معاشرے میں بڑھتی درندگی نے انسانیت کو شرما دیا
مختلف واقعات میں ایک لڑکی اور دو بچوں کو ہوس کا نشانہ بنا دیا گیا
ISLAMABAD:
درندگی و سفاکی تہذیب کے ہر قرینے اور انسانیت کے ہر سلیقے سے عاری ہوتی ہے، وہ اپنی خون آشامی کا جواز خود ہوتی ہے اور اپنی حیا باختگی کی دلیل خود تراشتی ہے۔
کسی کی برہمی، کسی کی تنقید اور کسی کی حرف گیری سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بنت حوا کے ساتھ ظلم، جبر اور زیادتی کے تو اتنے واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ انہیں احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ معصوم بچوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنانے کے بھی بیسیوں واقعات سامنے آچکے ہیں، جن میں کئی ملزمان گرفتار بھی کرلیے گئے لیکن اس قبیح فعل کا ارتکاب پھر بھی نہ رک سکا۔
راولپنڈی میں بھی کچھ ماہ کے دوران اسی نوعیت کے ایسے واقعات منظر عام پر آئے جنہوں نے انسانیت کو ہی شرما دیا۔ تھانہ رتہ امرال کے علاقے میں بھی گزشتہ دنوں ایک ایسا ہی شرمناک واقعہ پیش آیا جو ہمارے معاشرتی چہرے پر کالک مل دینے کے مترادف ہے۔ واقعہ میں ایک ملازمت کرنے والے غریب شہری کی چودہ سالہ بیٹی کو اس کے پڑوس اور محلے میں ہی رہنے والے چار درندہ صفت افراد، جن میں ایک بڑی عمر کا شخص بھی شامل ہے، نے مختلف اوقات میں بلیک میل کر کے درندگی کا نشانہ بنایا۔ سنگین واقعہ کا پتہ اس وقت چلا کہ جب بچی حاملہ ہوگئی اطلاع ملنے پر سی پی او راولپنڈی احسن یونس نے فوری ایکشن لیا اور ایس پی راول ڈویژن رائے مظہر اقبال کو خود موقع پر پہنچ کر بچی کا میڈیکل کروانے اور ملوث عناصر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے احکامات دیئے۔
چودہ سالہ لڑکی نے 16 فروری کو تھانہ میں مقدمہ درج کراتے ہوئے بتایاکہ ''والدہ فوت ہوچکی ہیں، والد ملازمت کرتے ہیں اور دو چھوٹے بھائی ہیں۔ کچھ روز قبل ہمسایہ اسد علی گھر آیا اور کہاکہ تم گھر پر تنہا ہوتی ہو سودا سلف منگوانا ہو تو لادیا کروں گا، میں نے انکار کیا تو چند دن بعد وہ پھر گھر آیا اور زبردستی کرتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔کچھ دن بعد مذکورہ شخص اپنے دوست بہادر علی کے ساتھ آیا اور دونوں نے زبرستی کرتے ہوئے اسلحے کی نوک پر دھمکیاں دیں، میں خوف کی وجہ سے والد کو نہیں بتاسکی، بعدازاں عابد انکل جو ہمسایے ہیں، نے بھی بلیک میل کرتے ہوئے زبردستی کی اور کچھ دن بعد دوسرے ہمسائے یحیی نے بھی بلیک میل کرکے یہی کچھ کیا، جس کے باعث وہ حاملہ ہوگئی'' پولیس نے مقدمہ درج کرکے چاروں ملزمان کو گرفتار کرلیا۔ چند دن بعد اسی بچی کے یہاں بچی کی پیدائش ہوئی جس پر پولیس نے ملزمان اور بچی کے ڈین این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے حاصل کرکے فرانزک سائنس ایجنسی کو ارسال کردیئے۔
سنگین واقعہ کی سنگینی یہاں پہنچ کر ختم نہ ہوئی بلکہ اس وقت پنجاب میں بچوں کے حقوق اور حفاظت کے لیے متحرک ادارے چائلڈ پروٹیکیشن بیورو کو مداخلت کرنا پڑی، جب انھیں اطلاع ملی کہ بچی کی پیدائش کے بعد نومولود کو کسی غیر متعلقہ شخص کے حوالے کیا جا رہا ہے جس پر چائلڈ پروٹیکیشن بیورو راولپنڈی کے انچارج علی عابد نقوی نے چیرپرسن سائرہ احمد کو آگاہ کیا، جنہوں نے چائلد پروٹیکشن بیورو راولپنڈی کو فوری طور پر ماں اور نومولود بچی کو حفاظتی تحویل میں لینے کے احکامات جاری کیے، جنہیں حفاظتی تحویل میں لے کر سکیورٹی اور بہتر نگہداشت یقینی بنانے کے لیے چائلڈ پروٹیکیشن بیور کے لاہور سنٹر منتقل کردیا گیا۔
معصوم بچوں کے ساتھ ہی دو دیگر سنگین واقعات بھی ایسے ہی ہیں، جن میں انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا گیا۔ ان واقعات کا احوال کچھ یوں ہے کہ تھانہ ائیرپورٹ کے علاقے ڈھوک کمال دین سے 10 اکتوبر 2019ء کو نو سالہ بچے (ن، خ) کو اغواء کیاگیا، جس کی نعش بعد ازاں علاقے میں ویرانے سے ملی۔ اسی نوعیت کا واقعہ چند دن قبل 25فروری2020ء کو تھانہ ائیرپورٹ کے ہی علاقے گلزار قائد میں پیش آیا، جس میں گیارہ سالہ بچے کو اغواء کر کے موت کے گھاٹ اتار کر سفاکیت کا نشانہ بنایا گیا۔
پہلے واقعہ کے بعد چارماہ کے دوران پولیس نے قصور واقعہ کی طرز پر تفتیش کرتے ہوئے تیزی دکھائی لیکن تمام تر تیزیوں کے باوجود اس وقت کی راولپنڈی پولیس کی ٹیم واردات کو ٹریس نہ کرسکی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تفتیش کی کوششیں بھی ماند پڑ گئیں کہ اچانک اسی طرز کا دوسرا واقعہ منظر عام پر آیا تو متاثرہ بچے کے لواحقین اور علاقہ مکین سراپا احتجاج بن گئے۔
تاہم سنگین واقعہ کے بعد تقریبا دوماہ قبل تعینات ہونے والے سی پی او راولپنڈی احسن یونس نے حالیہ واقعہ کا بھی سخت نوٹس لیا اور ایس ایس پی انوسٹی گیشن فیصل کامران کی سربراہی میں ایس پی پوٹھوہار سید علی ، اے ایس پی سول لائنز بینش فاطمہ اور ایس ایچ او ائیرپورٹ چوہدری ریاض پر مشتمل ٹیم تشکیل دی۔ ٹیم نے مہارت سے تفتیش کرکے کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے سنگین واردات میں ملوث ملزم ذوالفقار خان، جس کی عمر سترہ سے اٹھارہ سال بتائی جاتی ہے، کو ڈرامائی انداز میں گرفتار کرلیا۔
اس حوالے سے سی پی او راولپنڈی احسن یونس نے ایس پی انوسٹی گیشن فیصل کامران اور اے ایس پی سول لائنز بینش فاطمہ و ایس ایچ او ائیرپورٹ چوہدری ریاض کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم ذوالفقار خان نے پہلی واردات میں 9 سالہ بچے ( ن ، خ) کو کبوتروں کے شوق کا فائدہ اٹھا کر لالچ دیتے ہوئے اغوا کیا اور خواہش پوری نہ کرنے دینے پر بچے کو گلہ دبا کر قتل کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ سی پی او راولپنڈی کا کہنا تھا کہ قتل کے بعد زیادتی کی دوسری سنگین واردات ملزم نے گلزار قائد کے علاقے میں کی جہاں 11 سالہ بچے ( الف ، اعجاز ) کو پتنگ بازی کے شوق کی وجہ سے لالچ دیکر اغوا کیا اور زیر تعمیر مکان میں رکھ کر قتل کرنے کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا۔
سی پی او احسن یونس کا کہنا تھاکہ واردات میں ملوث ملزم کی شناخت کے لیے پولیس نے کئی گھنٹوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا بغور معائنہ کیا اور ٹریس کرکے ملزم کو گرفتار کیا۔ سی پی او کا مزید کہنا تھا کہ ذوالفقار کے ظلم کا شکار دونوں بچے غیر اخلاقی حرکات سے انکار کرتے تھے، اس لیے ملزم نے پہلے بچوں کو قتل کیا اور پھر ہوش کا نشانہ بنایا۔ سی پی او کا کہنا تھاکہ بحیثیت شہری ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمارا معاشرہ کس جانب بڑھ رہا ہے، پہلی واردات کی اطلاع ملنے پر اگر ملزم کی والدہ پولیس کو آگاہ کردیتی تو دوسرے بچے کے ساتھ ہونے والا واقعہ رک سکتا تھا۔
درندگی و سفاکی تہذیب کے ہر قرینے اور انسانیت کے ہر سلیقے سے عاری ہوتی ہے، وہ اپنی خون آشامی کا جواز خود ہوتی ہے اور اپنی حیا باختگی کی دلیل خود تراشتی ہے۔
کسی کی برہمی، کسی کی تنقید اور کسی کی حرف گیری سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بنت حوا کے ساتھ ظلم، جبر اور زیادتی کے تو اتنے واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ انہیں احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ معصوم بچوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنانے کے بھی بیسیوں واقعات سامنے آچکے ہیں، جن میں کئی ملزمان گرفتار بھی کرلیے گئے لیکن اس قبیح فعل کا ارتکاب پھر بھی نہ رک سکا۔
راولپنڈی میں بھی کچھ ماہ کے دوران اسی نوعیت کے ایسے واقعات منظر عام پر آئے جنہوں نے انسانیت کو ہی شرما دیا۔ تھانہ رتہ امرال کے علاقے میں بھی گزشتہ دنوں ایک ایسا ہی شرمناک واقعہ پیش آیا جو ہمارے معاشرتی چہرے پر کالک مل دینے کے مترادف ہے۔ واقعہ میں ایک ملازمت کرنے والے غریب شہری کی چودہ سالہ بیٹی کو اس کے پڑوس اور محلے میں ہی رہنے والے چار درندہ صفت افراد، جن میں ایک بڑی عمر کا شخص بھی شامل ہے، نے مختلف اوقات میں بلیک میل کر کے درندگی کا نشانہ بنایا۔ سنگین واقعہ کا پتہ اس وقت چلا کہ جب بچی حاملہ ہوگئی اطلاع ملنے پر سی پی او راولپنڈی احسن یونس نے فوری ایکشن لیا اور ایس پی راول ڈویژن رائے مظہر اقبال کو خود موقع پر پہنچ کر بچی کا میڈیکل کروانے اور ملوث عناصر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے احکامات دیئے۔
چودہ سالہ لڑکی نے 16 فروری کو تھانہ میں مقدمہ درج کراتے ہوئے بتایاکہ ''والدہ فوت ہوچکی ہیں، والد ملازمت کرتے ہیں اور دو چھوٹے بھائی ہیں۔ کچھ روز قبل ہمسایہ اسد علی گھر آیا اور کہاکہ تم گھر پر تنہا ہوتی ہو سودا سلف منگوانا ہو تو لادیا کروں گا، میں نے انکار کیا تو چند دن بعد وہ پھر گھر آیا اور زبردستی کرتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔کچھ دن بعد مذکورہ شخص اپنے دوست بہادر علی کے ساتھ آیا اور دونوں نے زبرستی کرتے ہوئے اسلحے کی نوک پر دھمکیاں دیں، میں خوف کی وجہ سے والد کو نہیں بتاسکی، بعدازاں عابد انکل جو ہمسایے ہیں، نے بھی بلیک میل کرتے ہوئے زبردستی کی اور کچھ دن بعد دوسرے ہمسائے یحیی نے بھی بلیک میل کرکے یہی کچھ کیا، جس کے باعث وہ حاملہ ہوگئی'' پولیس نے مقدمہ درج کرکے چاروں ملزمان کو گرفتار کرلیا۔ چند دن بعد اسی بچی کے یہاں بچی کی پیدائش ہوئی جس پر پولیس نے ملزمان اور بچی کے ڈین این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے حاصل کرکے فرانزک سائنس ایجنسی کو ارسال کردیئے۔
سنگین واقعہ کی سنگینی یہاں پہنچ کر ختم نہ ہوئی بلکہ اس وقت پنجاب میں بچوں کے حقوق اور حفاظت کے لیے متحرک ادارے چائلڈ پروٹیکیشن بیورو کو مداخلت کرنا پڑی، جب انھیں اطلاع ملی کہ بچی کی پیدائش کے بعد نومولود کو کسی غیر متعلقہ شخص کے حوالے کیا جا رہا ہے جس پر چائلڈ پروٹیکیشن بیورو راولپنڈی کے انچارج علی عابد نقوی نے چیرپرسن سائرہ احمد کو آگاہ کیا، جنہوں نے چائلد پروٹیکشن بیورو راولپنڈی کو فوری طور پر ماں اور نومولود بچی کو حفاظتی تحویل میں لینے کے احکامات جاری کیے، جنہیں حفاظتی تحویل میں لے کر سکیورٹی اور بہتر نگہداشت یقینی بنانے کے لیے چائلڈ پروٹیکیشن بیور کے لاہور سنٹر منتقل کردیا گیا۔
معصوم بچوں کے ساتھ ہی دو دیگر سنگین واقعات بھی ایسے ہی ہیں، جن میں انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا گیا۔ ان واقعات کا احوال کچھ یوں ہے کہ تھانہ ائیرپورٹ کے علاقے ڈھوک کمال دین سے 10 اکتوبر 2019ء کو نو سالہ بچے (ن، خ) کو اغواء کیاگیا، جس کی نعش بعد ازاں علاقے میں ویرانے سے ملی۔ اسی نوعیت کا واقعہ چند دن قبل 25فروری2020ء کو تھانہ ائیرپورٹ کے ہی علاقے گلزار قائد میں پیش آیا، جس میں گیارہ سالہ بچے کو اغواء کر کے موت کے گھاٹ اتار کر سفاکیت کا نشانہ بنایا گیا۔
پہلے واقعہ کے بعد چارماہ کے دوران پولیس نے قصور واقعہ کی طرز پر تفتیش کرتے ہوئے تیزی دکھائی لیکن تمام تر تیزیوں کے باوجود اس وقت کی راولپنڈی پولیس کی ٹیم واردات کو ٹریس نہ کرسکی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تفتیش کی کوششیں بھی ماند پڑ گئیں کہ اچانک اسی طرز کا دوسرا واقعہ منظر عام پر آیا تو متاثرہ بچے کے لواحقین اور علاقہ مکین سراپا احتجاج بن گئے۔
تاہم سنگین واقعہ کے بعد تقریبا دوماہ قبل تعینات ہونے والے سی پی او راولپنڈی احسن یونس نے حالیہ واقعہ کا بھی سخت نوٹس لیا اور ایس ایس پی انوسٹی گیشن فیصل کامران کی سربراہی میں ایس پی پوٹھوہار سید علی ، اے ایس پی سول لائنز بینش فاطمہ اور ایس ایچ او ائیرپورٹ چوہدری ریاض پر مشتمل ٹیم تشکیل دی۔ ٹیم نے مہارت سے تفتیش کرکے کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے سنگین واردات میں ملوث ملزم ذوالفقار خان، جس کی عمر سترہ سے اٹھارہ سال بتائی جاتی ہے، کو ڈرامائی انداز میں گرفتار کرلیا۔
اس حوالے سے سی پی او راولپنڈی احسن یونس نے ایس پی انوسٹی گیشن فیصل کامران اور اے ایس پی سول لائنز بینش فاطمہ و ایس ایچ او ائیرپورٹ چوہدری ریاض کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم ذوالفقار خان نے پہلی واردات میں 9 سالہ بچے ( ن ، خ) کو کبوتروں کے شوق کا فائدہ اٹھا کر لالچ دیتے ہوئے اغوا کیا اور خواہش پوری نہ کرنے دینے پر بچے کو گلہ دبا کر قتل کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ سی پی او راولپنڈی کا کہنا تھا کہ قتل کے بعد زیادتی کی دوسری سنگین واردات ملزم نے گلزار قائد کے علاقے میں کی جہاں 11 سالہ بچے ( الف ، اعجاز ) کو پتنگ بازی کے شوق کی وجہ سے لالچ دیکر اغوا کیا اور زیر تعمیر مکان میں رکھ کر قتل کرنے کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا۔
سی پی او احسن یونس کا کہنا تھاکہ واردات میں ملوث ملزم کی شناخت کے لیے پولیس نے کئی گھنٹوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا بغور معائنہ کیا اور ٹریس کرکے ملزم کو گرفتار کیا۔ سی پی او کا مزید کہنا تھا کہ ذوالفقار کے ظلم کا شکار دونوں بچے غیر اخلاقی حرکات سے انکار کرتے تھے، اس لیے ملزم نے پہلے بچوں کو قتل کیا اور پھر ہوش کا نشانہ بنایا۔ سی پی او کا کہنا تھاکہ بحیثیت شہری ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمارا معاشرہ کس جانب بڑھ رہا ہے، پہلی واردات کی اطلاع ملنے پر اگر ملزم کی والدہ پولیس کو آگاہ کردیتی تو دوسرے بچے کے ساتھ ہونے والا واقعہ رک سکتا تھا۔