بلوچستان کی باہمت لڑکی خواتین کے لیے مثال بن گئی
ہما روزانہ حب سے ڈھائی گھنٹے کاسفرطے کر کے ٹریننگ کیلیے گراؤنڈ پہنچتی ہے
بلوچستان کی باہمت لڑکی ہما آمانی خواتین کے لیے مثال بن گئی۔
قومی کھیل ہاکی کا شوق روزانہ بلند عزائم ہماکو حب سے کراچی کھینچ لاتا ہے، اپنے شوق کی تکمیل اور اس میدان میں کچھ کر دکھانے کا جوش رکھنے والی ہما بلوچستان کے علاقے حب سے روزانہ 2 بسیں بدل کر کراچی پہنچتی ہے، ڈھائی گھنٹے کا سفر بس میں تنہا طے کرنے والی ہما نیپا گلشن اقبال پہنچ کرکے ایچ اے گراؤنڈ پر روزانہ 2 گھنٹے ٹریننگ کرتی ہے۔
کھیل اور سفر کی تھکن سے چور ہما رات 9 بجے گھر واپس آتی ہے تو والد خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا استقبال کرتے اور حوصلہ دیتے ہیں، ہما کے والد بے روزگار ہیں جبکہ 3 بھائی گھرکی کفالت کرنے کے ساتھ بہن کے مالی اخراجات برداشت کرتے ہیں، ہاکی کے میدان میں کچھ کر دکھانے کی آرزو رکھنے والی ہما کے والدکہتے ہیں کہ مجھے ہاکی کا شوق تھا لیکن حالات نے کھیلنے نہیں دیا،اب ہماکھیلتی ہے تو لگتا ہے میں کھیل رہا ہوں۔
شفقت بھری نگاہوں کے ساتھ ہماکا ہر طرح سے ساتھ دینے والی ہماکی والدہ کہتی ہیں کہ وہ بیٹی کے شوق میں حائل نہیں ہوئی ہیںبلکہ اسے اعتماد بخشا لیکن بیٹی جب تک گھر نہیں پہنچتی تو میری آنکھیں دروازے پر لگی رہتی ہیں، ہما کاکہنا تھاکہ ہاکی کا شوق ہے اوراس میںاپنا مستقبل بنانا چاہتی ہوں،لوگ کہتے ہیں ہاکی میںکچھ نہیں لیکن مجھے اس کھیل سے لگاؤ ہے اور مجھے خوشی ہے کہ میرے گھر والے مجھے بھرپور سپورٹ کرتے ہیں،ایسا اعتماد ہی کسی بھی عورت کو اس کے حقوق دلوانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
قومی کھیل ہاکی کا شوق روزانہ بلند عزائم ہماکو حب سے کراچی کھینچ لاتا ہے، اپنے شوق کی تکمیل اور اس میدان میں کچھ کر دکھانے کا جوش رکھنے والی ہما بلوچستان کے علاقے حب سے روزانہ 2 بسیں بدل کر کراچی پہنچتی ہے، ڈھائی گھنٹے کا سفر بس میں تنہا طے کرنے والی ہما نیپا گلشن اقبال پہنچ کرکے ایچ اے گراؤنڈ پر روزانہ 2 گھنٹے ٹریننگ کرتی ہے۔
کھیل اور سفر کی تھکن سے چور ہما رات 9 بجے گھر واپس آتی ہے تو والد خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا استقبال کرتے اور حوصلہ دیتے ہیں، ہما کے والد بے روزگار ہیں جبکہ 3 بھائی گھرکی کفالت کرنے کے ساتھ بہن کے مالی اخراجات برداشت کرتے ہیں، ہاکی کے میدان میں کچھ کر دکھانے کی آرزو رکھنے والی ہما کے والدکہتے ہیں کہ مجھے ہاکی کا شوق تھا لیکن حالات نے کھیلنے نہیں دیا،اب ہماکھیلتی ہے تو لگتا ہے میں کھیل رہا ہوں۔
شفقت بھری نگاہوں کے ساتھ ہماکا ہر طرح سے ساتھ دینے والی ہماکی والدہ کہتی ہیں کہ وہ بیٹی کے شوق میں حائل نہیں ہوئی ہیںبلکہ اسے اعتماد بخشا لیکن بیٹی جب تک گھر نہیں پہنچتی تو میری آنکھیں دروازے پر لگی رہتی ہیں، ہما کاکہنا تھاکہ ہاکی کا شوق ہے اوراس میںاپنا مستقبل بنانا چاہتی ہوں،لوگ کہتے ہیں ہاکی میںکچھ نہیں لیکن مجھے اس کھیل سے لگاؤ ہے اور مجھے خوشی ہے کہ میرے گھر والے مجھے بھرپور سپورٹ کرتے ہیں،ایسا اعتماد ہی کسی بھی عورت کو اس کے حقوق دلوانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔