بچوں کو اپنی ہتھیلی کا چھالا نہ سمجھیں

انہیں ایسا بنائیں کہ زندگی کی راہوں پر وہ خود چل سکیں

انہیں ایسا بنائیں کہ زندگی کی راہوں پر وہ خود چل سکیں

اکثر مائیں یہ کہتی ہیں کہ ہمارے بچے بہت نازک طبع ہیں۔ ان سے فلاں کام نہیں ہوتا اور ابھی وہ بچے ہیں اگر یہ کریں گے تو تھک جائیں گے یا ان کے لیے مناسب نہیں ہے وغیرہ۔ جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ بچوں کی اچھی پرورش ایک ماں کے لیے سب سے اہم کام ہے، جس میں ذرا سی کوتاہی بچوں کے مستقبل کو خراب کر سکتی ہے۔

اس مقصد کے لیے ایک ماں کو کافی احتیاط کا دامن تھامنا پڑتا ہے اور اپنے قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتے ہیں۔ کچھ مائیں بہت حساس طبیت ہوتی ہیں وہ اپنے بچوں کی مثالی تربیت کے حوالے سے ماہرین کی آرا پر غور و فکر کر نا ضروری سمجھتی ہیں۔ جیسا کہ آج کل بچوں کی نفسیات کے ماہرین اس بات پر زیادہ زور دے رہے ہیں کہ اپنے بچوں کو مشکلات سے نمٹنا اور پریشانیوں کا سامنا کرنا سکھائیں۔ اس مقصد کے لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ہر کام میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔

بہت سی جگہوں پر یہ دیکھا گیا ہے کہ والدین بالخصوص مائیں اپنے بچوں کے سارے کام اپنے ہاتھ سے کرنا چاہتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے بچے بڑے ہو کر خود ہی سمجھ جائیں گے اور سیکھ بھی جائیں گے اور یہی خوش فہمی اس وقت ایسی مائوں کے لیے خطرناک حد تک غلط ثابت ہوتی ہے جب بچوں کو عملی زندگی میں قد م رکھنا پڑتا ہے۔ اس وقت وہ اپنے ہر کام کے لیے کسی نہ کسی کندھے کا سہارا تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو کسی طرح بھی ممکن نہیں ہوتا اور یہی چیز ان کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ آپ کو چاہیے کہ بچوں کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھائیں اور نہیں بچپن سے ہی اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل سے نمٹنا سکھائیں۔

اسکول میں ہونے والی سختی سے بچوں کو بچانے کے لیے مائیں پیش پیش ہوتی ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہی مائوں کی پہلی غلطی ہے کیوں کہ اب تو وہ بچوں کو سخت حالات سے بچا لیں گی اور جب وہ بڑے ہوں گے تب وہ کسی طرح کی سختی برادشت کرنے کے عادی نہیں ہوں گے۔


اگر بچے کسی میدان میں ناکام ہو جائیں، چاہے یا وہ کھیل کا ہو یا پڑھائی کا، انہیں حالات کا سامنا کرنے سکھائیں، تاکہ وہ اپنی ناکامی سے سبق سیکھ کر اپنے اندر مثبت تبدیلیاں لانے کی کوشش کریں۔ کچھ بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ چیز نہ ملنے پر خوب روتے اور چلاتے ہیں اس وقت بچوں کی نفسیات کی جانچ پرکھ رکھنے والی مائیں انہیں پیار سے سمجھاتی ہیں اس طرح بچوں میں ایک تو احساس محرومی پیدا نہیں ہوتا اور دوسرا وہ ضدی نہیں بنتے۔ جو مائیں اسی وقت بچوں کی بے جا فرمائشیں اور خواہشات پوری کر دیتی ہیں، وہ اپنے بچوں کا مستقبل خراب کر رہی ہوتی ہیں۔

بچے ماں کے سامنے کسی دوسرے بچے کی شکایت کریں یا استاد کے رویے پر رونے بیٹھ جائیں تو مائیں اسی وقت اسے دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور یہی غلط پہلو ہے کیوں کہ اس طرح آپ اپنے بچے کو مزید منفی رویے اپنانے پر اکسا رہی ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ انہیں بتائیں کہ ہر کام ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہو سکتا۔ ناکامیاں زندگی میں کام یابی حاصل کرنے کی پہلی سیڑھی ہیں اور بچوں کو اس مرحلے میں اپنے قدم مضبوط رکھنے کی تاکید کرتی رہیں۔

بچوں کے جذباتی پن کو وقت پر قابو کرنے میں ایک اچھی اور تربیت یافتہ ماں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بچے کسی دوست سے لڑائی جھگڑا کریں یا کسی پر الزام تراشی کریں تو سب سے پہلے معاملے کی تحقیق کریں۔ اگر آپ کا بچہ جھوٹ بول رہا ہے تو اسے مارنے یا سختی کرنے کے بہ جائے پیار سے سمجھائیں، تاکہ اس کے دل میں گناہ کا خوف بیٹھے اور نیکی سے لگائو پیدا ہو۔ بچیاں باورچی خانے میں کام کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تو مائیں ان پر برہم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ آپ کو اپنی اس غلطی کا اندازہ اس وقت ہوگا، جب بیٹی کو سسرال میں باتیں سننا پڑیں گی اور بیٹے کو پیشہ ورانہ زندگی میں دشواریاں ہوں گی۔ اس لیے بہتر ہے کہ انہیں شروع سے ہی چھوٹے چھوٹے کاموں کی عادت بھی ڈالیں، تاکہ ان کی دل چسپی بڑھے اور وہ اپنی عملی زندگی پرسکون طریقے سے گزاریں۔

اگر بچوں کا ٹیوٹر انہیں ڈانٹتا ہے یا سزا دیتا ہے تو آپ بچوں کی حمایت نہ کریں اور نہ بے جا مداخلت کریں۔ ایک بات جو سب سے اہم گردانی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ مائیں بچپن سے ہی بچوں کی غلطیوں پر پردے ڈالنا شروع کر دیتی ہیں اور انہیں سزا سے بچانے کے لیے خود بھی جھوٹ بولتی ہیں، حالاں کہ بعد میں اس مسئلے کے بہت نقصانات سامنے آتے ہیں۔ بچوں میں ہٹ دھرمی کے ساتھ ساتھ خود سری بھی پیدا ہو جاتی ہے، کیوں کہ وہ جان چکے ہوتے ہیں کہ انہیں ہر معاملے میں آزادی ہے وہ جو دل چاہے کر سکتے ہیں کوئی انہیں کچھ نہیں کہہ سکے گا۔

ایک بچہ جب اپنے بہن، بھائی سے کوئی چیز چھینتا ہے، تو ایک سمجھ دار ماں کو چاہیے کہ وہ اسے مل جل کر کھیلنے کی تربیت دے اور سمجھائیں کہ بانٹنے سے ایک دوسرے سے محبت بڑھتی ہے نا کہ وہ چیز ایک سے لے کر دوسرے کو دے دی جائے اس طرح بچوں میں منفی جذبات جنم لیں گے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے بازی پر اتر آئیں گے۔ آپ ایک اچھی ماں کے روپ میں خود کو پرکھیں اور اپنے تربیتی عمل کو بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کریں۔
Load Next Story