چیف جسٹس بلوچستان اور دہشت گردی کی بحث

جب جج دین کے مستند حوالوں کو پیش کر کے اس قسم کی استدعاء کرنے لگ جائیں تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اس معاملے پر۔۔۔

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ انتہائی مدبر اور پڑھے لکھے جج ہیں۔ وہ عدلیہ کی اس روایت کے حامی ہیں جس میں ذرایع ابلاغ سے اجتناب، روزانہ کے کام کاج والے معاملات سے گریز اور خواہ مخواہ کی تشہیر سے بچنا بنیادی اصول سمجھے جاتے ہیں۔ 25 نومبر بروز سوموار کوئٹہ میں ہونے والے دہشت گردی کے قانونی اور اخلاقی پہلوؤں پر ہونے والے ایک سیمینار میں ان سے ملاقات ہوئی۔ یہ سیمینار ان کی طرف سے ایک قدم تھا جس کے ذریعے وہ اس اہم معاملے پر پُرمغز، باوزن اور با مقاصد بحث کرانا چاہتے تھے۔

دوسرے شرکاء جن میں بلوچستان ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان، بار کے نمایندگان اور پولیس کے افسران بھی شامل تھے نے قانونی اور انتظامی پہلوؤں پر تیار شدہ Presentations اور باقاعدہ لکھی ہوئی تقاریر پڑھیں۔ میرے حصے میں ذرایع ابلاغ کے کردار با لخصوص ''انسداد دہشتگر د ی ایکٹ'' کی شق 11W پر خیالات کا اظہار کرنا تھا۔ اس بات چیت سے بہت سے اہم پہلو سامنے آئے جن پر میں بعد میں آپ تک معلومات فراہم کروں گا۔ فی الوقت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے ایک دلچسپ اور سنجیدہ افکار کا خلاصہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ جس میں فکر اور سوچ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے مختلف قرآنی آیات کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف قومی بحث کو بڑھانے کا رستہ تجویز کیا۔ مثلاََ انسان کو نا حق قتل کرنے اور پھر ایمان رکھنے والے کو جان سے مارنے کے خلاف واضح احکامات الہی کے بارے میں انھوں نے یہ آیاتِ کریمہ پیش کیں:

سورۃ المائدۃ

آیت 32: اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے، اْس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیلیں لا چکے ہیں پھر اس کے بعد بھی ان سے بہت سے لوگ ملک میں حدِ اعتدال سے نکل جاتے ہیں

سورۃ النساء

آیت 93: اور جو شخص مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور خدا اس پر غضبناک ہو گا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لیے اس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان واضح احکامات کی روشنی میں ہمیں قاتلوں کی پہچان کرنے میں مشکل نہیں ہونی چاہیے۔ اس طرح تفرقہ ڈالنے والے عناصر کے کردار کو احکام الہی کے ذریعے قابل سزا اور قابل مذمت قرار دینے کے لیے انھوں نے ان قرآنی آیات کا حوالہ دیا۔

سورۃ الشوریٰ

آیت13: اسی نے تمہارے لیے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس (کے اختیار کرنے کا) نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی (اے محمد ﷺ) ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا (وہ یہ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔ جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کر لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے۔

سورۃ الروم

آیت31: (مومنو) اْسی (خدا )کی طرف رجوع کیے رہو اور اس سے ڈرتے رہو اور نماز پڑھتے رہو اور مشرکوں میں نہ ہونا

آیت32: (اور نہ) اْن لوگوں میں (ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور (خود) فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اْن کے پاس ہے

سورۃ آل عمران

آیت105: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے اور احکام بین آنے کے بعد ایک دوسرے سے (خلاف و) اختلاف کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جن کو قیامت کے دن بڑا عذاب ہو گا

سورۃ الانبیاء


آیت 92: یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو

ان آیات میں واضح الفاظ میں مذہب کو اختلاف رائے کا باعث بنوانے کے کردار کو اجاگر کیا گیا ہے۔ خداوند تعالی کے احکامات میں مثبت اختلاف رائے اور فتنہ بننے والے اختلاف رائے میں واضح فرق رکھا گیا ہے۔ دین کو اصلاح اور اتحاد کو بنیاد بنایا گیا ہے اور جو لوگ اس کا الٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے سزا اور تنقید رکھی گئی ہے۔ یہ اتحاد جہنم سے بچنے کا ذریعہ اور طریقہ بھی ہے۔ سورۃ آل عمران کی یہ آیت اس پیغام کو کھل کر بیان کرتی ہے۔

سورۃ آل عمران

آیت103: اور سب مل کر خدا کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تا کہ تم ہدایت پاؤ۔

چیف جسٹس نے اس کے بعد جان کے تحفظ کو ایمان کا مرکزی حصہ ثابت کرنے کے لیے سورۃ انعام آیت نمبر151 اور سورۃ النساء آیت نمبر 92 کا سہارا لیا ۔ یقیناً زندگی خدا کی بہترین تخلیق میں سے ایک ہے ۔ اس کو مسخ کرنے والے کو خدا دوست کیسے رکھ سکتا ہے۔

سورۃ الا نعام

آیت151: کہہ کہ (لوگو) آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کر دی ہیں (ان کی نسبت اس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ (سے بدسلوکی نہ کرنا بلکہ) سلوک کرتے رہنا اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا کیونکہ تم کو اور ان کو ہم ہی رزق دیتے ہیں اوربے حیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا اور کسی جان (والے) کو جس کے قتل کو خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں ارشاد فرماتا ہے تا کہ تم سمجھو۔

سورۃ النساء

آیت29: مومنو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہو جائے تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو، کچھ شک نہیں کہ خدا تم پر مہربان ہے۔

قرآن پاک سے چیف جسٹس نے دو اور نکات بھی ثابت کیے۔ ایک کا تعلق ہر قسم کی مذہبی عبادت گاہوں کا تقدس قائم رکھنا تھا اور دوسرا دین میںزبردستی کی گنجائش کا نہ ہونا۔ پہلے نکتہ کے لیے سورۃ الحج کا حوالہ دیا گیا اور دوسرے کے لیے سورۃ البقرہ سے استفادہ کیا۔

سورۃ الحج

آیت40: یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے (انھوں نے کچھ قصور نہیں کیا) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار خدا ہے۔ اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں خدا کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہو چکی ہوتیں۔ اور جو شخص خدا کی مدد کرتا ہے خدا اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بیشک خدا توانا اور غالب ہے

سورۃ البقرۃ

آیت256: دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے، ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور خدا پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور خدا (سب کچھ) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے

چیف جسٹس نے کوئی ایسے حوالے استعمال نہیں کیے جن کے بارے میں معلومات کا فقدان ہو۔ مگر ایک بہترین قانون دان اور موجودہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس طرف سے ان حوالوں کو یکجا کر کے دہشت گردی کے گرد گھومتی ہوئی بحث کو کسی مرکزی نکتے پر لانے کی یہ کوشش یقیناً انوکھی بھی ہے اور قابل ستائش بھی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ موجودہ صورت حال کی مخدوش ہونے کی نشاندہی بھی کرائی ہے۔ جب جج دین کے مستند حوالوں کو پیش کر کے اس قسم کی استدعا ء کرنے لگ جائیں تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اس معاملے پر موجودہ بحث کتنی کمزور اور خامیوں سے اٹی ہوئی ہے۔

اس بحث کو با مقصد بنانے کے لیے ذرایع ابلاغ کا کردار یقیناً اہم ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بحث و مباحثہ پالیسیوں سے بنتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں دہشت گردی کے معاملے پر نہ حکومت کے پاس کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی حزب اختلاف ان زاویوں کی بات کرنا چاہتی ہے جن کا ذکر چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کے لیکچر میں تھا۔ سب بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔ کوئی بھی دل جمعی سے عقل کی بات ایما ن کے ساتھ نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس مسئلے کو کون حل کرے گا۔
Load Next Story