کرانچی والا تھری
معروف صحافی وسعت اللہ خان نے اختر بلوچ کی کتاب کرانچی والا سوئم کے پیش لفظ میں یہ تحریر قلمبندکی ہے۔
موہن جودڑوکو تو ٹیلوں میں دبنے اور پھر دریافت ہونے میں پانچ ہزار برس لگے، مگر اپنا کراچی تو تہتر برس میں ہی ایک جدید جیتی جاگتی صاف ستھری تہذیبی بستی کے پائیدان سے پھسل کے شکستگی و بے حسی کے کچرے تلے دب گیا۔ موہن جو دڑو کی خوش قسمتی کہ اسے سر جان مارشل مل گیا۔
سر جان مارشل کے ہم قوم انگریزوں نے سندھ کے ساحل پر برصغیر کا جو پہلا جدید شہر ریزہ در ریزہ، اینٹ در اینٹ اٹھانوے برس میں ( اٹھارہ سو انچاس تا انیس سو سینتالیس) میں اٹھایا تاکہ اس میں یہودی، مسیحی، پارسی ، ہندو ، مسلمان نہ صرف بستے جائیں بلکہ اس کی مالکی کو بھی اپنائیں۔ مگر اس شہر کو پچھلے تہتر برس میں جس جانفشانی اور محنت سے پستی میں پہنچا کر اس کے تاریخی ورثے کو وقت کے کوٹھے پر نو دولتیے تماش بین کی طرح اجتماعی بے وفائی کے قدموں پر نچھاورکیا گیا، اس کی مثال بعد از منگول جدید تمدنی تاریخ میں شاید ہی مل سکے۔
معروف صحافی وسعت اللہ خان نے اختر بلوچ کی کتاب کرانچی والا سوئم کے پیش لفظ میں یہ تحریر قلمبندکی ہے۔ 208 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا مفہوم بیان کر دیا ہے۔ اختر بلوچ نے اس کتاب کا انتساب بلوچ قوم کے چار عظیم سپوتوں آئی اے رحمان، صبا دشتیاری، نادر شاہ عادل اور شبیر شاکر کے نام منسوب کیا ہے۔
اختر بلوچ کی کتاب ایک انگریزی روزنامے کی اردو ویب سائٹ میں شایع ہونے والے بلاگزکا یہ تیسرا حصہ ہے۔ کتاب کا پہلا بلاگ پاکستان کے یوم آزادی سے متعلق ہے کہ یہ چودہ اگست ہے یا پندرہ اگست ہے؟ ان کے مطابق حکومت برطانیہ کی ویب سائٹ legislation.co.uk پر موجود انڈیا ایکٹ کی دفعہ نمبر 1سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایکٹ کے تحت 15اگست 1947کو دوخود مختار ریاستیں تشکیل پائیں جو انڈیا اور پاکستان کہلا ئیں گی۔
کراچی کے سابق مئیر جمشید نسروانجی جن کا پورا نام جمشید نسروانجی رستم جی مہتا تھا ۔ وہ 1886میں کراچی میں پیدا ہوئے ۔ ان کا انتقال آٹھ اگست 1952کو کراچی میں ہوا۔ 1919 میں جب کراچی میں انفلوئنزا نے وبائی شکل اختیار کی تو انھوں نے دن رات عوام کی خدمت میں وقت صرف کر دیا۔ وہ 1922میں کراچی میونسپلٹی کے صدر منتخب ہوئے اور 1932تک اس عہدے تک کام کرتے رہے۔
وہ نا صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ جانوروں کو بھی تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جمشید نسر وانجی کے بارے میں پیر علی محمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ '' میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ (حالیہ ایم اے جناح روڈ) سے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو جانوروں کے اسپتال کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔ تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔ جمشید مہتہ نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹی کرائی۔ ڈاکٹر کو بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کریں تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے۔
چارے کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرا دی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک کو ہدایت کی کہ جب تک گدھا پوری طرح صحت یاب اور گاڑی میں جوتنے کے قابل نہ ہوجائے، اُس وقت تک وہ اپنی مزدوری کا حساب ان سے لے لیا کرے۔ یہ کہتے ہی کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے اور اسے ہدایت کی کہ جب تک گدھا مکمل طور صحت یاب نہ ہو جائے اپنی مزدوری کے پیسے وہ ان سے لیتا رہے۔''مصنف نے حاتم علوی کے مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اپنی والدہ سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کراچی کے مختلف علاقوں میں میٹرنٹی ہوم قائم کیے۔ فریئر ہال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ فریئر ہال کو باغ جناح، صادقین گیلری،لیاقت لائبریری کے چار ناموں سے پکارا جاتا ہے۔فریئر ہال عبداللہ ہارون روڈ اور فاطمہ جناح روڈ کے درمیان واقع ہے۔ فریئر کی ایک اور نمایاں بات اس میں موجود ملکہ برطانیہ کا مجسمہ تھا جو اب ٹوٹے ہوئے ہاتھوں موہٹہ پیلس کے ادبی حصے میں موجود ہے۔ کتاب کا اور دلچسپ موضوع کلیم کے بارے میں ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جو املاک خالی تھیں ان پر قبضہ کرنے کی دوڑ شروع ہو چکی تھی ۔ لوگ ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں کوشاں تھے۔ جھوٹے کلیموں کے ذریعے کتنے ہی لوگ راتوں رات بنگلوں اور جائیدادوں کے مالک بن گئے اور بے شمار لوگ اپنے جائز کلیم بھی ثابت نہ کر سکے۔
اختر بلوچ نے اردو کی عظیم ناول نگار قرۃالعین حیدر کی ہندوستان منتقلی پر'مگر عینی ہندوستان کیوں گئی'کے موضوع سے لکھا ہے کہ قرۃ العین نے پاکستان میں قیام کے دوران اپنا شہرہ آفاق ناول ''آگ کا دریا'' لکھا۔ یہ ناول صدیوں کی تاریخ کا احاطہ کرتا ہے۔ قرۃ العین اس میں ناول نگار کے بجائے ایک ایسی مورخ نظر آتی ہیں جن کا صدیوں کی تاریخ گہرا مطالعہ اور مشاہدہ تھا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان میں اس ناول کے حوالے سے ایک عجیب و غریب متھ Mythتیار ہونا شروع ہو گئی ۔ ایک باب میں، میں نے محض دو الفاظ لکھے تھے ۔ ہندوستان 1947۔یعنی تھوڑا لکھو کو بہت جانیے۔ لیکن ایک بوجھ بھجکڑ نے اپنے تبصرے میں تحریر کیا کہ تقسیم سے متعلق پورا باب مارشل لاء کے سنسر نے حذف کر دیا، صرف ایک جملہ باقی بچا ہے۔ سب سے عبرتناک افواہ جو ہندوستان میں پھیلی وہ یہ تھی کہ حکومت پاکستان نے آگ کا دریا پر پابندی لگا دی ہے۔
دوسری روایت ہندوستان میں یہ تیار ہوئی کہ مصنفہ کو اس ناول کی اشاعت کے بعد بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لینی پڑی ۔ دوسری جانب یہ جھوٹی یقینی کہانی تیار ہوئی کہ اس کتاب کی رائلٹی میں دونوں جانب مصنفہ کو مالا مال کر دیا ہے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 1959سے لے کر آج تک مکتبہ جدید لاہور نے اس ناول کے قطعی فری ایڈیشن شایع کیے اور اس کی رائلٹی کا ایک پیسہ اس کے لکھنے کو آج تک نہیں ملا۔ عینی کی پاکستان سے ہندوستان منتقلی کے حوالے سے ایک ہی کہانی مشہور ہے کہ آگ کا دریا ان کی انڈیا منتقلی کا سبب بنا لیکن اس بارے میں قرۃ العین کا قلم اور زبان دونوں خاموش رہیں۔
اختر بلوچ کے مطابق ایک سینئر ادیب اور کالم نگار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتا یا کہ معاملہ صرف آگ کا دریا نہیں تھا بلکہ عینی خوش شکل تھی، غیر شادی شدہ تھی۔ نا صرف رائٹرز گلڈز بلکہ جن محکموں میں انھوں نے ملازمت کی وہاں کے افسران ان سے شادی کرنا چاہتے تھے یا ان سے رسم و راہ رکھنا چاہتے تھے وہ دونوں صورتوں کے لیے تیار نہیں تھیں۔ ایک اور پہلو یہ بھی تھا کہ عینی کے والد سنی العقیدہ تھے اور ان کی والدہ اہل تشیع۔ لہذا کس عقیدے والے کا رشتہ قبول کیا جائے؟ عینی ہمیشہ ایسے سوالوں سے اجتناب برتتی تھی۔ جن میں ان کی شادی اور انڈیا منتقلی کا ذکر ہوتا تھا۔
عینی کی انڈیا منتقلی کی بڑی وجہ سے تو ''آگ کا دریا'' نظر آتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پدر سری معاشرے میں جی رہی تھی۔اس کتاب کا ایک اور اہم بلاگ ''جناح کے ساتھ بھی دھوکا؟'' ہے۔ اس بلاگ میں بیرسٹر عزیز اللہ شیخ کی کتا ب Story untold کے حوالے سے لکھا ہے کہ جسٹس طیب جی نے ایک چشم کشا کہانی اس وعدے پر بیان کی کہ میں ان کے انتقال سے قبل میں کوئی انکشاف نہیں کروں گا۔ طیب جی کے مطابق جناح اور میں ایک ہی وقت میں ممبئی میں وکالت کرتے تھے۔ جناح صاحب کے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل ہونے کے فیصلے کا اعلان ہوا۔ میں اس وقت دہلی میں تھا تو میں ان سے ملا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ ہم نے کچھ وقت پرانی یادوں کو تازہ کیا۔
جناح نے مجھ سے کہا کہ میری حلف برادر ی کراچی میں تم کرو گے۔ میں نے جواباً کہا کہ یہ میرے لیے باعث افتخار ہوگا۔ ٹھیک پچیس دن بعد رجسٹرار جے ڈیسا نے مجھے بتایا کہ محکمہ خارجہ کے کچھ افسران مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ان کے ہمراہ ایک درزی بھی تھا، جس نے میرے لیے گاؤن کا ناپ بھی لیا۔ بعد میں رجسٹرار ڈیسا کے ذریعے معلوم ہوا کہ پنجا ب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر عبد الرشید قائد اعظم سے حلف لیں گے۔ پھر انھوں نے کہا کہ اگر تم حلف برادری کی تقریب کی تصاویرکو غور سے دیکھو تو جوگاؤن سر رشید نے پہنا ہوا ہے وہ میری ناپ کا ہے۔ اختر بلوچ نے کرانچی والا۔سوئم میں کئی تاریخی انکشافات کیے ہیں لیکن اس سے مکمل آگاہی کے لیے کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔
سر جان مارشل کے ہم قوم انگریزوں نے سندھ کے ساحل پر برصغیر کا جو پہلا جدید شہر ریزہ در ریزہ، اینٹ در اینٹ اٹھانوے برس میں ( اٹھارہ سو انچاس تا انیس سو سینتالیس) میں اٹھایا تاکہ اس میں یہودی، مسیحی، پارسی ، ہندو ، مسلمان نہ صرف بستے جائیں بلکہ اس کی مالکی کو بھی اپنائیں۔ مگر اس شہر کو پچھلے تہتر برس میں جس جانفشانی اور محنت سے پستی میں پہنچا کر اس کے تاریخی ورثے کو وقت کے کوٹھے پر نو دولتیے تماش بین کی طرح اجتماعی بے وفائی کے قدموں پر نچھاورکیا گیا، اس کی مثال بعد از منگول جدید تمدنی تاریخ میں شاید ہی مل سکے۔
معروف صحافی وسعت اللہ خان نے اختر بلوچ کی کتاب کرانچی والا سوئم کے پیش لفظ میں یہ تحریر قلمبندکی ہے۔ 208 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا مفہوم بیان کر دیا ہے۔ اختر بلوچ نے اس کتاب کا انتساب بلوچ قوم کے چار عظیم سپوتوں آئی اے رحمان، صبا دشتیاری، نادر شاہ عادل اور شبیر شاکر کے نام منسوب کیا ہے۔
اختر بلوچ کی کتاب ایک انگریزی روزنامے کی اردو ویب سائٹ میں شایع ہونے والے بلاگزکا یہ تیسرا حصہ ہے۔ کتاب کا پہلا بلاگ پاکستان کے یوم آزادی سے متعلق ہے کہ یہ چودہ اگست ہے یا پندرہ اگست ہے؟ ان کے مطابق حکومت برطانیہ کی ویب سائٹ legislation.co.uk پر موجود انڈیا ایکٹ کی دفعہ نمبر 1سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایکٹ کے تحت 15اگست 1947کو دوخود مختار ریاستیں تشکیل پائیں جو انڈیا اور پاکستان کہلا ئیں گی۔
کراچی کے سابق مئیر جمشید نسروانجی جن کا پورا نام جمشید نسروانجی رستم جی مہتا تھا ۔ وہ 1886میں کراچی میں پیدا ہوئے ۔ ان کا انتقال آٹھ اگست 1952کو کراچی میں ہوا۔ 1919 میں جب کراچی میں انفلوئنزا نے وبائی شکل اختیار کی تو انھوں نے دن رات عوام کی خدمت میں وقت صرف کر دیا۔ وہ 1922میں کراچی میونسپلٹی کے صدر منتخب ہوئے اور 1932تک اس عہدے تک کام کرتے رہے۔
وہ نا صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ جانوروں کو بھی تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جمشید نسر وانجی کے بارے میں پیر علی محمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ '' میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ (حالیہ ایم اے جناح روڈ) سے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو جانوروں کے اسپتال کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔ تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔ جمشید مہتہ نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹی کرائی۔ ڈاکٹر کو بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کریں تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے۔
چارے کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرا دی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک کو ہدایت کی کہ جب تک گدھا پوری طرح صحت یاب اور گاڑی میں جوتنے کے قابل نہ ہوجائے، اُس وقت تک وہ اپنی مزدوری کا حساب ان سے لے لیا کرے۔ یہ کہتے ہی کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے اور اسے ہدایت کی کہ جب تک گدھا مکمل طور صحت یاب نہ ہو جائے اپنی مزدوری کے پیسے وہ ان سے لیتا رہے۔''مصنف نے حاتم علوی کے مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اپنی والدہ سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کراچی کے مختلف علاقوں میں میٹرنٹی ہوم قائم کیے۔ فریئر ہال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ فریئر ہال کو باغ جناح، صادقین گیلری،لیاقت لائبریری کے چار ناموں سے پکارا جاتا ہے۔فریئر ہال عبداللہ ہارون روڈ اور فاطمہ جناح روڈ کے درمیان واقع ہے۔ فریئر کی ایک اور نمایاں بات اس میں موجود ملکہ برطانیہ کا مجسمہ تھا جو اب ٹوٹے ہوئے ہاتھوں موہٹہ پیلس کے ادبی حصے میں موجود ہے۔ کتاب کا اور دلچسپ موضوع کلیم کے بارے میں ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جو املاک خالی تھیں ان پر قبضہ کرنے کی دوڑ شروع ہو چکی تھی ۔ لوگ ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں کوشاں تھے۔ جھوٹے کلیموں کے ذریعے کتنے ہی لوگ راتوں رات بنگلوں اور جائیدادوں کے مالک بن گئے اور بے شمار لوگ اپنے جائز کلیم بھی ثابت نہ کر سکے۔
اختر بلوچ نے اردو کی عظیم ناول نگار قرۃالعین حیدر کی ہندوستان منتقلی پر'مگر عینی ہندوستان کیوں گئی'کے موضوع سے لکھا ہے کہ قرۃ العین نے پاکستان میں قیام کے دوران اپنا شہرہ آفاق ناول ''آگ کا دریا'' لکھا۔ یہ ناول صدیوں کی تاریخ کا احاطہ کرتا ہے۔ قرۃ العین اس میں ناول نگار کے بجائے ایک ایسی مورخ نظر آتی ہیں جن کا صدیوں کی تاریخ گہرا مطالعہ اور مشاہدہ تھا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان میں اس ناول کے حوالے سے ایک عجیب و غریب متھ Mythتیار ہونا شروع ہو گئی ۔ ایک باب میں، میں نے محض دو الفاظ لکھے تھے ۔ ہندوستان 1947۔یعنی تھوڑا لکھو کو بہت جانیے۔ لیکن ایک بوجھ بھجکڑ نے اپنے تبصرے میں تحریر کیا کہ تقسیم سے متعلق پورا باب مارشل لاء کے سنسر نے حذف کر دیا، صرف ایک جملہ باقی بچا ہے۔ سب سے عبرتناک افواہ جو ہندوستان میں پھیلی وہ یہ تھی کہ حکومت پاکستان نے آگ کا دریا پر پابندی لگا دی ہے۔
دوسری روایت ہندوستان میں یہ تیار ہوئی کہ مصنفہ کو اس ناول کی اشاعت کے بعد بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لینی پڑی ۔ دوسری جانب یہ جھوٹی یقینی کہانی تیار ہوئی کہ اس کتاب کی رائلٹی میں دونوں جانب مصنفہ کو مالا مال کر دیا ہے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 1959سے لے کر آج تک مکتبہ جدید لاہور نے اس ناول کے قطعی فری ایڈیشن شایع کیے اور اس کی رائلٹی کا ایک پیسہ اس کے لکھنے کو آج تک نہیں ملا۔ عینی کی پاکستان سے ہندوستان منتقلی کے حوالے سے ایک ہی کہانی مشہور ہے کہ آگ کا دریا ان کی انڈیا منتقلی کا سبب بنا لیکن اس بارے میں قرۃ العین کا قلم اور زبان دونوں خاموش رہیں۔
اختر بلوچ کے مطابق ایک سینئر ادیب اور کالم نگار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتا یا کہ معاملہ صرف آگ کا دریا نہیں تھا بلکہ عینی خوش شکل تھی، غیر شادی شدہ تھی۔ نا صرف رائٹرز گلڈز بلکہ جن محکموں میں انھوں نے ملازمت کی وہاں کے افسران ان سے شادی کرنا چاہتے تھے یا ان سے رسم و راہ رکھنا چاہتے تھے وہ دونوں صورتوں کے لیے تیار نہیں تھیں۔ ایک اور پہلو یہ بھی تھا کہ عینی کے والد سنی العقیدہ تھے اور ان کی والدہ اہل تشیع۔ لہذا کس عقیدے والے کا رشتہ قبول کیا جائے؟ عینی ہمیشہ ایسے سوالوں سے اجتناب برتتی تھی۔ جن میں ان کی شادی اور انڈیا منتقلی کا ذکر ہوتا تھا۔
عینی کی انڈیا منتقلی کی بڑی وجہ سے تو ''آگ کا دریا'' نظر آتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پدر سری معاشرے میں جی رہی تھی۔اس کتاب کا ایک اور اہم بلاگ ''جناح کے ساتھ بھی دھوکا؟'' ہے۔ اس بلاگ میں بیرسٹر عزیز اللہ شیخ کی کتا ب Story untold کے حوالے سے لکھا ہے کہ جسٹس طیب جی نے ایک چشم کشا کہانی اس وعدے پر بیان کی کہ میں ان کے انتقال سے قبل میں کوئی انکشاف نہیں کروں گا۔ طیب جی کے مطابق جناح اور میں ایک ہی وقت میں ممبئی میں وکالت کرتے تھے۔ جناح صاحب کے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل ہونے کے فیصلے کا اعلان ہوا۔ میں اس وقت دہلی میں تھا تو میں ان سے ملا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ ہم نے کچھ وقت پرانی یادوں کو تازہ کیا۔
جناح نے مجھ سے کہا کہ میری حلف برادر ی کراچی میں تم کرو گے۔ میں نے جواباً کہا کہ یہ میرے لیے باعث افتخار ہوگا۔ ٹھیک پچیس دن بعد رجسٹرار جے ڈیسا نے مجھے بتایا کہ محکمہ خارجہ کے کچھ افسران مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ان کے ہمراہ ایک درزی بھی تھا، جس نے میرے لیے گاؤن کا ناپ بھی لیا۔ بعد میں رجسٹرار ڈیسا کے ذریعے معلوم ہوا کہ پنجا ب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر عبد الرشید قائد اعظم سے حلف لیں گے۔ پھر انھوں نے کہا کہ اگر تم حلف برادری کی تقریب کی تصاویرکو غور سے دیکھو تو جوگاؤن سر رشید نے پہنا ہوا ہے وہ میری ناپ کا ہے۔ اختر بلوچ نے کرانچی والا۔سوئم میں کئی تاریخی انکشافات کیے ہیں لیکن اس سے مکمل آگاہی کے لیے کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔