ٹرمپ کی بھارت یاترا اور خطے کی صورتحال

ہر صورت میں عالمی قوتوں بالخصوص امریکا کو اقوام ِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے روکنے کے فوری انتظامات کرنے چاہئیں۔

24 فروری کو امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ جنوبی ایشیا میں اپنے پہلے دورے پر بھارت پہنچے۔ وہاں مصروف ترین دو دن کا وقت گزارنے کے بعد واپس روانہ ہو گئے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی امریکی صدر کا دورہ کسی ملک میں شیڈولڈ ہو اوروہاں حالات خراب ہو جائیں اور پھر بھی وہ دورہ اپنے شیڈول کے مطابق جاری رکھا گیا ہو۔

صدر ٹرمپ کو جب احمدآباد میں موتیرا اسٹیڈیم میں استقبالیہ دیا جا رہا تھا اور جس وقت صدر ٹرمپ استقبالیہ سے خطاب کر رہے تھے اور اپنے 33 منٹ کے خطاب میں 18 منٹ تک مودی اور بھارت کے سیکیولر نظام کی تعریف کر رہے تھے عین اُسی وقت بھارت کے دارالحکومت سے 18 کلو میٹر دور شمالی مغربی دہلی میں مذہبی فساد ات عروج پر تھے۔ ہندو انتہا پسند بلوائی اُس وقت دہلی کے اشوک نگر میں مسلم آبادی اورسبز گنبد والی مسجد پر حملہ آور تھے۔ مسجد کو جلانے اور اُس کے میناروں پر بھارتی ترنگا اور بھگوا پرچم لہرائے جا رہے تھے۔

مسلم آبادی پر حملہ کر کے اُن کے گھروںاور دکانوں سمیت املاک کو جلایا جا رہا تھا۔ جس کے دوران 33 افراد ہلاک ہو گئے۔ دہلی بھر میں کرفیو لاگو کیا گیا اور شہر میں دیکھتے ہی گولی مارنے کے آرڈر جاری کیے گئے تھے لیکن عملی طور پر تدارکی اقدامات مؤثر دکھائی نہیں دیے۔ شہریت والے قانون پر بھارت گزشتہ ایک ماہ سے جل رہا ہے۔ عوام بالخصوص مسلم آبادی اس قانون کو اپنے خلاف کالا قانون قرار دے رہی ہے۔ ملک بھر میں مظاہرے اور پُرتشدد کارروائیاں عام ہیں ۔ اب تک سیکڑوں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، بھارت کے اس قانون نے اُس کے سیکیولر ریاست ہونے کے رچائے گئے ڈھونگ کا پردہ چاک کر دیا ہے اور بھارت اس وقت نئے شہریتی قانون کی وجہ سے مشکل میں پھنس چکا ہے۔

امریکا، افغان، روس جنگ کے بعد کے حالات کو مسلم انتہا پسندی سے جوڑا گیا۔ جس سے پوری دنیا دہشتگردی کی لپیٹ میں آ گئی۔ کئی ممالک میں فسادات و دہشتگرد کارروائیاں اور جنگیں ہوئیں۔ افغانستان اور عراق میں نیٹو فورسز اور امریکی افواج کو آنا پڑا۔ لیکن گزشتہ دہائی سے عالمی بالخصوص پاکستانی سنجیدہ کوششوں کی بدولت اس انتہاپسندی پر قابو پانے میں بڑی حد تک کامیابی ملی ہے۔ مگر اسی دوران بھارت خصوصاً مودی کی بی جے پی کی پالیسیوں نے بھارت میں ہندو انتہا پسندی کو پروان چڑھایا ہے جس نے اس وقت جنوبی ایشیا کے امن کو ایک بار پھر داؤ پر لگا دیا ہے۔ انڈیا میں تقریباً 50 کروڑ مسلم آبادی پر حملے اور متنازع شہریتی بل کے باعث خطے میں مذہبی تصادم اُبھرنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ کشمیر میں 80 لاکھ مسلم شہریوں کی آبادی کے حامل علاقے کو اوپن جیل بنادیا گیا ہے۔

اب مودی لوگوں کو پُرامن رہنے کی اپیل کرتے نظر آتے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بھی محض ''ہاتھی کے دکھاوے کے دانت'' ہیں۔ درحقیقت وہ ہندو انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں، کیونکہ اگر وہ حقیقت میں امن چاہتے ہوتے تو متنازع شہریت کے قانون کو واپس لے لیتے۔ لیکن وہ اس کو اب بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں اور پھر ہندو انتہا پسند بلوائیوں کو سرکاری شہہ بھی ملتی رہی ہے جو اب بھی جاری ہے۔ مودی کے گجرات کے وزیر اعلیٰ ہونے کے دوران بھی ہندو انتہا پسند بلوائیوں کی جانب سے مسلم آبادی کے خلاف دہشتگرد کارروائیاں عروج پر تھیں۔ گجرات میں بچوں ، خواتین اور بوڑھوں سمیت لوگوں کو زندہ جلانے جیسا المیہ بھی مودی کے اُسی دور میں برپا ہوا، اور مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد آج وہی سب کچھ دہلی میںبلکہ پورے انڈیا میں ہو رہا ہے۔

دوسری جانب دیکھا جائے تو یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ کسی امریکی صدرنے وسط و جنوبی ایشیا کے دورے میں بھارت کو اہمیت دی ہو۔ ماضی میں جتنے بھی صدر یہاں تشریف لائے انھوں نے بھارت میں زیادہ وقت گزارا ۔ جن میں نوے کے عشرے میں بل کلنٹن نے اپنے4 روزہ دورے میں سے 3 دن بھارت میں گزارے اوربنگلادیش میں ایک دن جب کہ پاکستان میں محض 6 گھنٹے کے لیے آئے اور وہ بھی صرف حکومتی اعلیٰ اختیاریوں سے رسمی ملاقات تک محدود رہے جب کہ وہ بھارت میں اپنی فیملی اور وفد کے ساتھ وہاں کے سیاحتی و تاریخی مقامات کی سیر سے لے کر عوامی تقاریب تک میں شریک ہوتے رہے۔ اسی طرح جارج بش نے بھی یہی کیا اور اب صدر ٹرمپ نے بھی اُنہی کی پیروی کی ہے۔

دیکھا جائے تو سینٹرل ایشیا میں بر صغیر کا خطہ زمانہ قدیم سے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ اپنی آسودگی، سوشیو اکنامک اور جیو اسٹرٹیجک پوزیشن کے سبب ہمیشہ بیرونی قوتوں کے نشانے پر رہا ہے۔ بیرونی قوتوں کو اس خطے کے وسائل کی لوٹ مار کے لیے یہاں اپنے پیر جمانے کے لیے ہمیشہ کسی نہ کسی آلہ کار گروہ، طبقے یا ریاست کی ضرورت رہی ہے۔ جوکہ بیسویں صدی کے نصف میں برصغیر کے بٹوارے کے بعد سے بھارت کے روپ میں انھیں مستقل پارٹنر کی صورت میں میسر رہا ہے۔

حالانکہ ایشیا میں ابھرتے ہوئے سپر پاورچین کی معاشی پالیسیوں، روس کے بڑھتے قدموں، روس افغان جنگ اور سب سے بڑی بات 9/11 کے بعد افغانستان میں نیٹو و امریکی موجودگی کے باعث بھارت کے ساتھ ساتھ بنگلادیش اور پاکستان میں بٹے برصغیر میں امریکا پاکستان کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دیتا رہا ہے، لیکن اپنی عملی پالیسیوں میں وہ بھارت کو پاکستان پر فوقیت دیتا رہا ہے۔ شاید اسی لیے ماضی میں جتنے بھی امریکی صدر یہاں پہنچے انھوں نے ہمیشہ خطے میں بھارتی موقف کو اہمیت دی، لیکن یہ پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ بھارت کی سرزمین پر کسی امریکی صدر نے بھارت کو آئینہ دکھایا ہے، پھر چاہے وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں ہی کیوں نہ ہو، مگر یہ حقیقت ہے کہ صدر ٹرمپ نے اس خطے میں پاکستان کی اہمیت اور اُس کے کردار کو بھی سراہا ہے، جب کہ کشمیرجیسے ایشو پر پاکستان کے ساتھ زبانی طو ر پر اعلانیہ طے پانیوالے موقف کو دہراتے ہوئے اس معاملے میں ثالث بننے کی پیشکش کو دوہرا کر بھارت کے ''اٹوٹ انگ '' والے موقف کی دیوار کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کے پاکستان کے ساتھ محض فوجی، سفارتی اور امدادی تعلقات ہی رہے ہیں جب کہ بھارت کے ساتھ دفاعی، سفارتی کے ساتھ ساتھ تجارتی و کاروباری تعلقات بھی نہایت مضبوط رہے ہیں۔ حالانکہ تجارتی شعبے میں بقول خود صدر ٹرمپ کے، انھیں 30 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنہ ہے اور اُس کی بناء پر ٹرمپ سرکار نے حالیہ دورے میں بھارت کے ساتھ کسی بھی نئے تجارتی معاہدے سے انکار کیا لیکن ساتھ ہی 3 ارب ڈالر کا ایک مزید دفاعی معاہدہ بھی کیا جو کہ اُن کے مستقل مفادات کے بنیادی جھکاؤ کا پتہ دیتا ہے۔


پاکستان کی تازہ پالیسیوں اور دہشتگردی کے خلاف خطے و عالمی سطح پر اقدامات کی بدولت امریکا سمیت دنیا بھر کے ممالک پاکستان کی کوششوں کو مؤثر اور مثبت قرار دے رہے ہیں، جس کا اظہار صدر ٹرمپ نے اس بھارتی دورے کے اہم خطاب میں کیا، تو دوسری طرف امریکی وزارت خارجہ میں نائب وزیر ایلس ویلز نے بھی انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ موجودہ تعلقات کو بہترین قرار دیا ہے۔ ایسے میں کیا وجہ ہے کہ بہترین تعلقات کے باوجود صدر ٹرمپ پاکستان کا دورہ کرنے سے ہچکچاتے بلکہ کتراتے نظر آتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اس وقت فوجی و سیاسی جنگوں سے زیادہ معاشی اُمور کو اہمیت حاصل ہے اور ہمارے امریکا سے کوئی خاص تجارتی و کاروباری معاہدے و تعلقات نہیں ہیں۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ امریکا کے ساتھ دو طرفہ تجارتی و کاروباری معاہدوں کے لیے سنجیدہ خطوط پر مشتمل پالیسی استوار کر کے اُس پر جلد سے جلد پیش قدمی کا انتظام کرے۔ اس سے پاکستان کے چین و امریکا سے تعلقات میں Balance بھی آئے گا اور خطے میں بڑے ممالک کا صرف فوجی اتحادی بن کے رہنے کے بجائے اس کی اکنامک پارٹنر والی حیثیت بھی مستحکم و مضبوط ہو گی۔ جس کی مثال حالیہ دنوں امریکا کا بنگلادیش کے ساتھ تجارتی معاہدہ ہے، جس کے تحت امریکا آیندہ موبائیل فون بنگلادیش سے خریدے گا۔

اور ویسے بھی اس وقت پاکستان کے لیے ماحول سازگار ہے کیونکہ صدر ٹرمپ اپنے خطاب میں بھارت سے درآمدات پر 45 % اضافی شرح کے ساتھ زیادہ ٹیکس وصولی کا شکوہ کرتے نظر آئے، جس سے پاکستان کو فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ امریکا سے دفاعی شراکت میں استحکام کے بعد پاکستان کو عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے مغربی ممالک بالخصوص امریکا سے خالص تجارتی معاہدوں پر غور کرنا چاہیے۔ پھر جب امریکا طالبان معاہدہ تقریب میں پاکستان کو اعلانیہ سرکاری طور پر دعوت دی گئی ہے تو اس وقت اپنی مضبوط پوزیشن سے فائدہ اُٹھانا ایک بروقت قدم ثابت ہوگا۔

دیکھا جائے تو یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ بھارت میں بیٹھ کر پاکستان کی تعریف کرنے کی ٹرمپ کو آخر کیا ضرورت آن پڑی تو اس کا سیدھا اور آسان جواب یہ ہے کہ 29 فروری کو ہونیوالے طالبان امریکا امن معاہدے میں پاکستان کی اہمیت اور شرکت کے پیش نظر تھا کیونکہ ٹرمپ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ امریکی انتخابات سے قبل امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی ہے تا کہ وہ اپنے عوام کو بتا سکے کہ اُس نے گزشتہ انتخابات میں جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کردکھایا ۔

اسی لیے صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں بھارت پر زور دیا کہ خطے کے بہتر مستقبل اور امن کے قیام کے لیے خطے میں کشمیر سمیت موجود مسائل کو حل کرنے کے لیے اُسے ذمے داری ادا کرنی ہو گی۔ اس پر بین الاقوامی اُمور کے ماہر ہریش پنت کا کہنا ہے کہ امریکا پاکستان اور انڈیا دونوں کو راضی رکھنا چاہتا ہے اس لیے ٹرمپ نے اپنے خطاب میں بھارت کے ساتھ کاروباری و سفارتی تعلقات کے پیش نظر بھارتی عوام کے سامنے بھارت کی تعریف کی لیکن ساتھ ساتھ اُس کی پالیسیوں پر لگے لپٹے انداز میں تنقید بھی کرتے رہے۔

تجزیہ کاروں نے بھارت میں جاری پُرتشدد واقعات پر صدر ٹرمپ کے لگے لپٹے انداز میں بات کرنے پر اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ امریکی صدر بھلے ہی بھارت میں ہونے والی انتہا پسندی سے چشم پوشی کریں لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ موجودہ بھارت گاندھی اور ابوالکلام آزاد کا ہندوستان نہیں بلکہ یہ مودی کا ہندوستان ہے جو پُرتشدد واقعات اور فسادات کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کرنا چاہتا۔

بہرحال صدر ٹرمپ کی باتوں اور امریکی پالیسیوں سے یہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت کے بڑی آبادی والے ملک ہونے کی وجہ سے بڑی منڈی ہے لیکن بنگلادیش بھی فنی استحکام کی وجہ سے اپنی جگہ حیثیت رکھتا ہے اور خصوصاً جیو اسٹرٹیجک پوزیشن کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت کہیں زیادہ ہے۔ اس بات کو اب ہم پاکستانیوں کو بھی سنجیدہ لیتے ہوئے اپنی جیو اسٹرٹیجک و سوشیو اکنامک پوزیشن کو ملکی استحکام اور فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ کوئی بھی ملک تب تک کمزور نہیں ہو سکتا جب تک وہ داخلی طور پر انتشار اور تنازعوں کا مرکز نہ بن جائے۔

بھارت کی موجودہ صورتحال اس کی مثال ہے۔ جب کہ اس وقت افغانستان اور پاکستان کی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں۔ اس لیے افغانستان اور بالخصوص پاکستان کو چاہیے کہ داخلی طور پر ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے ملک میں تاریخی قوموں کے تشخص سے چھیڑ چھاڑ سے گریز کرتے ہوئے ملکی اکائیوں کے مابین قانونی و سرکاری طور پر برابری و سراسری کا ایسا نظام لے آئیں جو اس ملک میں بھائی چارے اور ہم آہنگی کا باعث بنے اور یہی پاکستان میں داخلی طور پر امن اور افہام و تفہیم نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے کی ترقی کی ضمانت ثابت ہو گی۔

پھر پاکستان کو قدرت نے یہ موقع بھی دیا ہے کہ وہ اس بات کو بہتر نمونے سے اُجاگر کرے کہ اب جب پاکستان میں تقریباً انتہا پسندی کو لگام ڈالی جا چکی ہے، جب افغانستان میں امن ہونے جا رہا ہے، جب کشمیر کا مسئلہ عالمی فورم پر اُبھر آیا ہے ایسے میں CAA جیسے بھارتی متنازع شہریت کا بل اور ہندو انتہا پسندی کو بھارتی سرکاری سرپرستی پھر سے اس خطے میں تصادم اور دہشتگردی کی ایک گہری سازش ہے۔ جسے بہرحال ہر صورت میں عالمی قوتوں بالخصوص امریکا کو اقوام ِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے روکنے کے فوری انتظامات کرنے چاہئیں۔ بصورت ِ دیگر یہ خطہ ایک مرتبہ پھر مذہبی و تہذیبی Clash کی طرف بڑھے گا جو کہ نہ صرف ایشیا بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
Load Next Story