افکار اقبال

برصغیر پاک و ہند میں یوں تو بے شمار عظیم ہستیوں نے جنم لیا جنھوں نے اپنے فکر،خیالات اور تصورات کے ذریعے۔۔۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

برصغیر پاک و ہند میں یوں تو بے شمار عظیم ہستیوں نے جنم لیا جنھوں نے اپنے فکر،خیالات اور تصورات کے ذریعے مسلمانان ہند کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دیں، ان ہی نامور ہستیوں میں ایک نام ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا ہے جن کو اہل پاک وہند ''مفکر پاکستان'' اور ''شاعر مشرق'' کے نام سے جانتے ہیں جب کہ عالم اسلام ''حکیم الامت'' کے نام سے یاد کرتا ہے۔ آپ 1877 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، ماسٹرز کی سند لاہور میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے 1905 میں جرمنی چلے گئے جہاں آپ نے فلسفے میں ڈاکٹریٹ کیا۔

اقبال اپنے ابتدائی ایام میں ہندوستان اور ہندوستانی عوام کے حوالے سے شاعری کرتے نظر آتے ہیں، اور ان کے اشعار متحدہ ہندوستان کی نشاندہی و ترجمانی کرتے ہیں تاہم بعد میں اقبال کو اس حقیقت کا بخوبی احساس ہوگیا کہ اسلام اور علیحدہ اسلامی ریاست ہی مسلمانان ہند کے لیے واحد راہ نجات اور تمام مسائل کا حل ہے، اقبال کے شاعرانہ افکار، خیالات، تصورات اور نظریات نے ملت اسلامیہ خصوصاً مسلمانان ہند کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، آپ کا دل اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی محبت سے معمور تھا، آپ کی شاعری میں قومی و ملی اتحاد و یکجہتی کا تصور غالب نظر آتا ہے۔ فرماتے ہیں:

جس طرح احمدؐ مرسل ہوئے نبیوں میں امام
ان کی امت بھی ہے دنیا میں امام اقوام

حکیم الامتؒ نے اپنی فکری و عملی صلاحیتوں سے بھرپور شاعرانہ افکار سے نہ صرف برصغیر بلکہ تمام عالم اسلام کے مسلمانوں کے ذہنوں سے احساس کمتری اور پستی و بدحالی کو دورکرنے کی حتی المقدورکوشش کی، اقبال کہتے ہیں:

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولؐ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

اقبال کے شاعرانہ پیغام میں آج کے حالات کا عکس نظر آتا ہے، علامہ اقبال وطنیت کے تصور کے خلاف تھے کیونکہ وطنیت کے تصور نے عالم انسانیت کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کرکے ان کے درمیان نفرت اور دشمنی کے بیج بو دیے ہیں۔ بین الاقوامی مسائل اور تنازعات نیز جنگوں میں اسی کے باعث اضافہ ہوا ہے۔ دنیا نے دو مرتبہ عالمی جنگوں (1914-1918) اور (1939-1945) کی صورت میں انسانی جان و مال اور تہذیب و تمدن کی تباہی و بربادی کا خوفناک نظارہ دیکھا ہے۔ مغربی نظریہ وطنیت اور اس کی بنیادوں پر قومیت کی مخالفت جس قدر اقبال نے کی اتنی ہندوستان کے کسی مفکر اور لیڈر نے نہیں کی، وہ دو قومی نظریے کو اسلام کے تناظر میں مسلمانان ہند کی فکری بنیاد اور سیاسی و اجتماعی روح تصور کرتے تھے اور یہ عقیدہ ان کی روح سے پیوست ہوگیا تھا۔

1930 کا سال افکار اقبال کی روشنی میں برصغیر پاک و ہند کی مسلم سیاست کا سنگ میل ثابت ہوا، مسلم لیگ الٰہ آباد کے اجلاس میں علامہ اقبال نے خطبہ صدارت پیش کیا جو تاریخ پاک و ہند میں ''خطبہ الٰہ آباد'' کے نام سے مشہور ہے، اسی خطبہ الٰہ آباد میں اقبال نے تصور پاکستان پیش کیا، مسلم سیاست میں اس خطبے کو بڑی اہمیت حاصل رہی کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ اسی خطبے کو اکابرین مسلم لیگ نے بنیاد بناکر تحریک پاکستان کو مضبوط و مستحکم راستوں پر گامزن کیا اور آخر کار دنیا نے دیکھا کہ ''پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔''


اقبال نے اپنی عمرکا ایک طویل حصہ اسلام اور اس کے حقائق اس کے نظام قانون کو سمجھنے پر صرف کیا، آپ کے نزدیک بنی نوع انسان کے لیے اگر کوئی نظام زندگی ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے، اس سی دنیا کے مسائل اور مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔ 20 مارچ 1937 کو آل انڈیا نیشنل کنونشن ہوئی تو علامہ اقبال نے اس موقعے پر اپنے خطبے میں محمد علی جناح کو تحریر فرمایا اور مشورہ دیا کہ ''ایشیا میں اسلام کے اخلاقی و سیاسی اقتدار کا دارومدار تمام تر ہندوستانی مسلمانوں کی مکمل تنظیم پر ہے، آپ کو چاہیے کہ دہلی میں جلد ازجلد ایک آل انڈیا مسلم کنونشن منعقد کریں اور پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کی جداگانہ سیاسی وحدت کا بطور نصب العین اعلان کردیں۔

اقبال نے اپنے شاعرانہ پیغام و افکار میں جس بات کو سب سے زیادہ اجاگر کیا وہ ملت اسلامی کا اتحاد و اتفاق ہے وہ فرماتے ہیں:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر

اقبال اسلام اور ملت اسلامیہ کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام کسی خاص طبقے یا کسی خاص علاقے اور ملک کے لیے نہیں آیا۔ اسلام کی دعوت اور خیر و فلاح کی طلب پوری نوع انسانی کے لیے ہے۔ اسلام میں علاقائیت اور وطنیت کی مکمل بیخ کنی کی گئی ہے۔ اللہ کی وسیع و عریض زمین سب مخلوق خدا کے لیے ہے، اقبال پیغام وحدت یکجہتی کی زندہ تصویر ہے آپ فرماتے ہیں کہ:

بتان رنگ و خوں توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانی

اقبال نے ملت اسلام کو جو آفاقی پیغام اور درس اپنی شاعری کے ذریعے دیا وہ درحقیقت عزم و عمل کا پیغام تھا، اتحاد و اتفاق اور بلندوبرتر مقام حاصل کرنے کا پیغام تھا جو قرون وسطیٰ کے مسلمانوں نے حاصل کیا تھا اور ساری قیادت کا شرف ملت اسلامیہ کو حاصل تھا، اقبال فرماتے ہیں:

سبق پھر پڑھ صداقت کا' عدالت کا' شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

بانی پاکستان قائد اعظم کو اقبال کی عظمتوں کا بے حد احترام تھا۔ چنانچہ دسمبر 1938 میں پٹنہ کے مسلم لیگ کے اجلاس میں علامہ اقبال کی وفات پر اظہار خیال کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ''اقبال میرے ذاتی دوست تھے اور ان کا شمار دنیا کے عظیم شعرا میں ہوتا ہے، وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ ہے، ان کی عظیم شاعری ہندوستانی مسلمانوں کی خواہشات کی درست عکاسی کرتی ہے، ان کی شاعری ہمارے لیے اور ہماری آیندہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ کا کام دے گی۔''

اسلام عصبیت، نسلی و لسانی تفاخر اور دیگر امتیاز کو مٹا دیتا ہے، اسلام میں ملت کی بنیاد مادی رشتوں پر نہیں بلکہ اشتراک قلوب اور ذہنی و فکری و نظریاتی اتحاد میں ہے، اسلام کے بنیادی اور اولین عوامل توحید و رسالتؐ پر زبان، دل سے اقرار و ایمان ہے، اسلام نفرت نہیں محبت کا درس انسانیت کو دیتا ہے، وہ سب کو بھلائی کی دعوت اور سب کی خیرو فلاح کا طالب ہے، آج دنیا جن مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے اس کا حل صرف اور صرف اسلام ہی میں ہے اور اقبال کے شاعرانہ افکار اس کی بجا طور پر عکاسی اور درست ترجمانی کرتے ہیں پس ان افکار کو اجاگر کرنے اور ان پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے یہی وقت کا تقاضا ہے۔
Load Next Story