ریاست کا آئینہ اور اختیاراتی کرچیاں
اگر ریاست مساویانہ و منصفانہ پالیسی بنانے اور نفاذ کرنے میں ناکام ہو گی تو پھر یا تو وہ ظلم کا سہارا لے گی۔
ریاست بنانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ انفرادی آزادیوں پر کچھ پابندیوں اور روزمرہ انتظام چلانے کے اخراجات کی وصولی کے عوض تمام شہریوں کو بلا امتیاز جان و مال کے تحفظ سمیت بنیادی سہولتیں فراہم کرے اور کسی اور کو ریاست کے اندر ریاست نہ بننے دے۔ عرض یوں ہے کہ خدا کو چھوا تو نہیں جاسکتا لیکن طرح طرح سے محسوس ضرور کیا جاسکتا ہے۔بالکل اسی طرح ریاستی اختیار نام کی شے آپ کو کسی ٹھیلے پر نہیں ملے گی۔
اگر ریاست مساویانہ و منصفانہ پالیسی بنانے اور نفاذ کرنے میں ناکام ہو گی تو پھر یا تو وہ ظلم کا سہارا لے گی یا پھر اس کا اختیار مٹھی میں بند ریت کی طرح گرتا اور لٹتا چلا جائے گا۔یہ وہ پھسل منڈا ہے جس سے اگر ریاست کا پیر رپٹ جائے تو اپنے ہی بوجھ سے خود کو نیچے ہی نیچے جانے سے نہ روک پائے۔
اس کے بعد ریاستی رٹ کو دلی کے محلوں میں دندناتے ہجوم کے ہاتھوں میں یا پھر لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے آگے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایسے حالات میں ریاستی اختیار اس موٹر سائیکل سوار کے پاس آجاتا ہے جو کسی بھی چوک پے باوردی کانسٹیبل کی شکل میں کھڑی ریاست کو دھتا بتاتے ہوئے یوں سگنل توڑتا ہے گویا کفر توڑ رہا ہو۔یا شائد اسٹیٹ رٹ راجھستان کے ان چار لوگوں کے پاس چلی جاتی ہے جنھوں نے خود فیصلہ کیا کہ گائے بھینسوں کی تجارت کرنے والے پہلو خان کا جرم کیا ہے اور اس جرم کی سزائے موت سنا کر اس پر کیسے عمل درآمد کرنا ہے۔ تماشائی یہ بات سوچنے سے ہی عاری ہیں کہ انھوں نے پہلو خان کے قتل کی شکل میں دراصل ریاست اور عدالت کا سر اتارے جانے کا منظر دیکھا۔
یا پھر اسٹیٹ رٹ اس سادہ کپڑوں والے کی داشتہ بن جاتی ہے جو کسی بھی شہری کو جیپ میں ڈالنے کا خود ساختہ حق رکھتا ہے اور پھر نہ شہری کا پتہ ملتا ہے نہ سادے کا۔
سنا ہے رٹ کسی زمانے میں بس ریاست کے پاس ہوا کرتی تھی۔لگتا ہے اب ریاست نے اس کی بھی نجکاری کرکے اپنا اختیار کروڑوں شئیرز میں بانٹ کے بیچ دیا تاکہ ریاست کو دیگر ضروری کاموں کے لیے وقت مل سکے۔ جب کہ مغربی ممالک کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہاں ریاست دراصل کارپوریٹ مفادات کی فرنٹ کمپنی بن چکی ہے۔
لیکن روزمرہ زندگی میں ریاستی اختیار کیسے کیسے اور کن کن چھٹ بھئیوں کے ہاتھوں بے آبرو ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں آپ روزانہ کئی کئی مرتبہ کئی کئی شکلوں میں دیکھ دیکھ کر اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اب کوئی پامالی پامالی نہیں لگتی۔
مثلاً ملاوٹ خدا کو ناپسند ہے اور ریاست کو بھی۔ لیکن خدائی اور حب الوطنی کا دم بھرنے والے ہی جانے سب کو کیا کیا کس کس نام سے ہم سے ہی پورے پیسے لے کر ہمی کو کھلا پلا رہے ہیں اور ریاست بس استغفراللہ کا ورد کرتی جا رہی ہے۔
خیانت خدا کے نزدیک بھی حرام اور ریاستی آئین کے تحت بھی جرم۔ مگر کون سا ایسا شہری یا ادارہ ہے جو خیانت کے انفرادی و اجتماعی اثرات سے بچ پایا۔یا تو آپ خائن ہے یا پھر خیانت گزیدہ۔
چودہ سو سے زائد برس سے کہا اور سنا جارہا ہے کہ خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے مال جمع کیا اور گن گن کے رکھا۔مگر مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسی فیصد آمدنی بیس فیصد لوگوں کے پاس ہے اور باقی اسی فیصد لوگ بیس فیصد پر گزارہ کررہے ہیں۔ ٹیکس وصولی کی شرح میں یہ ریاست ناکام ترین ممالک میں شمار ہوتی ہے۔جو سب سے زیادہ ٹیکس کھانے والے ہیں وہی باقیوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ان کا ایک دوسرے پر تو بس نہیں چلتا اس لیے تنخواہ داروں اور مٹی کے تیل پرگذارہ کرنے والوں پے مالیاتی مردانگی اتاری جاتی ہے۔
جھوٹ ، غلط بیانی اور آدھا سچ نہ خدا کے ہاں حلال ہے نہ کسی ریاستی کتاب میں اجازت۔لیکن جھونپڑی سے محل تک ، ٹھیلے والے سے پیش امام تک ، بچے سے حکمرانِ اعلی تک ہے کوئی جو جھوٹ کی سلطنت سے باہر ہو۔
ریپ کی کوئی فاسق و فاجر بھی وکالت نہیں کرتا۔ اس پاکستان میں اینگلو سیکسن لا ، قوانینِ حدود اور جرگہ روایات تک کون سا قانون لاگو نہیں۔مگر کون سا ایسا دن کسی کو یاد ہے جب کسی جگہ سے ریپ کی خبر نہ آئی ہو۔
دہشت گردی کو خدائی لغت میں فتنہ اور فساد فی الارض کہا گیا ہے اور سزا ایک ہی ہے۔قلع قمع۔لیکن جو شکار ہیں وہی اس کی فارمنگ بھی کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ دنیا گول ہے ، جو برآمد کرو گے وہی شے لوٹ پھر کے گھر آئے گی۔
اس دنیا میں کوئی اکثریت میں نہیں۔سب اقلیت ہیں۔کہیں ایک گروہ تو کہیں دوسرا گروہ۔اسی لیے تمام مذاہب اقلیتوں اور اکثریت کے حقوق و فرائض واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔دعوے سب کے اپنی جگہ لیکن دنیا پر کوئی نظریہ آج تک پورا غالب نہیں آ سکا نہ فوری امکان ہے۔اسی لیے کہا گیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ تمہارے لیے تمہارا راستہ میرے لیے میرا۔یہی پرامن بقائے باہمی کا فلسفہ ہے۔مگر اس کا کیا کریں کہ انسان سب سے آسان بات سب سے زیادہ مشکل سے سمجھتا ہے۔
عقیدے کے بدلاؤ کے لیے تبلیغ کی تو اجازت ہے ، جبر ، ترغیب و تحریص ، دھمکی یا خاص اہداف اور مفادات ذہن میں رکھ کے ایسی قانون سازی کی اجازت نہیں جن کی زد میں آ کر ریاست کا کوئی بھی گروہ سیاسی، مذہبی یا سماجی طور پر درجہ دوم کا شہری بن جائے۔
تلوار کی نوک گردن پے رکھ کے عقیدہ بدلوانے کی اجازت نہیں۔اپنوں یا غیروں کی عبادت گاہیں ڈھانے یا مسخ کرنے کی اجازت نہیں۔ سوائے اپنے دفاع کے کسی کو عقیدے ، رنگ ، نسل کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی زک پہنچانے کی اجازت نہیں۔لیکن کیا خدائی قوانین کی مسخ شدہ تشریح کو کبھی کسی نے روکنے کی کوشش کی۔کیا ریاست اس نفرت پرور کھیل میں فریق ہے یا غیرجانبدار؟
کیا فوجداری و دیوانی قوانین کی نوعیت ایسی ہے کہ ریاست کا ہر شہری دل سے خود کو اس سرزمین کا فرزند سمجھے اور اس کے تحفظ کے لیے سب کچھ کرنے پر آمادہ ہو جائے۔کیا خدا کی جانب سے اس شاخسانے کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہے۔کیا سب لوگ (بالخصوص صاحب الرائے حضرات) واقعی آسمانی احکامات کو ایک بڑی اور مکمل تصویر کے طور پر دیکھنے، پڑھنے اور ان میں پوشیدہ حکمتی اشارے سمجھنے کے قابل ہیں یا پھر اپنی اپنی پسند کے احکامات کو آدھا پورا بیان کرکے اس تشریح کو شریعتِ خدا کہنے اور منوانے پر تلے بیٹھے ہیں۔
کل تک سامنے والے اسٹور میں عام سا سرجیکل ماسک بیس روپے کا مل رہا تھا۔آج ساٹھ کا ہے۔اس جملے کا ریاستی رٹ والی بات سے کوئی براہِ راست لینا دینا نہیں۔بس کالم کا اختتامیہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا تو لکھ دیا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
اگر ریاست مساویانہ و منصفانہ پالیسی بنانے اور نفاذ کرنے میں ناکام ہو گی تو پھر یا تو وہ ظلم کا سہارا لے گی یا پھر اس کا اختیار مٹھی میں بند ریت کی طرح گرتا اور لٹتا چلا جائے گا۔یہ وہ پھسل منڈا ہے جس سے اگر ریاست کا پیر رپٹ جائے تو اپنے ہی بوجھ سے خود کو نیچے ہی نیچے جانے سے نہ روک پائے۔
اس کے بعد ریاستی رٹ کو دلی کے محلوں میں دندناتے ہجوم کے ہاتھوں میں یا پھر لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے آگے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایسے حالات میں ریاستی اختیار اس موٹر سائیکل سوار کے پاس آجاتا ہے جو کسی بھی چوک پے باوردی کانسٹیبل کی شکل میں کھڑی ریاست کو دھتا بتاتے ہوئے یوں سگنل توڑتا ہے گویا کفر توڑ رہا ہو۔یا شائد اسٹیٹ رٹ راجھستان کے ان چار لوگوں کے پاس چلی جاتی ہے جنھوں نے خود فیصلہ کیا کہ گائے بھینسوں کی تجارت کرنے والے پہلو خان کا جرم کیا ہے اور اس جرم کی سزائے موت سنا کر اس پر کیسے عمل درآمد کرنا ہے۔ تماشائی یہ بات سوچنے سے ہی عاری ہیں کہ انھوں نے پہلو خان کے قتل کی شکل میں دراصل ریاست اور عدالت کا سر اتارے جانے کا منظر دیکھا۔
یا پھر اسٹیٹ رٹ اس سادہ کپڑوں والے کی داشتہ بن جاتی ہے جو کسی بھی شہری کو جیپ میں ڈالنے کا خود ساختہ حق رکھتا ہے اور پھر نہ شہری کا پتہ ملتا ہے نہ سادے کا۔
سنا ہے رٹ کسی زمانے میں بس ریاست کے پاس ہوا کرتی تھی۔لگتا ہے اب ریاست نے اس کی بھی نجکاری کرکے اپنا اختیار کروڑوں شئیرز میں بانٹ کے بیچ دیا تاکہ ریاست کو دیگر ضروری کاموں کے لیے وقت مل سکے۔ جب کہ مغربی ممالک کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہاں ریاست دراصل کارپوریٹ مفادات کی فرنٹ کمپنی بن چکی ہے۔
لیکن روزمرہ زندگی میں ریاستی اختیار کیسے کیسے اور کن کن چھٹ بھئیوں کے ہاتھوں بے آبرو ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں آپ روزانہ کئی کئی مرتبہ کئی کئی شکلوں میں دیکھ دیکھ کر اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اب کوئی پامالی پامالی نہیں لگتی۔
مثلاً ملاوٹ خدا کو ناپسند ہے اور ریاست کو بھی۔ لیکن خدائی اور حب الوطنی کا دم بھرنے والے ہی جانے سب کو کیا کیا کس کس نام سے ہم سے ہی پورے پیسے لے کر ہمی کو کھلا پلا رہے ہیں اور ریاست بس استغفراللہ کا ورد کرتی جا رہی ہے۔
خیانت خدا کے نزدیک بھی حرام اور ریاستی آئین کے تحت بھی جرم۔ مگر کون سا ایسا شہری یا ادارہ ہے جو خیانت کے انفرادی و اجتماعی اثرات سے بچ پایا۔یا تو آپ خائن ہے یا پھر خیانت گزیدہ۔
چودہ سو سے زائد برس سے کہا اور سنا جارہا ہے کہ خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے مال جمع کیا اور گن گن کے رکھا۔مگر مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسی فیصد آمدنی بیس فیصد لوگوں کے پاس ہے اور باقی اسی فیصد لوگ بیس فیصد پر گزارہ کررہے ہیں۔ ٹیکس وصولی کی شرح میں یہ ریاست ناکام ترین ممالک میں شمار ہوتی ہے۔جو سب سے زیادہ ٹیکس کھانے والے ہیں وہی باقیوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ان کا ایک دوسرے پر تو بس نہیں چلتا اس لیے تنخواہ داروں اور مٹی کے تیل پرگذارہ کرنے والوں پے مالیاتی مردانگی اتاری جاتی ہے۔
جھوٹ ، غلط بیانی اور آدھا سچ نہ خدا کے ہاں حلال ہے نہ کسی ریاستی کتاب میں اجازت۔لیکن جھونپڑی سے محل تک ، ٹھیلے والے سے پیش امام تک ، بچے سے حکمرانِ اعلی تک ہے کوئی جو جھوٹ کی سلطنت سے باہر ہو۔
ریپ کی کوئی فاسق و فاجر بھی وکالت نہیں کرتا۔ اس پاکستان میں اینگلو سیکسن لا ، قوانینِ حدود اور جرگہ روایات تک کون سا قانون لاگو نہیں۔مگر کون سا ایسا دن کسی کو یاد ہے جب کسی جگہ سے ریپ کی خبر نہ آئی ہو۔
دہشت گردی کو خدائی لغت میں فتنہ اور فساد فی الارض کہا گیا ہے اور سزا ایک ہی ہے۔قلع قمع۔لیکن جو شکار ہیں وہی اس کی فارمنگ بھی کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ دنیا گول ہے ، جو برآمد کرو گے وہی شے لوٹ پھر کے گھر آئے گی۔
اس دنیا میں کوئی اکثریت میں نہیں۔سب اقلیت ہیں۔کہیں ایک گروہ تو کہیں دوسرا گروہ۔اسی لیے تمام مذاہب اقلیتوں اور اکثریت کے حقوق و فرائض واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔دعوے سب کے اپنی جگہ لیکن دنیا پر کوئی نظریہ آج تک پورا غالب نہیں آ سکا نہ فوری امکان ہے۔اسی لیے کہا گیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ تمہارے لیے تمہارا راستہ میرے لیے میرا۔یہی پرامن بقائے باہمی کا فلسفہ ہے۔مگر اس کا کیا کریں کہ انسان سب سے آسان بات سب سے زیادہ مشکل سے سمجھتا ہے۔
عقیدے کے بدلاؤ کے لیے تبلیغ کی تو اجازت ہے ، جبر ، ترغیب و تحریص ، دھمکی یا خاص اہداف اور مفادات ذہن میں رکھ کے ایسی قانون سازی کی اجازت نہیں جن کی زد میں آ کر ریاست کا کوئی بھی گروہ سیاسی، مذہبی یا سماجی طور پر درجہ دوم کا شہری بن جائے۔
تلوار کی نوک گردن پے رکھ کے عقیدہ بدلوانے کی اجازت نہیں۔اپنوں یا غیروں کی عبادت گاہیں ڈھانے یا مسخ کرنے کی اجازت نہیں۔ سوائے اپنے دفاع کے کسی کو عقیدے ، رنگ ، نسل کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی زک پہنچانے کی اجازت نہیں۔لیکن کیا خدائی قوانین کی مسخ شدہ تشریح کو کبھی کسی نے روکنے کی کوشش کی۔کیا ریاست اس نفرت پرور کھیل میں فریق ہے یا غیرجانبدار؟
کیا فوجداری و دیوانی قوانین کی نوعیت ایسی ہے کہ ریاست کا ہر شہری دل سے خود کو اس سرزمین کا فرزند سمجھے اور اس کے تحفظ کے لیے سب کچھ کرنے پر آمادہ ہو جائے۔کیا خدا کی جانب سے اس شاخسانے کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہے۔کیا سب لوگ (بالخصوص صاحب الرائے حضرات) واقعی آسمانی احکامات کو ایک بڑی اور مکمل تصویر کے طور پر دیکھنے، پڑھنے اور ان میں پوشیدہ حکمتی اشارے سمجھنے کے قابل ہیں یا پھر اپنی اپنی پسند کے احکامات کو آدھا پورا بیان کرکے اس تشریح کو شریعتِ خدا کہنے اور منوانے پر تلے بیٹھے ہیں۔
کل تک سامنے والے اسٹور میں عام سا سرجیکل ماسک بیس روپے کا مل رہا تھا۔آج ساٹھ کا ہے۔اس جملے کا ریاستی رٹ والی بات سے کوئی براہِ راست لینا دینا نہیں۔بس کالم کا اختتامیہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا تو لکھ دیا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)