تحریک انصاف کے دھرنے جاری نیٹو کی متعدد گاڑیاں واپس مشترکہ حکمت عملی بنائیںخٹک کا وزیر اعظم کو خط
کابل میں امریکی سفارتخانےکا سامان لے جانیوالی گاڑیاں بھی واپس، احتجاج کرنے والے پی ٹی آئی کے کارکن آپس میں ہی لڑ پڑے
تحریک انصاف کے زیراہتمام ڈرون حملوں کیخلاف احتجاجی تحریک منگل کو چوتھے روز بھی جاری رہی اور پارٹی کارکنوں نے خیبر پختونخوا کے 4 اضلاع میں 5 مقامات پر دھرنے جاری رکھتے ہوئے نیٹو اور امریکی افواج کیلیے رسد لیجانے والی متعدد گاڑیوں کو خیرآباد پل نوشہرہ، پشاور، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں روک کر واپس بھجوادیا جبکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گاڑیاں معمول کے مطابق چلتی رہیں۔
ادھر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے وزیراعظم نوازشریف کو خط لکھا ہے جس میں موجودہ صورتحال پر مشترکہ حکمت عملی بنانے کا کہا گیا ہے۔ ادھرسپلائی روکنے کیلیے تحریک انصاف کے مستقل دھرناکیمپس قائم ہیں جن میں کارکنوں کی بڑی تعداد موجود ہے جبکہ جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد کے کارکن بھی پیر کو تحریک انصاف کیساتھ دھرنے میں شریک رہے۔ منگل کوصوبائی دارالحکومت پشاور میں موٹروے انٹر چینج پر اور حیات آباد رنگ روڈ ٹول پلازہ پر تحریک انصاف کے دھرنا کیمپس میں کارکنوں کی بڑی تعداد موجود رہی۔ تحریک انصاف کے صوبائی ترجمان اشتیاق ارمڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے کارکنان کسی پر تشدد نہیں کر رہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹانک بائی پاس روڈ پر دھرنا جاری ہے جس میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائل کی بڑی تعداد بھی موجود ہے۔
صوبے بھر سے موصول اطلاعات کے مطابق منگل کو نیٹو اور امریکی افواج کیلئے سامان لیجانے والی متعدد گاڑیوں کو واپسی پر مجبور کر دیا گیا۔ مختلف کیمپس میں موجود تحریک انصاف کے کارکنوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر انھیں برسوں تک بھی دھرنا دینا پڑے تو دینگے۔آئی این پی کے مطابق دھرنے میں تحریک انصاف کے کارکن آپس میں ہی لڑ پڑے اور ایک کارکن نے فائرنگ کردی جس سے بھگدڑ مچ گئی تاہم وہاں پر موجود پی ٹی آئی کی انتظامیہ اور پولیس اہلکاروں نے حالات کو سنبھال لیا۔ پشاور سے جنرل رپورٹر کے مطابق دھرنے کے دوران نیٹوکنٹینر کی جگہ پانی کی کمپنی کیلیے سینیٹری سامان لیجانے والے کنٹینر کو روک کر اسے واپس کردیا ۔
تاہم بعد میں جب کارکنوں کو پتہ چلاکہ یہ ٹرالر نیٹو فورسز کا سامان لے جانیکی بجائے سینٹیری سامان لے جارہا ہے، اس موقع پر کارکن بھی ایک دوسرے پر تنقید کرنے لگے جبکہ بعد میں دھرنا دینے والے کارکنوں نے ڈارئیور سے معذرت کرلی۔ علاوہ ازیں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے حوالے سے مرکز کی سطح پر اجلاس بلاکر مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے اور مذکورہ اجلاس تک مرکز کی جانب سے نیٹو سپلائی کو بند کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف کو ارسال کردہ خط میں کہا گیا کہ آپ خیبرپختونخوا میں حالیہ ڈرون حملوں کی وجہ سے عوام کے بڑھتے ہوئے غم و غصے سے بخوبی آگاہ ہوں گے۔ ہمارا صوبہ قبائلی علاقوں میں ہونے والی مسلسل جارحیت کی وجہ سے عوامی اشتعال میں ڈوبا ہوا ہے۔
ہنگو میں ہونے والے حالیہ حملے نے اُس جلتی آگ پر تیل چھڑک دیا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ گزشتہ کئی عرصوں سے یہاں بدامنی اور دہشتگردی کے واقعات میں شہریوں کے جان و مال کا ضیاع ہونے کے سبب اب مزید ظلم و زیادتی اور انسانی ہلاکتیں عوام کیلیے ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئی ہیں۔ ان حالات میں منتخب عوامی نمائندے ہونے کی حیثیت سے ہم عوام کے جائز جذبات اور شکایات کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے پابند ہیں۔اگرچہ احتجاجی مظاہروں کے دوران امن و امان کو برقرار رکھنے کیلیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ضروری ہدایات جاری کر دی گئی ہیں لیکن یہ بہت بدقسمتی ہوگی اگر ہمارے شہری اپنے جائز غم و غصے کا اظہار کرنے کے دوران خدانخواستہ کسی بھی مرحلے پر اپنی ہی پولیس فورس کے ساتھ نبرد آزما ہوں اور اس میںاُن عناصر کو بھی مداخلت کا ممکنہ حد تک موقع ملے جو ملک دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ براہ کرم وفاقی سطح پر ایک اجلاس بلائیںجس میں اس گھمبیر مسئلے پر مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کیلیے تمام صوبوں کو مدعو کیا جائے۔
ہم یہ بتانا بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ مذکورہ اجلاس کے انعقاد تک ضروری ہوگیا ہے کہ وفاقی حکومت خیبرپختونخوا کے راستے افغانستان جانے اور آنے والی تمام نیٹو سپلائی کو منقطع کرے یہ واحد راستہ ہو گا جس کے ذریعے ہم اپنے عوام کے بڑھتے ہوئے جذبات کو کسی حد تک ٹھنڈا کرنے کے قابل ہوں گے۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے امید ظاہر کی گئی ہے کہ وزیراعظم ان کی جانب سے ارسال کردہ گزارشات پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔
ادھر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے وزیراعظم نوازشریف کو خط لکھا ہے جس میں موجودہ صورتحال پر مشترکہ حکمت عملی بنانے کا کہا گیا ہے۔ ادھرسپلائی روکنے کیلیے تحریک انصاف کے مستقل دھرناکیمپس قائم ہیں جن میں کارکنوں کی بڑی تعداد موجود ہے جبکہ جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد کے کارکن بھی پیر کو تحریک انصاف کیساتھ دھرنے میں شریک رہے۔ منگل کوصوبائی دارالحکومت پشاور میں موٹروے انٹر چینج پر اور حیات آباد رنگ روڈ ٹول پلازہ پر تحریک انصاف کے دھرنا کیمپس میں کارکنوں کی بڑی تعداد موجود رہی۔ تحریک انصاف کے صوبائی ترجمان اشتیاق ارمڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے کارکنان کسی پر تشدد نہیں کر رہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹانک بائی پاس روڈ پر دھرنا جاری ہے جس میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائل کی بڑی تعداد بھی موجود ہے۔
صوبے بھر سے موصول اطلاعات کے مطابق منگل کو نیٹو اور امریکی افواج کیلئے سامان لیجانے والی متعدد گاڑیوں کو واپسی پر مجبور کر دیا گیا۔ مختلف کیمپس میں موجود تحریک انصاف کے کارکنوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر انھیں برسوں تک بھی دھرنا دینا پڑے تو دینگے۔آئی این پی کے مطابق دھرنے میں تحریک انصاف کے کارکن آپس میں ہی لڑ پڑے اور ایک کارکن نے فائرنگ کردی جس سے بھگدڑ مچ گئی تاہم وہاں پر موجود پی ٹی آئی کی انتظامیہ اور پولیس اہلکاروں نے حالات کو سنبھال لیا۔ پشاور سے جنرل رپورٹر کے مطابق دھرنے کے دوران نیٹوکنٹینر کی جگہ پانی کی کمپنی کیلیے سینیٹری سامان لیجانے والے کنٹینر کو روک کر اسے واپس کردیا ۔
تاہم بعد میں جب کارکنوں کو پتہ چلاکہ یہ ٹرالر نیٹو فورسز کا سامان لے جانیکی بجائے سینٹیری سامان لے جارہا ہے، اس موقع پر کارکن بھی ایک دوسرے پر تنقید کرنے لگے جبکہ بعد میں دھرنا دینے والے کارکنوں نے ڈارئیور سے معذرت کرلی۔ علاوہ ازیں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے حوالے سے مرکز کی سطح پر اجلاس بلاکر مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے اور مذکورہ اجلاس تک مرکز کی جانب سے نیٹو سپلائی کو بند کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف کو ارسال کردہ خط میں کہا گیا کہ آپ خیبرپختونخوا میں حالیہ ڈرون حملوں کی وجہ سے عوام کے بڑھتے ہوئے غم و غصے سے بخوبی آگاہ ہوں گے۔ ہمارا صوبہ قبائلی علاقوں میں ہونے والی مسلسل جارحیت کی وجہ سے عوامی اشتعال میں ڈوبا ہوا ہے۔
ہنگو میں ہونے والے حالیہ حملے نے اُس جلتی آگ پر تیل چھڑک دیا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ گزشتہ کئی عرصوں سے یہاں بدامنی اور دہشتگردی کے واقعات میں شہریوں کے جان و مال کا ضیاع ہونے کے سبب اب مزید ظلم و زیادتی اور انسانی ہلاکتیں عوام کیلیے ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئی ہیں۔ ان حالات میں منتخب عوامی نمائندے ہونے کی حیثیت سے ہم عوام کے جائز جذبات اور شکایات کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے پابند ہیں۔اگرچہ احتجاجی مظاہروں کے دوران امن و امان کو برقرار رکھنے کیلیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ضروری ہدایات جاری کر دی گئی ہیں لیکن یہ بہت بدقسمتی ہوگی اگر ہمارے شہری اپنے جائز غم و غصے کا اظہار کرنے کے دوران خدانخواستہ کسی بھی مرحلے پر اپنی ہی پولیس فورس کے ساتھ نبرد آزما ہوں اور اس میںاُن عناصر کو بھی مداخلت کا ممکنہ حد تک موقع ملے جو ملک دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ براہ کرم وفاقی سطح پر ایک اجلاس بلائیںجس میں اس گھمبیر مسئلے پر مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کیلیے تمام صوبوں کو مدعو کیا جائے۔
ہم یہ بتانا بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ مذکورہ اجلاس کے انعقاد تک ضروری ہوگیا ہے کہ وفاقی حکومت خیبرپختونخوا کے راستے افغانستان جانے اور آنے والی تمام نیٹو سپلائی کو منقطع کرے یہ واحد راستہ ہو گا جس کے ذریعے ہم اپنے عوام کے بڑھتے ہوئے جذبات کو کسی حد تک ٹھنڈا کرنے کے قابل ہوں گے۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے امید ظاہر کی گئی ہے کہ وزیراعظم ان کی جانب سے ارسال کردہ گزارشات پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔