پی پی اور نون لیگ کے بیچ زمانے کا بیر

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لوگ اپنی پارٹی کے یوم تاسیس سے لے کر آج تک ایک دوسرے کے مدمقابل الیکشن لڑتے آئے ہیں۔

mnoorani08@gmail.com

پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیاسی اختلاف اور دشمنی بہت پرانی ہے۔ یہ کچھ دنوں کے لیے وقتی طور پر تھم تو جاتی ہے مگر ختم ہرگز نہیں ہوتی۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے یہاں سیاسی پارٹیاں نظریات پر بنا کرتی تھیں۔ لوگ سوشل ازم ، کمیونزم ، کیپٹل ازم اور اسلام کے نظریات اور اُصولوں کی بنیاد پر اپنے منشور تشکیل دیتے تھے اور سیاسی جماعتیں بنایا کرتے تھے، مگر جب سے سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا ہے یہ تمام مقدس اور زریں اُصول بھی اب زمین بوس ہوکررہ گئے ہیں۔

ایشیاء کے سرخ اورسبز ہونے کی باتیں اب ہوا ہوچکی ہیں۔ کہیں کہیں کسی پارٹی میں یہ نظریہ اگر ابھی تک زندہ اورباقی ہے تو وہ بھی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ جماعت اسلامی اور جے یو آئی کو ویسے تو ہم سب اسلامی نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتیں سمجھتے ہیں اوراِسی طرح اے این پی کو ترقی پسند کمیونسٹ پارٹی کے طور پرجانا اور پہچانا جاتا ہے لیکن یہ ساری سیاسی جماعتیں بھی اب بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ بدل چکی ہیں۔

جے یوآئی اور اے این پی ہمیشہ سے ایک دوسرے کے بڑے مخالف رہی ہیں لیکن گزشتہ سال اکتوبر اور نومبر میں ہم نے اے این پی کے لوگوں کو جے یو آئی کے دھرنے میں شرکت کرتے دیکھا تو حیرانی سے ششدر رہ گئے۔ مولانا فضل الرحمن اور باچاخان کے چاہنے والے ایک اسٹیج پر ایسے ایک ساتھ جمع ہوئے کھڑے تھے جیسے اُن کے بیچ نظریات کا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اِسی طرح دیگر مذہبی جماعتیں بھی اب جب چاہیں کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کر سکتی ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لوگ اپنی پارٹی کے یوم تاسیس سے لے کر آج تک ایک دوسرے کے مدمقابل الیکشن لڑتے آئے ہیں۔ اِن کے درمیان کبھی بھی انتخابی اتحاد بنتا دیکھا نہیں گیا۔ آج ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے تو یہ دونوں پارٹیاں اپوزیشن میں ہونے کے باعث بظاہر ایک پلیٹ فارم پر یکجا دکھائی دیتی ہیں ، مگر اِن کے اندر ایک دوسرے کے خلاف حریفانہ جذبات بہرحال پہلے کی طرح اب بھی قائم ودائم ہیں جو کبھی کبھارکھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔ بلاول زرداری کا مسلم لیگ (ن) کے خلاف حالیہ بیان اُن کے اندر چھپے ایسے ہی جذبات اور خیالات کی ترجمانی کرتا دکھائی دیتا ہے، آج اگر عمران خان اُن کے درمیان سے نکل جائے تو یہ پھر ایک دوسرے سے متصادم ہوتے دکھائی دیں گے۔

یہی حال خان صاحب کا بھی ہے۔ میاں نواز شریف کے سابقہ دور میں جب آخری دوسال باقی رہ گئے تو یہی عمران خان جو زرداری اور اُن کے ساتھیوں کو چور اور ڈاکو کہتے تھکتے نہیں تھے میاں صاحب کے خلاف پیپلز پارٹی کے ساتھ ملکر تحریک چلانے پر آمادہ دکھائی د ے رہے تھے۔ پاناما کیس میں جب کمیشن بٹھانے کی باتیں ہو رہی تھیں تو اُس کے ٹی آر اوز TROs طے کرنے کے لیے پی ٹی آئی اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک ساتھ ہم زباں اور ہم رکاب بن کر مسلم لیگ کو ٹف ٹائم دے رہی تھیں۔


اُس وقت خان صاحب کو زرداری فیکٹر میں کوئی برائی نظر نہیں آ رہی تھی، جب کہ آج وہ اُن سے ایک بار پھر ہاتھ ملانے کے بھی روادار نہیں ہیں۔ سینیٹ کے ممبران کے انتخاب کے وقت بھی انھوں نے پیپلز پارٹی سے سمجھوتہ کر کے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے مسلم لیگ کو مات دینے کی کوششیں کیںاور پھر سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں بھی وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ملکر مسلم لیگ (ن) کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔

تو یہ ظاہر ہوا کہ سیاست میں کوئی اُصول اور نظریہ عزیز نہیں ہوتا، بس صرف ذاتی مفادات مقدم رکھے جاتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں اگر پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تو پھر یہی خان صاحب میاں نواز شریف یا اُن کی پارٹی سے سمجھوتہ کرتے دکھائی دیں گے۔ پی ٹی آئی کے بارے میں ایک بات تو یقینی طور پرکہی جا سکتی ہے کہ وہ آیندہ آنے والے دنوں میں جب کبھی برسر اقتدار نہیں رہے گی تو اپوزیشن میں رہتے ہوئے وہ مسلم لیگ (ن) یا پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مک مکا ضرورکر لے گی، لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایک خوبی ضرور دیکھی گئی ہے کہ وہ جذباتی اور وقتی سیاست کی قائل نہیں ہے۔

2014ء میں جب عمران خان اور علامہ طاہرالقادری لانگ مارچ اور دھرنا دے رہے تھے تو ایسے میں اُس نے خان صاحب کا ساتھ دینے کی بجائے میاں نوازشریف حکومت کا ساتھ دیا۔ وہ موقعہ پرستی کی سیاست کرنے کی بجائے حالات کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ہی کوئی قدم اُٹھاتی ہے۔ وہ کسی بھی حکومت کے ابتدائی دنوں میں اُس کے خلاف سراپا احتجاج بننے کی بجائے '' تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو '' والی پالیسی اپنانے کو بہتر اور مقدم سمجھتی ہے۔ یہی طریقہ اُس نے ابھی بھی اپنایا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عمران خان حکومت کے خلاف بڑا سوچ سمجھ کر اور پھونک پھونک کر قدم اُٹھا رہی ہے۔

رہ گیا سوال مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اُس کے روابط اور مراسم کا تو وہ کبھی بھی اچھے نہیں رہے۔ اِن دونوں کی سیاست کا محور اور تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کبھی بھی مل جل کر نہ چلیں۔ وہ اگرایسا کریں گے تو پھر دونوں میں سے ایک کی سیاسی موت واقع ہو جائے گی۔ اُن کا ووٹر بھی اُن سے اِسی رویے کا تقاضا کرتا ہے۔ خاص کر صوبہ پنجاب میں تو یہ کبھی بھی اکٹھا نہیں چل سکتے۔

اِسی طرح صوبہ سندھ میں بھی دیکھا جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی کا راج ایک عرصہ دراز سے چلا آ رہا ہے۔ وہ وہاں اپنے علاوہ کسی دوسری سیاسی جماعت کو اپنے ساتھ ملانے کو تیار ہی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ شہری علاقوں میں گرچہ اُسے میجورٹی حاصل نہیں ہوتی مگر وہ اُن علاقوں کی کامیاب سیاسی پارٹیوں سے بھی کوئی مفاہمت کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ وہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں تو اپنا شیئر لینے کے لیے پوری طرح بیتاب نظر آتی ہے لیکن صوبہ سندھ میں وہ اپنے ساتھ کسی کو بھی ملانے کو رضا مند نہیں ہوتی۔

ہاں وفاق میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے اگر کچھ سیٹوں کی اُسے ضرورت پڑ جائے تو وہ دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں سے ہاتھ ملانے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتی۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد ہم نے ایسا ہی دیکھا تھا۔ وفاق میں اُس نے اپنی عددی کمی پورا کرنے کے لیے کبھی ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ملایا اور کبھی مسلم لیگ(ق) کو۔ وہ اگر چاہتی تو 2018ء کے الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ملکر پنجاب میں صوبائی حکومت بنانے میں اُس کے ساتھ تعاو ن کر سکتی تھی ، لیکن نہیں یہاں اُسے مسلم لیگ (ن) سے اپنی پرانی دشمنی یاد آگئی۔ زرداری صاحب نے تو شہباز شریف سے ببانگ دہل یہ ارشاد فرما دیا تھا کہ وہ اِس بار انھیں پنجاب میں بھی حکومت بنانے نہیں دیں گے اور پھر انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اُن کی اِس انتقامی سیاست کا سارا فائدہ پی ٹی آئی کو پہنچا اور وہ وہاں آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی۔
Load Next Story