ہر وزیر کے لیے ایک کالا بکرا

ایک ہی دن ایک ہی شہر میں اور ایک ہی بیماری میں دو عدد وفاقی وزیروں کو دل کا مرض لاحق ہو جانا اور مرض۔۔۔

Abdulqhasan@hotmail.com

ایک ہی دن ایک ہی شہر میں اور ایک ہی بیماری میں دو عدد وفاقی وزیروں کو دل کا مرض لاحق ہو جانا اور مرض بھی ایک ہی نوعیت کا اور ظاہر ہے کہ علاج بھی ایک جیسا یہ سب بذات خود 'مانیں یا نہ مانیں' جیسی ایک خبر ہے۔ دونوں وزیر ان دنوں بہت مشہور جا رہے ہیں، ایک تھے اسحق ڈار جن کی پالیسیوں نے قوم کو رلا رکھا ہے، ان کو دل کی تکلیف ہوئی جس کے لیے انجیو پلاسٹی کرنی پڑی۔ دوسرے وزیر سرتاج عزیز تھے جن کو حال ہی میں امریکا نے ایک کاری زخم لگایا ہے، ان کو بھی دل کی تکلیف ہوئی اور ان کی بھی انجیو پلاسٹی کی گئی۔

ایک فرق یہ سامنے آیا کہ ڈار صاحب نے اس علاج کا خرچ پانچ لاکھ روپے اپنی جیب خاص سے ادا کیا جب کہ وہ راولپنڈی کے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں بالکل مفت علاج کے حقدار تھے لیکن وہ بضد تھے کہ میں اخراجات خود ادا کروں گا۔ سرتاج عزیز کے بارے میں پتہ نہیں چلا کہ انھوں نے بھی کوئی خبر بنائی ہے یا نہیں۔ وفاقی کابینہ کی تعداد تو مجھے معلوم نہیں کیونکہ کئی وزارتیں تو محترم میاں صاحب کی واسکٹ کی جیبوں میں بھی ہیں۔ ان میں ایک وزارت خارجہ بھی ہے جس کے فرائض سرتاج عزیز ادا کر رہے ہیں۔

وفاقی کابینہ کے ان وزراء کو دل کے دورے کیوں پڑے اس کے بارے میں ڈاکٹر صاحبان یا پھر خود میاں صاحب بتا سکتے ہیں۔ میاں صاحب ایک خوش مزاج اور بذلہ سنج سیاستدان ہیں۔ ان کے ساتھیوں کو دل کی تکلیف کسی بھی وجہ سے ہو سکتی ہے لیکن میاں صاحب کی وجہ سے نہیں اگرچہ ڈار صاحب اپنے رشتہ دار وزیراعظم کی حکومت کو لے ڈوبیں گے اوراسی وجہ سے خدا نخواستہ بیمار تو میاں صاحب کو ہونا چاہیے تھا نہ کہ ڈار صاحب کو لیکن ہو الٹ گیا۔ خدا تمام وزراء کو بشمول ان کے باس کو خیریت اور عافیت سے رکھے میں لیکن پرانی قسم کا وہی آدمی ہوں اس 'اجتماعی' بیماری کی وجہ سے ڈر گیا ہوں اورکچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم مسلمانوں پر جب کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو وہ صدقہ دیا کرتے ہیں اور اس کے لیے خون بہانا ایک مروجہ طریقہ ہے، محترم وزیراعظم اپنے وزیروں اور وزارتوں کی تعداد کا حساب لگا کر کالے بکروں کی قربانی کا اہتمام کریں، اس سلسلے میں گزارش ہے کہ بکروں کے رنگ کے بارے میں احتیاط مناسب ہو گی اور جو صاحب بھی اس ڈیوٹی پر متعین ہوں، ان کو بتا دیں کہ وہ ہر بکرے کے بالوں کو ٹٹول کر اچھی طرح دیکھ لیں کہ کیا وہ واقعی کالے ہی ہیں یعنی پیدائشی کالے بالوں والے ہیں یا ان پرکالا رنگ کیا گیا ہے کیونکہ میں نے بچشم خود ایک بار دیکھا کہ افغانستان میں ایک خان صاحب بکروں پر کالا رنگ کر رہے ہیں، رنگ کا ڈبہ اور برش ان کے پاس ہے اور بکروں کو قربانی کے لائق بنا رہے ہیں۔


جب کسی کو معلوم ہوگا کہ خریدار سرکاری ہے اور بکرے وزیروں کے لیے ہیں تو وہ شاید بے ایمان ہو جائے اور جعلی کالے بکرے کچھ دے دلا کر سرکاری خریدار کو بیچ دے۔ اگر کوئی وزیر احتیاط کرنا چاہے تو وہ یہ کام کسی بااعتماد ملازم اگر کوئی ہو تو اس کے سپرد کر دے تاکہ وزیر صاحبان کوئی کام تو درست بھی کر دیں۔ جناب ڈار صاحب کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن سرتاج صاحب اسی نوے کے بیچ میں ہیں اور اس عمر میں احتیاط اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ یہ مشکل عمر آرام سے گزر جائے۔ وزارت ہی کیا کہ اس پر آفات سماوی کا خطرہ بھی رہے جو وزارت کا مزا کرکرا کرتا رہے۔

وزراء کی بات تو ختم ہو گئی خدا ان کو سلامت رکھے گا۔ اب بات کرتے ہیں اپنے دشمن بھارت کے ساتھ ایسے تعلقات کی جن کے بارے میں کوئی عام پاکستانی بھی نہیں سوچ سکتا کہ پاکستان کا وزیراعظم یہاں تک کہہ دے کہ ویزے ہی ختم کر دیں یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحد ہی عملاً ختم ہو جائے۔ بھارتیوں کی وہ پرانی بات کہ ناشتہ لاہور میں اور لنچ امرتسر میں ہماری طرف سے سچ ثابت ہو۔ میاں صاحب تسلی رکھیں جب تک میرے جیسا ایک کمزور پاکستانی بھی زندہ ہے، ان کی ایسی بھارتی خواہش پوری نہیں ہو سکتی ۔

محترم میاں صاحب ہم پاکستانیوں کے سینے پر مونگ نہ دلیں پاکستان ہمارا ملک ہی نہیں ہمارا ایمان ہے کیونکہ اس کے ساتھ قرآن و سنت کی برکات وابستہ ہیں۔ میاں صاحب پاکستان کے شہری نہیں نہ کہ اس ملک کے کسی بازار کے تاجر بنیں۔ دنیا کی تاریخ میں قوموں پر حالات کے اثرات پر ایک سند شخصیت جس کی کتاب 'مقدمہ' کوئی تاریخ کا پہلا جائزہ اور تجزیہ تسلیم کیا گیا ہے ابن خلدون نے لکھا تھا کہ کسی تاجر کو حکمران مت بناؤ۔ ابن خلدون نے اپنی رائے کے حق میں جو دلائل دیے تھے، وہ سب ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ یہ موضوع اب اس وقت تک جاری رہے گا جب اصلاح احوال نہیں ہو جاتی اور جب تک زندہ ہیں۔
Load Next Story