پاکستانی اسٹاک مارکیٹ سرمایہ کاری کا کھویا ہوا موقع

مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کو اس جانب راغب کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنی دولت ایک خاص حصہ شیئرمارکیٹ کے لیے مختص کریں.

بلآخر پاکستان میں موجود وسائل پر حق پاکستانیوں کا ہی ہے۔ فوٹو: آئی این پی

ISLAMABAD:
اسٹاک مارکیٹ، یہ ایک ایسا پرکشش لفظ ہے جو کہ دنیا میں کہیں بھی کسی بھی سننے والے کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرلیتا ہے۔ تاہم پاکستان میں یہ اشرافیہ کے اس خاص کلب کی تصویر پیش کرتا ہے جہاں وہ آسانی سے حاصل کی گئی قسمت کی کارپوریٹ بازار میں بولی لگاتے ہیں۔ اگرچہ تصورات اکثر غلط ہوتے ہیں اور یہی کیس پاکستان کی اسٹاک مارکیٹس میں بھی ہے جہاں انجام عموما بہت زیادہ پیسہ کمانے کے مواقعوں کے ختم ہو جانے کی صورت ميں ہوتا ہے۔

دی اکانومسٹ کی حالیہ رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ترقی پذیر معیشتوں میں سرمایے اور لیبر کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ فقط ایک ملازم کی حیثیت سے اپنی صلاحیتیں کسی کو بیچنے کی نسبت اپنا کاروبار آپ کو زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے ۔

چنانچہ کسی بھی سابق کی ترقی میں حصہ لینے کا راستہ اس کے بزنس ميں شیئر لینے میں ہے جو کہ بتاتا ہے کہ کیسے شیئرز کی ٹریڈنگ شروع ہوئی۔ کسی کمپنی کے کاروبار میں شراکت داری اسٹاک مارکیٹ کے ذریعے ہوتے ہیں(یقینا لسٹڈ کمپنیز کے شیئرز میں ہی)۔

مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کو اس جانب راغب کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنی دولت ایک خاص حصہ شیئرمارکیٹ کے لیے مختص کریں لیکن بدقسمتی سے ایک اچھی آمدنی کے باوجود ریٹیلرز اور عوام کی شرکت بہت کم پیمانے پر ہے اور صرف کچھ سو سرمایہ کاروں کے پاس ٹریڈنگ اکاؤنس موجود ہیں۔ اس لیے اسٹاک مارکیٹ ميں ان لوگوں کی شدید کمی ہے جو کہ اس پلیٹ فارم کو مارکیٹ کے کچھ بڑے کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں مضبوطی سے رہنے کا راستہ روکیں۔

مقامی کاروبار سے منسلک عام لوگ جو اچھا منافع کماتے ہیں اسٹاک مارکیٹ میں اپنا اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں بلکہ ایک اچھی کاروباری حکمت عملی ہے۔

اہم وجوہات جو کہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کو دنیا کی بہترین مارکیٹوں میں سے ایک بناتی ہیں وہ 18 کروڑ کا انسانی سرمایہ،شہری آبادیوں میں اضافہ، مارکیٹ میں لسٹڈ ان کمپنیوں کا مضبوط نمونھ جو کہ مسلسل زیادہ کمائی کا مزہ لوٹ رہیں ہیں۔

جب ترقی یافتہ قومیں جیسا کھ جاپان، فرانس اور برازیل ورکنگ پاپولیشن میں کمی کے حوالے سے منصوبہ ک رہیں ہیں پاکستان صارفین کی ایک بڑی اور سرمایہ کاروں کے لیے تیزی سے ترقی کی مارکیٹ ہے۔ اسی لیے یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ پاکستانی فنڈز کا شمار دنیا کے 100 بہترین فنڈز میں کیا گیا اور رواں سال بھی پاکستان جاپان کے بعد دنیا کی دوسری بہترین اسٹاک مارکیٹ ہے۔

-- بہت زیادہ لیوریج نہ ہونا(یعنی 100 روپے رکھتے ہوئے ایک ہزار روپے مارلیت کی کوئی چیز خریدنا) بہت اہم ریفارم رہا ہے جس کے لیےریگولیٹر کی جانب سے انویسٹرز کی رقم کو بہتر استعمال اور اس حوالے سے خدشات کو کم کرنے کے حوالے سے تحقیق کا بیڑہ اٹھایا گیا۔ ایک تجربہ کار فنڈ منیجر کی حیثیت سے میں نے خود یہ چیز دیکھی ہے کہ 2008 کے بحران کے بعد بروکرز/سرمایہ کاری کے بہت سے مشیروں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ کمپنی کے بنیادی کاروبار کے حوالے یہ بات یقینی بنانے کے کافی ماہر بن گئے ہیں کہ کلائنٹس کی رقم سرمایہ کاری کے لئے ہے نہ کہ "تجاویز" کی بنیاد پر جوا لگانے کے لیے۔


اس قسم کے اقدامات نے کراچی اسٹاک ایکسچینچ کے 100 انڈکس کو صرف ساڑھے 3 سالوں میں 200 فیصد تک بڑھا کر 8 ہزار سے 24 ہزار پوائنٹس تک پہنچنے کے قابل بنایا۔

اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کے کافی طریقے ہیں۔ آپ اپنا ذاتی بروکریج اکائونٹ بھی بنا سکتے ہیں جس کے لیے آپ کو کم از کم 25 ہزار روپے کی سرماریہ کاری کرنی پڑے گی۔ اس کے علاوہ آپ اثاثوں کی مینجمنٹ کمپنیز کے ماہر کی خدمات بھی ایک معمولی سالانہ فیس )2 فیصد یعنی 50 ہزار روپے کی سرمایہ کاری پر ایک ہزار روپے سالانہ ( کے عوض حاصل کر سکتے ہیں۔

اوپر دوسرے نمبرپر بیان کیا گیا طریقہ کار ان افراد کے لیے ہے جو کہ زیادہ بہتر کاروباری مواقع رکھنے والے ان اسٹاکس جاننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مزیدبراں اثاثوں کی مینجمنٹ کمپنیز کو ریگولیٹرز )ایس ای سی پی ( مسلسل مانیٹر کر رہے ہوتے ہیں اور خطرات کو کم کرنے اور سرمایہ کاروں کی رقم کے بہتر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے کئی حدبندیاں مقرر کرتے ہیں جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے درمیان اعتماد کو بھی فروغ ملتا ہے۔

نیچے پروفیشنل انویسٹمنٹ منیجر زکی جانب سے کچھ مزید تجاویز ہیں جو کہ موجودہ اور مستقبل کے سرمایہ کار وں کو اپنے ذہن میں رکھنی چاہیں۔

 

  • کبھی بھی اپنی تمام تر بچت کو اسٹاک مارکیٹ میں نہیں لگائیں، ایک مختلف نوعیت کی پہچان بنائیں۔

  • کبھی بھی مختصر مدت کے ٹریڈر نہ بنیں اوراسے جوا نہ سمجھیں۔

  • کبھی بھی ایک ہی جگہ پرسرمایہ کاری نہ کریں، خطرات کو کم کرنے کے لئے چار سے زائد اسٹاکس رکھیں۔

  • کبھی ایسا لیوریج نہ لیں جسے لینے کی آپ مالی حیثیت نہیں رکھتے۔

  • کبھی ان کمپنیز میں سرمایہ کاری نہ کریں جن کے بزنس ماڈل کو آپ نہیں سمجھ سکتے، آنکھیں بند کرکے آفر نہ کریں۔

  • آخر میں، کبھی بھی غیررجسٹرز لوگوں کے لیے انویسٹ نہ کریں اور پروفیشنل انویسٹمنٹ مشیران کے ماہر کی خدمات حاصل کریں۔


ہمارے ارد گرد موجود مایوسی کے باجود پاکستان میں اپنی مالی حیثیت بڑھانے کے بے پناہ مواقع موجودہیں۔ اوپر بیان کی کی گئی تجاویز بنیادی اصول ہیں جن کو صحیح معنوں میں اپنایا جائے تو امیروں اور مڈل کلاس میں موجود فرق کو ختم کرنے میں حقیقی معنوں میں کوشش کی جا سکتی۔ بلآخر پاکستان میں موجود وسائل پر حق پاکستانیوں کا ہی ہے۔ جتنی جلدی ایک عام پاکستانی اس حقیقت کو سمجھ لے گا اتنی جلدی ہم اپنی مجموعی اہمیت کو جان سکتے ہیں اور دنیا میں ترقی کرنے والی مارکیٹوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
Load Next Story