اقوام متحدہ اور مسئلہ فلسطین

اقوام متحدہ کو یہ فیصلہ کرنے میں کم و بیش تیس سال لگے۔ برطانوی سامراج نے مسئلہ فلسطین کو 1947ء میں...

اقوام متحدہ کو یہ فیصلہ کرنے میں کم و بیش تیس سال لگے۔ برطانوی سامراج نے مسئلہ فلسطین کو 1947ء میں اقوام متحدہ کے حوالے کیا تھا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دو دسمبر1977ء میں یہ فیصلہ کیا کہ 1978ء سے 29 نومبر کو فلسطینیوں سے یکجہتی کا دن عالمی سطح پر منایا جائے۔ تب سے آج تک یہ دن منایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے مسئلہ فلسطین کی تاریخ کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ یعنی انیس سو سترہ میں بالفور اعلامیہ سے 1947ء تک برطانوی سامراج کے زیر انتظام فلسطین۔ سینتالیس سے 77ء تک دوسرا حصہ جس میں فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ ، 1948ء، 1967ء اور1973ء کی جنگیں اور فلسطینیوں کے ناقابل تنسیخ حقوق کا تذکرہ ہے۔1977ء سے 1990ء تک تیسرے حصے میں لبنان، مسئلہ فلسطین کے بارے میں بین الاقوامی کانفرنس اور تحریک انتفاضہ شامل ہیں۔ چوتھے حصے میں 1990ء کا عشرہ ہے جس میں امن عمل اہم موضوع رہا جب کہ سال 2000ء سے 2013ء تک مسئلہ فلسطین کی تاریخ کے پانچویں حصے میں دوسری تحریک انتفاضہ، نسل پرستانہ بنیادوں پر قائم کی گئی صہیونی دیوار اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے پیش کیا گیا امریکی روڈ میپ کو اہم موضوعات قرار دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ صرف سن سینتالیس میں فلسطین کا موضوع سو سے زائد مرتبہ زیر بحث رہا۔ اس مسئلے کے اہم ترین ایشوز میں شامل ہے فلسطینیوں کا حق خود ارادی، حق قومی آزادی و خود مختاری اور اس زمین، گھر اور ملکیتوں پر ان کی واپسی کا حق کہ جہا ں سے صہیونی دہشت گردوں نے انھیں زبردستی بے دخل کر دیا تھا۔ دیگر اہم ترین ایشو ز کو آزاد فلسطینی ریاست کی دائمی اور حتمی حیثیت سے منسلک قرار دیا گیا ہے، ان میں بیت المقدس یعنی یروشلم، فلسطینی مہاجرین، ناجائز نسل پرست اسرائیلی یہودی بستیاں، پانی اور سرحدیں ہیں۔

اس مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ اپنی سب سے اہم قرارداد نمبر 181 پر زور دیتی رہی ہے۔ یہ قرار داد بیس نومبر انیس سو سینتالیس میں منظور کی گئی تھی۔ اس قرار داد کا عنوان فلسطین کی آیندہ حکومت رکھا تھا۔ اس میں یہودی اور عرب ریاستیں اقتصادی طور پر ایک اور انتظامی طور پر دو حصوں میں تقسیم فلسطین کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔ سوئیڈش ریڈ کراس کے صد ر کائونٹ فوک برنارڈوٹ کو مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے ثالث مقرر کیا۔ انھوں نے تقسیم فلسطین کے منصوبے میں النقب Negev کو عرب فلسطین کا حصہ قرار دینے کی بات کی۔ اور اگلے ہی دن صہیونی دہشت گردوں نے اقوام متحدہ کے مذکورہ نمایندے کو قتل کر ڈالا۔

صہیونی یہودیوں کے روحانی باپ تھیوڈور ہرزل کی جانب سے اٹھارہ سو ستانوے میں بلائی گئی پہلی صہیونی کانگریس کے اعلامیے اور بالفور اعلامیے کو قیام اسرائیل کی بنیاد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ لیکن نہ تو نسل پرست یہودیوں کی صہیونی تحریک کے روحانی ابا تھیوڈور ہرٹزل فلسطینی تھے اور نہ ہی اسرائیل کے قیام کا اعلان کرنے والا ڈیوڈ بن گوریان فلسطینی تھا۔ بالفور برطانوی سامراج کا نمایندہ تھا لہذا وہ فلسطین کے کسی بھی حصے پر دنیا بھر کے یہودیوں کو کوئی اختیار دینے کا حق نہیں رکھتا تھا۔ عرب ریاست قائم کرنے کا حق حاصل صرف فلسطینیوں کا تھا جو تادم تحریر خود اقوام متحدہ نے بھی عملی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ لہٰذا اس قرارداد کے تحت بھی اسرائیل کے قیام کا کوئی جواز نہیں بنتا۔


اقوام متحدہ کی جانب سے انتیس نومبر کو عالمی یوم برائے اظہار یکجہتی فلسطینیان منانا اچھی بات ہے لیکن اقوام متحدہ اپنی ناکامیوں کو اس دن کی آڑ میں چھپا نہیں سکتی۔ اقوام متحدہ جس امن عمل یا روڈ میپ کو فلسطین کی تاریخ کا حصہ تسلیم کر رہی ہے وہ امن عمل بھی مشکوک ہے۔ اس امن عمل کی بنیاد اوسلو معاہدہ ہے لیکن اوسلو معاہدے کی اپنی بنیاد میڈرڈ کانفرنس ہے جس میں فلسطینیوں، اردن اور شام کی حکومتوں کو سعودی بادشاہت نے اسرائیل کے مفاد میں بلیک میلنگ کر کے زبردستی شریک کروایا تھا۔ اس کانفرنس میں فلسطینیوں کو ایک فریق کی حیثیت سے شامل ہی نہیں کیا گیا تھا بلکہ سعودی شہزادے بندر بن سلطان نے فلسطینیوں کو اردن کے سرکاری وفد کا حصہ بنوا کر شریک کروایا تھا۔ اس زبردستی کے عمل سے امن نہ قائم ہونا تھا نہ قائم ہو سکا۔

اقوام متحدہ خود اس مسئلے پر کئی بین الاقوامی کانفرنسیں کر چکی ہے جس میں سے ایک کا حوالہ اس ادارے کی ویب سائٹ پر بھی ہے اور اس تحریر میں بھی اس کا تذکرہ کیا جا چکا ہے۔ فلسطین پر بین الاقوامی کانفرنس ICQP انتیس اگست تا سات ستمبر1983 جنیوا میں ہوئی۔ اس کانفرنس میں ایرانی وفد نے امت اسلامی کے عادلانہ موقف کو پیش کیا اور اسی کو مسئلہ فلسطین کے حل کی بنیاد بنایا جانا چاہیے۔ ایرانی مندوبین نے کہا کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہونی چاہیے جس کو پورے فلسطین میں خود مختاری حاصل ہونی چاہیے۔ انھوں نے قرارداد نمبر 181 کو اس بنا پر مسترد کیا کہ اس میں فلسطین کی تقسیم کی بات کی گئی ہے۔ انھوں نے اسرائیل کو نسل پرست صہیونی ہونے کی بنیاد پر بھی ناجائز ریاست قرار دے کر اس سے مذاکرات کی پالیسی کو مسترد کیا۔ انھوں نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے فلسطینی مزاحمتی افراد کی طویل مسلح جدوجہد اور عرب اور مسلم اقوام کی جانب سے ان کی فوجی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی مدد کو مسئلے کے عادلانہ حل کے لیے ضروری قرار دیا۔

اقوام متحدہ اس موقف کو بھی سامنے رکھتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے۔ یہ اقوام متحدہ کی اولین ذمے داری ہے اور اس کی ترجیحات میں سب سے پہلی ترجیح آزا د فلسطینی ریاست کا قیام ہونا چاہیے اور وہ ممالک جو شام کی جائز اور قانونی حکومت کو فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت کی سزا دینے کے لیے دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں، انھیں چاہیے کہ جولان کی پہاڑیوں کے دوسری طرف واقع ناجائز صہیونی حکومت کے زیر تسلط علاقوں میں محصور اور مقید مظلوم فلسطینیوں کی مدد کریں۔

اقوام متحدہ اور یہ ممالک جب اپنا قبلہ درست کر لیں گے تو انتیس نومبر واقعاً ایسا دن ہو گا کہ جب فلسطینی اور ان کے خیر خواہ جوش و خروش سے یہ دن منانا چاہیں گے۔ فی الحال زمینی حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی اس دن سے زیادہ یوم القدس، یوم نکبہ اور یوم نکسہ منانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story