انھیں پڑھائیں لکھائیں گے کس طرح؟ وطن عزیز میں حکومتیں آتی رہیں اور جاتی رہیں مگر ان میں سے کسی کو بھی اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ایسا اپ ٹو ڈیٹ سروے کرایا جائے جس سے یہ پتہ چلے کہ ملک میں چائلڈ لیبر کی اصل صورت حال کیا ہے۔ پاکستان میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے آخری مجموعی سروے غالبا1996 میں کرایا گیا تھا جس کے مطابق اس وقت ملک میں کم سن محنت کشوں کی تعداد 33 لاکھ تھی۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ تب سے آج تک پلوں کے نیچے سے نہ جانے کتنا پانی بہہ چکا ہوگا۔
دنیا بھر میں پاکستان دوسرا ملک ہے جہاں آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ بچوں کے حوالے سے تعلیم سے محروم ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان بچوں کے پاس گھر کے چولہے کو جلتا ہوا رکھنے کے لیے دن رات کی محنت و مشقت کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ حوالات اور جیلوں میں قید بچوں کے مسائل تو اتنے سنگین ہیں کہ انھیں ضبط تحریر میں لانا بھی آسان نہیں ہے۔ یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ جہالت اور غربت بہت سے معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بیماریوں اور جرائم کو بھی جنم دیتی ہے۔ وطن عزیز کے یہ محروم بچے ہماری گدڑی کے لعل ہیں۔ کاش! ہماری حکومت ان کی جانب خاطر خواہ توجہ دے۔
بچوں کا عالمی دن یا عالمی یوم اطفال ہر سال 20 نومبر کو پوری دنیا میں پابندی کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ورلڈ کانگریس نے اس دن کو منانے کا آغاز 1925 میں کیا تھا۔ 1954 میں اس کے لیے عالمی سطح پر ایک دن مخصوص کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اقوام متحدہ نے اس کے لیے 20 نومبر کی تاریخ طے کی۔ حسن اتفاق ملاحظہ ہو کہ علامہ اقبال اور پنڈت جواہر لعل نہرو کا یوم پیدائش بھی بالترتیب اسی ماہ کی 9 اور 14 تاریخوں کو نہایت اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ان دونوں عظیم ہستیوں کی طرح شہید حکیم محمد سعید کو بھی بچوں سے بے انتہا محبت تھی جس کا جیتا جاگتا ثبوت ''ہمدرد نونہال'' نامی بچوں کا رسالہ ہے جو حکیم صاحب کی شہادت کے بعد بھی نہایت پابندی کے ساتھ ہر ماہ شایع ہوتا ہے۔ ہمیں خود بھی اپنا بچپن جب یاد آتا ہے تو ہمارے لبوں پر بے اختیار یہ شعر امنڈ آتا ہے۔
اسیر پنجہ عہد شباب کرکے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کرکے مجھے
پیرانہ سالی کی موجودہ کیفیت میں بچپن اور عہد شباب کا یہ تذکرہ ہمارے لیے دو آتشہ ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جسے اپنا بچپن رہ رہ کر یاد نہ آتا ہو۔
20 نومبر 1959 کو بچوں کے حقوق کا عالمی اعلامیہ جاری کیا گیا اور 20 نومبر 1989 کو بچوں کے حقوق سے متعلق بین الاقوامی کنونشن منظور کیا گیا۔ 2012 میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بچوں کی تعلیم کے ضمن میں جن کوششوں کی شروعات کی ان کا پہلا ہدف یہ مقرر کیا گیا کہ 2015 تک دنیا بھر میں اسکول جانے کی عمر کے تمام بچے اسکول میں جانے لگیں۔ اس کے بعد دوسرا ہدف یہ رکھا گیا کہ بچوں کو اسکول میں جو کچھ پڑھایا اور سکھایا جائے اس کے معیار کو بہتر کیا جائے۔ تیسرا اور آخری ہدف یہ قرار پایا کہ تعلیم سے متعلق ان حکمت عملیوں پر باقاعدہ عمل درآمد کیا جائے جن کے ذریعے اقوام عالم میں امن و آشتی، باہمی احترام اور ماحولیات کے بارے میں آگہی کو زیادہ سے زیادہ فروغ حاصل ہو۔
20 نومبر کو عالمی یوم اطفال کے موقعے پر ریڈیو اور ٹی وی سے خصوصی پروگرام نشر کیے جاتے ہیں، اخبارات کے ضمیمے نکالے جاتے ہیں اور جلسے اور سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔ تاہم بچوں کا عالمی دن منانے کا مقصد محض تقریبات کا انعقاد نہیں ہے بلکہ بچوں کے استحصال اور ان کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکی کا خاتمہ اور ان کے حقوق کے بارے میں شعورکو بیدارکرنا ہے۔ پاکستان میں بھی سال بہ سال بچوں کا عالمی دن بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور میڈیا پر اس کا چرچا بھی کیا جاتا ہے لیکن نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سارا عمل صرف نمائشی ہوتا ہے۔
ہمارے بچے پاکستان کی کل آبادی کا 148 اعشاریہ 75 فیصد ہیں جوکہ ایک بہت بڑی تعداد ہے یعنی ہماری مجموعی آبادی کا لگ بھگ آدھا حصہ۔ پاکستان نے 1990 میں بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کیے تھے اور اس کی توثیق بھی کی تھی۔ مگر اتنا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود ہمارے یہاں بچوں کو تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے سلسلے میں کوئی قابل ذکر پیش رفت ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ بچوں کی فلاح، بہبود کے لیے ادارے قائم کرنا تو بہت دور کی بات ہے ہم بچوں کے حقوق سے متعلق جامع قانون سازی تک نہیں کرسکے۔
دنیا کے بعض دیگر ممالک کی طرح بچوں سے مشقت لینے کا مسئلہ جوکہ چائلڈ لیبرکہلاتا ہے نہ صرف برابر موجود ہے بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ہمارے بچے دکانوں اور کارخانوں میں کام کر رہے ہیں اور بسوں، کوچوں اور ویگنوں میں کنڈیکٹری کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ بچوں سے جبری مشقت لینے کے علاوہ ان کے جنسی استحصال کا مسئلہ سب سے زیادہ سنگین ہے اور اس سلسلے میں اشارتاً صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ:
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
گزارش ہے کہ کم کہے کو زیادہ سمجھیں۔ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت نے ہماری معصوم کلیوں اور خوش نما پھولوں کو بھی دیگر اجناس کی طرح ایک قابل فروخت جنس بنا دیا ہے۔ غریب والدین جو بچوں کو پیٹ بھر روٹی نہیں کھلا سکتے وہ بھلا انھیں پڑھائیں لکھائیں گے کس طرح؟ وطن عزیز میں حکومتیں آتی رہیں اور جاتی رہیں مگر ان میں سے کسی کو بھی اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ایسا اپ ٹو ڈیٹ سروے کرایا جائے جس سے یہ پتہ چلے کہ ملک میں چائلڈ لیبر کی اصل صورت حال کیا ہے۔ پاکستان میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے آخری مجموعی سروے غالبا1996 میں کرایا گیا تھا جس کے مطابق اس وقت ملک میں کم سن محنت کشوں کی تعداد 33 لاکھ تھی۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ تب سے آج تک پلوں کے نیچے سے نہ جانے کتنا پانی بہہ چکا ہوگا۔
دنیا بھر میں پاکستان دوسرا ملک ہے جہاں آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ بچوں کے حوالے سے تعلیم سے محروم ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان بچوں کے پاس گھر کے چولہے کو جلتا ہوا رکھنے کے لیے دن رات کی محنت و مشقت کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ حوالات اور جیلوں میں قید بچوں کے مسائل تو اتنے سنگین ہیں کہ انھیں ضبط تحریر میں لانا بھی آسان نہیں ہے۔ یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ جہالت اور غربت بہت سے معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بیماریوں اور جرائم کو بھی جنم دیتی ہے۔ وطن عزیز کے یہ محروم بچے ہماری گدڑی کے لعل ہیں۔ کاش! ہماری حکومت ان کی جانب خاطر خواہ توجہ دے۔