بجلی چوری کیسے روکی جائے
حکومت کو بجلی چوری روکنے کے لیے پوسٹ پیڈ بلنگ نظام نافذ کرنا چاہیے۔
وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں گزشتہ روز اسلام آباد میں ملک کی مجموعی معاشی صورت حال کا جائزہ اجلاس ہوا۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے ملک کی مجموعی معاشی صورت حال پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انھیں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ، بیرون ملک سے ترسیلات زر اور مہنگائی کی صورت حال پر بریفنگ دی گئی۔
وزیراعظم کی زیرصدارت کم آمدنی والے اور کمزور طبقات کو ریلیف کی فراہمی کے لیے مختلف شعبوں میں حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بھی اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مختلف شعبوں میں حکومت کی جانب سے سبسڈی اور مالی سپورٹ کی فراہمی کا مقصد کمزور طبقے کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔ انھوں نے اس عزم کا ایک بار پھر اعادہ کیا کہ حکومت اداروں کی کرپشن، انتظامی بدعنوانی اور غفلت کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی اجازت نہیں دے گی۔
وزیراعظم نے بجلی چوروں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی ہدایت کی اور کہا کہ ملک میں مہنگی بجلی کے ذمے دار بڑے بجلی چور ہیں جنھیں کسی صورت نہ چھوڑا جائے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ بڑوں کی بجلی چوری کا خمیازہ غریب عوام بھگت رہے ہیں جسے حکومت کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ وزیراعظم کی ساری باتیں درست ہیں لیکن اصل مسئلہ عملی نتائج کا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی عوام کو ریلیف مل رہا ہے۔ اگر بجلی چوری کے معاملے کو ہی دیکھا جائے تو اس پر پہلی بار بات نہیں ہوئی بلکہ یہ برسوں پرانا مسئلہ چلا آ رہا ہے۔ جو بااثر لوگ بجلی چوری کر رہے ہیں اور ملک کے جن علاقوں میں بجلی چوری ہو رہی ہے اس کا تقریباً سارا ریکارڈ اداروں کے پاس یقینی طور پر موجود ہو گا۔ مسئلہ تو قانون کو نافذ کرنے کا ہے۔ جن علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے یا بجلی کے بل ادا نہیں کیے جاتے، وہاں پر اگر سختی کی جائے تو واویلا شروع ہو جاتا ہے۔
اسے صوبائیت کا رنگ بھی دے دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے حکومت پسپا ہو جاتی ہے۔ حکومت کو بجلی چوری روکنے کے لیے پوسٹ پیڈ بلنگ نظام نافذ کرنا چاہیے، بالکل ایسے ہی جیسے موبائل ٹیلی فون کمپنیاں کر رہی ہیں۔ اس طریقے سے بجلی چوری کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم کی زیرصدارت کم آمدنی والے اور کمزور طبقات کو ریلیف کی فراہمی کے لیے مختلف شعبوں میں حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بھی اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مختلف شعبوں میں حکومت کی جانب سے سبسڈی اور مالی سپورٹ کی فراہمی کا مقصد کمزور طبقے کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔ انھوں نے اس عزم کا ایک بار پھر اعادہ کیا کہ حکومت اداروں کی کرپشن، انتظامی بدعنوانی اور غفلت کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی اجازت نہیں دے گی۔
وزیراعظم نے بجلی چوروں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی ہدایت کی اور کہا کہ ملک میں مہنگی بجلی کے ذمے دار بڑے بجلی چور ہیں جنھیں کسی صورت نہ چھوڑا جائے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ بڑوں کی بجلی چوری کا خمیازہ غریب عوام بھگت رہے ہیں جسے حکومت کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ وزیراعظم کی ساری باتیں درست ہیں لیکن اصل مسئلہ عملی نتائج کا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی عوام کو ریلیف مل رہا ہے۔ اگر بجلی چوری کے معاملے کو ہی دیکھا جائے تو اس پر پہلی بار بات نہیں ہوئی بلکہ یہ برسوں پرانا مسئلہ چلا آ رہا ہے۔ جو بااثر لوگ بجلی چوری کر رہے ہیں اور ملک کے جن علاقوں میں بجلی چوری ہو رہی ہے اس کا تقریباً سارا ریکارڈ اداروں کے پاس یقینی طور پر موجود ہو گا۔ مسئلہ تو قانون کو نافذ کرنے کا ہے۔ جن علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے یا بجلی کے بل ادا نہیں کیے جاتے، وہاں پر اگر سختی کی جائے تو واویلا شروع ہو جاتا ہے۔
اسے صوبائیت کا رنگ بھی دے دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے حکومت پسپا ہو جاتی ہے۔ حکومت کو بجلی چوری روکنے کے لیے پوسٹ پیڈ بلنگ نظام نافذ کرنا چاہیے، بالکل ایسے ہی جیسے موبائل ٹیلی فون کمپنیاں کر رہی ہیں۔ اس طریقے سے بجلی چوری کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔