قرضوں کی دنیا دنیا کے قرضے
جدید معیشت قرضوں کی معیشت ہے۔ اس معیشت کے ہاتھوں افراد سے لے کر حکومتیں تک سب مقروض ہیں۔
جدید معیشت قرضوں کی معیشت ہے۔ اس معیشت کے ہاتھوں افراد سے لے کر حکومتیں تک سب مقروض ہیں۔ امریکا جو دنیا کا امیر ترین ملک ہے وہ آج کی دنیا کا مقروض ترین ملک بھی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکا پر16.8 ٹریلئین (کھرب) ڈالر قرض ہے۔ ہر امریکی مرد عورت اور بچے پر امریکی قرض کے193000 ڈالر واجب الادا ہیں۔ یہ تخمینہ ''نیشنل ڈیبٹ کلاک'' کے اعداد و شمار کی روشنی میں لگایا گیا ہے۔ ڈیبٹ کلاک کے مطابق کُل امریکی قرضوں کی رقم 60016701192 ڈالر بنتی ہے۔ اگر ہر امریکی ٹیکس دہندہ کی بات کی جائے تو اس پر وفاقی قرض کا بوجھ گیارہ لاکھ ڈالر ہے۔ اس کے برعکس ہر پاکستانی پر اوسطاً قرض کا بوجھ 57000 رُپے بنتا ہے۔
گزشتہ نصف صدی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی قرضوں میں نہایت تیز رفتاری سے اور بے محابا اضافہ ہو ہے۔ امریکی قرضوں کا حجم سب سے زیادہ جارج ڈبلیو بش کے دور میں بڑھا۔ بش کے دور میں امریکی قرضے تقریباً دُگنے ہو گئے۔ اس سے قبل یہ قرضے محض 5.8 ٹریلئین ڈالر تھے۔ صدر بش کے دور صدارت میں ان میں 6 ٹریلئین ڈالر کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔ صدر بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی ٹیکس دہندگان کے600 سے800 ملین ڈالر سالانہ بھی پھونکنا شروع کر دیے تھے۔ امریکیوں پر قرضوں کا دوسرا سب سے بڑا بوجھ لادنے والے امریکا کے موجودہ صدر باراک اوباما ہیں۔ ان کے دور میں 4.8 ٹریلئین ڈالر کے قرضوں کا اضافہ ہوا۔ یعنی قریباً 41 فی صد۔ اور یہ تمام تر اضافہ صرف ایک صدارتی مدت کی بات ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا قرض لینا کوئی اچھی بات ہے؟ کیا قرض لینے سے معیشت میں کوئی بہتری آتی ہے؟ کیا قرض لینے سے بھوک، غربت اور افلاس دور ہو جاتی ہے؟ آئیے دنیا کے امیر ترین ملک اور امیر ترین معیشت ہی کا جائزہ لیں۔ یہ وہ ملک ہے کہ ''فوربس'' کے مطابق دنیا کے 10 امیر ترین افراد میں سے 5 کا تعلق یہیں سے ہے۔
امریکا میں ایک جانب تو قرضوں کا حجم بے قابو ہونے کی حد تک بڑھتا جا رہا ہے دوسری جانب غربت نے اپنے پر پھیلا رکھے ہیں۔ 2012ء کے اعداد و شمار کے مطابق 4 کروڑ 65 لاکھ امریکی غربت اور عُسرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ قریباً 15 فیصد۔18 سے 64 برس کی عمر کے 2 کروڑ 65 لاکھ افراد غریب ہیں یعنی 13.7 فیصد جب کہ 18برس سے کم عمر بچوں کا حال اور بھی ابتر ہے۔ امریکا میں ایک کروڑ اکسٹھ لاکھ بچے خطِ غربت پر زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں یعنی 21.8 فیصد۔ امریکا میں غریب بوڑھوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔65 برس سے زائد عمرکے40 لاکھ افراد یعنی9.1 فی صد غریب ہیں۔ مجموعی طور پر غربت کا تناسب 16.1 فی صد ہے۔ بات یہیں تک محدود نہیں 2012ء ہی کے اعداد و شمار کے مطابق4 کروڑ 90 لاکھ امریکی غذائی قلت یا فاقہ زدگی کا شکار ہیں۔ اُن میں سے ایک کروڑ اُنسٹھ لاکھ بچے ہیں۔ اس حوالے سے ہفنگٹن پوسٹ نے22 نومبر2013ء کو ایک ''لائیو رپورٹ'' شایع کی ہے جس میں ہر کائونٹی کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ معروف امریکی جریدے ''فوربس'' میں پال روڈرک گریگوری نے ستمبر میں ''امریکا میں غربت اور افلاس'' کے بارے میں یکے بعد دیگرے دو رپورٹس پیش کیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ امریکا کا ہر پانچ میں سے ایک بچہ بھوکا ہے۔
مملکتِ خداداد پاکستان کے حکمران قرضے کی معیشت کے ان اعداد و شمار سے کوئی عبرت اور نصیحت لینے کے بجائے کشکول، گدائی پھیلائے،کبھی قرض تو کبھی امداد کی وصولی پر کمر بستہ نظر آتے ہے۔ سوال یہ ہے کہ خود انحصاری کو ترک کیے رکھنے اور ''قرض کی مئے'' نے جب امریکا جیسی سپرپاور کی عوام کی فاقہ مستی میں اضافے کے سِوا کچھ نہ دیا تو ''قرض کا یہ مرض'' ہمارے لیے سود مند کس طرح ہو سکتا ہے؟
یہ حال صرف امریکا ہی کا نہیں ہے، جاپان جو کہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے جس کی متحارب فوج بھی نہیں ہے۔ اس کے قرضوں کا حال نیویارک ٹائمز اپنی 11 اگست 2013ء کی اشاعت میں بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جاپان کے بڑھتے ہوئے قومی قرضے جاپانی معیشت سے دگنے ہو چکے ہیں۔ جاپانی ین میں اگر یہ رقم تحریر کی جائے تو کچھ یوں ہے۔ 1,000,000,000,000,000۔ اکنامسٹ کہتا ہے کہ جاپان میں غربت کے اعداد و شمار مخفی ہیں۔ جاپان کی وزارتِ محنت نے اکتوبر 2009ء میں ایک رپورٹ میں بتایا کہ چھ میں سے ایک جاپانی غربت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ یعنی قریباً دوکروڑ جاپانی۔ یہ اعداد و شمار 2007ء کے ہیں۔ ایک اور مطالعے کے مطابق 20 سے 64 برس کی عمر کی خواتین جو تنہا زندگی بسر کرتی ہیں۔ ہر تین میں سے ایک غربت میں مبتلا ہے۔ کوئی بتائے کہ یہ معاشی ترقی اور قر ضے کس کام کے؟ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ''نومینل جی ڈی پی'' کے لحاظ سے دنیا کی دسویں بڑی معیشت ہے۔ ''پر چیزنگ پاور پیرٹی'' کے حساب سے دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔
یہ ایک جانب ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے۔ مریخ پر خلائی مشن بھیجے جا رہے ہیں، دور مار میزائل بن رہے ہیں لیکن اس تمام تر ترقی کے باوجود وہ ایک مقروض ملک ہے۔ اس کے بیرونی قرضے بڑھتے بڑھتے 390048 ملین ڈالر کی سطح کو چھو رہے ہیں۔ لیکن اس تمام تر معاشی سر گرمی سے عام فرد کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ بھارت کی 8 ریاستوں میں افریقا کے26 ممالک کے غرباء سے بھی زیادہ غریب افراد رہتے ہیں۔ یہ انکشاف ایک عالمی تحقیق میں کیا گیا جس میں غربت کے ایک نئے پیمانے کو طے کیا گیا۔ تحقیق کے مطابق بھارتی ریاست بہار، اتر پر دیش اور مغربی بنگال میں 42 کروڑ 10 لاکھ غریب افراد رہتے ہیں۔ یہ تعداد افریقا کے غریب ممالک میں رہنے والے40 کروڑ 10 لاکھ افراد سے زیادہ ہے۔''ملٹی نیشنل پاورٹی انڈیکس'' نامی اس نئے پیمانے کو آکسفرڈ یونی ورسٹی کے عالمی ترقی کے شعبے نے اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے ساتھ مل کر بنایا ہے۔
اس نئے انڈیکس میں ایک عام خاندان میں صحت اور تعلیم پر ہونے والے اخراجات کے علاوہ روزانہ گھریلو اخراجات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس تحقیقِ نو سے جہاں بھارت کی غربت مزید آشکار ہوئی وہیں غربت کی بھی ایک نئی تصویر سامنے آئی ہے۔قرضوں کی معیشت کا یہ وہ چہرہ ہے جس کی جانب بوجوہ التفات نہیںہوتا۔ سرمایہ دارانہ معیشت کا یہ ایک بہت بڑا التباس ہے۔ اس کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔ دولت کے قرض اور سرمائے کے قرض میں فرق رکھنا چاہیے۔ یہ موقع نہیں کہ دولت اور سرمائے کے فرق پر بات کی جائے۔ سرمایہ داری میں پیداواری عمل کا ہدف استعمال نہیں سرمائے کی بڑھوتری ہوا کرتا ہے۔مغرب کی یاترا سے واپس آنے والے افراد اور سفرنامہ نویس، وہاں کی ترقی اور خوش حالی کے بیان میں تو رطب اللسان رہتے ہیں لیکن افسوس کہ انھیں وہاں کی غربت، بھوک اور قرضے نظر نہیں آتے۔ نہ ہی ان میں یہ سوال کرنے کی جرات نظر آتی ہے کہ آخر اس قوم نے بلند و بالا عمارتوں اور پلوں کی تعمیر سے قبل قومی وقار کے منافی قرضوں سے نجات حاصل کرنا کیوں ضروری نہیں سمجھا؟
گزشتہ نصف صدی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی قرضوں میں نہایت تیز رفتاری سے اور بے محابا اضافہ ہو ہے۔ امریکی قرضوں کا حجم سب سے زیادہ جارج ڈبلیو بش کے دور میں بڑھا۔ بش کے دور میں امریکی قرضے تقریباً دُگنے ہو گئے۔ اس سے قبل یہ قرضے محض 5.8 ٹریلئین ڈالر تھے۔ صدر بش کے دور صدارت میں ان میں 6 ٹریلئین ڈالر کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔ صدر بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی ٹیکس دہندگان کے600 سے800 ملین ڈالر سالانہ بھی پھونکنا شروع کر دیے تھے۔ امریکیوں پر قرضوں کا دوسرا سب سے بڑا بوجھ لادنے والے امریکا کے موجودہ صدر باراک اوباما ہیں۔ ان کے دور میں 4.8 ٹریلئین ڈالر کے قرضوں کا اضافہ ہوا۔ یعنی قریباً 41 فی صد۔ اور یہ تمام تر اضافہ صرف ایک صدارتی مدت کی بات ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا قرض لینا کوئی اچھی بات ہے؟ کیا قرض لینے سے معیشت میں کوئی بہتری آتی ہے؟ کیا قرض لینے سے بھوک، غربت اور افلاس دور ہو جاتی ہے؟ آئیے دنیا کے امیر ترین ملک اور امیر ترین معیشت ہی کا جائزہ لیں۔ یہ وہ ملک ہے کہ ''فوربس'' کے مطابق دنیا کے 10 امیر ترین افراد میں سے 5 کا تعلق یہیں سے ہے۔
امریکا میں ایک جانب تو قرضوں کا حجم بے قابو ہونے کی حد تک بڑھتا جا رہا ہے دوسری جانب غربت نے اپنے پر پھیلا رکھے ہیں۔ 2012ء کے اعداد و شمار کے مطابق 4 کروڑ 65 لاکھ امریکی غربت اور عُسرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ قریباً 15 فیصد۔18 سے 64 برس کی عمر کے 2 کروڑ 65 لاکھ افراد غریب ہیں یعنی 13.7 فیصد جب کہ 18برس سے کم عمر بچوں کا حال اور بھی ابتر ہے۔ امریکا میں ایک کروڑ اکسٹھ لاکھ بچے خطِ غربت پر زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں یعنی 21.8 فیصد۔ امریکا میں غریب بوڑھوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔65 برس سے زائد عمرکے40 لاکھ افراد یعنی9.1 فی صد غریب ہیں۔ مجموعی طور پر غربت کا تناسب 16.1 فی صد ہے۔ بات یہیں تک محدود نہیں 2012ء ہی کے اعداد و شمار کے مطابق4 کروڑ 90 لاکھ امریکی غذائی قلت یا فاقہ زدگی کا شکار ہیں۔ اُن میں سے ایک کروڑ اُنسٹھ لاکھ بچے ہیں۔ اس حوالے سے ہفنگٹن پوسٹ نے22 نومبر2013ء کو ایک ''لائیو رپورٹ'' شایع کی ہے جس میں ہر کائونٹی کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ معروف امریکی جریدے ''فوربس'' میں پال روڈرک گریگوری نے ستمبر میں ''امریکا میں غربت اور افلاس'' کے بارے میں یکے بعد دیگرے دو رپورٹس پیش کیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ امریکا کا ہر پانچ میں سے ایک بچہ بھوکا ہے۔
مملکتِ خداداد پاکستان کے حکمران قرضے کی معیشت کے ان اعداد و شمار سے کوئی عبرت اور نصیحت لینے کے بجائے کشکول، گدائی پھیلائے،کبھی قرض تو کبھی امداد کی وصولی پر کمر بستہ نظر آتے ہے۔ سوال یہ ہے کہ خود انحصاری کو ترک کیے رکھنے اور ''قرض کی مئے'' نے جب امریکا جیسی سپرپاور کی عوام کی فاقہ مستی میں اضافے کے سِوا کچھ نہ دیا تو ''قرض کا یہ مرض'' ہمارے لیے سود مند کس طرح ہو سکتا ہے؟
یہ حال صرف امریکا ہی کا نہیں ہے، جاپان جو کہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے جس کی متحارب فوج بھی نہیں ہے۔ اس کے قرضوں کا حال نیویارک ٹائمز اپنی 11 اگست 2013ء کی اشاعت میں بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جاپان کے بڑھتے ہوئے قومی قرضے جاپانی معیشت سے دگنے ہو چکے ہیں۔ جاپانی ین میں اگر یہ رقم تحریر کی جائے تو کچھ یوں ہے۔ 1,000,000,000,000,000۔ اکنامسٹ کہتا ہے کہ جاپان میں غربت کے اعداد و شمار مخفی ہیں۔ جاپان کی وزارتِ محنت نے اکتوبر 2009ء میں ایک رپورٹ میں بتایا کہ چھ میں سے ایک جاپانی غربت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ یعنی قریباً دوکروڑ جاپانی۔ یہ اعداد و شمار 2007ء کے ہیں۔ ایک اور مطالعے کے مطابق 20 سے 64 برس کی عمر کی خواتین جو تنہا زندگی بسر کرتی ہیں۔ ہر تین میں سے ایک غربت میں مبتلا ہے۔ کوئی بتائے کہ یہ معاشی ترقی اور قر ضے کس کام کے؟ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ''نومینل جی ڈی پی'' کے لحاظ سے دنیا کی دسویں بڑی معیشت ہے۔ ''پر چیزنگ پاور پیرٹی'' کے حساب سے دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔
یہ ایک جانب ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے۔ مریخ پر خلائی مشن بھیجے جا رہے ہیں، دور مار میزائل بن رہے ہیں لیکن اس تمام تر ترقی کے باوجود وہ ایک مقروض ملک ہے۔ اس کے بیرونی قرضے بڑھتے بڑھتے 390048 ملین ڈالر کی سطح کو چھو رہے ہیں۔ لیکن اس تمام تر معاشی سر گرمی سے عام فرد کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ بھارت کی 8 ریاستوں میں افریقا کے26 ممالک کے غرباء سے بھی زیادہ غریب افراد رہتے ہیں۔ یہ انکشاف ایک عالمی تحقیق میں کیا گیا جس میں غربت کے ایک نئے پیمانے کو طے کیا گیا۔ تحقیق کے مطابق بھارتی ریاست بہار، اتر پر دیش اور مغربی بنگال میں 42 کروڑ 10 لاکھ غریب افراد رہتے ہیں۔ یہ تعداد افریقا کے غریب ممالک میں رہنے والے40 کروڑ 10 لاکھ افراد سے زیادہ ہے۔''ملٹی نیشنل پاورٹی انڈیکس'' نامی اس نئے پیمانے کو آکسفرڈ یونی ورسٹی کے عالمی ترقی کے شعبے نے اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے ساتھ مل کر بنایا ہے۔
اس نئے انڈیکس میں ایک عام خاندان میں صحت اور تعلیم پر ہونے والے اخراجات کے علاوہ روزانہ گھریلو اخراجات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس تحقیقِ نو سے جہاں بھارت کی غربت مزید آشکار ہوئی وہیں غربت کی بھی ایک نئی تصویر سامنے آئی ہے۔قرضوں کی معیشت کا یہ وہ چہرہ ہے جس کی جانب بوجوہ التفات نہیںہوتا۔ سرمایہ دارانہ معیشت کا یہ ایک بہت بڑا التباس ہے۔ اس کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔ دولت کے قرض اور سرمائے کے قرض میں فرق رکھنا چاہیے۔ یہ موقع نہیں کہ دولت اور سرمائے کے فرق پر بات کی جائے۔ سرمایہ داری میں پیداواری عمل کا ہدف استعمال نہیں سرمائے کی بڑھوتری ہوا کرتا ہے۔مغرب کی یاترا سے واپس آنے والے افراد اور سفرنامہ نویس، وہاں کی ترقی اور خوش حالی کے بیان میں تو رطب اللسان رہتے ہیں لیکن افسوس کہ انھیں وہاں کی غربت، بھوک اور قرضے نظر نہیں آتے۔ نہ ہی ان میں یہ سوال کرنے کی جرات نظر آتی ہے کہ آخر اس قوم نے بلند و بالا عمارتوں اور پلوں کی تعمیر سے قبل قومی وقار کے منافی قرضوں سے نجات حاصل کرنا کیوں ضروری نہیں سمجھا؟